Khatam e Nabuwat

عقیدہ ختم نبوت اصول اربعہ کی روشنی میں

عقیدہ ختم نبوت اور قرآن کریم:

عقیدہ ختم نبوت سے متعلق قرآن کریم میں بے شمار صریح آیات ہیں، ان میں سے چند حصول برکت کے لیے ذکر کی جاتی ہیں۔ الحمد للہ مسلمانوں کی آنکھوں کو ٹھنڈا کرنے کے لیے بس اتناہی کافی ہے کہ اللہ عزوجل نے ایسا فرمایا ہے اور اس چیز کا حکم دیا ہے، یا اس کے محبوب خاتم النبیین ﷺ نے یہ بات یوں ارشاد فرمائی ہے یا اپنے غلاموں کو یہ حکم دیا ہے، پھر وہ مسلمان مرد ہو خواہ عورت کسی قسم کا تامل کیے بغیر اسے قبول کر لیتے ہیں، اس حکم کے سامنے سر جھکا دیتے ہیں اور مصروف عمل ہو جاتے ہیں، چاہے انہیں اُس کی حکمت سمجھ آئے یا نہ آئے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا اَنْ یَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْؕ-وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًا1
اور نہ کسی مسلمان مرد نہ مسلمان عورت کو پہنچتا ہے کہ جب اللہ ورسول کچھ حکم فرما دیں تو انہیں اپنے معاملہ کا کچھ اختیار رہے اور جو حکم نہ مانے اللہ اور اس کے رسول کا وہ بیشک صریح گمراہی بہکا۔"

اور فرماتا ہے:

وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا وَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ 2
اور جو کچھ تمہیں رسول عطا فرمائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں باز رہو اور اللہ سے ڈرو، بیشک اللہ کا عذاب سخت ہے۔"

عقیدہ ختم نبوت سے متعلق ذیل میں صرف چار آیات پر اکتفا کیا جاتا ہے:

قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعَاﰳ الَّذِیْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِۚ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ۪-فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ كَلِمٰتِهٖ وَ اتَّبِعُوْهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ 3
"تم فرماؤ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا رسول ہوں کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اس کو ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں جِلائے اور مارے تو ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول بے پڑھے غیب بتانے والے پر کہ اللہ اور اس کی باتوں پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی غلامی کرو کہ تم راہ پاؤ۔"

تفسیر خزائن العرفان میں ہے:

"یہ آیت سید عالم ﷺ کے عموم رسالت کی دلیل ہے کہ آپ تمام خَلق کے رسول ہیں اور کل جہاں آپ کی امت۔ بخاری ومسلم کی حدیث ہے حضور فرماتے ہیں پانچ چیزیں مجھے ایسی عطا ہوئیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہ ملیں۔" انہیں میں فرمایا: "ہر نبی خاص قوم کی طرف مبعوث ہوتا تھا اور میں سرخ وسیاہ کی طرف مبعوث فرمایا گیا اور میں تمام خلق کی طرف رسول بنایا گیا اور میرے ساتھ انبیاء ختم کئے گئے۔"

وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ 4
"اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لیے۔"

تفسیر روح البیان میں اس آیت کی تفسیر میں اکابر کا یہ قول نقل کیا ہے:

"آیت کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر رحمت مطلقہ تامہ کاملہ عامہ شاملہ جامعہ محیطہ بہ جميع مقیدات رحمت غیبیہ وشہادت علمیہ وعینیہ ووجودیہ وشہودیہ وسابقہ ولاحقہ وغیر ذلک تمام جہانوں کے لئے، عالم ارواح ہوں یا عالم اجسام، ذوی العقول ہوں یا غیر ذوی العقول اور جو تمام عالموں کے لئے رحمت ہو لازم ہے کہ وہ تمام جہان سے افضل ہو۔"

مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰـكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا 5
"محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے ۔"

تفسیر خزائن العرفان میں ہے:

"یعنی آخر الانبیاء ہیں کہ نبوت آپ پر ختم ہو گئی آپ کی نبوت کے بعد کسی کو نبوت نہیں مل سکتی حتیٰ کہ جب حضرت عیسیٰ ﷤ نازل ہوں گے تو اگر چہ نبوت پہلے پاچکے ہیں مگر نزول کے بعد شریعت محمدیہ پر عامل ہوں گے اور اسی شریعت پر حکم کریں گے اور آپ ہی کے قبلہ یعنی کعبہ معظمہ کی طرف نماز پڑھیں گے، حضور کا آخر الانبیاء ہونا قطعی ہے، نص قرآنی بھی اس میں وارد ہے اور صحاح کی بکثرت احادیث تو حد تواتر تک پہنچتی ہیں۔ ان سب سے ثابت ہے کہ حضور اکرم ﷺ سب سے آخری نبی ہیں آپ کے بعد کوئی نبی ہونے والا نہیں جو حضور کی نبوت کے بعد کسی اور کو نبوت ملنا ممکن جانے، وہ ختم نبوت کا منکر اور کافر خارج از اسلام ہے ۔"

وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَآفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا وَّ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ6
"اور اے محبوب! ہم نے تم کو نہ بھیجا مگر ایسی رسالت سے جو تمام آدمیوں کو گھیرنے والی ہے، خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا لیکن بہت لوگ نہیں جانتے۔"

خزائن العرفان میں اس آیت کے تحت ہے:

اس آیت سے معلوم ہوا کہ حضور سید عالم ﷺ کی رسالت عامہ ہے تمام انسان اس کے احاطہ میں ہیں گورے ہوں یا کالے، عربی ہوں یا عجمی، پہلے ہوں یا پچھلے سب کے لئے آپ ”رسول“ ہیں اور وہ سب آپ کے "امتی "۔ بخاری ومسلم کی حدیث ہے سید عالم ﷺ فرماتے ہیں مجھے پانچ چیزیں ایسی عطا فرمائی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہ دی گئیں یہاں تک کہ فرمایا: "اور انبیاء خاص اپنی قوم کی طرف مبعوث ہوتے تھے اور میں تمام انسانوں کی طرف مبعوث فرمایا گیا۔"

عقیدہ ختم نبوت اور سنت:

مولانا احمد رضا خان حنفی نے صرف ایک رسالہ میں "ختم نبوت" کے بارے میں ایک سو بیس احادیث، اکہتر صحابہ کرام اور گیارہ تابعین عظام سے مروی، نقل کی ہیں7۔ اتنے راویانِ حدیث کی تعداد حدِ تواتر تک پہنچتی ہے، جس سے علم یقینی حاصل ہوتا ہے، کسی متواتر چیز کا انکار کرنا اسلام سے خارج کر دیتا ہے۔ من جملہ "عقیدہ ختم نبوت" بھی انہی احکام سے ہے، جس کا ثبوت تواتر سے ہے، اس حدیث کے راویان کے اسمائے گرامی مندرجہ ذیل ہیں:

تابعین کرام کے اسماء:

امام اجل محمد باقر، سعد بن ثابت، ابن شہاب زہری، عامر شعبی، عبد اللہ بن ابی الہذیل، علاء بن زیاد، ابو قلابہ، کعب احبار، مجاہد مکی، محمد بن کعب قرظی، وہب بن منبہ

صحابہ کرام کے اسماء:

اُبی بن کعب، ابو امامہ باہلی، انس بن مالک، اسماء بنت عمیس، براء بن عازب، بلال مؤذن، ثوبان مولیٰ رسول اللہ ﷺ، جابر بن سمرہ، جابر بن عبد اللہ، جبیر بن مطعم، حُبیش بن جنادہ، حذیفہ بن اُسید، حذیفہ بن الیمان، حسان بن ثابت، حویصہ بن مسعود، ابو ذر، ابن زمل، زیاد بن لبید، زید بن ارقم، زید بن ابی اوفیٰ، سعد بن ابی وقاص، سعید بن زید، ابو سعید خدری، سلمان فارسی، ابو الطفیل عامر بن ربیعہ، ام المؤمنین ام سلمہ، سہل بن سعد، عامر بن ربیعہ، عبد اللہ بن عباس، عبد اللہ بن عمر، عبد الرحمٰن بن غنم، عدی بن ربیعہ، عرباض بن ساریہ، عصمہ بن مالک، عقبہ بن عامر، عقیل بن ابی طالب، امیر المؤمنین علی، امیر المؤمنین عمر، عوف بن مالک اشجعی، ام المؤمنین صدیقہ، اُم کرز، مالک بن حویرث، محمد بن عدی بن ربیعہ، مالک بن سنان والد ابی سعید خدری، معاذ بن جبل، امیر معاویہ، مغیرہ بن شعبہ، ابن ام مکتوم، ابو منظور، ابو موسیٰ اشعری، ابو ہریرہ، حاطب بن ابی بلتعہ، عبد اللہ ابن ابی اوفیٰ، عبد اللہ بن زبیر، عبد اللہ بن سلام، عبادہ بن صامت، ہشام بن عاص، عبید بن عمرو لیثی، نعیم بن مسعود، عبد اللہ بن عمرو بن عاص ۔

مقام غور:

مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ حضرات صحابہ کرام اور تابعین عظام دین اسلام کو ہم سے زیادہ بہتر انداز سے سمجھنے والے تھے، ”ختم نبوت“ کے بارے میں ان کا اجماع بھی انہی معنوں پر ہوا کہ "آپ ﷺ کے بعد کوئی نیا نبی یا رسول نہیں آئے گا" اور یہ تواتر سے مروی بھی ہے، تو یقیناً آج یا آج کے بعد کسی بھی دور میں اگر کوئی ان معانی کے خلاف بتائے وہ آپ اپنا سر کھائے اور جہنم میں جائے، اہل ایمان کو اُس کی کسی بات پر ہر گز کان نہیں دھرنا، اگر چہ ظاہر میں قرآن وحدیث ہی پیش کرے۔

من جملہ اس باب میں مروی احادیث شریفہ سے چند مندرجہ ذیل ہیں:

1۔ "صحیح مسلم شریف ومسند امام احمد وسنن ابو داؤد وجامع ترمذی وسنن ابن ماجہ وغیرہا میں ثوبان سے ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:

۔
اِنَّهُ سَيَكُونُ فِیْ اُمَّتِیْ كَذَّابُوْنَ ثَلٰثُوْنَ كُلُّهُمْ يَزْعَمُ اَنَّهُ نَبِیٌّ وَاَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ8
بیشک میری امت دعوت میں یا میری امت کے زمانے میں تیس کذاب ہوں گے کہ ہر ایک اپنے آپ کو نبی کہے گا اور میں خاتم النبیین ہوں کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔

2۔ امام احمد "مسند" اور طبرانی "معجم کبیر" اور ضیائے مقدسی "صحیح مختارہ" میں حذیفہ سے راوی رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:

يَكُونُ فِیْ اُمَّتِیْ كَذَّابُوْنَ وَدَجَّالُوْنَ سَبْعَةً وَّعِشْرُونَ مِنْهُمْ اَرْبَعَةٌ نِسْوَةٌ وَاَنِّیْ خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ9
میری امت دعوت میں ستائیس دجال کذاب ہونگے ان میں چار عورتیں ہوں گی حالانکہ بیشک میں خاتم النبیین ہوں کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں

مذکورہ احادیث میں نئے ”نبی“ کی نفی کی گئی ہے رسول کی نہیں، تو کیا نیا "رسول" آسکتا ہے؟ جواب آنے والی حدیث میں ہے:

3۔ احمد وترمذی وحاکم بسند صحیح بر شرط صحیح مسلم حضرت انس سے راوی کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:

اِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدِ انْقَطَعَتْ فَلَا رَسُوْلَ بَعْدِیْ وَلَا نَبِیَّ 10
بیشک رسالت ونبوت ختم ہو گئی اب میرے بعد نہ کوئی رسول ہے نہ نبی۔

عقیدۂ ختم نبوت اور سوادِ اعظم:

الحمد للہ گزشتہ صفحات میں گزرا کہ حضرات صحابہ کرام اور تابعین کا ختم نبوت پر اجماع تھا۔ اسی طرح تبع تابعین اور ان کے بعد سے لے کر آج تک امت مرحومہ کا یہ متفقہ اور اجماعی عقیدہ رہا ہے۔ تفصیل کے لیے فتاویٰ رضویہ، ج 15 کا مطالعہ کیجیے۔

عقیدۂ ختم نبوت اور عقل صحیح:

گزشتہ سطور میں یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو چکی ہے کہ "عقیدۂ ختم نبوت" ضروریات دین سے ہے، جس کے لیے دلیل کی ضرورت بھی نہیں ہوتی، اہل ایمان کے لیے یہی کافی ہے کہ یہ عقیدہ "ضروریات دین" سے ہے اور بس۔ یہاں عقلی دلائل ذکر کرنے کا مقصد ہر گز یہ نہیں ہے کہ خدا نخواستہ "عقیدۂ ختم نبوت" کو ثابت کرنے کے لیے دوسرے دلائل نہیں ہیں یا کمزور ہیں، اسی لیے عقل کا سہارا لیا جا رہا ہے، بلکہ بتانا یہ مقصود ہے کہ "عقیدۂ ختم نبوت" جس طرح قرآن، سنت اور سواد اعظم سے ثابت ہے، اسی طرح "عقل صحیح" بھی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ آپ ﷺ کے دنیا میں مبعوث ہو جانے کے بعد رہتی دنیا تک کسی نئے نبی یا رسول کی ضرورت نہ ہو۔ کیسے؟

قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حالات جن میں حضرات انبیاء کو بھیجا گیا وہ چار قسم کے تھے:

پہلی قسم:

کسی قوم میں نہ تو کوئی نبی مبعوث کیا گیا ہو اور نہ کسی نبی کی تعلیم ان لوگوں تک پہنچی ہو۔

دوسری قسم:

کسی گروہ انسانی تک نبی تو بھیجا گیا لیکن اس کی لائی ہوئی شریعت میں تحریف ہو گئی اور نیا نبی نئی شریعت لے کر تشریف لایا ہو۔ جیسے بنی اسرائیل نے شریعت موسوی میں تحریف کر دی تھی، تو حضرت عیسیٰ روح اللہ نئی شریعت لے کر ان میں تشریف لائے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

مِنَ الَّذِينَ هَادُوا يُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ وَيَقُولُوْنَ سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَاسْمَعْ غَيْرَ مُسْمَعٍ وَّرَاعِنَا لَيًّا بِاَلْسِنَتِهِمْ وَطَعْنًا فِی الدِّينِ11
"کچھ یہودی کلاموں کو ان کی جگہ سے پھیرتے ہیں اور کہتے ہیں: ہم نے سنا اور نہ مانا اور سنیے آپ سنائے نہ جائیں اور "رَاعِنَا" کہتے ہیں زبانیں پھیر کر اور دین میں طعنہ کے لیے۔"

تیسری قسم:

گزشتہ نبی کی تعلیمات انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں پر حاوی نہ تھیں تو پچھلی شریعت کی تکمیل کے لیے نیا نبی مبعوث کیا گیا۔

چوتھی قسم:

کبھی ایک نبی کی زندگی ہی میں اِن کی ذمہ داریوں میں ہاتھ بٹانے کے لیے دوسرا نبی بھیجا گیا۔ مثلاً حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ۔

اب اگر ان حالات میں غور کریں کہ آج ان حالات میں سے کون سی حالت پائی جاتی ہے؟ تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ الحمد للہ آج مذکورہ حالات میں سے کوئی حالت نہیں پائی جاتی:

ا۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے لائے ہوئے "دین اسلام" کا پیغام کرۂ ارضی کے گوشے گوشے میں پہنچ چکا ہے۔

2۔ آپ ﷺ کی لائی ہوئی شریعت انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیے ہوئے ہے، اس میں حیات انسانی کے کسی شعبہ کو بھی نظر انداز نہیں کیا گیا۔

3۔ آپ ﷺ پر نازل کر دہ کتاب قرآن کریم آج بھی بحمد اللہ تعالیٰ اسی طرح صحیح سلامت بغیر کسی کمی بیشی کے ہمارے پاس ہے جس طرح نبی اکرم ﷺ پر نازل کیا گیا تھا۔ تقریباً دو ہزار گیارہ سال کا عرصہ گزرا لیکن انجیل کے کسی ایک متن پر اتفاق نہ ہو سکا جبکہ مسلمانوں کے اگر چہ کئی فرقے ہوئے جن میں اختلاف بھی رہا لیکن قرآن کریم پر سب کا ایمان ایک ہی رہا۔ اس میں حروف تو کیا زیر وزبر کی تبدیلی بھی نہ آئی، اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ قیامت تک کے لیے یہی ایک کتابِ ہدایت ہے اور کیوں نہ ہو کہ اس کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود لیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے:

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهُ لَحٰفِظُوْنَ 12
"بیشک ہم نے اتارا ہے یہ قرآن اور بیشک ہم خود اس کے نگہبان ہیں۔"


  • 1 الاحزاب: 33/ 36
  • 2 الحشر: 59/7
  • 3 اعراف: 7/ 158
  • 4 انبیاء: 21/ 107
  • 5 الاحزاب: 33/ 40
  • 6 سبا: 34/ 28
  • 7 فتاویٰ رضویہ، ج :14، ص :337
  • 8 جامع ترمذی، ابواب الفتن، باب ما جاء لا تقوم الساعۃ حتی لا یخرج کذابون، امین کمپنی دہلی، 2/45
  • 9 المعجم الکبیر للطبرانی، ترجمہ حذیفہ ﷜، حدیث: 3026، مکتبہ فیصلیہ بیروت، 3/51
  • 10 جامع الترمذی، ابواب الرؤیا، باب ذھبت النبوۃ الخ، امین کمپنی کتب خانہ رشیدیہ دہلی، 2/51
  • 11 سورۂ نساء: 4/44-46
  • 12 سورۂ حجر، 9/15

Powered by Netsol Online