قادیانیوں کے ساتھ سوشل بائیکاٹ کا شرعی حکم کیا ہے ؟
اسلام امن وآشتی اور رواداری کا علم بردار ہے جس طرح اہل اسلام کی خیر خواہی کو پیش نظر رکھتا ہے۔ اس طرح غیر مسلموں کی بھلائی کا بھی تقاضا کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ غیر مسلم والدین کے ساتھ بھی اسلام حسن سلوک چاہتا ہے۔1 حضور ﷺ نے حضرت اسماء بنت ابی بکر کو انکی مشرکہ والدہ کے ساتھ صلہ رحمی کا حکم فرمایا۔2 بالکل اسی طرح جن مشرکین نے مسلمانوں کے ساتھ قتال کیا نہ کوئی دوسرا ظلم، ان کے ساتھ بھی نیک سلوک کو روا رکھا گیا۔3 تاہم کفار ومشرکین کے ساتھ دوستی کرنا اور محبت کا رشتہ رکھنا ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔4 مصلحت (جلب منفعت ودفع مضرت) اگر کافروں، مشرکوں اور زندیقوں کے ساتھ سوشل بائیکاٹ کا تقاضا کرے تو ہنگامی حالات میں اس ہتھیار کو استعمال کرنا بھی اسلام جائز قرار دیتا ہے۔5 جب کبھی مصلحت نے بعض مسلمانوں کے خلاف بھی سوشل بائیکاٹ کا ہتھیار استعمال کرنا مناسب قرار دیا ہے تو یہ ہتھیار استعمال کیا گیا ہے جیسا کہ حضور ﷺ نے غزوہ تبوک سے پیچھے رہ جانے والے سیدنا کعب بن مالک اور دیگر دو اصحاب کے ساتھ بات چیت تک کرنے سے منع کر دیا تھا۔6 غرض یہ کہ استصلاح کے لیے اسلام سوشل بائیکاٹ کا حق محفوظ رکھتا ہے۔
قادیانی جو کہ اپنی تمام تر توانائیاں اہل اسلام کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ عالمی سطح پر عیسائیوں اور یہودیوں کے مقاصد واہداف کو قریب کرنے کے لیے آلہ کار بنے ہوئے ہیں ضروری ہے کہ اہل اسلام اپنے بھر پور دینی تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے قادیانیوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں اور انکے ساتھ قلبی میلان سے سخت اجتناب کریں قادیانیوں کے خلاف اپنی صلاحیتوں اور توانائیوں کو صرف کرنا فرقہ واریت نہ سمجھا جائے بلکہ اسلام کی صحیح شناخت کے اظہار کا ذریعہ قرار دیا جائے۔ قادیانیوں کے ساتھ سوشل بائیکاٹ ان سے ظلم ستم نہیں ہے بلکہ قادیانیوں کے نظریاتی افساد اور فکری ظلم وستم کا فطری رد عمل ہے۔
وصلى الله تعالى على حبيبه محمد وآله وصحبه وسلم
مظہر فرید شاہ
نائب مہتمم جامعہ فریدیہ ساہیوال
4 جولائی 2009ء