logoختم نبوت

زندیق کی اولاد کا حکم - (جامعہ رضویہ ٹرسٹ)

زندیق کی تعریف:

شریعت مطہرہ میں زندیق کی تعریف ان الفاظ سے کی گئی ہے:

و اما الذنديق فهو الذي يظهر الاسلام و يسر الكفر فاذا عثر عليه قتل ولا يستتاب و الا يقبل قوله في ادعاء التوبة الا اذا جاء تائبا قبل ظهور زندقته1
زندیق وه شخص ہے جو (مصنوعی) اسلام کو ظاہر کرے اور (اپنے حقیقی) کفر چھپائے۔ پھر جب اس کا بھید کھل جائے گا تو قتل کیا جائے گا اور اس سے توبہ کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی اس کے دعوائے توبہ کو قبول کیا جائے گا مگر یہ کہ وہ اپنی زندیقیت کے ظاہر ہونے سے پہلے توبہ کرے۔

زندیق کا حکم:

فقہاء کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ زندیق کو بالاتفاق قتل کیا جائے گا۔ الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

’’اتفق العلماء على وجوب قتل المرتد لقوله ﷺ من بدل دينه فاقتلوه و قوله عليه السلام لا يحل دم امرئ مسلم الا باحدى الثلاث: الثيب الزاني والنفس بالنفس والتارك لدينه المفارق للجماعة“ 2
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اپنا دین (اسلام) تبدیل کرے تو اسے قتل کرو اور دوسری حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مسلمان کا خون (قتل) کسی کے لئے حلال نہیں مگر تین وجوہات سے (۱) شادی شدہ زانی (۲) اور قتل کے بدلے قتل (۳) اور اپنے دین کو چھوڑ کر جماعت سے الگ ہونے والا۔

زندیق کی آئندہ اولاد کا حکم:

امام اہلسنت الشاہ احمد رضا خان فاضلِ بریلوی شریف نے اپنے فتاویٰ العطایا النبویہ فی الفتاویٰ الرضویہ میں لکھا ہے کہ اولادصغار ضرور اس کے قبضے سے نکال لی جائے گی۔

’’حذرا على دينهم الا ترى انهم صرحوا بنزع الولد من الام الشفيقة المسلمة ان كانت فاسقة والولد يعقل يخشى عليه التخلق بسيرها الذميمة فما ظنك بالاب المرتد و العياذ بالله تعالى قال فی رد المحتار الفاجرة بمنزلة الكتابية فان الولد يبقى عندها الى ان يعقل الاديان كما سيأتی خوفا عليه من تعلمه منها ما تفعله فكذا الفاجرة الخ، و انت تعلم الولد لا يحضنه الاب الا بعد ما بلغ سبعا او تسعا و ذلك عم العقل قطعا فيحرم الدفع اليه ويجب النزع منه و انما احوجنا الى هذا الان الملك ليس بيد الاسلام والا فالسلطان اين يبقى المرتد حتى يبحث عن حضانته الا ترى الى قولهم لا حضانة لمرتدة لانها تضرب و تحبس كاليوم فانی تتفرغ للحضانة فاذا كان هذا فى المحبوس فما ظنك بالمقتول ولكن انا لله وانا اليه راجعون ولا حول ولا قوة الا بالله العلى العظيم‘‘
نابالغ بچوں کے دین کے خطرہ کی وجہ سے، کیا آپ نے نہ دیکھا کہ فقہاء نے مسلمان شفیق ماں اگر فاسقہ ہو تو اس سے بچے کو الگ کرنے کی تصریح کی ہے بچے کے سمجھدار ہونے پر اس کی ماں کے بُرے اخلاق سے متاثر ہونے کے وجہ سے، تو مرتد باپ کے بارے میں تیرا کیا گمان ہوگا۔ العیاذ باللہ تعالیٰ۔ رد المحتار میں فرمایا کہ فاجر عورت اہل کتاب عورت کے حکم میں ہے کہ اس کے پاس بچہ صرف اس وقت تک رہے گا جب تک دین سمجھنے نہ پائے جیسا کہ بیان ہوگا۔ اس خوف سے کہ کہیں بچہ اس کے اعمال سے متاثر نہ ہو جائے۔ تو فاجرہ عورت کا بھی یہی حکم ہے الخ۔ اور تجھے علم ہے کہ والد بچے کو سات یا نو سال کے بعد ہی اپنی پرورش میں لیتا ہے اور یہ سمجھ کی عمر ہے لہٰذا بچے کو اس کے سپرد کرنا حرام ہے اور اس سے الگ کر لینا ضروری ہے اور ہم نے یہ ضرورت اس لیے محسوس کی کہ یہ ملک مسلمان کے اختیار میں نہیں ورنہ اسلامی حکمران مرتد کو کب چھوڑے گا کہ مرتد کی پرورش کا مسئلہ زیر بحث آئے۔ آپ نے نہیں دیکھا کہ فقہاء کا ارشاد ہے کہ مرتدہ کی پرورش نہیں ہے کیونکہ وہ قید میں سزا یافتہ ہوگی جیسا کہ آج ہے لہٰذا وہ پرورش کرنے کی فرصت کہاں پاسکتی ہے تو یہ حکم قیدی کے متعلق ہے تو مقتول مرتد کے متعلق تیرا کیا گمان ہو سکتا ہے۔ لیکن ہم اللہ تعالیٰ کا مال اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں، ولا حول ولا قوة الا باللہ العلی العظیم۔

مگر ان کے نفس یا مال میں بدعوے ولایت اس کے تصرفات موقوف رہیں گے اگر پھر اسلام لے آیا اور اس مذہب ملعون سے توبہ کی تو وہ تو تصرف سب صحیح ہو جائیں گے اور اگر مرتد ہی مر گیا یا دار الحرب کو چلا گیا تو باطل ہو جائیں گے۔

’’فی الدر المختار يبطل منه اتفاقا ما يعتمد الملة و هی خمس النكاح والذبيحة والصيد والشهادة الارث ويتوقف منه اتفاقا ما يعتمد المساواة و هو المفاوضة، او ولاية متعدية و هو التصرف على ولده الصغير، ان اسلم نفذو ان هلک او لحق بدار الحرب وحكم بلحاقه بطل مختصرا نسال الله الثبات على الايمان و حسبنا الله و نعم الوكيل وعليه التكلان ولا حول ولا قوة الا بالله العلى العظيم وصلى الله تعالى على سيدنا و مولانا اٰله وصحبه اجمعين، امين۔‘‘
’’در مختار میں ہے کہ: مرتد کے وہ تمام امور بالاتفاق باطل ہیں جن کا تعلق دین سے ہو اور وہ پانچ امور ہیں نکاح، ذبیحہ، شکار، گواہی اور وراثت، اور وہ امور بالاتفاق موقوف قرار پائیں گے جو مساوات عمل مثلاً لین دین اور کسی پر ولایت اور یہ نابالغ اولاد کے بارے میں تصرفات ہیں، اگر وہ دوبارہ مسلمان ہو گیا تو موقوف امور نافذ ہو جائیں گے، اور اگر وہ ارتداد میں مر گیا یا دار الحرب پہنچ گیا اور قاضی نے اس کے طوق کا فیصلہ دے دیا تو وہ امور باطل ہو جائیں گے مختصراً ہم اللہ تعالیٰ سے ایمان پر ثابت قدمی کیلئے دعا گو ہیں ہمیں اللہ تعالیٰ کافی ہے او وہ اچھا وکیل ہے اور اس پر ہی بھروسہ ہے، ولا حول ولا قوة الا بالله العلى العظیم وصلى الله تعالىٰ علىٰ سیدنا ومولانا الہ وصحبہ اجمعین، امين‘‘

صحیح مسلم شریف میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’اياكم و اياهم لا يضلونكم ولا يفتنونكم‘‘ 3
’’تم ان سے دور رہو اور انہیں بھی اپنے سے دور رکھو کہیں وہ تمہیں گمراہ نہ کر دیں اور کہیں تمہیں فتنہ میں نہ ڈال دیں۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:

’’لا تؤاكلوهم ولا تشاربوهم ولا تجالسوه ولا تناكحوهم واذا مرضوا فلا تعودوهم واذا ماتوا فلا تشهدوهم ولا تصلوا عليهم ولا تصلوا معهم‘‘
ان کے ساتھ کھانا نہ کھاؤ، ان کے ساتھ پانی نہ پیو، ان کے پاس نہ بیٹھو، ان سے رشتہ نہ کرو، وہ بیمار پڑیں تو پوچھنے نہ جاؤ، مر جائیں تو جنازہ پر نہ جاؤ، نہ ان کی نماز پڑھو نہ ان کیساتھ نماز پڑھو۔

امیر المومنین حضرت عمر فاروق نے مسجد اقدس نبی ﷺ میں نماز مغرب کے بعد کسی مسافر کو بھوکا پایا اپنے ساتھ کاشانہ خلافت میں لے آئے اس کے لئے کھانا منگوایا، جب وہ کھانے بیٹھا کوئی بات بد مذہبی کی اس سے ظاہر ہوئی فوراً حکم ہوا کہ کھانا اٹھا لیا جائے اور اسے نکال دیا جائے۔ سامنے سے کھانا اٹھوا لیا اور اسے نکلوا دیا۔ سیدنا عبداللہ ابن عمر سے کسی نے آکر عرض کی۔ فلاں شخص نے آپ کو سلام کہا ہے، فرمایا: لا تقرأ منى السلام فانی سمعت انه احدث انه احدث میری طرف سے اسے سلام نہ کہنا کہ میں نے سنا ہے کہ اس نے کچھ بد مذہبی نکالی۔

سیدنا سعید بن جبیر شاگرد عبداللہ بن عباس کو راستہ میں ایک بد مذہب ملا، کہا کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں، فرمایا میں سننا نہیں چاہتا۔ عرض کی ایک کلمہ، اپنا انگوٹھا چھنگلیا کے سرے پر رکھ کر فرمایا ’’ولا نصف كلمة‘‘ آدھا لفظ بھی نہیں۔ لوگوں نے عرض کی اس کا کیا سبب ہے فرمایا ازیشاں منہم ہے۔

امام محمد بن سرین شاگرد حضرت انس کے پاس دو بد مذہب آئے، عرض کی کچھ آیات کلام اللہ آپ کو سنائیں۔ فرمایا میں سننا نہیں چاہتا، عرض کی کچھ احادیث نبی ﷺ سنائیں۔ فرمایا میں سننا نہیں چاہتا۔ انہوں نے اصرار کیا۔ فرمایا دونوں اٹھ جاؤ یا میں اٹھاتا ہوں۔ آخر وہ خائب وخاسر چلے گئے۔ لوگوں نے عرض کی اے امام! آپ کا کیا حرج تھا کہ اگر وہ کچھ آیتیں یا حدیثیں سناتے، فرمایا میں نے خوف کیا کہ وہ آیات واحادیث کے ساتھ اپنی کچھ تاویل لگائیں اور وہ میرے دل میں رہ جائے تو ہلاک ہو جاؤں گا۔

ائمہ کو یہ خوف تھا اور اب عوام کو یہ جرات ہے ولا حول ولا قوة الا بالله العلی العظیم اور ایسی جگہ مال دنیا وہی پسند کرے گا جو دین نہیں رکھتا جو عقل سے بہرہ نہیں، یکے نقصان مای دگر شماتت ہمسایہ (ایک تو مال نقصان اور دوسرے ہمسایہ کی خوشی) ہمسایہ کون؟ وه بئس القرین شیطان لعین کیسا خوش ہوگا کہ ایک ہی کرشمے میں دونوں جہان کا نقصان پہنچایا، مال بھی گیا اور آخرت میں عذاب کا بھی مستحق ہوا۔

خسر الدنيا والآخرة ذلك هو الخسران المبين
دنیا اور آخرت دونوں کا گھاٹا، یہی ہے صریح نقصان۔

ان دلائل سے ثابت ہوا دور حاضر کے تمام عمر، نسل اور اقسام کے قادیانی اور مرزائیوں کا وہی حکم ہے جو اوپر ذکر کیا گیا ہے۔

(الف) امت اسلامیہ اس فرد یا جماعت کے ساتھ برادرانہ تعلقات منقطع کرے۔

(ب) ان سے سلام وکلام، میل جول، نشست وبرخاست، شادی وغمی میں شرکت نہ کی جائے۔

(ج) ان سے تجارت، لین دین اور خرید وفروخت جائز نہیں ہے۔

(و) ان کے کارخانوں، فیکٹریوں اور بیکریوں سے مال نہ خریدا جائے بلکہ مکمل اقتصادی بائیکاٹ کیا جائے اور ان کے ڈاکٹروں سے علاج بھی نہ کروایا جائے۔

(ر) ان کے ساتھ رواداری نہ برتی جائے۔

(ذ) ان کے کارخانوں اور فیکٹریوں کی مصنوعات استعمال نہ کی جائیں غرضیکہ مکمل ان کا مقاطعہ کیا جائے۔

واللہ اعلم بالصواب

حافظ رب نواز

نائب مفتی جامعہ رضویہ ٹرسٹ ماڈل ٹاؤن لاہور


  • 1 الفقہ الاسلامی: 184:6
  • 2 ج،184:6
  • 3 ج: ا، ص ۱۰

Powered by Netsol Online