logoختم نبوت

قادیانی حضرات کے کفر میں شک کرنے والوں کا حکم - (اعلی حضرت امام احمد رضا خان قادری)

استفتاء:

ما قولكم ايها العلماء الكرام
اے علماء کرام ! آپ کا کیا ارشاد گرامی ہے۔ت

(۱) مرزاغلام احمد قادیانی کو مجدد، مہدی، مسیح موعود اور پیغمبر صاحب وحی والہام ماننے والے مسلم ہیں یا خارج از اسلام اور مرتد ؟

(۲) بشکل ثانی اس کا نکاح کسی مسلمہ یا غیر مسلمہ یا ان کی ہم عقیدہ عورت سے شر عادرست ہے یا نہیں؟

(۳) بصورت ثانیہ جن عورات کا نکاح ان لوگوں کے ساتھ منعقد کیا گیا ہے ان عورات کو اختیار حاصل ہے کہ بغیر طلاق لئے اوربلا عدت کسی مرد مسلم سے عقد نکاح کر لیں ، بینوا اجركم الله تعالى ( بیان کرو اللہ تعالی تمھیں اجر و ثواب عطا فرمائے۔ ت)

الجواب:

(۱)لا اله الا الله محمد رسول الله ﷺ کے بعد کسی کو نبوت ملنے کا جو قائل ہو وہ تو مطلق کا فرو مرتد ہے۔ اگر چہ کسی ولی یا صحابی کے لیے مانے۔

قال الله تعالى

" وَلَكِنْ رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّنَ "1
وقال -صلى الله عليه وسلم انا خاتم النبيين لانبی بعدي 2

لیکن قادیانی تو ایسا مرتد ہے جس کی نسبت تمام علمائے حرمین شریف نے بالا تفاق تحریر فرمایا ہے کہ؛

من شك في كفره و عذا به فقد كفر 3
جو اس کے کافر ہونے میں شک کرے وہ بھی کافر

اُسے معاذ اللہ مسیح موعود یا مہدی یا مجد دیا ایک ادنی درجہ کا مسلمان جانتا در کنار جو اس کے اقوال ملعونہ پر مطلع ہو کر اس کے کافر ہونے میں ادنی شک کرے وہ خود کافر و مرتد ہے۔ واللہ اعلم

(۲) قادیانی عقیدے والے یا قادیانی کو کافر مرتد نہ ماننے والے مرد خواہ عورت کا نکاح اصلا قطعا بر گزز نبہار کسی مسلم کافر یا مرتد اس کے ہم عقیدہ یا مخالفت العقیدہ غرض تمام جہان میں انسان حیوان جن شیطان کسی سے نہیں ہو سکتا جس سے ہوگا زنائےخالص ہو گا، فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

لا يجوز للمرتد ان يتزوج مرتدة ولا مسلمة ولا كافرة اصلية وكذلك لا يجوز نكاح المرتدة مع احد كذا في المبسوط 4
کسی مرتد مرد کے لئے جائز نہیں کو وہ کسی مرتد عورت سے یا کسی اصلی کافر عورت سے نکاح کرے ، اسی طرح کسی مرتد عورت کو بھی جائر نہیں کہ وہ کسی شخص سے نکاح کرے، مبسوط میں یونہی ہے۔ (ت)

اسی میں درباه تصرفات مرتد ہے:

منها ما هو باطل بالاتفاق نحو النكاح لا يجوز له ان يتزوجل امرأة مسلمة ولا مرتدة ولا ذمية ولاحرةولو مملوكة 5والله تعالى اعلم
مرتد آدمی کے بعض تصرفات بالاتفاق باطل ہیں جیسے نکاح كرنا، لهذا مرتد شخص کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی مسلمان عورت یا اپنے جیسی کسی مرتد عورت یازمی کافرہ عورت چاہے آزاد ہو یا لونڈی سے نکاح کرے۔ واللہ تعالی اعلم (ت)

(۳) جس مسلمان عورت کا غلطی یا جہالت سے کسی ایسے کے ساتھ نکاح باندھا گیا اس پر فرض فرض فرض ہے کہ فورا فورا فورا اس سے جدا ہو جائے کہ زنانے سے بچے، اور طلاق کی کچھ حاجت نہیں، بلکہ طلاق کا کوئی محل ہی نہیں ، طلاق تو جب ہو کہ نکاح ہوا ہو، نکاح ہی سرے سے نہ ہوا، نہ اصلا عدت کی ضرورت کہ زنانے کے لئے عدت نہیں، بلا طلاق و بلا عدت جس مسلمان سے چاہے نکاح کر سکتی ہے۔ در مختار میں ہے:

نكح كافر مسلمة فولدت منه لا يثبت النسب منه ولا تجب العدة لانه نكاح باطل 6
کسی کافر نے کسی مسلمان عورت سے (اپنے خیال میں ) نکاح کر لیا تو اس سے عورت نے بچہ جنا تو اس سے بچے کا نسب ثابت نہ ہو گا۔ اور نہ عورت پر عدت واجب ہوگی، اس لئے کہ وہ ایک باطل نکاح ہے۔ (ت)

رد المحتار میں ہے:

اي فالوطء فيه زنا لا يثبت به النسب 7والله تعالی اعلم
یہ وطی زنا قرار پائے گی اس سے بچے کا نسب ثابت نہ ہوگا، والله تعالی اعلم ۔ (ت)

(فتاوی رضویہ ج: 21، ص:279 ،رضا فاؤنڈیشن لاہور)


  • 1 الاحزاب ،33/40
  • 2 اللآلي المصنوعة كتاب المناقب دار الكتب العلميه بيروت243/1،الموضوعات لابن جوزی کتاب الفضائل باب ذكر انه لا نبي بعده دار الفکر بیروت 280/1
  • 3 در مختار كتاب الجهاد باب المرتد مطبع مجتبائی دہلی356/1
  • 4 فتاوى ہندية كتاب النكاح الباب ا لثالث القسم السابع نورانی کتب خانہ پشاور 282/1
  • 5 فتاوى هندية كتاب السير الباب التاسع نورانی کتب خانہ پشاور 255/2
  • 6 در مختار كتاب الطلاق فصل في ثبوت النسب مطبع مجتبائی دہلی 263/1
  • 7 رد المحتار كتاب الطلاق فصل في ثبوت النسب دار احياء التراث العربي بيروت 633/2

Powered by Netsol Online