logoختم نبوت

مسیلمہ کذاب

یہ شخص کذاب یمامہ کے لقب سے بھی مشہور ہے اس کی خود ساختہ نبوت کا فتنہ کافی عرصے تک رہا جس کو بڑے بڑے صحابہ نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر جڑ سے اکھاڑ دیا جس وقت اس نے نبوت کا دعویٰ کیا اس کی عمر سو سال سے بھی زیادہ ہو چکی تھی۔

مسیلمہ کی دربار نبوی ﷺ میں حاضری:

مسیلمہ نے اور وفود کی طرح وفد بنی حنیفہ کے ساتھ آستانہ نبوی پر حاضر ہو کر آپ کے ہاتھ پر بیعت کی مگر ساتھ ہی یہ درخواست بھی دی کہ حضور اسے اپنا جانشین مقرر فرما دیں۔ اس وقت حضور ﷺ کے سامنے کھجور کی ایک ٹہنی رکھی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اے مسیلمہ! اگر تم امر خلافت میں مجھ سے یہ شاخ خرما بھی طلب کرو تو میں دینے کو تیار نہیں۔‘‘ مگر بعض صحیح روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے حضور ﷺ سے بیعت نہیں کی تھی اور کہا تھا کہ اگر آپ مجھے اپنا جانشین متعین فرمائیں یا اپنی نبوت میں شریک کریں تو میں بھی بیعت کرتا ہوں۔ لیکن حضور ﷺ کے جواب سے وہ مایوس ہو کر چلا گیا۔

دعوائے نبوت کا آغاز:

مسیلمہ حضور ﷺ کا جواب سن کر یمامہ واپس آیا اور اہل یمامہ کو یقین دلایا کہ محمد رسول اللہ ﷺ نے اسے اپنی نبوت میں شریک کر لیا ہے۔ اور اس نے اپنی من گھڑت وحی اور الہام کے افسانے سنا سنا کر لوگوں کو اپنا ہم نوا اور معتقد بنانا شروع کر دیا اس پر مستزاد یہ ہوا کہ حضور ﷺ نے مسیلمہ کے دعوائے نبوت اور لوگوں کو گمراہ کرنے کی خبر سن کر اس کے ہی قبیلے کے ایک ممتاز رکن کو جو نہار کے نام سے مشہور تھا یمامہ روانہ فرمایا کہ مسیلمہ کو سمجھا بجھا کر راہ راست پر لائے مگر اس شخص نے یمامہ پہنچ کر الٹا مسیلمہ کا اثر قبول کر لیا اور لوگوں کے سامنے بیان کیا کہ خود جناب محمد رسول اللہ ﷺ سے میں نے سنا ہے کہ مسیلمہ میری نبوت میں شریک ہے۔ نہار کے اس بیان سے لوگوں کی عقیدت مستحکم ہو گئی اور کثرت سے لوگ اس کی نبوت پر ایمان لانے لگے نہار نے مسیلمہ کی جھوٹی نبوت کو مقبول بنانے اور مشتہر کرنے میں وہی کردار ادا کیا جو حکیم نور الدین نے قادیانی غلام احمد کذاب کی خود ساختہ نبوت کو عوام میں پھیلانے کے لئے کیا۔

حضرت سید المرسلین کے نام مسیلمہ کا مکتوب اور اس کا جواب:

ہر طرف سے اپنے ہم نواؤں کی کثرت اور عقیدت دیکھ کر مسیلمہ کے دماغ میں یہ بات بیٹھ گئی کہ وہ واقعی حضور ﷺ کی نبوت میں شریک ہے چنانچہ اس نے کمال جسارت سے حضور ﷺ کی خدمت میں ایک خط لکھا۔

’’مسیلمہ رسول اللہ کی طرف سے محمد رسول اللہ کے نام معلوم ہو کہ میں امر نبوت میں آپ کا شریک کار ہوں۔ عرب کی سرزمین نصف آپ کی ہے اور نصف میری لیکن قریش کی قوم زیادتی اور نا انصافی کر رہی ہے۔‘‘

یہ خط دو قاصدوں کے ہاتھ حضور ﷺ کی خدمت میں بھیجا حضور ﷺ نے اس قاصد سے پوچھا تمہارا مسیلمہ کے بارے میں کیا عقیدہ ہے۔ انہوں نے جواب دیا ہم بھی وہی کہتے ہیں جو ہمارا سچا نبی کہتا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ ’’اگر قاصد کا قتل جائز ہوتا تو میں تم دونوں کو قتل کرا دیتا۔‘‘اس دن سے دنیا بھر میں یہ اصول مسلم اور زبان زد خاص وعام ہو گیا کہ قاصد کا قتل جائز نہیں۔ حضرت صادق ومصدوق ﷺ نے مسیلمہ کو جواب میں لکھا۔

’’بسم الله الرحمن الرحیم۔ منجانب محمد رسول الله بنام مسیلمہ کذاب۔ سلام اس شخص پر جو ہدایت کی پیروی کرے۔ اس کے بعد معلوم ہو کہ زمین اللہ کی ہے اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا مالک بنا دیتا ہے اور عاقبت کی کامیابی متقیوں کے لئے ہے۔‘‘

مسیلمہ کی خود ساختہ شریعت ور معجزات:

لوگوں کو اپنے دین اور جھوٹی نبوت کی طرف راغب کرنے کے لئے ضروری تھا کہ محمدی شریعت کے مقابل ایسی شریعت گھڑی جائے جو لوگوں کے نفسانی خواہشات کے مطابق ہو تاکہ عوام کی اکثریت اس کی نبوت پر ایمان لے آئے چنانچہ اس نے ایک ایسے عامیانہ اور رندانہ مسلک کی بنیاد ڈالی جو عین انسان کے نفس امارہ کی خواہشات کے مطابق تھی چنانچہ اس نے:

· شراب حلال کر دی۔

· زنا کو مباح کر دیا۔

· نکاح بغیر گواہوں کے جائز کر دیا۔

· ختنہ کرنا حرام قرار پایا۔

· ماہ رمضان کے روزے اڑا دیئے۔

· فجر اور عشاء کی نماز معاف کر دی۔

· قبلہ کی طرف منہ کرنا ضروری نہیں۔

· سنتیں ختم صرف فرض نماز پڑھی جائے۔

اس کے علاوہ اور بہت سی خرافات اس نے اپنی خود ساختہ شریعت میں جاری کیں چونکہ یہ سب باتیں انسانی نفس امارہ کے عین مطابق تھیں اس لئے عوام الناس جوق در جوق اس پر ایمان لانے لگے اور اباحت پسند اور عیاش طبیعت لوگوں کو ہوس راتیوں اور نشاط فرمائیوں کا اچھا موقع مل گیا۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ ہر طرف فواحشات اور عیش کوشی کے شرارے بلند ہونے لگے اور پورا علاقہ فسق وفجور کا گہوارہ بن گیا۔

نبوت کے جھوٹے دعویداروں کو دنیاوی حیثیت سے کتنا ہی عروج کیوں نہ حاصل ہو جائے مگر دینی عزت وعظمت ان کو کبھی حاصل نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات کو مسیلمہ کے لئے اس طرح ظاہر کیا تھا کہ جس کام کا وہ اپنی عظمت دکھانے کے لئے ارادہ کرتا یا دعا کرتا معاملہ بالکل اس کے برعکس ہو جاتا چنانچہ:

· ایک مرتبہ ایک شخص کے باغات کی شادابی کی دعا کی تو درخت بالکل سوکھ گئے۔

· کنوؤں کا پانی بڑھنے کے لئے حضور ﷺ کی طرح مسیلمہ نے اپنا لعاب دہن ڈالا تو کنوؤں کا پانی اور نیچے چلا گیا اور کنویں سوکھ گئے۔

· بچوں کے سر پر برکت کے لئے ہاتھ پھیرا تو بچے گنجے ہو گئے۔

· ایک آشوب چشم پر اپنا لعاب دہن لگایا تو وہ بالکل اندھا ہو گیا۔

· شیردار بکری کے تھن پر ہاتھ پھیرا تو اس کا سارا دودھ خشک ہو گیا اور تھن سکڑ گئے۔ اور اسی قسم کے بہت سے واقعات مسیلمہ کی ذات سے پیش آئے۔

مسیلمہ کذاب سے مسلمانوں کی جنگ اور اس کی فتح:

امیر المومنین حضرت ابوبکر صدیق sym-5نے جو گیارہ لشکر ترتیب دیے تھے اس میں ایک دستہ حضرت عکرمہ بن ابو جہل کی قیادت میں مسیلمہ کذاب کی سرکوبی کے لئے یمامہ روزانہ فرمایا تھا۔ اور ان کی مدد کے لئے حضرت شرجیل sym-5بن حسنہ کو کچھ فوج کے ساتھ ان کے پیچھے روانہ کر دیا تھا اور عکرمہ کو حکم تھا کہ جب تک شرجیل تم سے نہ آ ملیں حملہ نہ کرنا مگر حضرت عکرمہ نے جوش جہاد میں حالات کا جائزہ لیے بغیر اور حضرت شرجیل sym-5کی آمد سے پہلے ہی مسیلمہ پر حملہ کر دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت عکرمہ sym-5کو شکست ہوئی اور مسیلمہ کا لشکر فتح کے شادیانے بجاتا ہوا واپس ہو گیا۔

حضرت شرجیل sym-5 کو جب اس شکست کی خبر ملی تو وہ جہاں تھے وہیں ٹھہر گئے اور امیر المومنین کے حکم کا انتظار کرنے لگے۔ ادھر امیر المومنین نے حضرت خالد بن ولید sym-5کو مسیلمہ کے خلاف معرکہ آراء ہونے کا حکم دیا اور ایک لشکر ان کے لئے ترتیب دیا جس میں مہاجرین پر حضرت ابو حذیفہ اور حضرت زید بن خطاب اور انصار پر حضرت ثابت بن قیس sym-5اور حضرت براء بن عازب sym-5کو امیر مقرر فرمایا۔ حضرت شرجیل sym-5کو حکم دیا کہ وہ حضرت خالد sym-5کے لشکر سے آکر مل جائیں۔

حضرت خالد نہایت سرعت سے مدینہ سے نکل کر یمامہ کی طرف بڑھے جہاں مسیلمہ کا چالیس ہزار آدمیوں کا لشکر پڑاؤ ڈالے ہوئے پڑا تھا۔ اور مسلمان سب ملا کر تیرہ ہزار کی تعداد میں تھے جن میں بہت سے اصحابِ بدر بھی شریک تھے جب مسیلمہ کو معلوم ہوا کہ حضرت خالد sym-5اس کی سرکوبی کے لئے مدینہ سے چل پڑے ہیں تو وہ خود بھی اپنا لشکر لے کر نکلا اور عقربا کے مقام پر پڑاؤ ڈال دیا۔

مسیلمہ کے سردار مجاعہ کی گرفتاری:

مسیلمہ کی طرف سے مجاعہ بن مرارہ ایک الگ لشکر جمع کر کے مسلمانوں کے مقابلہ کے لئے نکلا لیکن اس سے پہلے کہ وہ مسیلمہ کے لشکر سے ملے حضرت شرجیل sym-5بن حسنہ سے جو حضرت خالد کے لشکر کے مقدمتہ الجیش پر مقرر تھے مڈ بھیڑ ہو گئی۔ حضرت شرجیل نے اس کے سارے لشکر کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا اور مجاعہ کو زندہ گرفتار کر کے حضرت خالد کے سامنے پیش کیا جس کو انہوں نے اپنے خیمہ میں قید کر دیا۔

حق وباطل کا ٹکراؤ:

اس واقعہ کے بعد حضرت خالد نے بھی عقربا کے مقام پر پہنچ کر مسیلمہ کے لشکر کے سامنے ڈیرے ڈال دیئے اور جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہو گئے۔ دوسرے دن دونوں لشکر آمنے سامنے صف آراء ہوئے۔ مسیلمہ کے لشکر میں چالیس ہزار اور مسلمان لشکر تیرہ ہزار نفوس پر مشتمل تھا۔

حضرت خالد نے اتمام حجت کے لئے مسیلمہ اور اس کے لشکر کو دین حق کی دعوت دی دوسرے صحابہ کرام نے بھی وعظ ونصیحت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی مگر مسیلمہ اور اس کے لشکر پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ چنانچہ جنگ کا آغاز ہوا سب سے پہلے مسیلمہ کے سردار نہار نے لشکر سے نکل کر مبازرت طلب کی اس کے مقابلے کے لئے حضرت زید بن خطاب حضرت عمر کے بھائی نکلے اور بڑی پامردی سے مقابلہ کر کے اس کو قتل کر دیا۔ اب گھمسان کا رن پڑ گیا اور دونوں لشکر ایک دوسرے سے ٹکرا گئے اور ایسا قتال ہوا کہ چشم فلک نے کبھی نہ دیکھا تھا۔

حضرت خالد کے حکم سے مسلمانوں نے پیچھے ہٹنا شروع کیا۔ یہاں تک کہ مسیلمہ کی فوج حضرت خالد sym-5کے خیمہ میں داخل ہو گئی جہاں مجاعہ کو حضرت خالد قید کر کے اپنی بیوی کی نگرانی میں دے گئے تھے۔ فوجیوں نے حضرت خالد کی بیوی کو قتل کرنا چاہا مگر مجاعہ نے ان کو منع کیا اور کہا اگر مسلمانوں کو فتح ہو گئی تو پھر تمہاری عورتوں اور بچوں کی بھی خیر نہیں ہوگی۔ اس پر فوجی انہیں چھوڑ کر چلے گئے اب مسیلمہ کے لشکریوں کے دل بڑھ چکے تھے اور وہ اپنی کثرت تعداد کی وجہ سے مسلمانوں پر بھاری نظر آتے تھے یہ صورت حال دیکھ کر حضرت ابو حذیفہ، حضرت ثابت بن قیس اور حضرت زید بن خطاب sym-5نے زبردست قتال کیا اور کشتوں کے پشتے لگا دیئے، ثابت بن قیس ﷜ دشمن کے قلب لشکر میں جا گھسے اور داد شجاعت لے کر جام شہادت نوش کیا۔

حضرت زید بن خطاب نے مسلمانوں کو مخاطب کر کے کہا ’’ارے ارباب ایمان میں نے مسیلمہ کے سردار نہار کو جہنم واصل کیا ہے اب یا تو اس جھوٹے نبی کو قتل کروں یا خود اپنی جان دے دوں گا‘‘ یہ کہہ کر دشمنوں پر جھپٹ پڑے اور بہت سوں کو موت سے ہم کنار کر کے خود بھی دین محمدی پر نثار ہو گئے۔

حضرت خالد نے جب یہ دیکھا کہ مسیلمہ کی فوج پر اپنی عددی کثرت کی بناء پر کسی تھکاوٹ کے آثار ابھی تک ظاہر نہیں ہوئے ہیں اور مسلمانوں کا پلہ کبھی ہلکا ہوتا ہے کبھی بھاری تو انہوں نے مسیلمہ کے بڑے بڑے سرداروں اور بہادروں کو للکارا اور اپنے مقابلے کے لئے انہیں طیش دلایا چنانچہ بڑے بڑے سورما فوج سے نکل کر حضرت خالد sym-5سے دو دو ہاتھ کرنے کے لئے نکلے مگر جو مقابلے کے لئے آتا وہ زندہ بچ کر نہیں جاتا۔ حضرت خالد بن ولید نے تن تنہا مسیلمی لشکر کے بہت سے نامی گرامی بہادروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ یہ دیکھ کر مسیلمی فوج میں ہل چل سی مچ گئی۔ اب حضرت خالد نے مسیلمہ کو پکارا اور دوبارہ اسلام لانے کی دعوت دی۔ اس نے پھر یہ مطالبہ نا منظور کر دیا، حضرت خالد گھوڑے کو ایڑ لگا کر اس کی طرف لپکے مگر وہ طرح دے کر دور نکل گیا اور ایک قلعہ نما باغ میں پناہ لی جہاں اس کا لشکر بھی آکر اس سے مل گیا۔

مسیلمی لشکر باغ میں قلعہ بند اور براء بن مالک کی جانبازی:

یہ ایک وسیع وعریض قلعہ نما باغ تھا جس کے بڑے بڑے دروازے تھے۔ مسیلمہ اس باغ میں اپنے لشکر کے ساتھ قلعہ بند ہو گیا اور دروازہ مضبوطی سے بند کر لیا اس باغ میں جانے کا اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ یہ دیکھ کر حضرت براء بن مالک نے حضرت خالد سے کہا کہ یہ لوگ قلعہ بند ہو گئے ہیں ان کو سستانے کا موقع دیے بغیر ان پر حملہ جاری رکھنا چاہیے اس کی ایک ہی ترکیب ہے کہ آپ مجھے دروازے کے قریب لے جا کر باغ کے اندر پھینک دیں میں اندر جا کر دروازہ کھول دوں گا حضرت خالد نے کہا ہم تمہیں دشمن کے ہاتھوں میں نہیں دے سکتے۔ جب براء بن مالک نے بہت اصرار کیا تو ان کو دیوار پر کسی طرح چڑھا دیا گیا وہ فوراً اندر کود گئے اور باغ کے دروازے پر کھڑے ہوئے سینکڑوں پہرے دار فوجیوں پر ٹوٹ پڑے اور نہایت بہادری کے ساتھ دروازے کی طرف بڑھنے لگے اور سب کو مارتے کاٹتے آخر کار دروازہ کھولنے میں کامیاب ہو گئے۔

حضرت خالد لشکر لئے ہوئے دروازہ کھلنے کے منتظر تھے فوراً دشمنوں پر ٹوٹ پڑے اور پھر تو اس قدر گھمسان کا رن پڑا کہ کسی کو کسی کی خبر نہ رہی اور مسلمان بھیڑ بکری کی طرح مرتدین کو ذبح کرنے لگے۔

لشکر اسلام کی فتح اور مسیلمہ کذاب کا خاتمہ:

جب مسیلمہ نے مسلمانوں کا جوش وخروش اور اپنی فوجوں میں کچھ شکست کے آثار دیکھے تو اپنے خاص دستے کو لے کر میدان جنگ میں کود پڑا۔ حضرت حمزہ sym-5کے قاتل وحشی نے جو اب مسلمان ہو چکے تھے اور مسلمانوں کے لشکر کے سپاہی تھے اس کو دیکھ لیا اور اپنا مشہور نیزہ پوری قوت سے مسیلمہ پر پھینکا جس کی ضرب کاری لگی اور مسیلمہ زمین پر گر گیا قریب ہی ایک انصاری نے اس کو تلوار ماری اور سر کاٹ کر نیزے پر چڑھا دیا۔ مسیلمہ کے مرتے ہی اس کی پوری فوج میں ابتری پھیل گئی اور مسلمانوں نے بھی بے دریغ ان کو قتل کرنا شروع کر دیا۔ یہاں تک کہ مسیلمہ کے چالیس ہزار کے لشکر میں سے تقریباً اکیس ہزار موت کے گھاٹ اتارے گئے مسلمانوں کے صرف چھ سو ساٹھ آدمی شہید ہوئے جس میں بڑے بڑے صحابہ بھی تھے۔

مسیلمہ کی موت کے بعد اس کا قبیلہ بنی حنیفہ صدق دل سے دوبارہ اسلام میں داخل ہو گیا اور ان کا ایک وفد امیر المومنین حضرت ابوبکر sym-5کی خدمت میں گیا جہاں ان کی تکریم کی گئی۔

حضرت عمر کا اپنے بیٹے عبد اللہ پر عتاب:

اس معرکہ میں حضرت عمر کے صاحبزادے عبد اللہ بن عمر بھی شریک تھے جب وہ واپس مدینے آئے تو حضرت عمر نے ان سے کہا ’’یہ کیا بات ہے کہ تمہارا چچا زید بن خطاب تو جنگ میں شہید ہو جائیں اور تم زندہ رہو؟ تم زید سے پہلے کیوں نہ شہید ہوئے۔ کیا تمہیں شہادت کا شوق نہیں؟ حضرت عبد اللہ ابن عمر sym-5نے عرض کیا اے والد محترم! چچا صاحب اور میں دونوں نے حق تعالیٰ سے شہادت کی درخواست کی تھی ان کی دعا قبول ہو گئی لیکن میں اس سعادت سے محروم رہا حالانکہ میں نے چچا کی طرح جان کی پرواہ کئے بغیر مرتدین سے جنگ کی تھی۔‘‘

Netsol OnlinePowered by