Khatam e Nabuwat

عقیدہ ختم نبوت پر اَئمہ تفسیر کی آراء

جملہ متقدمین و متاخرین اَئمہ تفسیرنے سورۂ احزاب کی آیت: 40 کی تشریح و توضیح اور تفسیر کرتے ہوئے خاتم النبیین کا معنی آخری نبی اور سلسلہ نبوت کو ختم کرنے والا ہی کیا ہے۔ چند معروف اَئمہ تفسیر کی آراء درج ذیل ہیں:

(1) حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما (م 68ھ)

ترجمان القرآن حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں:

{وَخَاتَمَ النَّبِيِّيْن} ختم اللہ بہ النبیین قبلہ فلا یکون نبی بعدہ1
’’خاتم النبیین کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سلسلہ انبیاء حضورﷺ کی ذات اقدس پر ختم فرما دیا ہے پس آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا۔‘‘

(2) امام ابن جریر طبری (م 310ھ)

امام المفسرین ا بن جریر طبری خاتم النبیین کا مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

ولکنہ رسول اللہ وخاتم النبیین، الذی ختم النبوۃ فطبع علیھا فلا تفتح لأحد بعدہ إلی قیام الساعۃ2
’’لیکن آپ ﷺ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں، یعنی وہ ہستی جس نے (مبعوث ہو کر) سلسلہ نبوت ختم فرما دیا ہے اور اس پر مہر ثبت کر دی ہے اور قیامت تک آپ ﷺ کے بعد یہ کسی کے لیے نہیں کھلے گی۔‘‘

امام ابن جریر طبری اختلافَ قراء ت کی صورت میں لفظ خاتم کا معنی بیان کرتے ہیں:

1۔ اگر یہ لفظ بکسر التاء یعنی خَاتِم پڑھا جائے تو اس کا معنی ہوگا:

أنہ الذی ختم الأنبیاء صلی اللہ علیہ وسلم و علیھم۔
’’وہ ذات ﷺ جس نے (سلسلہ) انبیاء علیہم السلام ختم فرما دیا۔‘‘

2۔ اگر یہ لفظ بفتح التاء یعنی خَاتَم پڑھا جائے تو اس کا معنی ہوگا:

أنہ آخر النّبیّین3
’’بیشک آپ ﷺ آخری نبی ہیں۔‘‘

(3) امام بغوی شافعی (م 516ھ)

محی السنہ امام بغوی شافعی خاتم النبیین کی شرح بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

{وَلٰـکِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّيْن} ختم اللہ بہ النبوۃ وقرأ ابن عامر وابن عاصم (خَاتَم) بفتح التاء علی الاسم أي آخرھم، وقرأ الآخرون بکسر التاء علی الفاعل لأنہ ختم بہ النبیین فھو خاتمھم 4
’’{لیکن آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور خاتم النبیین ہیں} آپ ﷺ کی بعثت مبارکہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے نبوت ختم فرما دی ہے۔ ابن عامر اور ابن عاصم نے(لفظ خاتم) بر بنائے اسم زبر کے ساتھ پڑھا ہے یعنی آخرِ انبیاء اور دیگر (اہل فن) نے بربنائے فاعل تاء کی زیر کے ساتھ پڑھا ہے کیونکہ آپ ﷺ نے اپنی بعثت کے ساتھ سلسلۂ انبیاء ختم فرما دیا۔ سو آپ ﷺ ان کے خاتم ہیں۔‘‘

(4) امام زمخشری (م 528ھ)

امام زمخشری حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ نزول کے تناظر میں حضور ﷺ کے آخر الانبیاء ہونے کی خصوصیت کو اس طرح بیان کرتے ہیں:

فإن قلت: کیف کان آخر الأنبیاء وعیسی ینزل فی آخر الزمان؟ قلت: معنی کونہ آخر الأنبیاء أنہ لا ینبأ أحد بعدہ وعیسی ممّن نبی قبلہ وحین ینزل عاملا علی شریعۃ محمّد (ﷺ) مصلیًّا إلی قبلتہ کأنّہ بعض أمتہ 5
’’اگر آپ کہیں کہ حضور ﷺ آخری نبی کیسے ہو سکتے ہیں؟ جبکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آخری زمانہ میں (یعنی قرب قیامت میں) نازل ہوں گے تو میں کہتا ہوں کہ آپ ﷺ کا آخری نبی ہونا اس معنی میں ہے کہ آپ ﷺ (کی بعثت) کے بعد کوئی شخص نبی کی حیثیت سے مبعوث نہیں ہو گا۔ رہا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا معاملہ تو وہ ان انبیاء میں سے ہیں جنہیں آپ ﷺ (کی بعثت) سے قبل نبوت سے سرفراز کیا گیا تھا اور جب وہ دوبارہ آئیں گے تو حضرت محمد ﷺ کی شریعت کے پیرو ہوں گے اور انہی کے قبلہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھیں گے گویا کہ وہ آپ ﷺ کی امت کے ایک فرد ہوں گے۔‘‘

(5) اما ابن جوزی (م 597ھ)

امام ابن جوزی خاتم کے معنی کی وضاحت انتہائی جامع الفاظ میں اس طرح کرتے ہیں:

خاتم بکسر التاء فمعناہ: وختم النبیین ومن فتحھا، فالمعنی: آخر النّبیّین6
’’لفظ خاتم تا کی زیر کے ساتھ ہو تو اس کا معنی ہے: حضور ﷺ نے سلسلہ انبیاء کو ختم فرما دیا ہے، اور اگر تا کی زبر کے ساتھ ہو تو اس کا معنی ہے کہ آپ ﷺ آخری نبی ہیں۔‘‘

(6) امام فخر الدین رازی (م 606ھ)

امام فخر الدین رازی اس حوالے سے رقم طراز ہیں:

{وخاتم النبیین} وذالک لأن النبی الذّی یکون بعدہ نبی إن ترک شیئًا من النصیحۃ والبیان یستدرکہ من یأتی بعدہ، وأما من لا نبی بعدہ یکون أشفق علی أمتہ وأھدی لھم وأجدی، إذ ھو کوالد لولدہ الذي لیس لہ غیرہ من أحدٍ7
’’اور آپ ﷺ آخری نبی ہیں (آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں)۔ اگر ایک نبی کے بعد دوسرا نبی آنا ہوتا تو وہ تبلیغ اور احکام کی توضیح کا مشن کسی حد تک نامکمل چھوڑ جاتا جسے بعد میں آنے والا مکمل کرتا، لیکن جس نبی کے بعد اور کوئی نبی آنے والا نہ ہو تو وہ اپنی امت پر بہت زیادہ شفیق ہوتا ہے اور ان کے لیے واضح قطعی اور کامل ہدایت فراہم کرتا ہے کیونکہ اس کی مثال ایسے باپ کی طرح ہوتی ہے جو جانتا ہو کہ اس کے بعد اس کے بیٹے کی نگہداشت کرنے والا کوئی سرپرست اور کفیل نہ ہوگا۔‘‘

(7) امام قطبی (م 671ھ)

امام قرطبی مالکی لفظ خاتم کی شرح یوں بیان کرتے ہیں:

وخَاتَمَ قرأ عاصم وحدہ بفتح التاء بمعنی أنہم بہ خُتموا فھو کالخاتَم والطابَع لھم، وقرأ الجمھور بکسر التاء بمعنی أنّہ ختمھم أي جاء آخرھم8
’’صرف عاصم (قاری) نے خاتم تاء کی زبر کے ساتھ پڑھا ہے جس کا معنی ہے کہ ان (انبیاء) کا سلسلہ آپ ﷺ پر ختم ہو گیا ہے۔ پس آپ ان کے لیے مہر کی طرح ہیں (یعنی آپ ﷺ نے سلسلہ انبیاء پر مہر ثبت کر دی ہے)۔ جمہور نے خاتمِ تاء کی زیر کے ساتھ پڑھا ہے جس کا معنی ہے کہ آپ ﷺ نے سلسلہ انبیاء ختم فرما دیا ہے، یعنی آپ ﷺ سب سے آخر میں تشریف لائے۔‘‘

(8) امام بیضاوی (م 685ھ)

امام بیضاوی شافعی خاتم النبیین کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

وآخرھم الذي ختمھم أو ختموابہ علی قراء ۃ عاصم بالفتح ولا یقدح فیہ نزول عیسی بعدہ لأنہ إذا نزل کان علی دینہ9
’’آپ ﷺ (بعثت کے اعتبار سے) انبیاء میں سب سے آخری نبی ہیں۔ آپﷺ نے (تشریف لا کر) ان کے سلسلہ کو ختم کر دیا اور سلسلہ نبوت پر مہر لگا دی ہے اور … حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا حضور ﷺ کے بعد (دوبارہ قرب قیامت میں) نازل ہونا آپ ﷺ کی ختم نبوت میں حارج نہیں ہے (کیونکہ انہیں آپ ﷺ کی بعثت سے قبل منصب نبوت پر فائز کیا گیا تھا) چنانچہ اب وہ حضور ﷺ کے دین اور شریعت کے متبع اور پیروکار کی حیثیت سے نازل ہوں گے۔‘‘

(9) امام ابوالبرکات عبد اللہ بن احمد بن محمود نسفی (م 710ھ)

امام نسفی اس حوالے سے فرماتے ہیں:

{وخاتم النّبیّین} … أي آخرھم یعنی لا ینبأ أحد بعدہ، وعیسی ممن نبی قبلہ وحین ینزل ینزل عاملاً علی شریعۃ محمد ﷺ کأنّہ بعض أمتہ10
’’خاتم النبیین کا معنی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ انبیاء میں سب سے آخری نبی ہیں (بعثت کے اعتبار سے) آپ ﷺ کے بعد کوئی شخص نبی نہیں بنایا جائے گا۔ رہے عیسیٰ علیہ السلام تو وہ آپ سے پہلے انبیاء میں سے ہیں اور جب وہ دوبارہ آئیں گے تو وہ شریعت محمدی ﷺ پر عمل کریں گے اور حضور ﷺ کی امت کے ایک فرد کی طرح ہوں گے۔‘‘

(10) امام علاؤ الدین بغدادی خازن (م 725ھ)

امام علاؤ الدین بغدادی خازن اس نکتے پر اپنا موقف یوں بیان کرتے ہیں:

{وخاتم النّبیّین} ختم اللہ بہ النبوۃ فلا نبوۃ بعدہ أي ولا معہ11
’’اللہ تعالیٰ نے حضورنبی اکرم ﷺ کی ذات اقدس پر نبوت ختم فرما دی ہے اب آپ ﷺ کے بعد نہ کوئی نبوت ہے اور نہ اس (یعنی نبوتِ محمدی ﷺ) میں کسی قسم کی شراکت یا حصہ داری۔‘‘

وَکَانَ اللهُ بِکُلِّ شَيْئٍ عَلِيْمًا کی تفسیر میں آگے لکھتے ہیں:

أي دخل فی علمہ أنہ لا نبی بعدہ12
’’اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ آپ ﷺ کے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہ ہوگا۔‘‘

(11) امام ابو حیان اندلسی (م 754ھ)

امام ابو حیان اندلسی لکھتے ہیں:

وقرأ الجمہور بکسر التاء بمعنی أنہ ختمھم أي جاء آخرھم … وروي عنہ علیہ السلام ألفاظ تقتضي نصًّا أنہ لا نبی بعدہ ﷺ، والمعنی أنہ یتنبأ أحد بعدہ ولا یرد نزول عیسی آخر الزماں لأنہ ممن نبی قبلہ وینزل عاملاً علی شریعۃ محمد ﷺ مصلیًّا إلی قبلتہ کأنہ بعض أمّتہ13
’’اور جمہور نے اسے تاء کے کسرہ کے ساتھ پڑھاہے اس معنی میں کہ حضور ﷺ سلسلہ نبوت کو ختم کرنے والے ہیں یعنی آپ ﷺ سب انبیاء کے آخر میں تشریف لائے۔ آپ ﷺ سے جو الفاظ روایت کیے گئے ہیں (متعدد متواتر احادیث کی صورت میں) وہ صراحت کے ساتھ اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں یعنی آپ ﷺ کے بعد کسی کو منصب نبوت پر فائز نہیں کیا جائے گا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آخری زمانہ میں آمد سے اس بات (یعنی حضور ﷺ کی ختم نبوت) کی تردید نہیں ہوتی کیونکہ وہ ان انبیاء میں سے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے بعثت مصطفوی ﷺ سے قبل منصب نبوت پر فائز کیا تھا۔ اب وہ حضور علیہ الصلوۃ والسّلام کی شریعت کے متبع کی حیثیت سے تشریف لائیں گے اور آپ ﷺ کے قبلہ کی طرف چہرہ کر کے نماز پڑھیں گے گویا ان کی حیثیت حضور ﷺ کے امتی کی سی ہو گی۔‘‘

امام اندلسی منکرین ختم نبوت کے کفر و اتداد اور انجام کے بارے میں لکھتے ہیں:

ومن ذھب إلی أنّ النّبوۃ مکتسبۃ لا ینقطع أوإلی أنّ الولی أفضل من النّبي فھو زندیق یجب قتلہ وقد ادعی ناس فقتلھم المسلمون علی ذلک14
’’اور جس کسی کا یہ مذہب ہو کہ نبوت کسبی ہے ختم نہیں ہوئی یا یہ عقیدہ رکھے ولی نبی سے افضل ہے وہ کافر ہے اس کو قتل کرنا واجب ہے کچھ لوگوں نے یہ دعوی کیا تھا جس پر اہل اسلام نے انہیں قتل کر دیا۔‘‘

(12) امام نظام الدین نیشاپوری (م 728ھ)

امام نظام الدین نیشاپوری لکھتے ہیں:

لا نبی بعد محمّد ﷺ و مجئ عیسی علیہ السلام فی آخر الزّمان لا ینافي ذالک لأنّہ ممّن نبئ قبل وھو یجئ علی شریعۃ نبیّنا مصلیًّا إلی قبلتہ و کأنّہ بعض أمتہ15
’’حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قربِ قیامت کے زمانہ میں آنا اس کے منافی نہیں ہے کیونکہ وہ ان انبیاء میں سے ہیں جو حضور علیہ الصلوۃ والسلام سے پہلے منصبِ نبوت پر فائز رہ چکے تھے۔ اب وہ ہمارے نبی مکرم ﷺ کی شریعت کے پیروکار کی حیثیت سے آئیں گے۔ آپ ﷺ کے قبلہ کی طرف رخ کر کے نماز ادا کریں گے جس طرح امت کے دیگر افراد کرتے ہیں۔‘‘

(13) امام ابن کثیر (م 774ھ)

رئیس المفسرین امام ابن کثیر مذکورہ آیہ مبارکہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

فھذہ الآیۃ نصّ فی أنہ لا نبی بعدہ وإذا کان لا نبی بعدہ فلا رسول بالطریق الأولی والأخری لأن مقام الرّسالۃ أخصّ من مقام النبوّۃ فإنّ کلّ رسول نبیّ ولا ینعکس16
’’پس یہ آیت کریمہ {ولکن رسول اللہ و خاتم النبیین} اس بارے میں نص ہے کہ حضور ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور جب نبی کا آنا محال ہے تو رسول کا آنا بدرجہ اولیٰ محال ہے کیونکہ منصب رسالت خاص ہے منصب نبوت سے، ہر رسول نبی ہوتا ہے جبکہ ہر نبی رسول نہیں ہوتا۔‘‘

امام ابن کثیر اس کے بعد حضور ﷺ کی ختم نبوت پر متعدد احادیث پیش کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

وقد أخبر اللہ تبارک وتعالی فی کتابہ ورسولہ ﷺ فی السنّۃ المتواترۃ عنہ أنّہ لا نبی بعدہ لیعلموا أن کلّ من ادّعی ھذا المقام بعدہ فھو کذّاب أفّاک دجّال ضالّ مضلّ ولو تحرق و شعبذ وأتی بأنواع السحر والطلاسم النیرنجیات17
’’اور تحقیق آگاہ فرما دیا ہے اللہ تعالیٰ نے اپنی مقدس کتاب قرآن مجید میں اور رسول اللہ ﷺ نے اپنی سنت متواترہ میں کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ (آگاہ اس لیے فرمایا) تاکہ امت محمدیہ ﷺ جان لے کہ آپ ﷺ کے بعد جو شخص بھی اس منصب (یعنی نبوت) کا دعویٰ کرے وہ کذاب، جھوٹا، بہتان طراز، مکار و دجال، گمراہ اور دوسروں کو گمراہ کرنے والا ہے۔ خواہ وہ خرقِ عادت، واقعات، شعبدہ بازیاں اور کسی قسم کے غیر معمولی کرشمے اور سحروطلسم دکھاتا پھرے۔‘‘

(14) امام جلال الدین سیوطی(م 911ھ)

امام جلال الدین سیوطی اس موضوع کے حوالے سے لکھتے ہیں:

{وخاتم النبیین} فلا یکون لہ ابن رجل بعدہ یکون نبیًّا وفي قراء ۃ بفتح التاء کآلۃ الختم أي بہ ختموا {وکان اللہ بکل شیء علیما} منہ بأن لا نبی بعدہ وإذا نزل السیّد عیسٰی یحکم بشریعتہ18
’’اور آپ ﷺ خاتم النبیین ہیں، پس آپ ﷺ کے بعدآپ ﷺ کا کوئی مرد بیٹا نہیں جو منصبِ نبوت پر فائز ہو (اور اللہ تعالیٰ ہر چیز سے آگاہ ہے)، وہ جانتا ہے کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہ ہو گا اور جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام (دوبارہ) نازل ہوں گے تو وہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی شریعت کے متبع اور پیروکار ہوں گے۔‘‘

(15) امام ابو سعود محمد بن محمد العمادی (م 951ھ)

امام ابو سعود محمد بن محمد العمادی نے اپنی رائے یوں بیان کی ہے:

{وخاتم النبیین} أي کان آخرھم الذي ختموا بہ وقرئ بکسرالتاء أي کان خاتِمھم … ولا یقدح فیہ نزول عیسی بعدہ لان معنی کونہ خاتم النبیین أنہ لا ینبأ أحد بعدہ وعیسی ممن نبئ قبلہ وحین ینزل إنما ینزل عاملاً علی شریعۃ محمد ﷺ مصلیًّا إلی قبلتہ کأنّہ بعض أمتہ۔19
’’خاتم النبیین کا معنی ہے کہ حضور ﷺ سب انبیاء کے آخر میں مبعوث ہوئے اور آپ ﷺ نے سلسلہ نبوت پر مہر لگا دی۔ خاتم تا کی زیر کے ساتھ، اس کا معنی ہے آپ ﷺ نے سلسلہ نبوت کو ختم فرما دیا۔ اب آپ ﷺ کی بعثت کے بعد حضرت عیسی علیہ السلام کے نزول سے ختم نبوت کی تردید نہیں ہوتی کیونکہ خاتم النبیین کا معنی ہے کہ آپ ﷺ کے بعد کسی کو منصب نبوت عطا نہیں کیا جائے گا۔ رہا معاملہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تو وہ ان انبیاء میں شامل ہیں جنہیں آپ ﷺ کی بعثت سے پہلے منصب نبوت عطا کیا جا چکا ہے اور جب ان کا نزول ہو گا توبے شک وہ شریعت محمدی پر عمل پیرا ہوں گے اور آپ ﷺ کے قبلہ(خانہ کعبہ)کی طرف منہ کر کے نماز ادا کریں گے، گویا وہ آپ ﷺ کے ایک امتی ہیں۔‘‘

(16) امام اسماعیل حقی (م 1137ھ)

امام اسماعیل حقی اس موضوع پر اپنا نقطہ نظر بیان کرتے ہیں:

وقال أہل السنّۃ والجماعۃ لا نبی بعد نبینا لقولہ تعالی {ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین} وقولہ عليه السلام: لا نبی بعدي۔ ومن قال بعد نبینا نبی یکفر لأنہ أنکر النصّ وکذلک لو شک فیہ لأن الحجۃ تبین الحقّ من الباطل ومن ادّعی النبوّۃ بعد موت محمّد (ﷺ) لا یکون دعواہ إلا باطلا۔20
’’اہل سنت والجماعت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ ہمارے نبی اکرم ﷺ کے مبعوث ہونے کے بعد اب کسی نبی کی بعثت نہیں ہو گی کیونکہ فرمان باری تعالیٰ ہے کہ حضور ﷺ اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں اور حضور علیہ الصلوۃ والسّلام نے خود فرما دیا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ اب جو شخص یہ کہے کہ ہمارے نبی اکرم ﷺ کے بعد کوئی نبی ہے تو اسے کافر قرار دیا جائے گا کیونکہ اس نے نص کا انکار کیا ہے۔ اس طرح جو اس میں شک کرے وہ بھی کافر ہے کیونکہ حجت نے حق کو باطل سے واضح اور روشن کر دیا ہے اور جس نے محمد ﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کیا تو اس کا یہ دعویٰ کرنا سوائے باطل اور کفر کے کچھ نہیں۔‘‘

(17) قاضی ثناء اللہ پانی پتی (م 1225ھ)

علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی فرماتے ہیں کہ خاتم بفتح التاء کا معنی آخر اور خاتم بکسر التاء کا معنی ہے:

وخاتم قرأ عاصم بفتح التاء علی الاسم بمعنی الاٰخر، والباقون بکسر التاء علی وزن فاعل یعني الذي ختم النبیین حتی لا یکون بعدہ نبيّ21
’’اور لفظِ خاتم کو عاصم نے اسم کی بنا پر تاء کی زبر کے ساتھ بمعنیٔ آخر پڑھا ہے اور باقی (قرائ) نے بر وزنِ فاعل تاء کی زیر کے ساتھ پڑھاہے یعنی وہ ذات جس نے سلسلہ انبیاء کو یوں ختم فرما دیا کہ اب آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔‘‘

اس کے بعد فرماتے ہیں:

ولا یقدح فیہ نزول عیسی بعدہ لأنہ إذا ینزل یکون علی شریعتہ مع أن عیسی علیہ السلام صار نبیًّا قبل محمّد ﷺ وقد ختم اللہ سبحانہ الاستنباء بمحمد ﷺ وبقاء نبی سابق لا ینافي ختم النبوۃ22
’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا حضور ﷺ کے بعد نازل ہونا اس میں حارج نہیں ہے کیونکہ ان کی حیثیت حضور ﷺ کی شریعت کے پیروکار کی ہو گی ساتھ یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بعثتِ محمدی ﷺ سے قبل کے نبی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ پر سلسلۂ نبوت ختم فرما دیا ہے اور کسی سابق نبی کا باقی رہنا ختمِ نبوت کے منافی نہیں ہے۔‘‘

(18) امام سید محمود آلوسی (م 1270ھ)

امام آلوسیؒ لفظِ خاتم کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں

:

وَالْخَاتَمُ اسم اٰلۃ لما یختم بہ کالطّابعِ لما یطبع بہ فمعنٰی خَاتَمَ النَّبِيِّيْنَ الّذي ختم النّبِیّون بہ ومآلہ آخِر النّبِيِّین … وقرأ الجمہور وخاتم بکسر التاء علی أنہ اسم فاعل أي الذي ختم النّبیّین والمراد بہ آخرھم23

خاتَم(بفتح التائ) اس آلہ کا نام ہے جس سے مہر لگائی جاتی ہے، اس آلہ کی طرح جس سے ٹکٹ پر مہر لگائی جاتی ہے۔ پس خاتم النبین کے معنی ہوں گے: وہ ذات جس پر سلسلۂ انبیاء کو ختم کردیا گیا۔ اس معنی کی رُو سے خاتم النبیّن سے مراد آخر النّبیّن ہے … اور جمہور نے خاتم کی قرا ء ت بکسر التاء کی ہے، اس بناپر کہ یہ اسم فاعل ہے یعنی وہ ذات جس نے سلسلۂ انبیاء ختم فرما دیا اور اس سے مراد آخرِ انبیاء ہیں۔‘‘

خاتم کو اسم آلہ کے معنی میں لیا جائے تو اس کا مفہوم یہ ہو گا کہ حضور ﷺ نے آ کر سلسلہ انبیاء کو سربمہر کر دیا اور جس طرح لفافے پر ٹکٹ لگا کر اس پر مہر کر دی جاتی ہے اور اس میں کوئی اور چیز داخل نہیں کی جا سکتی اسی طرح آپ ﷺ کی آمد کے بعد اب اور کوئی نبی نبوت کے حصار میں داخل نہیں ہو سکتا۔

امام آلوسیؒ حضور نبی اکرم کے منصبِ ختم نبوت سے سرفراز ہونے کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

والمراد بالنبي ما ھوأعم من الرسول فیلزم من کونہ ﷺ خاتم النّبیّین کونہ خاتم المرسلین والمراد بکونہ علیہ الصّلوۃ والسّلام خاتمھم انقطاع حدوث وصف النبوۃ فی أحد من الثّقلین بعد تحلیہ علیہ الصلوۃ والسلام بھا فی ھذہ النشأۃ24
’’نبی کا لفظ عام ہے اور رسول کا خاص، اس لیے حضور ﷺ کے خاتم النبیین ہونے سے یہ لازم ہو جاتا ہے کہ آپ خاتم المرسلین بھی ہیں، چنانچہ آپ کے خاتم النبیین اور خاتم المرسلین ہونے کا معنی یہ ہے کہ اس دنیا میں آپ ﷺ کے منصب نبوت و رسالت پر فائز ہونے کے بعد جن و انس میں سے اب کسی کو یہ منصب عطا نہ ہو گا۔‘‘

امام آلوسی آگے لکھتے ہیں:

وکونہ ﷺ خاتم النبیین مما نطق بہ الکتاب وصدعت بہ السنّۃ وأجمعت علیہ الأمّۃ فیکفر مدعی خلافہ ویقتل إن أصر25
’’حضور ﷺ کا آخری نبی ہونا ایسی حقیقت ہے جس کی تصریح خود کتاب اللہ نے کر دی ہے اور سنت نے اس کی توضیح و تشریح کر دی ہے اور اس مسئلہ پر اجماعِ امت ہے، لهٰذااس کے خلاف جو دعویٰ کرے گا، کافر قرار پائے گا اور اگر اس پر اصرار کرے تو (عدالتی عمل کے ذریعے) قتل کیا جائے گا۔‘‘

(19) ملا جیون (1130ھ)

برصغیر کے معروف مفسر ملا جیون لفظ ختم کا معنی بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:

والمآل علی کلِّ توجیہ ھو المعنی الاٰخِرُ ولذٰلک فسَّر صاحب الْمدارک قراء ۃ عَاصم بِالٰاخِرِ وصاحب الْبیضاوی کلا القراء تین بالاٰخِرِ26
’’اور ہر دو صورت میں خاتم کا معنی آخر ہی ہے۔ اسی لیے صاحبِ ’’تفسیر مدارک‘‘ نے امام عاصم کی قراء ت پر اس کا معنی آخر کیا ہے اور صاحبِ ’’تفسیر بیضاوی‘‘ نے دونوں قراء توںپر آخر ہی کیاہے۔‘‘

مذکورہ بالا عبارات سے اَئمہ تفسیر کا نقطۂ نظر واضح ہے۔ ان کے نزدیک حضور نبی اکرم ﷺ کے خاتم النبین ہونے کا معنی ہے کہ آپ ﷺ کی تشریف آوری سے سلسلۂ نبوت منقطع ہو چکا ہے۔ اب قیامت تک کوئی نیا نبی نہیں آئے گا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام چونکہ نبی سابق ہیں اور وہ شریعت محمدی ﷺ کے تابع ہوں گے اس لیے قربِ قیامت ان کا نزول حضور نبی اکرم ﷺ کی شان ختم نبوت کے منافی نہیں۔ حضور ﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرنے والا قرآن و سنت اور اجماعِ امت کا منکر ہے۔ چنانچہ متفقہ طور پر وہ کافر، مرتد اور خارج از اسلام ہے۔


  • 1 ٰتنویر المقباس من تفسیر ابن عباس: 354
  • 2 جامع البیان فی تفسیر القرآن، 22: 12
  • 3 جامع البیان فی تفسیر القرآن، 22 : 13
  • 4 معالم التنزیل، 3: 533
  • 5 الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، 3: 544۔ 545
  • 6 زاد المسیر فی علم التفسیر، 6: 393
  • 7 التفسیر الکبیر، 25: 214
  • 8 الجامع لاحکام القرآن، 14: 196
  • 9 بیضاوی، أنوار التنزیل، 3: 385
  • 10 مدارک التنزیل، 3: 306
  • 11 لباب التأویل فی معانی التنزیل، 3: 470
  • 12 لباب التأویل فی معانی التنزیل، 3: 470
  • 13 فسیر البحر المحیط، 7: 236
  • 14 تفسیر البحر المحیط، 7: 236
  • 15 تفسیر غرائب القرآن ورغائب الفرقان بھامش جامع البیان للطبری، 22: 15
  • 16 ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 3: 493
  • 17 ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 3: 494
  • 18 تفسیر جلالین، 1: 556
  • 19 ارشاد العقل السلیم إلی مزایا القرآن الکریم، 7: 106
  • 20 إسماعیل حقی، تفسیر روح البیان، 22: 188
  • 21 تفسیر المظہری، 7: 350، 351
  • 22 تفسیر المظہری، 7: 351
  • 23 آلوسی، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی، 22: 34
  • 24 روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی، 22: 34
  • 25 روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی، 22: 41
  • 26 التفسیرات الأحمدیۃ: 622

Powered by Netsol Online