یہ شخص کذاب یمامہ کے لقب سے بھی مشہور ہے اس کی خود ساختہ نبوت کا فتنہ کافی عرصے تک رہا جس کو بڑے بڑے صحابہ نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر جڑ سے اکھاڑ دیا جس وقت اس نے نبوت کا دعویٰ کیا اس کی عمر سو سال سے بھی زیادہ ہو چکی تھی۔
مسیلمہ نے اور وفود کی طرح وفد بنی حنیفہ کے ساتھ آستانہ نبوی پر حاضر ہو کر آپ کے ہاتھ پر بیعت کی مگر ساتھ ہی یہ درخواست بھی دی کہ حضور اسے اپنا جانشین مقرر فرما دیں۔ اس وقت حضور ﷺ کے سامنے کھجور کی ایک ٹہنی رکھی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "اے مسیلمہ! اگر تم امر خلافت میں مجھ سے یہ شاخ خرما بھی طلب کرو تو میں دینے کو تیار نہیں۔" مگر بعض صحیح روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے حضور ﷺ سے بیعت نہیں کی تھی اور کہا تھا کہ اگر آپ مجھے اپنا جانشین متعین فرمائیں یا اپنی نبوت میں شریک کریں تو میں بھی بیعت کرتا ہوں۔ لیکن حضور ﷺ کے جواب سے وہ مایوس ہو کر چلا گیا۔
مسیلمہ حضور ﷺ کا جواب سن کر یمامہ واپس آیا اور اہل یمامہ کو یقین دلایا کہ محمد رسول اللہ ﷺ نے اسے اپنی نبوت میں شریک کر لیا ہے۔ اور اس نے اپنی من گھڑت وحی اور الہام کے افسانے سنا سنا کر لوگوں کو اپنا ہم نوا اور معتقد بنانا شروع کر دیا اس پر مستزاد یہ ہوا کہ حضور ﷺ نے مسیلمہ کے دعوائے نبوت اور لوگوں کو گمراہ کرنے کی خبر سن کر اس کے ہی قبیلے کے ایک ممتاز رکن کو جو نہار کے نام سے مشہور تھا یمامہ روانہ فرمایا کہ مسیلمہ کو سمجھا بجھا کر راہ راست پر لائے مگر اس شخص نے یمامہ پہنچ کر الٹا مسیلمہ کا اثر قبول کر لیا اور لوگوں کے سامنے بیان کیا کہ خود جناب محمد رسول اللہ ﷺ سے میں نے سنا ہے کہ مسیلمہ میری نبوت میں شریک ہے۔ نہار کے اس بیان سے لوگوں کی عقیدت مستحکم ہو گئی اور کثرت سے لوگ اس کی نبوت پر ایمان لانے لگے نہار نے مسیلمہ کی جھوٹی نبوت کو مقبول بنانے اور مشتہر کرنے میں وہی کردار ادا کیا جو حکیم نور الدین نے قادیانی غلام احمد کذاب کی خود ساختہ نبوت کو عوام میں پھیلانے کے لئے کیا۔
ہر طرف سے اپنے ہم نواؤں کی کثرت اور عقیدت دیکھ کر مسیلمہ کے دماغ میں یہ بات بیٹھ گئی کہ وہ واقعی حضور ﷺ کی نبوت میں شریک ہے چنانچہ اس نے کمال جسارت سے حضور ﷺ کی خدمت میں ایک خط لکھا۔
"مسیلمہ رسول اللہ کی طرف سے محمد رسول اللہ کے نام معلوم ہو کہ میں امر نبوت میں آپ کا شریک کار ہوں۔ عرب کی سرزمین نصف آپ کی ہے اور نصف میری لیکن قریش کی قوم زیادتی اور نا انصافی کر رہی ہے۔"
یہ خط دو قاصدوں کے ہاتھ حضور ﷺ کی خدمت میں بھیجا حضور ﷺ نے اس قاصد سے پوچھا تمہارا مسیلمہ کے بارے میں کیا عقیدہ ہے۔ انہوں نے جواب دیا ہم بھی وہی کہتے ہیں جو ہمارا سچا نبی کہتا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ "اگر قاصد کا قتل جائز ہوتا تو میں تم دونوں کو قتل کرا دیتا۔" اس دن سے دنیا بھر میں یہ اصول مسلم اور زبان زد خاص وعام ہو گیا کہ قاصد کا قتل جائز نہیں۔ حضرت صادق ومصدوق ﷺ نے مسیلمہ کو جواب میں لکھا۔
"بسم الله الرحمن الرحیم۔ منجانب محمد رسول الله بنام مسیلمہ کذاب۔ سلام اس شخص پر جو ہدایت کی پیروی کرے۔ اس کے بعد معلوم ہو کہ زمین اللہ کی ہے اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا مالک بنا دیتا ہے اور عاقبت کی کامیابی متقیوں کے لئے ہے۔"
لوگوں کو اپنے دین اور جھوٹی نبوت کی طرف راغب کرنے کے لئے ضروری تھا کہ محمدی شریعت کے مقابل ایسی شریعت گھڑی جائے جو لوگوں کے نفسانی خواہشات کے مطابق ہو تاکہ عوام کی اکثریت اس کی نبوت پر ایمان لے آئے چنانچہ اس نے ایک ایسے عامیانہ اور رندانہ مسلک کی بنیاد ڈالی جو عین انسان کے نفس امارہ کی خواہشات کے مطابق تھی چنانچہ اس نے:
· شراب حلال کر دی۔
· زنا کو مباح کر دیا۔
· نکاح بغیر گواہوں کے جائز کر دیا۔
· ختنہ کرنا حرام قرار پایا۔
· ماہ رمضان کے روزے اڑا دیئے۔
· فجر اور عشاء کی نماز معاف کر دی۔
· قبلہ کی طرف منہ کرنا ضروری نہیں۔
· سنتیں ختم صرف فرض نماز پڑھی جائے۔
اس کے علاوہ اور بہت سی خرافات اس نے اپنی خود ساختہ شریعت میں جاری کیں چونکہ یہ سب باتیں انسانی نفس امارہ کے عین مطابق تھیں اس لئے عوام الناس جوق در جوق اس پر ایمان لانے لگے اور اباحت پسند اور عیاش طبیعت لوگوں کو ہوس راتیوں اور نشاط فرمائیوں کا اچھا موقع مل گیا۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ ہر طرف فواحشات اور عیش کوشی کے شرارے بلند ہونے لگے اور پورا علاقہ فسق وفجور کا گہوارہ بن گیا۔
نبوت کے جھوٹے دعویداروں کو دنیاوی حیثیت سے کتنا ہی عروج کیوں نہ حاصل ہو جائے مگر دینی عزت وعظمت ان کو کبھی حاصل نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات کو مسیلمہ کے لئے اس طرح ظاہر کیا تھا کہ جس کام کا وہ اپنی عظمت دکھانے کے لئے ارادہ کرتا یا دعا کرتا معاملہ بالکل اس کے برعکس ہو جاتا چنانچہ:
· ایک مرتبہ ایک شخص کے باغات کی شادابی کی دعا کی تو درخت بالکل سوکھ گئے۔
· کنوؤں کا پانی بڑھنے کے لئے حضور ﷺ کی طرح مسیلمہ نے اپنا لعاب دہن ڈالا تو کنوؤں کا پانی اور نیچے چلا گیا اور کنویں سوکھ گئے۔
· بچوں کے سر پر برکت کے لئے ہاتھ پھیرا تو بچے گنجے ہو گئے۔
· ایک آشوب چشم پر اپنا لعاب دہن لگایا تو وہ بالکل اندھا ہو گیا۔
· شیردار بکری کے تھن پر ہاتھ پھیرا تو اس کا سارا دودھ خشک ہو گیا اور تھن سکڑ گئے۔ اور اسی قسم کے بہت سے واقعات مسیلمہ کی ذات سے پیش آئے۔
امیر المومنین حضرت ابوبکر صدیق نے جو گیارہ لشکر ترتیب دیے تھے اس میں ایک دستہ حضرت عکرمہ بن ابو جہل کی قیادت میں مسیلمہ کذاب کی سرکوبی کے لئے یمامہ روزانہ فرمایا تھا۔ اور ان کی مدد کے لئے حضرت شرجیل بن حسنہ کو کچھ فوج کے ساتھ ان کے پیچھے روانہ کر دیا تھا اور عکرمہ کو حکم تھا کہ جب تک شرجیل تم سے نہ آ ملیں حملہ نہ کرنا مگر حضرت عکرمہ نے جوش جہاد میں حالات کا جائزہ لیے بغیر اور حضرت شرجیل کی آمد سے پہلے ہی مسیلمہ پر حملہ کر دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت عکرمہ کو شکست ہوئی اور مسیلمہ کا لشکر فتح کے شادیانے بجاتا ہوا واپس ہو گیا۔
حضرت شرجیل کو جب اس شکست کی خبر ملی تو وہ جہاں تھے وہیں ٹھہر گئے اور امیر المومنین کے حکم کا انتظار کرنے لگے۔ ادھر امیر المومنین نے حضرت خالد بن ولید کو مسیلمہ کے خلاف معرکہ آراء ہونے کا حکم دیا اور ایک لشکر ان کے لئے ترتیب دیا جس میں مہاجرین پر حضرت ابو حذیفہ اور حضرت زید بن خطاب اور انصار پر حضرت ثابت بن قیس اور حضرت براء بن عازب کو امیر مقرر فرمایا۔ حضرت شرجیلکو حکم دیا کہ وہ حضرت خالد کے لشکر سے آکر مل جائیں۔
حضرت خالد نہایت سرعت سے مدینہ سے نکل کر یمامہ کی طرف بڑھے جہاں مسیلمہ کا چالیس ہزار آدمیوں کا لشکر پڑاؤ ڈالے ہوئے پڑا تھا۔ اور مسلمان سب ملا کر تیرہ ہزار کی تعداد میں تھے جن میں بہت سے اصحابِ بدر بھی شریک تھے جب مسیلمہ کو معلوم ہوا کہ حضرت خالد اس کی سرکوبی کے لئے مدینہ سے چل پڑے ہیں تو وہ خود بھی اپنا لشکر لے کر نکلا اور عقربا کے مقام پر پڑاؤ ڈال دیا۔
مسیلمہ کی طرف سے مجاعہ بن مرارہ ایک الگ لشکر جمع کر کے مسلمانوں کے مقابلہ کے لئے نکلا لیکن اس سے پہلے کہ وہ مسیلمہ کے لشکر سے ملے حضرت شرجیل بن حسنہ سے جو حضرت خالد کے لشکر کے مقدمتہ الجیش پر مقرر تھے مڈ بھیڑ ہو گئی۔ حضرت شرجیل نے اس کے سارے لشکر کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا اور مجاعہ کو زندہ گرفتار کر کے حضرت خالد کے سامنے پیش کیا جس کو انہوں نے اپنے خیمہ میں قید کر دیا۔
اس واقعہ کے بعد حضرت خالد نے بھی عقربا کے مقام پر پہنچ کر مسیلمہ کے لشکر کے سامنے ڈیرے ڈال دیئے اور جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہو گئے۔ دوسرے دن دونوں لشکر آمنے سامنے صف آراء ہوئے۔ مسیلمہ کے لشکر میں چالیس ہزار اور مسلمان لشکر تیرہ ہزار نفوس پر مشتمل تھا۔
حضرت خالد نے اتمام حجت کے لئے مسیلمہ اور اس کے لشکر کو دین حق کی دعوت دی دوسرے صحابہ کرام نے بھی وعظ ونصیحت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی مگر مسیلمہ اور اس کے لشکر پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ چنانچہ جنگ کا آغاز ہوا سب سے پہلے مسیلمہ کے سردار نہار نے لشکر سے نکل کر مبازرت طلب کی اس کے مقابلے کے لئے حضرت زید بن خطاب حضرت عمر کے بھائی نکلے اور بڑی پامردی سے مقابلہ کر کے اس کو قتل کر دیا۔ اب گھمسان کا رن پڑ گیا اور دونوں لشکر ایک دوسرے سے ٹکرا گئے اور ایسا قتال ہوا کہ چشم فلک نے کبھی نہ دیکھا تھا۔
حضرت خالد کے حکم سے مسلمانوں نے پیچھے ہٹنا شروع کیا۔ یہاں تک کہ مسیلمہ کی فوج حضرت خالد کے خیمہ میں داخل ہو گئی جہاں مجاعہ کو حضرت خالد قید کر کے اپنی بیوی کی نگرانی میں دے گئے تھے۔ فوجیوں نے حضرت خالد کی بیوی کو قتل کرنا چاہا مگر مجاعہ نے ان کو منع کیا اور کہا اگر مسلمانوں کو فتح ہو گئی تو پھر تمہاری عورتوں اور بچوں کی بھی خیر نہیں ہوگی۔ اس پر فوجی انہیں چھوڑ کر چلے گئے اب مسیلمہ کے لشکریوں کے دل بڑھ چکے تھے اور وہ اپنی کثرت تعداد کی وجہ سے مسلمانوں پر بھاری نظر آتے تھے یہ صورت حال دیکھ کر حضرت ابو حذیفہ، حضرت ثابت بن قیس اور حضرت زید بن خطاب نے زبردست قتال کیا اور کشتوں کے پشتے لگا دیئے، ثابت بن قیس دشمن کے قلب لشکر میں جا گھسے اور داد شجاعت لے کر جام شہادت نوش کیا۔
حضرت زید بن خطاب نے مسلمانوں کو مخاطب کر کے کہا "ارے ارباب ایمان میں نے مسیلمہ کے سردار نہار کو جہنم واصل کیا ہے اب یا تو اس جھوٹے نبی کو قتل کروں یا خود اپنی جان دے دوں گا" یہ کہہ کر دشمنوں پر جھپٹ پڑے اور بہت سوں کو موت سے ہم کنار کر کے خود بھی دین محمدی پر نثار ہو گئے۔
حضرت خالد نے جب یہ دیکھا کہ مسیلمہ کی فوج پر اپنی عددی کثرت کی بناء پر کسی تھکاوٹ کے آثار ابھی تک ظاہر نہیں ہوئے ہیں اور مسلمانوں کا پلہ کبھی ہلکا ہوتا ہے کبھی بھاری تو انہوں نے مسیلمہ کے بڑے بڑے سرداروں اور بہادروں کو للکارا اور اپنے مقابلے کے لئے انہیں طیش دلایا چنانچہ بڑے بڑے سورما فوج سے نکل کر حضرت خالد سے دو دو ہاتھ کرنے کے لئے نکلے مگر جو مقابلے کے لئے آتا وہ زندہ بچ کر نہیں جاتا۔ حضرت خالد بن ولید نے تن تنہا مسیلمی لشکر کے بہت سے نامی گرامی بہادروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ یہ دیکھ کر مسیلمی فوج میں ہل چل سی مچ گئی۔ اب حضرت خالد نے مسیلمہ کو پکارا اور دوبارہ اسلام لانے کی دعوت دی۔ اس نے پھر یہ مطالبہ نا منظور کر دیا، حضرت خالد گھوڑے کو ایڑ لگا کر اس کی طرف لپکے مگر وہ طرح دے کر دور نکل گیا اور ایک قلعہ نما باغ میں پناہ لی جہاں اس کا لشکر بھی آکر اس سے مل گیا۔
یہ ایک وسیع وعریض قلعہ نما باغ تھا جس کے بڑے بڑے دروازے تھے۔ مسیلمہ اس باغ میں اپنے لشکر کے ساتھ قلعہ بند ہو گیا اور دروازہ مضبوطی سے بند کر لیا اس باغ میں جانے کا اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ یہ دیکھ کر حضرت براء بن مالک نے حضرت خالد سے کہا کہ یہ لوگ قلعہ بند ہو گئے ہیں ان کو سستانے کا موقع دیے بغیر ان پر حملہ جاری رکھنا چاہیے اس کی ایک ہی ترکیب ہے کہ آپ مجھے دروازے کے قریب لے جا کر باغ کے اندر پھینک دیں میں اندر جا کر دروازہ کھول دوں گا حضرت خالد نے کہا ہم تمہیں دشمن کے ہاتھوں میں نہیں دے سکتے۔ جب براء بن مالک نے بہت اصرار کیا تو ان کو دیوار پر کسی طرح چڑھا دیا گیا وہ فوراً اندر کود گئے اور باغ کے دروازے پر کھڑے ہوئے سینکڑوں پہرے دار فوجیوں پر ٹوٹ پڑے اور نہایت بہادری کے ساتھ دروازے کی طرف بڑھنے لگے اور سب کو مارتے کاٹتے آخر کار دروازہ کھولنے میں کامیاب ہو گئے۔
حضرت خالد لشکر لئے ہوئے دروازہ کھلنے کے منتظر تھے فوراً دشمنوں پر ٹوٹ پڑے اور پھر تو اس قدر گھمسان کا رن پڑا کہ کسی کو کسی کی خبر نہ رہی اور مسلمان بھیڑ بکری کی طرح مرتدین کو ذبح کرنے لگے۔
جب مسیلمہ نے مسلمانوں کا جوش وخروش اور اپنی فوجوں میں کچھ شکست کے آثار دیکھے تو اپنے خاص دستے کو لے کر میدان جنگ میں کود پڑا۔ حضرت حمزہ کے قاتل وحشی نے جو اب مسلمان ہو چکے تھے اور مسلمانوں کے لشکر کے سپاہی تھے اس کو دیکھ لیا اور اپنا مشہور نیزہ پوری قوت سے مسیلمہ پر پھینکا جس کی ضرب کاری لگی اور مسیلمہ زمین پر گر گیا قریب ہی ایک انصاری نے اس کو تلوار ماری اور سر کاٹ کر نیزے پر چڑھا دیا۔ مسیلمہ کے مرتے ہی اس کی پوری فوج میں ابتری پھیل گئی اور مسلمانوں نے بھی بے دریغ ان کو قتل کرنا شروع کر دیا۔ یہاں تک کہ مسیلمہ کے چالیس ہزار کے لشکر میں سے تقریباً اکیس ہزار موت کے گھاٹ اتارے گئے مسلمانوں کے صرف چھ سو ساٹھ آدمی شہید ہوئے جس میں بڑے بڑے صحابہ بھی تھے۔
مسیلمہ کی موت کے بعد اس کا قبیلہ بنی حنیفہ صدق دل سے دوبارہ اسلام میں داخل ہو گیا اور ان کا ایک وفد امیر المومنین حضرت ابوبکر کی خدمت میں گیا جہاں ان کی تکریم کی گئی۔
اس معرکہ میں حضرت عمر کے صاحبزادے عبد اللہ بن عمر بھی شریک تھے جب وہ واپس مدینے آئے تو حضرت عمر نے ان سے کہا "یہ کیا بات ہے کہ تمہارا چچا زید بن خطاب تو جنگ میں شہید ہو جائیں اور تم زندہ رہو؟ تم زید سے پہلے کیوں نہ شہید ہوئے۔ کیا تمہیں شہادت کا شوق نہیں؟ حضرت عبد اللہ ابن عمر نے عرض کیا اے والد محترم! چچا صاحب اور میں دونوں نے حق تعالیٰ سے شہادت کی درخواست کی تھی ان کی دعا قبول ہو گئی لیکن میں اس سعادت سے محروم رہا حالانکہ میں نے چچا کی طرح جان کی پرواہ کئے بغیر مرتدین سے جنگ کی تھی۔"