logoختم نبوت

قادیانی سے دوستی کا حکم - (علامہ سردار احمد خان صاحب)

استفتاء:

زید نے اقتصادی حالات کو انتہائی کمزوری وملازمت وجگہ رہائش نہ ملنے کی مایوسی سے مرزائی کو دوست بنایا، اس کے پاس رہائش اختیار کی، اور اس دوست نے دوسرے مرزائیوں کے اصرار پر زید سے اپنے بیعت فارم پر دستخط کروائے، زید بظاہر مرزائی ہوا اور ان کے ساتھ نمازیں بھی ادا کیں، اس خیال سے کہ نماز خدا کی، اور الفاظ قرآن کے ہیں کیا فرق ہوگا، اپنے آپ کو اس مدت میں مسلمان ہی تصور کرتا رہا، ملازمت ورہائش وجگہ ملنے کے بعد زید نے مرزائیوں سے قطع تعلق کر دیا تو کیا وہ مسلمان رہا اور اس کا نکاح بیوی سے قائم رہے گا؟ اگر نہیں تو دوبارہ ہو سکتا ہے، یا حلالہ کی ضرورت ہوگی، اگر نہیں تو نکاح کی صورت میں اسے عدت کے ایام کا خیال رکھنا پڑے گا، اور وہ عرصہ کہ جب تک وہ نکاح نہ کرے، یا بہت عرصہ پہلے گزر چکا ہے، اس کا کفارہ ادا کرے، زید نے یہ معاملہ آجکل کسی کو نہیں بتایا، اس کے والدین بچے بیوی سب بے خبر ہیں نکاح ٹوٹ جانے کی صورت میں جیسا کہ زید نے بتایا اس کے مندرجہ بالا فعل سے قبل اس کی بیوی حاملہ تھی اور اس فعل کے بعد اس کو بیوی سے ملنے کا اتفاق ہوا اور اس نے بیوی سے مجامعت بھی کی کیا وہ بچہ جو ڈیڑھ دو ماہ کے بعد پیدا ہوا حرامزادہ نہ ہوگا، اور اس کے دو بچے اور ہیں، وہ کسی صورت میں سمجھیں، زید اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا رہا ہے، اور نکاح کو بھی درست سمجھتا رہا، بیوی کو علم نہیں ہے، اس قسم کے بچوں کا نکاح مسلمان مرد یا عورت سے ہو سکتا ہے، ایسے بچے وراثت کے حقدار ہونگے، یہ معاملہ تھا، چار برس بعد اور دوستوں پر ظاہر ہوا ہے، اور دوستوں کی بحث انتہائی پیچیدہ سمجھی گئی ہے جس کا ذکر کر دیا گیا، یہ اور ضروری دوستوں کی بحث انتہائی پیچیدہ سمجھی گئی ہے جس کا ذکر کر دیا گیا، یہ اور ضروری سمجھا گیا کہ کسی ایسے مفتی سے اس کا فیصلہ ہو، اس معاملہ میں شریعت مجرم کی بھول غلطی یا کم علمی کی جس حد تک بھی حمایت ہو سکے، بہت غور سے فتوی سے مستفیض فرما دیں، زید اس بحث سے نفسانی طور پر بیمار ہو گیا ہے، بینوا توجروا

الجواب:

زید سے جبکہ مرزائی کے بیعت فارم پر دستخط کرائے تو زید کافر ومرتد ہو گیا، زید اسلام سے باہر ہو گیا، اور مرزائی ہو گیا، اس کی نماز شرعاً نماز نہیں اور اسکا اپنے آپ کو مسلمان تصور کرنا غلط اس کی بیوی نکاح سے باہر اس کی بیوی اگر زید مرزائی ہونے پر بے خبر رہی تو وہ معذور ہے، زید کی بیوی کو جو حمل زید کے مرزائی ہونے سے پہلے ہوا اس حمل سے جو بچہ پیدا ہوگا۔ وہ جائز اولاد سے ہے، زید نے مرزائی بننے کے بعد جو مجامعت کی تو قطعاً حرام مگر جو بچہ ڈیڑھ دو ماہ کے بعد پیدا ہوا تو اس بچہ کو حرامزادہ نہیں کہا جائے گا، کیونکہ اس بچہ کا وجود اس کے مرزائی ہونے سے پہلے ہو چکا تھا۔ ہاں اس نے جو مجامعت کی وہ حرام ہے، پہلے بچے کے بعد جو دو بچے پیدا ہوئے وہ حرام اور زنا کے ہیں، کیونکہ نکاح ٹوٹ چکا تھا۔ اس لئے وہ دو بچے حرامکاری، وزنا وبدکاری سے ہوئے اور اس کے بچے بچیاں مسلمان رہیں گے، تو ان کا نکاح مسلمان عورت مسلمان مرد سے جائز ہے، ایسے بچے جو حرامکاری وبدکاری سے ہیں وہ ثابت النسب نہیں ہیں، ان کا چونکہ شرعاً باپ نہیں لہٰذا ایسے بچے ماں کی وراثت کے حقدار ہیں، ماں کے توسط سے جتنے رشتہ دار ہونگے شریعت کے مطابق ایسے بچے ان رشتہ داروں کے ورثاء ہونگے، ان کی وراثت کے شریعت کے مطابق حقدار ہونگے، مسئلہ صورت واقعی پیچیدہ ہے، اور اس پیچیدگی کا حل یہ ہے کہ وہ شخص جلد از جلد مرزائی مذہب سے توبہ کر لے نئے سرے سے کلمہ اسلام پڑھے تجدید اسلام کرے، حرامکاری سے توبہ کرے، تو اس کے بعد اپنی سابقہ بیوی سے دوبارہ نکاح کرے، حلالہ کرنے کی یا عدت گزارنے کی اس میں ضرورت نہیں۔ دو مسلمان گواہوں کے سامنے اس شخص میں اور اس کی بیوی میں ایجاب وقبول ہو جائے، یا کسی نکاح پڑھانے والے مسلمان سے شرعی گواہوں کے سامنے ایجاب وقبول کرائے تو نکاح ہو جائے گا۔ اس شخص پر فرض ہے کہ اپنی بیوی سے معافی مانگے، کیونکہ اس نے اپنی سابقہ بیوی کی عصمت دری کی ہے، اس سے حرامکاری کی ہے، اور اس بیچاری کو شوہر کے مرزائی ہونے کا علم نہیں، چونکہ وہ لاعلم رہی لہٰذا اس حرامکاری کی وجہ سے وہ گنہگار نہ ہوئی مگر اس شخص کا عذر جہالت ایسے قضیہ میں مقبول نہیں توبہ کرے مسلمان ہو جائے، اپنی بیوی سے دوبارہ شریعت کے مطابق نکاح کرے بس قضیہ ختم ہے، واللہ تعالیٰ ورسولہ الاعلیٰ اعلم۔

(فتاوی محدث اعظم ،ص:93تا96،مکتبہ قادریہ فیصل آباد)

Powered by Netsol Online