logoختم نبوت

ابوالعلاء علامہ محمد عثمان برکاتی رحمۃ اللہ علیہ

حالات زندگی:

علامہ محمد عثمان برکاتی رحمۃ اللہ علیہ ۲۷ نومبر ۱۹۶۳؁ء کو کراچی کے ایک میمن گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والدمحترم حاجی محمد قاسم سلسلہ قادریہ میں بیعت تھے ۔

تعلیم:

علامہ عثمان برکاتی رحمۃ اللہ علیہ نے عصری تعلیم بی ۔ کام تک حاصل کی ۔ بعد ازاں مذہبی تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے اور لاہور کے مختلف مدارس دینیہ سے درس نظامی کا آغاز کیا اور کچھ درجات مکمل کئے ۔ پھر ۱۹۸۶؁ء میں کراچی آگئےاور اہلسنت وجماعت کے مرکزی ادارے ’’دار العلوم امجدیہ ‘‘ میں داخلہ لیا اور بقیہ تعلیم حاصل کی۔۱۹۹۰؁ء میں آپ نے دورۂ حدیث کی تکمیل کی اور مفتی اعظم پاکستان شیخ الحدیث حضرت علامہ مفتی محمد وقارالدین قادری رحمۃ اللہ علیہ (پ ۱۹۱۵ء /و۱۹۹۳ء) سےسند حدیث حاصل کی، مفتی صاحب نے ’’ابوالعلاء‘‘ آپ کی کنیت رکھی۔ مکۃ المکرمہ کے جید عالم دین حضرت سید محمد علوی مالکی رحمۃ اللہ علیہ (پ ۱۹۴۳ء /و ۲۰۰۴ء) اورتاج الشریعہ حضرت مفتی اختر رضا خاںازہری رحمۃ اللہ علیہ (پ ۱۹۴۲ء/و ۲۰۱۸ء) سے بھی آپ کو اجازت حدیث حاصل تھی۔

جدید عربی کی اعلیٰ تعلیم کے لئے ۲۰۰۲؁ء میں آپ بغداد شریف ،عراق تشریف لے گئے ۔ جہاں جامعہ صدام حسین میں الشیخ عبدالوھاب کی نگرانی میں عربی ادب کی تعلیم حاصل کی۔

اساتذہ:

آپ نے کئی جید علماء کرام کی بارگاہ میں زانوئے تلمذ تہہ کیےجن میں سے چند کے اسماء گرام درج ذیل ہیں:

(۱)مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد وقار الدین قادری رحمۃ اللہ علیہ

(۲)شیخ الحدیث علامہ مفتی محمد حسین قادری رحمۃ اللہ علیہ (سکھر والے)

(۳)مفتی اہلسنت مفتی عبد العزیز حنفی قادری دام ظلہ

(۴)شیخ الحدیث علامہ افتخار قادری رحمۃ اللہ علیہ

(۵)استاذ العلماء علامہ مختار قادری شہید رحمۃ اللہ علیہ

(۶) شیخ الحدیث علامہ مفتی محمد اسماعیل ضیائی صاحب دام ظلہ

(۷) حضرت علامہ مفتی محمدعطاء المصطفیٰ اعظمی دام ظلہ

ان کے علاوہ شہر کراچی کے مشہور عالم دین حضرت علامہ سید شاہ تراب الحق رحمۃ اللہ علیہ ( ۱۹۴۴ء/ ۲۰۱۶ء) سے آپ بارہا مستفیض ہوتے رہے ۔

بیعت:

آپ مشرباً برکاتی ہیں آپ ۱۹۸۶؁ء میں مارہرہ شریف ، انڈیا کے سجادہ نشین حضرت پیر طریقت سید مصطفی حیدر حسن میاں برکاتی مارہروی رحمۃ اللہ علیہ (پ ۱۹۲۷ء/و ۱۹۹۵ء) کےہاتھ پر سلسلہ عالیہ قادریہ برکاتیہ میں بیعت ہوئے۔

درس و تدریس:

درس نظامی سے فراغت کے بعد آپ نے تدریس کا آغاز کیا ۔ ابتداءً آپ نے ایک سال(۱۹۹۱؁ء تا ۱۹۹۲؁ء) اپنے مادر علمی ’’دار العلوم امجدیہ ‘‘ میں تدریس کے فرائض انجام دیے ۔پیشہ ورانہ مصروفیت کی وجہ سے۱۹۹۲؁ء میں دن کے بجائے رات میں جمعیت اشاعت اہلسنت پاکستان کے تحت نماز عشاء کے بعد درس نظامی کی تدریس کا سلسلہ نور مسجد کاغذی بازار اولڈٹاؤن کراچی میں شروع کیا،۲۰۰۳؁ء تک مستقل آپ یہاں پڑھاتے رہے۔شہر کراچی میں رات کے اوقات میں درس نظامی کی تدریس کا آغاز کرنے والے آپ ہی ہیں اور یہ سلسلہ اتنا مقبول ہوا کہ سینکڑوں نوجوان، خاص کر میمن برادری سے تعلق رکھنے والے افراد نے بڑی تعداد میںدرس نظامی کی تعلیم حاصل کرنا شروع کردی۔ تیرہ (۱۳) طلباء سے شروع ہونے والا یہ مدرسہ آج ’’جامعۃ النور ‘‘ کے نام سے اہل سنت کا ایک عظیم علمی مرکز بن چکا ہے۔

اس کے علاوہ آپ نے جامعہ للبنات متصل جامع مسجد گلزار حبیب سولجر بازارکراچی میں۲۰۰۱؁ء سے ۲۰۰۴؁ ء تک تدریس فرمائی۔ ۲۰۰۳؁ ء میں آپ نے مدرسہ انوار القرآن قادریہ رضویہ متصل میمن مسجد مصلح الدین گارڈن کراچی میں ترجمۂ قرآن کے حوالہ سے ایک کورس کا آغاز کیا جوتقریباً ڈیڑھ سال تک جاری رہا۔

۲۰۱۴؁ء میں آپ نے مدرسہ حبیبیہ، جامع مسجد حبیب بہادر آباد کراچی میں نماز عشاء کے بعد درس نظامی کی تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ جہاں آپ آخری وقت تک تدریس فرماتے رہے۔اسی ادارے کے پہلے دورۂ حدیث(۲۰۲۰؁ء تا۲۰۲۱؁ء)میں آپ شیخ الحدیث کے منصب پر فائز رہے۔

سفر حج وزیارت مدینہ شریف:

آپ نے ۲۰۰۰؁ء میں فریضۂ حج ادا کیا اور ۲۰۰۳؁ء میں عمرہ کی ادائیگی کے لیے عازم حرمین شریفین ہوئے۔حرمین شریفین کی حاضری کے دوران عرب وعجم کے کئی علماء کرام سے ملاقاتیں کیں اور ان سے اجازات حاصل کیں۔

ذریعۂ معاش :

آپ نے کمپیوٹر کمپوزنگ اور پرنٹنگ پریس کو بطور پیشہ اختیار کیا ۔ آپ ایک بہترین کمپوزر اور گرافک ڈیزائنر تھے ۔ آپ نے سینکڑوں کتابیں اور ہزاروں ٹائٹل اور پوسٹرز ڈیزائن کئے ہیں جو قابل دید ہے ۔

رشتۂ ازدواج :

آپ کی شادی مارچ ۱۹۹۱؁ء میں ہوئی ۔ اللہ تعالی نے آپ کو ایک صاحبزادے اور ایک صاحبزادی سے نوازا ۔ آپ کے فرزند محمد علی حافظ قرآن اور سوفٹ ویر انجینئر ہیں۔

علمی خدمات:

آپ ۲۰۰۳؁ء میں برکاتی فاؤنڈیشن کے زیر انتظام مدارس البرکات کے شعبہ تعلیم سے وابستہ ہوئے۔ اس پلیٹ فارم سے آپ کی گراں قدر خدمات ہیں ۔ جس کی مختصر تفصیل ذیل میں مذکور ہے ۔

۱… آپ نے جدیدطرز پر پہلی جماعت سے نویں جماعت تک کےاسکول کے طلبا کے لئے اسلامیات کا نصاب مرتب کیا جسےبرکاتی فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام مکتبہ برکات المدینہ نےشائع کیا ہے۔آج یہ نصاب برکاتی فاؤنڈیشن کے تحت چلنے والے مدارس اور اسکولز کے علاوہ دیگر کئی تعلیمی اداروں میں رائج ہے۔

۲… اسکولز میں عربی زبان کے فروغ کے لئے جدید طریقہ پر تین حصوں پر مشتمل ایک نصاب ’’لغۃ الرسولا‘‘ کے نام سے مرتب کیاجسےمکتبہ برکات المدینہ نےشائع کیا ہے۔ یہ نصاب بھی اس وقت کئی تعلیمی اداروں میں رائج ہے ۔

۳…مدارس برکاتیہ کے قراء ،حفاظ اور اساتذہ کی تربیت کے لئے ایک جامع کورس مدون فرمایا۔یہ کورس درج ذیل کتب پر مبنی ہے:

(۱) قواعد تجوید (۲) قواعدالعربی (۳)عقائد ومسائل

آپ اس تربیتی کورس کےنہ صرف مرتب بلکہ مدرس بھی تھے ۔ سینکڑوں قراء ،حفاظ اور اساتذہ اس سے مستفیض ہورہے ہیں۔

۴… آپ نے مدارس برائے ناظرہ قرآن کےلئے ’’ رحمانی قاعدہ ‘‘ جدید انداز پر ترتیب دیا جسےمکتبہ برکات المدینہ نےشائع کیا ہے۔ نیز ’’ رحمانی قاعدہ ‘‘ کاسافٹ ویئر اور موبائل اپلیکیشن بھی بنائی جوآن لائن تعلیم ناظرہ قرآن کریم کے لئے بے حد مفید ہے ۔

آپ مدارس برکاتیہ کے فروغ اور تعلیمی معیار کی بلندی کے لئے ہمیشہ کوشاں رہے ۔ اور برکاتی فاؤنڈیشن سے آپ آخری دم تک وابستہ رہے۔

ختم نبوت :

شاہین ختم نبوت علامہ مفتی محمد امین قادری رحمۃ اللہ علیہ نے ۲۰۰۱؁ء میں ’’ادارہ تحفظ عقائد اسلامیہ ‘‘ کی بنیاد رکھی تو آپ اس کے ابتدائی اراکین میں سے تھے ۔ اس ادارے کے تحت مفتی محمد امین قادری رحمۃ اللہ علیہ نے تحفظ ختم نبوت کے حوالے سے علماء اہلسنت کی کتب ، رسائل ، مقالات وغیرہ کو جمع کرکے ان کو ایک انسائیکلو پیڈیا کی طرز پر شائع کرنے کا پروگرام بنایا تو آپ نے اس میں بھر پورحصہ لیا ۔

کتب کی کمپوزنگ ، پروف ریڈنگ اور پرنٹنگ کا ذمہ آپ پر تھا ۔ علامہ مفتی محمد امین قادری رحمۃ اللہ علیہ کی حیات میں اس انسائیکلو پیڈیا کی دو جلدیں آپ ہی کے توسل سے شائع ہوئی تھیں۔ بقیہ چار جلدوں پر بھی مفتی صاحب کام مکمل کرچکے تھے اور وہ آپ کی زیر نگرانی پرنٹنگ کے مراحل میں تھیں کہ ۲۰۰۶؁ء میں اچانک مفتی صاحب کا سانحۂ ارتحال ہوا ۔ یوںبقیہ چار جلدیں مفتی صاحب کے وصال کے بعد آپ کی زیر نگرانی دیگر اراکین کے تعاون سے شائع ہوئیں ۔

علامہ مفتی امین قادری رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت کے بعد آپ نے اس عظیم مشن کو جاری رکھااور ۲۰۱۶؁ ء تک ادارے کے دیگر رفقاء کے ساتھ مل کر مزید دس جلدیں شائع کروائیں۔ اس عظیم کام میں آپ کے ساتھ معاون کی حیثیت سے مفتی محمد امین قادری رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد کنز الایمان مسجد(بابری چوک) گرومندر کراچی کے خطیب و امام مفتی محمد حنیف امجدی عطاری (پ ۱۹۷۳؁ء) پہلی تا گیارہویں جلد جو ۲۰۱۰؁ء میں شائع ہوئی تھی پیش پیش رہے۔ لہٰذا اب یہ شاندار’’عقیدہ ختم نبوت انسائیکلو پیڈیا‘‘ سولہ( ۱۶) جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس کی ہر جلد تقریباً پانچ سے چھ سو صفحات پر مشتمل ہے۔ علامہ عثمان برکاتی صاحب آخر دم تک اس کام میں باقاعد گی سے لگے رہے اور مزید چارجلدوں کا کام تیار کرکے چھوڑ گئے ہیں ۔ ان چار جلدوں کے علاوہ مزید جلدوں کی اشاعت کے لئے آپ کے رفقاء اور ادارہ مصروف عمل ہیں۔

عادات و اطوار :

آپ طبعاً بڑے ہی خلیق اور عاجزی کا پیکر تھے ۔ سفید سادہ لباس زیب تن کرتے۔ چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ رہتی ، گفتگو بڑے دھیمے انداز میںکیا کرتے تھے ۔ آپ بلاشبہ ایک بہترین مدرس تھے، مبتدی اور منتہی ہرکتاب پڑھانے میں مہارت تامہ حاصل تھی، تدریس اس انداز سے کرتے کہ ہر بات طلباء کو ذہن نشین ہوجاتی ۔ اسباق کی پختگی کے لئے درس کے ساتھ طلباءکی جانچ بھی کرتے رہتے ۔

تلامیذہ:

آپ سے سینکڑوں طلباء مستفیض ہوئے ۔ جن میں سے چند علماء کے نام یہ ہیں :

(۱ ) مفتی محمد امین قادری رحمۃ اللہ علیہ (۲) علامہ مفتی محمد وسیم ضیائی

(۳) علامہ محمد مختار اشرفی (۴) علامہ انیس برکاتی

(۵) علامہ محمد رئیس قادری (۶) علامہ طالب قادری

(۷) علامہ امان اللہ قادری (۸)علامہ سکندر کندوھی قادری

(۹) علامہ حافظ جنیدنقشبندی رحمۃ اللہ علیہ (۱۰) مولانا سید طاہر نعیمی

(۱۱) علامہ محمدعرفان قادری ضیائی (۱۲) علامہ تاج نواب اختر القادری

(۱۳)علامہ ابو ضیاء مفتی محمد فرحان قادری

علوم دینیہ کی تدریس سے آپ کو والہانہ لگاؤ تھا ۔ لہٰذا انفرادی طور پر بھی اگر کوئی پڑھنا چاہتا تو اسے منع نہیں کرتے۔ مجھے اُن کے ایک شاگر د نے بتایا کہ آخری دنوں میں جب طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے گھر پر رہتے تھے توگھر پریا پھر آن لائن پڑھایاکرتے تھے ۔ طلباء کے اسباق کی ہر وقت اُنہیں فکر رہتی ،اور اس کا ناغہ برداشت نہ کرتے تھے ۔ اسی طرح عقیدۂ ختم نبوت کے تحریری کاموں میں بھی ہر وقت کوشاں رہتے ۔ آپ کے شاگرد بتاتے ہیں کہ وہ اکثر کہاکرتے تھے ’’ میری یہ خواہش ہے کہ مجھے علوم دینیہ پڑھاتے ہوئے موت آئے یا پھر عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لئے قلمی جہاد کرتے ہوئے شہادت کی موت نصیب ہو ‘‘ ۔

وصال:

۲۰۲۱؁ء میں آپ جگر کے عارضے میں مبتلا ہوئے۔ اور جب اس مرض نے شدت اختیار کی تو اپنے وصال سے چند ہفتے قبل مدرسہ و دفتر جانا چھوڑدیا ۔ لیکن گھر پر تدریس وتحریر کا کام جاری رکھا ۔ آخری ہفتے میں مرض شدت پکڑ گیا تو بالآخر ۲۴ ؍ اگست ۲۰۲۱؁ء کو مقامی ہسپتال میں داخل ہوئے ۔ جہاں ۲۹ ؍ اگست بروز اتوار صبح آپ کی طبیعت مزید بگڑگئی۔ اور اُسی روز آپ کا وصال ہوگیا۔ آپ کا وصال صبح ۸ بج کر ۳۰ منٹ پربتاریخ ۲۰ محرم الحرام ۱۴۴۳؁ھ بمطابق ۲۹ ؍ اگست ۲۰۲۱ ؁ء کو ہوا ۔

آپ کی نماز جنازہ آپ کے مادر علمی ’’دارالعلوم امجدیہ ‘‘ میں اداکی گئی جس کی امامت شیخ الحدیث مفتی محمد اسماعیل ضیائی صاحب نے فرمائی جہاں پورا مجمع افسردہ اور طلباء اشکبار تھے ۔ آپ کی تدفین درودوسلام پڑھتے ہوئے میواشاہ قبرستان کراچی میں ہوئی ۔

عرش پر دھومیں مچیں وہ مؤمن صالح ملا

فرش سے ماتم اٹھے وہ طیب وطاہر گیا


Netsol OnlinePowered by