Khatam e Nabuwat

عقیدہ ختم نبوت از مفتی اعظم ہند

بسم الله الرحمن الرحيم

نحمدہ ونصلى على رسولہ الكريم

نئی روشنی کے دل دادوں اور اس ظاہری ترقی کے عاشقوں کے طور پر، زمانۂ حال میں جہاں یورپ، امریکہ اور جاپان وغیرہ نے نمایاں دنیوی ترقیاں کیں، کسی نے قسم قسم کے آلے نکال کر اگر لوگوں کو محو حیرت کیا تو کسی نے عجیب عجیب مشینیں ایجاد کر کے، خصوصاً اس جنگ کے زمانے میں جرمن کے حیرت افزا شعبدوں اور سحر انگیز کرشموں نے تو چھوٹے سے بڑے تک سب کو متحیر بنا دیا۔ یہی نہیں کہ اس کی ان شعبدہ بازیوں سے ہمارے ہندوستان والے ہی محو حیرت واستعجاب ہوں، بلکہ وہ یورپین وامریکن ترقی یافتہ بھی انگشت حیرت درد ہان ہیں جنہوں نے اپنی ایجادات سے لوگوں کو متعجب کر دیا تھا۔

ہمارے ہندوستانیوں نے بھی خیال کیا کہ لاؤ بہتی گنگا ہے ہم بھی ہاتھ دھو لیں، مذہب کو خیر باد کہہ کر یورپ کی اندھی تقلید کی اور دنیوی ترقی کے درپے ہو لیے، اور ہمارے ہم ملک ہندوؤں نے بھی اپنی چلتی ترقی کرنے میں بہت کچھ کوشش کی، اور اگر چہ وہ یورپ کی سی ترقی نہ کر سکے، مگر پھر بھی وہ اپنے ہم وطن دیگر اقوام سے دنیوی بازی لے گئے اور صنعت وحرفت وتجارت وغیرہ میں بہت آگے بڑھ گئے۔ مگر اس لیے کہ انہوں نے اپنا مذہب چھوڑا اور دنیا کو لیا۔ چونکہ ان کے مذاہب چھوڑ ہی دینے کے تھے (اگر چہ انہیں دین حق کی تلاش اور پابندی کرنی تھی جو انہوں نے نہ کی) ان کی طرف دنیا بڑھی اور انہیں مل گئی۔

مگر ہمارے مسلمان جنہوں نے ان کی دیکھا دیکھی دنیا اختیار کی اور مذہب کو پیٹھ دی انہیں دنیا بھی نہ ملی اور دین سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ ع

نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم

نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے

کاش ان کی آنکھیں اب بھی کھلتیں اور وہ سمجھتے کہ یہ مذہب حق سے رو گردانی کا نتیجہ ہے، یا اتنا ہی سمجھ لیتے کہ ہم جسے ترقی سمجھ رہے ہیں وہ حقیقۃً تنزل ہے۔ مگر سخت افسوس تو یہ ہے کہ وہ اس تنزل کو ترقی سمجھے ہوئے ہیں، اور ترقی معکوس کے طالب ہیں۔ آہ! اسی لیے مسلمانوں کی حالت روز بروز ابتر ہوتی جاتی ہے، وہ اپنے پاک اور مقدس مذہب پر مضبوطی سے قائم رہتے اور دین حق کے مبارک سایہ میں رہ کر دنیا کماتے تو ان کی یہ بری حالت کیوں ہوتی، ان کا افلاس اور ان کی ہلاکت کا باعث ان کا اپنا کیا ہوا فعل ہے، وہ کیا؟ وہ یہی مذہب کو پشت نمائی۔

الله عزوجل فرماتا ہے:

اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ1
بے شک اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلیں۔

پھر وہ جن کے پاس یہ دھوکے کی ٹٹی بھی نہ تھی، یعنی آج کل کے اسباب ترقی دنیوی، انہوں نے کہا ہم کیوں خاموش رہیں۔ لوگوں نے دنیوی ترقیاں کیں اور نئی نئی ایجادیں ہوئیں ہم میں یہ کمی ہے کہ دنیوی کوئی شی ایجاد نہیں کر سکتے تو دین میں تو اختراع کر سکتے ہیں۔ اب کیا تھا نئے نئے مذاہب کی مشینریاں کھل گئیں، روزانہ نئے نئے دین پیدا ہونے لگے۔ کوئی اہل قرآن بنتا ہے، کہتا ہے حدیث کوئی چیز نہیں۔ کوئی اہل حدیث بنتا ہے، کہتا ہے ائمہ کوئی چیز نہیں، ان کی تقلید ہم پر فرض نہیں، تقلید حرام ہے۔ حالانکہ خود قرآن عظیم میں باوجود اس کے کہ فرمایا:

تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَیْءٍ2
اس قرآن میں ہر چیز کا کھلا بیان ہے۔

یہ بھی فرمایا:

وَمَا يَعْقِلُهَا اِلَّا الْعٰلِمُوْنَ3
اسے نہیں سمجھتے مگر علما۔

یوں ہی فرمایا:

فَسْئَلُوْا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ4
علما سے دریافت کرو اگر تم نہ جانتے ہو۔

پھر علما کہاں سے کہتے ہیں۔ وہ خود قرآن عظیم کے رموز ونکات سمجھنے پر قدرت نہیں رکھتے، اسی لیے خود قرآن عظیم میں ارشاد فرمایا:

وَاَنْزَلْنَا اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ5
ہم نے یہ کتاب کریم آپ کی طرف اس لیے اتاری کہ آپ لوگوں سے اسے بیان فرما دیں جو چیز ان کے لیے اتاری گئی۔

حضرت عمر فاروق عادل واعظم کا ارشاد ہے کہ کچھ لوگ قریب قیامت زمانہ میں ہوں گے، وہ تم سے قرآن کریم کے مشتبہ کلمات کریمہ میں نزاع کریں گے، تمہیں چاہیے کہ تم ان پر حدیثوں سے گرفت کرو۔

"فان اصحاب السنن اعلم بكتاب الله۔"6
اس لیے کہ حدیث جاننے والے قرآن عظیم کو خوب جانتے ہیں۔

قرآن عظیم میں ارشاد ہوا:

يُضِلُّ بِهٖ كَثِيْراً وَّ يَهْدِي بِهٖ كَثِيراً 7
اسی قرآن سے بہیترے گمراہ ہوتے ہیں اور بہیترے سیدھی راہ پاتے ہیں۔

تو ظاہر ہوا جو یہ کہے کہ حدیث کوئی چیز نہیں، ہم تو جو قرآن میں ہے وہی مانیں گے۔ وہ گمراہ وبد دین ہے۔ یوں ہی وہ جو کہے کہ ہم تو صرف حدیث ہی پر عمل کریں گے، ہمیں ائمہ سے کیا غرض وہ قرآن عظیم کا مخالف اور گمراہ ہے، خیر ہم کہاں سے کہاں ہو رہے۔ ہاں کہنا یہ ہے کہ روزانہ مذہب حق کے دشمن مذہب میں شاخسانے نکالتے اور طرح طرح کے فتنے برپا کرتے ہیں، اور اس کا اصل باعث وہی ہوس دنیا اور جاہ وشہرت طلبی ہے، کوئی ائمہ کو گالیاں دیتا ہے۔ کوئی صحابہ کو برا کہتا ہے۔ کوئی اور اونچا اڑا تو انبیا تک پہنچا۔ انہیں چوڑھا چمار کہا۔ اور بعض نے اور زیادہ ترقی کی تو حضرت سید الانبیا ﷺ کو بھی نہ چھوڑا۔

حضور ﷺ کے میلاد کو کنہیا کا جنم کہا۔ حضور کے علم عظیم کو شیطان کے علم سے کم کہا۔ کسی نے کہا: انہیں تو دیوار کے پیچھے کا بھی علم نہیں، اپنے خاتمہ کی بھی خبر نہیں۔ حضور کا علم غیب تو ایسا ہے جیسے زید وعمر وصبی ومجنون سب حیوانات وبہائم کا۔ پھر اور ترقی کی تو اب حضرت عزت تک نوبت پہنچائی اور اس پاک قدوس کی شان گھٹانا چاہی بعض نے اس کا جھوٹا ہونا ممکن ٹھہرایا۔ بعض نے اس سے زیادہ ترقی کی کہ اسے کاذب بالفعل مانا، یعنی خدا اس عیب سے (معاذ اللہ) ملوث ہو چکا۔ پھر ایک یہی نہیں، جتنے عیوب ہیں: زنا کاری، شراب خوری، چوری وغیره وغیره سب وہ کر سکتا ہے۔ اب کچھ وہ تھے جنہوں نے کہا: لاؤ سیدھے نبوت ہی کے مدعی بنو، بہیترے ہمارے دام تزویر میں پھنس جائیں گے، مگر یکا یک نہیں، یوں پھنسنا ذرا دشوار ہوگا، پہلے اس کی تمہید اٹھاؤ، یعنی ختم نبوت کا انکار، اور قرآن عظیم میں جو خاتم النبیین صاف فرمایا گیا ہے اس کی تاویلیں کرو۔ سب میں پہلے اس کی کوشش اسماعیل دہلوی نے کی کہ کہا:

"خدا تو قادر ہے کہ ایک آن میں محمد جیسے کروڑوں پیدا کر ڈالے۔"

مگر اسے ادعائے نبوت کا وقت نہ ملا۔ پھر اس کی اس ناپاک کوشش سے قاسم علی نانوتوی نے فائدہ اٹھانا چاہا اور تحذیر الناس خاص اسی بارے میں تصنیف کی، مگر وقت کی بات کہ وہ بھی اس کا وقت نہ پا سکا اور قبل اس کے کہ وہ دعویٰ نبوت کرے دنیا سے اٹھ گیا۔ پھر ان دونوں کے کیے سے قادیانی نے فائدہ اٹھایا اور بڑے شد ومد سے دعویٰ نبوت ومسیحیت کیا۔ اور ایک قادیانی ہی نے کیا اکثر کو ان کی ان بے ہودہ کوششوں سے اپنے ناپاک مقصد میں مدد ملی، گھر گھر نبوت کے دعوے ہونے لگے، مسموع ہوا ہے کہ اب بھی کوئی احمد الزماں نامی مدعی نبوت ہے، آج ہمدم ۲۸ اکتوبر 19۔۔ء ہمارے سامنے ہے، اس کے مراسلات میں ایک حیدر آبادی صاحب نے ایک اور مجہول منکر ختم نبوت کا بے سروپا مضمون شائع کرایا ہے اور اس کے رد کی استدعا کی ہے، اول ہم تحقیق مسئلہ کریں پھر مجہول صاحب کے جنون کا علاج۔

ہم ابھی تمہید میں وہ نفیس ترتیب جو قرآن کریم نے ارشاد فرمائی بیان کر چکے کہ عامۃ المسلمین کو علما سے دریافت کا حکم ہے، اور علما کو نبی کریم ﷺ کی احادیث طیبہ سے، اور حضور کو قرآن عظیم سے۔ اسی لیے اسلام میں کسی مسئلہ کے ثبوت کے لیے چار صورتیں ہیں کہ یا تو وہ کتاب سے ثابت ہوگا۔ اور کتاب (قرآن عظیم) میں اس کا حکم نہ ملے تو سنت اور حدیث ہے۔ اور اس میں بھی نہ ہو تو اجماع امت سے کہ حضور کا ارشاد ہے:

لا تجتمع امتی علی الضلالة8

اور فرماتے ہیں ﷺ۔

اتبعو السواد الاعظم 9
سواد اعظم کی اتباع کرو۔

اس کے بعد چوتھا درجہ قیاس ائمہ مجتہدین ہے۔ یہ مسئلہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ کتاب کریم وسنت حبیب ﷺ واجماع امت سب سے ثابت ہے۔ انصاف یہ ہے کہ اس میں ذرا بھی خلاف کی گنجائش نہ تھی مگر شہرت طلبی اور دنیا کی حرص وہوس کا برا ہو، یہ اندھا کر دیتی ہے اور یہ کہ جس سے خدا دین لیتا ہے اس کی عقل وحیا پہلے چھین لیتا ہے۔

ایک واقعہ مشہور ہے کہ ایک شخص مکہ معظمہ پہنچا، وہاں اس کو خیال ہوا کہ میں یہاں آیا، نہ میں کسی کو جانتا ہوں نہ کوئی مجھے پہچانتا ہے، کوئی ایسی بات کروں جس سے شہرت ہو، اور تو اسے کوئی ذریعہ شہرت نہ مل سکا اس نے زمزم شریف میں پیشاب کر دیا، لوگوں نے اسے گرفتار کر لیا اور یہ خبر عام ہو گئی، تمام شہر کے لوگ اسے دیکھنے آئے، سزا دیتے وقت اس کی اس ناپاک حرکت کی وجہ دریافت کی گئی تو اس نے یہی کہا: میں یہاں آیا، نہ کوئی مجھے جانتا، نہ میں کسی کو پہچانتا تھا، اب مجھ سے سب واقف ہو گئے اور میں مشہور ہو گیا۔ بھلا جس کا سد باب خود خدائے کریم عزوجل نے کیا ہو اسے کون بھول سکتا ہے، جس پر الٰہی مہربان ہو اسے کون توڑ سکتا ہے۔

يُرِيْدُوْنَ لِيُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَاللّٰهُ مُتِمُّ نُوْرِهٖ وَلَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ10

اس مسئلہ کا انکار کرنا آفتاب کا انکار کرنا ہے، اور قد تنکر العین من رمد کا مصداق بننا اور چاند پر خاک ڈالنے کا حاصل اپنی آنکھوں اپنے منھ میں خاک بھرنا ہے، جب حضرت زید نے (جنہیں حضور پرنور سید عالم ﷺ نے متبنی فرمایا تھا) حضرت زینب بنت جحش کو طلاق دے دی اور اللہ عزوجل نے اپنے محبوب ﷺ کا نکاح حضرت زینب سے عرش پر فرما دیا تو کفار عرب معترض ہوئے کہ:

ان محمدا (ﷺ) تزوج حلیلة ابنه11
حضور نے اپنے بیٹے کی بی بی سے نکاح کر لیا۔

، اس پر آیت کریمہ نازل ہوئی:

مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّيْنَ12
محمد ﷺ تمہارے مردوں سے کسی کے باپ نہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے رسول اور خاتم النبیین ﷺ۔

قرآن عظیم کے لطائف ملاحظہ ہوں، جواب تو اتنا ہو گیا تھا کہ وہ تم میں سے کسی کے باپ نہیں۔ اب اس کے آگے: لیکن اللہ تعالیٰ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔ کیا ہی نفیس ولطیف ومقدس کلام ہے، اور کیوں نہ ہو کہ کلام الملوک ملوک الکلام مشہور ہے، پھر یہ تو ملک الملوک عز جلالہ کا کلام بلاغت نظام ہے اور اسے اپنے محبوب ﷺ کے وقار وعزت وشان کا اہتمام ہے، اگر اتنا ہی فرما دیا جاتا کہ وہ تم میں سے کسی کے باپ نہیں، تو بعض لوگوں کو وہم ہو سکتا تھا کہ جب حضور باپ نہیں تو بھائی ہوں گے کہ:

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ اِخْوَةٌ13

فرمایا گیا ہے۔ اور بھائی کا مرتبہ ظاہر ہے کہ باپ کے بعد ہے، اس وہم کے دفع کے لیے ارشاد ہوا: (ولكن رسول اللّٰہ) لیکن اللہ کے رسول ہیں۔ اور ہر رسول اپنی امت کا باعتبار شفقت ورحمت اور اس لحاظ سے کہ امت پر اس کی تعظیم وتوقیر فرض ہے، اور اس اعتبار سے کہ ناصح ہے، باپ ہوتا ہے، بلکہ باپ سے بھی زیادہ کہ یہ امت کی حیات ابدیہ کا سبب ہوتا ہے، بخلاف باپ۔ اسی لیے ارشاد فرمایا:

النبى اولي بالمؤمنين من انفسهم۔ حقیقۃً باپ نہ سہی مگر باپ کے جو کام ہیں وہ اور ان سے بڑھ کر رسول کے ذمہ ہوتے ہیں۔

امام علامہ فخر الدین رازی تفسیر کبیر میں اسی آیت کریمہ کے تحت میں فرماتے ہیں:

فان رسول الله كالاب للامة فی الشفقة من جانبه، وفی التعظیم من طرفهم بل اقوي، فان النبی اولي بالمؤمنين من انفسهم والاب ليس كذلك 14

علامہ ابو السعود ربہ الودود "ارشاد العقل السلیم" میں ارشاد فرماتے ہیں:

اى كان رسولا لله، وكل رسول ابو امته لكن لا حقيقة بل بمعنى انه شفيق ناصح لهم، وسبب لحياتهم الابدیة15

"تفسیر مدارک التنزیل" امام ابو البرکات نسفی اور "تفسیر خازن" علامہ علاؤ الدین علی بن محمد بن ابراہیم بغدادی الباری میں ہے:

"كل رسول هو ابو امته فيما يرجع الي وجوب التوقير والتعظيم له عليهم، ووجوب الشفقة والنصيحة لهم عليه
16

آگے ارشاد ہوتا ہے: و خاتم النبیین اور سب انبیا کے خاتم۔

کلام میں حشو وزوائد ہونا سخت عیب ہے، اللہ عزوجل کا کلام مقدس اس عیب اور ہر عیب سے پاک ومنزہ ہے، یہ مسلمان کا ایمان ہے، تو ظاہر کہ اس نفیس کلام کا ہر ہر حرف مفید مطلب ہے۔ یہاں یہ فرمانا یہ بتاتا ہے کہ یوں تو ہر رسول اپنی امت کے حق میں رحمت ہے مگر آپ عین رحمت ہیں، اسی لیے ارشاد ہوا:

وَمَا اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ 17
اے پیارے محبوب ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت تمام عالموں کے لیے۔

اور اس فرق کی وجہ ظاہر ہے کہ یہ خاتم النبیین ہیں ﷺ۔ وہ نبی جس کے بعد اور بھی نبی آنے والا ہو اگر اس سے کوئی بات رہ جاتی ہے تو وہ آنے والا نبی اسے پورا فرما دیتا ہے، اور یہ تو ایسے ہیں کہ ان کے بعد کوئی اور نبی آنے والا نہیں، تو انہیں جس قدر اپنی امت کا خیال ہوگا ظاہر ہے۔ تجربہ شاہد ہے کہ وہ شخص جس کے اعزا بہ کثرت ہوں وہ اپنی اولاد پر اتنا شفیق نہیں ہوتا جتنا ایک ایسا شخص جس کا کوئی عزیز نہ ہو، وہ سمجھتا ہے کہ ان کی بات پوچھنے والا، ان پر نظر شفقت ومحبت کرنے والا، ان پر ترس کھانے والا، ان کی نگہداشت کرنے والا، ان کو ہر بری بات سے روکنے والا، اور اچھی باتوں کی ترغیب دینے والا، اگر کوئی ہے تو میں ہوں۔ وہ جانتا ہے کہ اگر میں ان کا خیال نہ کروں گا تو اور کون ان کا ہمدرد ہے جو ان کا حال سنے گا، ان کی بات پوچھے گا۔

گویا ارشاد ہوتا ہے: کہ اے ایمان والو! تمہارا مولی، تمہارا والی، درد کا درماں، تمہاری بات کا سننے والا، مونسوں کا مونس، بے یاروں کا یار، بے مدد گاروں کا مددگار تمہاری مدد فرمانے والا، تمہیں غم سے چھڑانے والا، تمہیں ہر بری بات سے روکنے والا، نیکیوں کی ترغیب دینے والا، تمہیں نجات ابدی دلانے والا، تمہیں کتاب وحکمت سکھانے والا، تمہیں ہدایت کرنے والا، تمہارے نفوس کا تزکیہ کرنے والا، داد کا دینے والا، فریاد کا سننے والا، یہی ہمارا محبوب ہے ﷺ۔ پھر اس کے بعد کوئی اور نبی آنے والا نہیں، جو تمہاری بات سنے، تمہارے زخم دل پر مرہم دھرے، ہم اس کی جتنی عزت وتوقیر وقدر کریں کم ہے۔

حضرت امام فخر الدین رازی اپنی تفسیر کبیر میں فرماتے ہیں:

ثم بين ما يفيد زيادة الشفقة من جانبه والتعظيم من جهتهم بقوله: (وخاتم النبيين) وذلك لان النبی الذي يكون بعده نبي ان ترك شيئا من النصيحة والبيان يستدركه من ياتي بعده، واما من لا نبي بعده يكون اشفق على امته واهدي لهم واجدي، اذهو كوالد لولده الذي ليس له غيره من احد

ہر مسلمان کا ایمان ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جو فضائل اور خوبیاں اور تمام انبیا کو عطا فرمائیں وہ سب اپنے محبوب میں جمع فرما دیں اور ان سے بہت زیادہ عطا ہوئیں۔

حسن یوسف دم عیسیٰ ید بیضا داری

آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری

پھر یہی نہیں کہ وہ فضائل وکمالات جو اور انبیائے کرام کو عنایت ہوئے بعینہا ویسے ہی حضور کو بخشے گئے، نہیں نہیں جو خوبی جسے عطا ہوئی وہ بدرجہ اتم حضور کو عنایت ہوئی، مثلاً حسن کہ حضرت يوسف ﷤ کو عطا ہوا، حضور کو اس سے بڑھ کر عنایت ہوا۔ خود نبی کریم ﷺ سے مروی ہے:

كان اخي یوسف اصبح وانا املح18
میرے بھائی یوسف خوب گورے تھے اور میرا حسن کمال نمکین ہے۔

اور صباحت وملاحت میں جو فرق ہے ظاہر ہے۔

قال شيخنا المجدد: متع الله المسلمين بطول بقائه (رضی الله تعالى عنه)

حسن یوسف پہ کٹیں مصر میں انگشت زناں

سر کٹاتے ہیں ترے نام پہ مردان عرب

وفی هذا المعنى قال العم:19علیہ رحمۃ ربہ الاكرم

پیش یوسف ہاتھ کاٹے ہیں زنانِ مصر نے

تیری خاطر سر کٹا بیٹھے فدایان جمال

دوسری حدیث میں ارشاد فرمایا:

قد رایت يوسف فاذا هو قد اعطي شطر الحسن 20
ہم نے یوسف کو دیکھا ہمارے حسن کریم سے ایک حصہ ان کو عطا ہوا۔

انبیائے کرام ہدایت ہی کے لیے مبعوث فرمائے جاتے ہیں، اور یہ ان کے اعلیٰ درجہ کے کمالات سے ہے، تو ظاہر ہے کہ تمام کمالات کی طرح حضور پر نور ﷺ کو یہ کمال بھی بدرجہ اتم اور سب سے اعلیٰ واعظم عنایت ہوا۔ اور اس کا درجہ اتم یہی ہے کہ حضور کی ہدایت کے بعد پھر کسی کی ہدایت کی حاجت نہ ہو، اور شک نہیں کہ دوسرا نبی یا تکمیل کو آتا ہے، یا اگر کتاب وشریعت تبدیل ہو گئی اس کی تبدیل کے لیے، اور یہاں یہ دونوں باتیں نہیں، نہ تو حضور سے کوئی بات رہی کہ حضور کو ہدایت کا درجہ اتم عنایت ہو، اور نہ تبدیل ممکن کہ حضور کو جو کتاب کریم عطا ہوئی حضور کا چاہنے والا خدا اس کی حفاظت کا خود وعدہ فرماتا ہے:

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهُ لَحٰفِظُونَ
21
ہم نے یہ کتاب اتاری اور ہم خود اس کی حفاظت فرمانے والے ہیں۔
هذا ما سنح لي بفيض الملك المنعام۔ والعلم بالحق عند ربی العلام، خذه فانه من سوائح المقام، القاه الله ذو الجلال والاكرام فی قلب العبد المستهام، ارشدني وهداني الى هذا المرام
لفظ "اهدى" الواقع فی العبارة المارة الآن للامام فخر الدين الرازي عليه رحمة الباري"

اگلے صحف وکتب انبیا بھی اس بارے میں قرآن کریم کے ہم نوا ہیں، جب حضرت موسیٰ پر توریت شریف نازل ہوئی، اس میں اس امت کی تعریف دیکھی، اس پر انہوں نے اپنے رب سے عرض کی:

"يا رب انی اجد فی الالواح امة هم الآخرون السابقون فاجعلها امتي"

اے میرے رب! میں ان الواح میں ایک امت پاتا ہوں کہ وہ باعتبار زمانہ سب سے آخر ہے اور مرتبہ کے لحاظ سے سب پر مقدم، وہ امت میری امت فرما۔ ارشاد ہوا:

تلك امة احمد
وہ امت تو احمد ﷺ کی ہے۔

رواه ابو نعيم عن ابی هريرة22

صحف ابراہیم میں ارشاد ہوا: تمہاری اولاد قبائل در قبائل ہوگی، یہاں تک کہ نبی کریم امی خاتم الانبیا جلوہ فرما ہوں۔

رواه ابن سعد عن عامر الشعبی 23

حضرت یعقوب سے ارشاد ہوا: میں تمہاری اولاد سے سلاطین وانبیا بھیجتا رہوں گا۔

حتى ابعث النبی الحزمی الذی تبنى امته هيكل بيت المقدس وهو خاتم الانبياء واسمه احمد 24
یہاں تک کہ بھیجوں وہ نبی حرمی جس کی امت بیت المقدس کی تعمیر کرائے گی، وہ تمام نبیوں کا خاتم، اور اس کا نام احمد ہےﷺ۔

ان دونوں حدیثوں نے بھی یہی فائدہ دیا کہ حضور خاتم الانبیا ہیں، حضور کی امت سب سے آخری امت ہے، اب آگے اور کوئی نبی نہ آئے گا کہ "حتی" انتہائے غایت کے لیے آتا ہے۔ صاف یہی معنی ہیں کہ میں نبی بھیجتا رہوں گا یہاں تک کہ حضور جلوہ فرما ہوں، یعنی حضور کے بعد کوئی نبی نہ ہوگا، وہ تمام نبیوں کے خاتم ہیں، پھر اور وضاحت فرما دی کہ ان کا نام نامی احمد ہے ﷺ۔

حضرت آدم کا قصہ مشہور ہے کہ جب آپ نے بھول کر گیہوں کھا لیا تو ارشاد ہوا:

وَلَكُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلَى حِيْن 25
اتر جاؤ کہ زمین ایک وقت تک تمہارا مستقر اور اس میں ایک میعاد تک تمہاری پونجی ہے۔

اور یہ اترتے ہیں، تین سو برس تک توبہ فرماتے ہیں، روتے ہیں، مگر رحمت الٰہی بظاہر متوجہ نہیں ہوتی آخر انہیں خیال آتا ہے کہ جب میں پیدا فرمایا گیا تھا تو میں نے ساق عرش پر لکھا دیکھا تھا: "لا اله الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ" محمد بہت ذی مرتبہ ہیں اور خدا کو نہایت عزیز۔ جب تو ان کا نام نامی اسم گرامی سے ملا کر لکھا ہے، انہیں کو اپنی بخشش کا وسیلہ بنانا چاہیے، کیا عجب رحمت الٰہی متوجہ ہو، انہوں نے عرض کی:

يا رب اسئلك بحق محمد ان غفرت لی 26
یعنی الٰہی میں تجھے محمد ﷺ کا وسیلہ دے کر سوال کرتا ہوں کہ میری مغفرت فرما۔

جواب میں فرمایا: تم نے محمد کو کیسے جانا میں نے ابھی اسے پیدا نہیں فرمایا؟ عرض کی: میں نے اپنی پیدائش کے وقت ساق عرش پر لکھا دیکھا تھا، ارشاد ہوا:

صدقت یا آدم27
اے آدم تم نے سچ کہا۔ بے شک وہ مجھے تمام جہان سے پیارا ہے، تم نے اسے وسیلہ بنا کر، اس کا واسطہ دے کر بخشش چاہی تو میں نے تمہاری مغفرت فرمائی، اگر محمد نہ ہوتا تو میں نہ تمہیں بناتا، نہ آسمان زمین پیدا کرتا۔
وهو آخر الانبياء من ذريتك 28
یعنی وہ تیری اولاد میں سب سے پچھلا نبی ہے ﷺ۔

خود حضور ﷺ نے احادیث متواترہ میں صراحۃً ارشاد فرمایا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ مثلاً فرماتے ہیں ﷺ۔

انا العاقب الذي ليس بعده نبی 29
میں عاقب اور عاقب وہ کہ جس کے بعد کوئی نبی نہیں۔

اور فرماتے ہیں۔

انا المقفي قفيت النبيين عامة وانا قثم 30

نیز ارشاد فرماتے ہیں:

لو كان بعدي نبى لكان عمر 31
میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتے۔

حضرت علی سے فرماتے ہیں:

انت منى بمنزلة هارون من موسي، الا ان لا یكون بعدي نبی32
تم میری بارگاہ میں وہ منزلت رکھتے ہو جو ہارون کو موسیٰ کی بارگاہ میں تھی مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں۔

نیز ارشاد ہوتا ہے:

انهما بعثت فاتحا وخاتما 33
میں مبعوث فرمایا گیا دریائے رحمت کھولتا اور نبوت ورسالت ختم کرتا ہوا۔

عبد بن حمید امام حسن سے راوی:

ختم الله النبيين بمحمد ﷺ وكان آخر من بعث34
الله عزوجل نے محمد ﷺ سے نبیوں کو ختم فرمایا اور حضور سب سے پچھلے نبی ہوئے۔

خازن میں فرمایا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس فرماتے ہیں۔

يريد لو لم اختم به النبیین لجعلت له ابنا یكون بعده نبیا یعنی خاتم النبیین 35
یہ مراد ہے کہ اگر میں ان پر نبیوں کا سلسلہ ختم نہ کرتا تو ان کے لیے ایک بیٹا دیتا جو ان کے بعد نبی ہوتا۔

فرمایا اس سے اللہ عزوجل کی یہ مراد ہے کہ میں اگر ان سے نبیوں کو ختم نہ فرماتا تو انہیں بیٹا عطا کرتا کہ وہ ان کے بعد نبی ہوتا، حضرت عبد اللہ فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضور کے خاتم النبیین ہونے کا حکم فرمایا، اسی لیے کوئی لڑکا ایسا کہ وہ بالغ ہو کر مرد ہو، نہ دیا۔

یہی چند احادیث نہیں بکثرت احادیث ہیں، جنہیں ہم بخیال طوالت ترک کرتے ہیں، اور یہ ہے کہ منصف کے لیے یہی بس ہیں اور ہٹ دھرم معاند کو اگر سب نقل کر دی جائیں تو بھی مفید نہیں، جس نے کتب احادیث وتاریخ دیکھی ہیں اس پر واضح ہے کہ اکثر یہود ونصاریٰ نے حضور کے خاتم النبیین ہونے کی شہادت دی ہے۔

سعد بن ثابت کہتے ہیں: بنی قریظہ اور بنی نضیر کے علما حضور پر نور ﷺ کی صفت بیان کرتے، جب سرخ ستارہ چمکا تو انہوں نے خبر دی کہ وہ نبی پیدا ہو لیے جن کے بعد کوئی اور نبی نہیں، ان کا نام پاک احمد ہے اور ان کا دار الہجرۃ یثرب (مدینہ طیبہ) ہے۔

نیز حضرت مغیرہ بن شعبہ سے مروی ہوا کہ میں نے اسکندریہ میں ایک قبطی پادری سے جو سب سے بڑا مجتہد تھا، دریافت کیا کہ انبیا سے کوئی نبی باقی رہا، اس نے کہا:

"نعم وهو آخر الانبياء ليس بينه وبين عيسى نبی، قد امر عيسى باتباعه وهو النبی الامی العربی اسمه احمد" ﷺ 36
ہاں اور وہ سب میں پچھلے نبی ہیں، ان کے اور حضرت عیسیٰ کے درمیان کوئی نبی نہیں، عیسیٰ کو ان کے اتباع کا حکم دیا گیا اور وہ نبی امی عربی ہیں، ان کا نام پاک احمد ہے ﷺ۔ اور بہت سے اوصاف وخصائص حضور کے بیان کیے، میں نے یہ سب باتیں خوب یاد رکھیں اور وہاں سے واپس آکر مسلمان ہوا۔

ہشام بن العاص کو جو حضرت ابوبکر صدیق نے اپنی عہد معدلت مہد میں ہرقل نصرانی بادشاہ روم کے یہاں سفیر فرما کر بھیجا اور وہاں جو واقعات پیش آئے، حضرت علامہ جامی قدس سره السامی نے اپنی کتاب مستطاب "شواہد النبوۃ" میں وہ سب تحریر فرمائے ہیں، ہم اتنا ہی یہاں نقل کرتے ہیں جتنا ہمارے موضوع سے متعلق ہے، اگر چہ وہ روایت نہایت دلچسپ ہے مگر ہمیں اختصار مد نظر ہے۔

چوں سہ روز آں جا بودیم مارا در شب طلبیدہ، ہر چہ پرسیده بود باز پرسید، ما نیز جوابہا را اعاده کردیم، بعد ازان چیزے دے طلب داشت، صندوقے چہار گوشہ بزرگ بنداند وده آوردند ودر آں جا خانہائے خرد بسیار بود، بر ہر یک درے وبر ہر درے قفلے یک قفل بہ کشاده قطعہ حریر سیاه بیرون آورده، آں را بکشاد در آں جا صورت مردے بود سرخ رنگ فراخ چشم کشادہ سہرین بدرازی گردن، وے ہرگز کسے راند یده بودیم، ومر اور اریش نبوده، وگیسو داشت بہترین آنچہ خدائے تعالیٰ آفریده است گفت: ایں رامی شناسید؟ گفتیم: نے، گفت: ایں آدم ست۔ صلوات اللہ تعالیٰ علیہ۔ بعد ازاں درسے دیگر بکشاد وقطعہ دیگر حریر سیاه بیرون آورد در انجا صورت مردے سفید زنجیر موے سرخ چشم بزرگ سر محاسن نکو پس گفت: ایں را می شناسید؟ گفتیم نے، گفت: ایں نوح است علیہ السلام (الى ان قال) بعد ازاں درے دیگر بکشاد وقطعہ حریر سیاه بیرون آورده ودر آنجا صورتے سفید بود، چوں نگاه کردیم دیدیم کہ پیغمبر ماست صلی اللہ علیہ وسلم۔ پس گر یہ بر ما افتاد وے بر پاے خاست، وبعد ازاں بہ نشست، پس گفت کہ سو گند بخداے شما کہ ایں پیغمبر شما ست، گفتیم: آرے ایں پیغمبر ماست، گویا کہ حالا وے را می بینیم ساعتے تیز در ما نگریست پس گفت کہ آخر میں خانہائے ایں صندوق ست، لیکن من تعجیل کردم در نمودن وی تا بہ بینم کہ شماچہ می گوئید الخ۔

اللہ اللہ یہ شان ہے کہ اعدا بھی شہادت دے رہے ہیں کہ ہاں یہی وہ عظیم شان والا اللہ کا محبوب نبی ہے کہ جس کے بعد کوئی نبی نہیں، والفضل ما شهدت بہ الاعداء

یہاں سے مخالف عبرت کا سبق لیں کہ یہود ونصاریٰ تو حضور پر نور ﷺ کے آخر انبیا اور خاتم النبیین ہونے کی گواہی دیں اور یہ نام کے مسلمان یہ کچھ بکیں۔

آیات واحادیث تو سن چکے۔ اب اقوال علما سنیے!

علما ارشاد فرماتے ہیں: حضور کی تمام انبیا پر افضلیت اور حضور کی خاتمیت پر اجماع امت ہے تو جو حضور کو افضل نہ مانے، یا تمام انبیا کا خاتم اور سب سے پچھلا ہی نہ جانے، کافر بے دین ہے۔

علامہ سعد الدین تفتازانی "شرح مقاصد" میں فرماتے ہیں:

"يصح انه خاتم الانبياء ولا يبعث بعده نبی، اجمع المسلمون على ان افضل الانبياء محمد ﷺ المبعوث الى الثقلين وخاتم الانبياء والرسل، ومعجزاته الظاهرة الباهرة باقية على وجه الزمان، وشريعته ناسخة لجميع الاديان، وشهادته قائمة فی القيامة على كافة البشر الى غير ذالک من خصائص لا تعد ولا تحصى"37
صحیح ہے کہ وہ خاتم الانبیا ہیں، ان کے بعد کوئی نبی مبعوث نہ ہوگا، مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ تمام انبیا میں افضل حضور ہیں، وہ جن وانس کی طرف مبعوث کیے گئے۔ اور وہ خاتم انبیا ورسل ہیں، ان کے معجزات ظاہر وباہرہ زمانہ پر باقی رہیں گے، ان کی شریعت تمام ادیان کے لیے ناسخ ہے، اور ان کی شہادت قیامت میں تمام انسانوں پر قائم ہوگی، اس کے علاوہ اور بھی بے شمار خصوصیات ہیں۔

ونیز امام فقیہ شیخی زادہ نے "مجمع الانہر" میں فرمایا:

"اما الایمان بسيدنا محمد فيجب بانه رسولنا فی الحال وخاتم الانبياء والرسل، فاذا امن بانه رسول ولم يؤمن بانه خاتم الانبياء لا يكون مؤمنا 38
رہا ہمارے حضور پر نور ﷺ پر ایمان، تو اس طور پر ایمان لانا واجب ہے کہ وہ ہمارے رسول ہیں اور خاتم انبیا ورسل ہیں، جب ان کے رسول ہونے پر ایمان لائے اور ان کے خاتم الانبیا ہونے پر ایمان نہ لائے تو وہ مومن نہ ہوگا۔

امام یوسف شافعی اپنی کتاب "الانوار" میں فرماتے ہیں:

من ادعى النبوة فی زماننا، او صدق مدعيا لها فی زمانه، او من لم يكن نبيا كفر 39
جس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہمارے زمانے میں یا جس نے تصدیق کی ایسے شخص کی جس نے نبوت کا دعویٰ کیا عہد رسالت میں۔ یا ان سے پہلے مگر وہ نبی نہ تھا تو کافر ہو گیا۔

امام غزالی فرماتے ہیں:

لفظ "خاتم النبیین" سے ساری امت مرحومہ نے یہی سمجھا کہ یہ لفظ یہ سمجھاتا ہے کہ حضور پر نور کے بعد کوئی اور نبی یا رسول ابد تک نہ ہوگا، اور یہ کہ اس میں کسی تاویل یا تخصیص کی جگہ نہیں، جو اسے خاص کہے اس کا کلام انواع ہذیان سے ہے، اس کے حکم تکفیر سے کوئی مانع نہیں، اس لیے کہ وہ مکذب ہے اس نص کا جس کے غیر مؤول وغیر مخصوص ہونے پر امت نے اجماع کیا ہے۔

امام حجۃ الاسلام "کتاب الاقتصاد" میں فرماتے ہیں:

"ان الامة فهمت من هذا اللفظ ومن قرائن احواله انه افهم عدم نبی بعده ابدا، او عدم رسول بعده ابدا، وانه ليس فيه تاويل ولا تخصيص، ومن اوله بتخصيص فكلامه من انواع الهذيان لا يمنع الحكم بتكفير، لانه مكذب لهذا النص الذي اجمعت الامة علي انه غير مؤول ولا مخصوص" 40

تفسیر ارشاد العقل السلیم میں ذکر کیا:

"(وخاتم النبیین) اي كان اخرهم الذي ختموا به۔"41

حضور پر نبوت ختم کر دی گئی۔

"مدارک" امام ابو البرکات نسفی میں ہے:

"(خاتم النبیین) بفتح التاء عاصم بمعنى الطابع اي: آخرهم يعني لا نبيا احد بعده۔" 42
امام عاصم کے نزدیک تا کے فتح کے ساتھ ہے مہر کے معنی میں، یعنی تمام انبیا کا آخر۔

خازن میں فرمایا:

"ختم الله بالنبوة فلا نبوة بعده اي: ولا معه۔"43
اللہ تعالیٰ نے حضور پر نبوت ختم کر دی تو نہ ان کے بعد نبوت ہے اور نہ ان کے ساتھ۔

الحمد لله مہر نیم روز کی طرح ظاہر وباہر ہو گیا کہ ہمارے سردار مالک ومختار ﷺ سب سے پچھلے سب سے افضل نبی ہیں، جو اس میں ذرا بھی شک کرے کافر ہے، آیات واحادیث قطعاً اپنے عموم پر ہیں، جن میں اصلاً نہ تاویل کی گنجائش نہ تخصیص کی مجال۔

"هذا وان شئت التفصیل فعلیك بالكتاب الجلیل فی هذا الباب المسمى ب"جزاء الله عدوه بابائه ختم النبوة" لسیدنا الشيخ المجدد دامت بركاتهم العالية۔ والله تعالى اعلم وعلمه جل مجده اتم واحكم۔

مجہول صاحب کی خبر گیری:

1۔ انبیائے کرام ہدایت اور دین حق کی حفاظت ہی کے لیے مبعوث ہوتے ہیں، ان کا اصل کار ہدایت ہی ہے، مجہول صاحب نے نمبر 6۔5۔ میں اس کا اقرار کیا ہے، نمبر 5 میں کہتے ہیں:

"امت موسویہ میں توریت کامل شریعت موجود تھی، پھر بھی کئی رسول حفاظت توریت اور تردید اختلافات کے لیے آتے رہے۔"

نمبر 6 میں بولے:

نبی یا رسول کا اصل کام، اعبدوا الله واجتنبوا الطاغوت ہے، خواہ بذریعہ شریعت سابقہ یا بہ شریعت جدیدہ ہو، یعنی تزکیہ نفوس وتعلم کتاب وحکمت۔

ہم دریافت کرتے ہیں کہ حفاظت توریت کے لیے آئے، اس کے یہ معنی ہیں یا نہیں کہ وہی انہوں نے بھی فرمایا، جو توریت مقدس نے فرمایا، وہی ہدایت کی جو توریت میں تھی، تردید اختلاف کے لیے آئے، یعنی توریت کا خلاف مٹایا اور وہی ہدایت فرمائی جو توریت نے فرمائی تھی۔ تزکیہ نفس کیا شی ہے: "یزکیھم" کے کیا یہ معنی نہیں کہ انہیں پاک فرماتا ہے۔ پاک کا ہے سے فرماتا ہے اسی ہدایت سے۔ تعلیم کتاب وحکمت کے معنی سوائے ہدایت اور کیا ہیں۔ اقرار مرد آزار مرد، مشہور ہے۔ ع

وہ الزام ہم کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا

مجہول صاحب نے چاہا تو یہ کہ الزام دیں، مگر خدا کا دھرا سر پر، نصیبوں سے کسے خبر، یہ کہہ کر اپنی چنائی آپ ہی ڈھائی، اب وہ جتنے مقدمات قائم کیے تھے کہ:

· کیونکہ نبی یا رسول کا کام صرف شریعت لانا، ہدایت لانا نہیں، بلکہ اس کے علاوہ نبوت کے فرائض اور کام ہیں۔

· قرآن کریم: نبوت کی غرض صرف تکمیل ہدایت یا تکمیل شریعت لانا قرار نہیں دیتا۔

· انبیائے بنی اسرائیل حضرت موسیٰ کے بعد کئی گزرے ہیں، جو کوئی شریعت یا ہدایت جدیدہ نہیں لائے۔

· نبی یا رسول کا شارع ہونا شرط نہیں۔

یہ سب ہباء منثورا ہو گئے۔

2۔ کیا بعد اس کے کہ اللہ عزوجل حفاظت کا وعدہ فرمائے، پھر بھی ظاہری حفاظت کی ضرورت باقی رہتی ہے۔

3۔ مہر بیچ میں ہوتی ہے یا ختم پر۔

4۔ کتب اصول میں مصرح ہے کہ جمع محلی باللام اگر وہاں "ال" تعریف عہدی کا نہ بنتا ہو، اور نکرہ حیز نفی میں ہو تو وہ مفید عموم واستغراق ہے۔

منار میں فرمایا:

"وكذا اذا دخلت لام التعریف فیما لا یحتمل التعریف بمعنى العهد او جبت العموم حتى يسقط اعتبار الجمعية اذا دخلت على الجمع"44
اور ایسے ہی جب لام تعریف اس میں داخل ہوتا ہے جس میں تعریف یعنی عہد کا احتمال نہ ہو تو عموم واجب ہوتا ہے، یہاں تک کہ جمعیت کا اعتبار ساقط ہو جاتا ہے، جب کہ وہ جمع پر داخل ہو۔

اس کی شرح "نور الانوار" میں ہے:

او على الاستغراق فيستوعب الكل يقينا كما فی قوله تعالى (ان الانسان لفی خسر الا الذين آمنوا وعملوا الصلحت)45
یا استغراق پر تو وہ یقینی طور پر کل کا استیعاب کرتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد میں ہے کہ "بے شک انسان گھاٹے میں ہے، مگر سوائے وہ جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے۔"

اسی میں ہے:

"واما اذا كان على الجمع فثمرة عمومه انه يسقط معنى الجمع، فلا يكون اقله الثلث، اذ لو بقی جمعا لم يظهر لللام فائدة" 46
اور جب وہ جمع پر ہو تو اس کے عموم کا یہ نتیجہ ہوگا کہ معنی جمع ساقط ہو جائے گا، تو اس کا اقل ثلث نہ ہوگا، اس لیے کہ اگر جمع باقی رہے تو لام کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

منار میں ہے:

"والنكرة فی موضع النفی تعم"
اور نکرہ موضع نفی میں عام ہے۔

اور یہ بھی مصرح ہے کہ آیات ونصوص اپنے عموم ہی پر رکھے جائیں گے، یہاں تک کہ اخبار احاد اگر مرفوع بھی ہوں تا ہم ان سے تخصیص نا جائز، خود مجہول صاحب نے براہ نادانستگی اسے تسلیم کیا ہے۔

نمبر 9 ملاحظہ ہو: "کوئی حدیث نص کتاب اللہ کے خلاف حجت نہیں ہو سکتی بلکہ اگر وہ قرآن کریم کے مضامین کے خلاف ہے تو تاویل کرنی پڑے گی۔"

مجہول صاحب کا یہ کہنا اگر چہ علی الاطلاق صحیح نہیں، اس لیے کہ متواترات ضرور ناسخ ہوتی ہیں مگر اتنا تو ضرور ہے کہ احاد اگر چہ مرفوع ہوں پھر بھی نص قرآن عظیم کی ناسخ یا مخصص نہیں ہو سکتیں۔ کیا اب بھی مجہول صاحب یہی کہیں گے کہ النبیین اور لا نبی بعدی مفيد عموم نہیں۔ نہیں تو کیوں؟

۵۔ مجہول صاحب کہتے ہیں:

(1) النبیین میں الف لام تخصیص کا بھی ہو سکتا ہے۔

یہ الف لام تخصیص کیا بلا ہے، اس کا کہاں پتا ہے، پھر یہ "ہو سکتا ہے" سے تو کام نہیں چلتا کہ دربارۂ اعتقاد یقین درکار ہے، نہ ظن۔ کسی اعتقادی بات کے ثبوت کو تواتر چاہیے، کیا مجہول صاحب بتا سکتے ہیں کہ یہ الف لام تخصیص کیا ہے، اور ہے تو تواتر سے ثابت کرتے، کہ یہاں الف لام تخصیص کا ہے، اور اصول کا وہ قاعدہ غلط ہے کہ جمع محلی باللام مفید استغراق ہے۔

6۔ مجہول صاحب نے عجیب الٹی منطق پڑھی ہے، جہاں عموم ہوتا ہے، وہاں زبردستی تخصیص کرتے ہیں، اور جہاں خصوص، وہاں دھینگا دھانگی سے عموم لیتے ہیں۔ آیت میں لفظ سنۃ موقع عذاب کے ساتھ خاص ہے، مطلب یہ ہے کہ رسولوں کی تکذیب پر جیسے پہلے عذاب فرمایا گیا ہے، یوں ہی اب بھی عذاب فرمایا جائے گا:

ولن تجد لسنة الله تبديلا 47
اور تو اس سنت اللہ کو تبدیل نہ پائے گا۔

کبیر میں فرمایا:

"یعنى هذا ليس بدعا بكم بل هو سنة جارية وعادة مستمرة تفعل بالمكذبين، (وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللّٰهِ تَبْدِيلًا) اي ليست هذه السنة مثل الحكم الذی يبدل وينسخ، فان النسخ يكون فی الاحكام، اما الافعال والاخبار فلا تنسخ" 48
یعنی یہ نئی چیز نہیں ہے بلکہ سنت جاریہ اور عادت مستمرہ ہے، یہ ان پر جاری ہوتی ہے جو نبیوں کی تکذیب کرتے ہیں (وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللهِ تَبْدِيْلًا) یعنی یہ سنت اس حکم کے مثل نہیں جس میں تبدیلی اور نسخ ہوتا ہے، کہ نسخ احکام میں ہوتا ہے، رہے افعال واخبار تو وہ منسوخ نہیں ہوتے۔

ارشاد العقل السلیم میں ہے۔

سنة الله له اي سن الله ذالک فی الامم الماضية سنة، وهی ان يقتل الذين نافقوا الانبياء وسعوا فی توهين امرهم بالارجاف و نحوه اينما ثقفوا ولن تجد لسنة الله تبديلا اصلا لابتنائها على اساس الحكمة التی عليها یدور فلك التشریع 49
(سنۃ الله) یعنی امم ماضیہ کے حق میں اللہ تعالیٰ کی یہ سنت جاری رہی کہ وہ لوگ جہاں ملیں قتل کیے جائیں جنہوں نے انبیا کے ساتھ نفاق کیا اور جھوٹی خبریں پھیلا کر اور اسی جیسے دیگر طریقوں سے ان کے معاملے کو بے قدر کرنے میں کوشش کی (وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللّٰهِ تَبْدِيلًا) اور تم اللہ کی سنت کو بدلتا نہ پاؤ گے کہ اس کی بنیاد اس حکمت پر رکھی گئی ہے جس پر آسمان تشریع گردش کرتا ہے۔

مدارک شریف میں فرمایا:

"اي من الله ذالک فی الدین ینافقون الانبياء ان يقتلوا اینما وجدوا"
یعنی جو لوگ انبیا کے ساتھ نفاق کرتے ہیں ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ وہ جہاں ملیں قتل کیے جائیں۔

خازن میں ہے:

"اي: المنافقين والذين فعلوا مثل ما فعل هؤلاء ان يقتلوا حيثما ثقفوا"50
یعنی منافقین اور وہ لوگ جنہوں نے ان کا مثل کیا جہاں ملیں قتل کیے جائیں۔

اور کتب اصول میں مصرح ہے کہ وعیدات اپنی موارد پر مقصور ہیں۔ اگر مجہول صاحب کے طور پر اسے عام ہی رکھا جائے، تو کیا حشر نشر سب باطل نہ ہو جائے گا کہ اس عالم کا اس طور ہونا یہ بھی ایک سنت ہے، اور سنت کی تبدیلی نہیں۔ مجہول صاحب کہیں اب کیا کہتے ہیں۔

7۔ (اتممت عليكم نعمتی) کو وعدہ کہنا مجہول صاحب ہی جیسے ضرورت سے زیادہ عقل مند کا کام ہے، پھر اس سے موجود رہنے کا اثبات بالکل اس کا مصداق ہے:

کہاں کی اینٹ کہاں کا روڑا

بھان متی نے کنبہ جوڑا

لوگو مرے مجنوں کو کوئی چرخ پہ ڈھونڈو شیریں کی یہ فریاد تھی کلکتے میں سب سے

کیا مجہول صاحب کہہ سکتے ہیں کہ ہر زمانہ میں کوئی نہ کوئی نبی رہا ہے، اگر رہا ہے تو فرمائیں کہ آیت کریمہ (على فترة من رسل) کے کیا معنی ہیں؟

8۔ مجہول صاحب کو فعل وصفت میں تمیز نہیں جبھی تو کہتے ہیں: نبی اور رسول کا بھیجنا خدائے تعالیٰ کی ایک صفت ہے، اور اگر خدائے تعالیٰ کی کوئی صفت کام چھوڑ دے تو صفت میں تعطل اور انقطاع واقع ہوتا ہے، اور بفرض غلط مجہول صاحب کی مان لیجیے تو ہم دریافت کرتے ہیں کہ خالق اس کی صفت ہے یا نہیں، ماننا پڑے گا کہ اس کی صفت ہے، تو چاہیے کہ ہر آن میں مخلوق ہو ورنہ صفت میں تعطل ہوگا۔ اس عالم کے وجود سے پہلے وہ خالق تھا یا نہیں؟ تھا تو کس چیز کا، اور اب جب یہ عالم فنا ہو جائے گا تو آپ کے نزدیک وہ خالق رہے گا یا نہیں؟ ایک آن کو منقطع مانو گے یا تعطل جانو گے تو ذات کو باطل ٹھہراؤ گے۔

9۔ قرآن کریم میں یہ آیت (خاتم النبیین) دونوں طور پر پڑھی گئی ہے، یعنی (خاتَمَ النبیین) اور (خاتِمَ النبیین) قرا عاصم بفتح التاء والباقون بكسرها (غیث النفع للسید على النوری السفاقسی)

قرئ بكسر التاء اي كان خاتمهم (ارشاد العقل السليم) بفتح التاء عاصم بمعنى الطابع ای اخرهم يعني لا ينبا احد بعده وغيره بكسر التاء بمعنى الطابع 51

اور دونوں قراتیں متواترہ ہیں، بلکہ قرات سبعہ سے صرف ایک عاصم فتح تا سے پڑھتے ہیں، باقی سب کسر تا سے، اور قرات کا انکار کفر، اب مجہول صاحب فرمائیں کہ انہوں نے نمبر (۸) میں یہ کہہ کر کہ قرآن کریم میں جو خاتم النبیین آیا ہے۔ اس میں خاتم کا لفظ وارد ہے، اور اس کے حرف "تا" پر زبر ہے زیر نہیں یعنی خاتِم نہیں، پس خاتم کے معنی مہر کے ہیں ختم کرنے والے کے نہیں، کیونکہ وہ لفظ خاتم ہے اور وہ قرآن میں نہیں۔ یہ کہہ کر کفر اوڑھا۔ یا نہیں؟

10۔ نمبر ۶ کا رد اوپر ہو لیا ہے، حضرت عبد اللہ بن عباس ﷠ پر خدا کی بے شمار رحمتیں، انہوں نے فیصلہ فرما دیا۔ کہیے مجہول صاحب ان کا فیصلہ مقبول ہے یا نہیں؟ یوں ہی (۲) اور (۹) کا رد بھی اوپر گزرا۔ وللہ الحمد

مسلمانو، اللہ تعالیٰ نے صاف ارشاد فرمایا: (وخاتم النبیین) پھر حضور ﷺ سے اب تک سب یہی سمجھے کہ حضور سب میں آخری نبی ہیں، اور حضور کے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔ آج کل چند ملحد، بے دین اگر کچھ خرافات، ہزلیات بکیں، کیا قابل التفات ہوں۔ وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين وصلى الله تعالى على خير خلقه سیدنا ومولانا محمد خاتم الانبياء والمرسلين وعلى آله وصحبه اجمعين امين امين امين برحمتك يا ارحم الراحمین۔


  • 1 سورة الرعد:11/13
  • 2 سورة النحل :89/13
  • 3 سورة العنكبوت:43/29
  • 4 سورۃ النحل:43/16
  • 5 سورة النحل :44/13
  • 6 سنن الدارمی (باب التورع عن الجواب فیما لیس فیہ كتاب ولا سنۃ: 1/ 240 عن عمر بن الخطاب) شرح السنۃ للبغوى (باب الاعتصام بالكتاب والسنۃ: 1/ 202)
  • 7 سورۃ ا لبقرۃ:26/2
  • 8 السنن لابن ماجۃ، باب السواد الاعظم: 2/ 1302
  • 9 مشكاة المصابیح، باب الاعتصام بالكتاب والسنۃ الفصل الثانی: 1/ 62
  • 10 سورة الصف:8/61
  • 11 فتح الباری لابن حجر قولہ باب وتخفى فی نفسك 8/ 24
  • 12 سورة الاحزاب:40/33
  • 13 سورة الحجرات:10/49
  • 14 تفسیر الرازى سورة الاحزاب: 41-25/ 171
  • 15 ارشاد العقل السلیم، دار احياء التراب العربی: 7/ 106
  • 16 تفسیر الخازن، سورة الاحزاب: 3/ 429
  • 17 سورة الانبیاء: 107/21
  • 18 التفسیر المظہرى سورة يوسف: 84۔ 5/ 192
  • 19 ذوق نعت: استاذ زمن حضرت مولانا حسن رضا خاں بریلوی
  • 20 عمدة القارى، باب المعراج: 17/ 26
  • 21 سورة الحجر:109/15
  • 22 لهدایۃ الى بلوغ النہایۃ: 4/ 2567۔ عن قتادة مختصر تفسیر ابن كثیر۔ سورة الاعراف: 154: 2/ 53۔ عن قتادۃ
  • 23 الطبقات الكبرى لابن سعد، باب علامات النبوة: 1/ 1300
  • 24 الخصائص الكبرى، باب اخذ المیثاق: 1/ 17
  • 25 سورة البقرة: 36/2
  • 26 الشریعۃ للاجری، باب ذكر متى وجبت: 3/ 141
  • 27 المستدرك للحاكم، باب آیات رسول الله ﷺ: 2/ 672
  • 28 المواہب اللدنیہ للقسطلانی، باب تشریف الله تعالىٰ لہ: 1/ 55
  • 29 التمہید لما فی المؤطا من المعانی والاسانید الحدیث السابع عشر، 9/ 155
  • 30 الشفاء بتعریف حقوق المصطفىٰ: الفصل الثالث عشر فی اسمائہ، 1/ 448
  • 31 مسند الرؤیانی: 1/ 171۔ المستدرك: ماقب عمر، 3/ 92
  • 32 مسند ابی داؤد: احادیث سعد بن ابی وقاص، 1/ 167
  • 33 مصنف عبد الرزاق للصنعانی: مسئلۃ اہل الكتاب، 6/ 112
  • 34 الدر المنثور فی التفسیر سورة الاحزاب: 40، 6/ 617
  • 35 تفسیر الخازن سورة الاحزاب: 38، 3/ 429
  • 36 الخصائص الكبرىٰ ذكر حلیۃ الانبیاء ﷨: 2/ 20
  • 37 شرح المقاصد فی علم الكلام: 2/ 192
  • 38 مجمع الانہر فی شرح ملتقى الابحر الفاظ الكفر انواع: 1/ 691
  • 39 فتاوى الشبكۃ الاسلامیۃ القاديانیۃ ومعتقداتھم، 1/ 5885
  • 40 كتاب الاقتصاد: باب من یحت تكفیره من الفرق، 1/ 137
  • 41 تفسیر ابو السعود، سورة الاحزاب، 4/ 324
  • 42 مدارك التنزیل: سورة الاحزاب، 3/ 34
  • 43 تفسیر خازن: الاحزاب 4، 3/ 429
  • 44 المنار: مبحث العام ص: 84، 85
  • 45 نور الانوار شرح المنار: مبحث العام، ص: 85
  • 46 نور الانوار شرح المنار: مبحث العام، ص: 85، ایضا: ص: ٨٢
  • 47 سورة الاحزاب:62/33
  • 48 التفسیر الكبیر سورة الاحزاب، 62- 9/ 184
  • 49 تفسیر ارشاد: سورة الاحزاب، 4/ 333، 334
  • 50 تفسیر الخازن، احزاب 62، 3/ 437
  • 51 مدارك التنزیل: سورة الاحزاب، 3/ 34

Powered by Netsol Online