Khatam e Nabuwat

مختار بن ابو عبید ثقفی

حضرت ابو عبید ابن مسعود ثقفی جلیل القدر اصحاب رسول میں سے تھے۔ مختار انہیں کا ناخلف بیٹا تھا گو یہ اہل علم میں سے تھا مگر اس کا ظاہر باطن سے متغائر اور اس کے افعال واعمال تقویٰ سے عاری تھے اس کا اندازہ اس تحریک سے ہو سکتا ہے جو اس نے حضرت امام حسن کے خلاف اپنے چچا کے سامنے پیش کی تھی۔

حضرت امام حسن کو گرفتار کر کے امیر معاویہ کے حوالے کرنے کی ترغیب:

مختار کے چچا سعد بن مسعود ثقفی شہر مدائن کے حاکم تھے۔ حضرت امام حسن کو جب ان کے اکثر ساتھیوں نے لوٹا اور حضرت معاویہ کے مقابلے میں تنہا چھوڑ کر بھاگ گئے تو مختار امام عالی مقام کی بے کسی کو دیکھ کر اپنے چچا حاکم مدائن سے کہنے لگا کہ اے چچا جان! اگر آپ کو ترقی جاہ اور ریاستی اقتدار کی خواہش ہو تو میں ایک بہت آسان ترکیب بتاؤں۔ جناب سعد بولے وہ کیا ترکیب ہے۔ مختار بولا کہ اس وقت حسن بن علی کے پاس بہت تھوڑے مددگار ہیں آپ ان کو گرفتار کر کے معاویہ کے حوالے کر دیجئے۔ حضرت سعد نے غصہ سے کہا خدا تجھ پر لعنت کرے کیا میں رسول خدا ﷺ کے فرزند پر حملہ کروں اور ان کو گرفتار کروں۔ واللہ تو تو بہت ہی برا آدمی ہے۔ (شیعہ حضرات کی یہی حرکتیں دیکھ کر حضرت امام حسن نے مجبوراً حضرت امیر معاویہ سے مصالحت کر لی تھی)

ہر تاریخ کی کتاب میں مختار کے حالات بہت تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں:

ابتداء میں مختار خارجی مذہب رکھتا تھا اور اہل بیت نبوت سے سخت عناد رکھتا تھا لیکن امام حسن کی شہادت کے بعد جب اس نے دیکھا کہ مسلمان کربلا کے قیامت خیز واقعات سے نہایت رنجیدہ اور غم وغصہ میں ہیں اور اس وقت اگر ان کی حمایت اور نصرت کی جائے تو ہر طرف سے اس کو تحسین کی نظروں سے دیکھا جائے گا اور ان لوگوں کی مدد سے وہ ریاستی اقتدار حاصل کر سکتا ہے۔

یہ منصوبہ بندی کر کے مختار نے اہل بیت کی محبت کا دم بھرنا شروع کیا اور یہ کہہ کر کہ میرا مشن قاتلان حسین سے انتقام لینا ہے۔ آہستہ آہستہ لوگوں کو اپنے گرد اکٹھا کرنے لگا اور کچھ ہی عرصہ کے بعد اس کی تحریک کو اتنا فروغ ہوا کہ ایک بہت بڑا لشکر اس کے گرد جمع ہو گیا اور پے در پے اس نے سوائے بصرہ اور حجاز مقدس ان تمام ممالک پر قبضہ کر لیا جو حضرت ابن زبیر کے زیر نگیں تھے۔ اس نے آرمینا کی حکومت پر عبد اللہ ابن حارث موصل پر عبد الرحمن بن سعید اور مدائن پر اسحاق ابن مسعود کو حاکم بنا کر روانہ کیا۔

شہدائے کربلا کا انتقام:

کوفہ اور دوسرے شہروں پر اپنی عملداری کو مستحکم کرنے کے بعد مختار نے اپنے مشن کے مطابق ان لوگوں کو قتل کرنا شروع کیا جو امام حسین اور آپ کے ساتھیوں کے قتل وغارت گری میں شریک تھے چنانچہ اس نے جن لوگوں کو قتل کیا ان کے نام یہ ہیں۔

ا۔ عبید اللہ ابن زیاد

۲۔ عمر ابن سعد

3۔ شحر ابن ذی الجوش

۴۔ خولی ابن یزید

5۔ حسین ابن عمیر

6۔ مرہ بن منقد

7۔ زید بن رقاد

8۔ عمرو ابن حجاج زبیدی

9۔ عبد الرحمن بجلی

10۔ مالک ابن نسیر بدلی

11۔ حکیم ابن طفیل طائی

12۔ عثمان بن خالد جہنی

13۔ عمرو ابن صبیح

یہ تمام لوگ حضرت امام حسین، حضرت مسلم بن عقیل اور حسینی لشکر کے قتل میں براه راست شریک تھے ہر ایک کے قتل کے تفصیلی واقعات تاریخ کی کتابوں میں لکھے ہوئے ہیں مگر ہمارا چونکہ یہ موضوع نہیں اس لئے ہم نے بہت ہی اختصار کے ساتھ ان واقعات کا خلاصہ بیان کر دیا ہے اب ہم اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں۔

مختار کا دعویٰ نبوت ووحی:

جیسے ہم نے ابتداء میں لکھا ہے کہ پہلے مختار کو اہل بیت نبوت سے کوئی محبت اور ہمدردی نہیں تھی بلکہ خارجی مذہب رکھنے کے باعث یہ شخص اہل بیت سے بغض وعناد رکھتا تھا لیکن اس کے بعد اپنے آپ کو شیعان علی اور محب اہل بیت ظاہر کر کے قاتلان شہدائے کربلا کے انتقام کی آڑ میں اپنے اقتدار اور ریاست کی راہ ہموار کی۔

چنانچہ ایک مرتبہ کسی نے اس سے کہا کہ اے ابو اسحاق تم کس طرح اہل بیت کی محبت کا دم بھرنے لگے تمہیں تو ان مقدس لوگوں سے دور کا واسطہ بھی نہیں تھا تو مختار بولا جب میں نے دیکھا کہ مروان نے شام پر تسلط جما لیا ہے۔ عبد اللہ ابن زبیر نے مکہ معظمہ میں حکومت قائم کر لی ہے۔ یمامہ پر نجدہ قابض ہو گیا ہے اور خراسان ابن حازم نے دبا لیا ہے تو میں بھی کسی عرب سے بیٹا نہیں تھا کہ چپ چاپ بیٹھا رہتا میں نے جدوجہد کی اور پھر میں بھی ان کا ہم پایہ ہو گیا۔

دعوائے نبوت کی بنا:

جس زمانے میں مختار نے قاتلین امام حسین کو تہس نہس کرنے اور ان کی ہلاکت اور قتل کا بازار گرم کر رکھا تھا اور ہر طرف اس بات پر خوشیاں منائی جا رہی تھیں اور مختار کو بڑی عزت کی نظروں سے دیکھا جا رہا تھا کہ اس نے دشمنان اہل بیت اور قاتلان شہدائے کربلا کے گلے کاٹ کر محبان اہل بیت کے زخمی دلوں پر تسکین کا مرہم رکھا ہے اور اس بناء پر ہر طرف سے اس کو داد وتحسین مل رہی تھی اسی دوران پیروان ابن سبا اور غالی شیعان علی ملک کے اطراف سے سمٹ کر کوفہ آنے لگے اور مختار کی حاشیہ نشینی اور قربت حاصل کر کے تعلق اور چاپلوسی کے انبار باندھنے شروع کر دیئے۔ بات بات میں مدح وستائش کے پھول برسائے جاتے اور مختار کو آسمان عظمت پر چڑھایا جاتا۔

بعض خوشامد پسندوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ اتنا بڑا کار عظیم وخطیر جو اعلیٰ حضرت مختار کی ذات قدسی صفات سے ظہور میں آیا ہے۔ نبی یا وحی کے بغیر کسی بشر سے ممکن نہیں۔ اس تحلق شعاری کا لازمی نتیجہ جو ہو سکتا تھا وہی ہوا۔ مختار کے دل ودماغ میں انانیت وپندار اور اپنی عظمت وبزرگی کے جراثیم پیدا ہونے لگے جو دن بدن بڑھتے گئے اور آخر کار اس نے بساط جرات پر قدم رکھ کر نبوت کا دعویٰ کر دیا۔

خطوط میں مختار نے رسول اللہ لکھنا شروع کر دیا، جبریل میرے پاس آتے ہیں:

دعویٰ نبوت کے بعد اپنے تمام مکاتیب اور خطوط پر مختار نے اپنے نام کے آگے رسول اللہ بھی لکھنا شروع کر دیا وہ یہ بھی کہتا تھا کہ جبریل امین ہر وقت میرے پاس آتے ہیں اور یہ کہ خدائے برتر کی ذات نے میرے جسم میں حلول کیا ہے۔

بصرہ کے ایک رئیس مالک ابن مسمع کو مختار نے خط میں لکھا:

"تم میری دعوت قبول کرو اور میرے حلقہ اطاعت میں آجاؤ دنیا میں جو کچھ تم چاہو گے دیا جائے گا اور آخرت میں تمہار لیے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔"

مختار نے اسی طرح احنف بن قیس کو خط میں لکھا:

"بنی مضر اور بنی ربیعہ کا برا ہو۔ احنف اپنی قوم کو اس طرح دوزخ میں لے جا رہا ہے کہ وہاں سے واپسی بھی ممکن نہیں۔ ہاں تقدیر کو میں بدل نہیں سکتا۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم مجھے کذاب کہتے ہو۔ مجھ سے پہلے انبیاء اور رسولوں کو بھی اسی طرح جھٹلایا گیا تھا اس لئے اگر مجھے کاذب سمجھا گیا تو کیا ہوا؟"

ایک مرتبہ کسی نے حضرت عبد اللہ ابن عباس سے کہا کہ مختار کہتا ہے کہ مجھ پر وحی آتی ہے۔ انہوں نے فرمایا سچ کہتا ہے ایسی وحی کی اطلاع اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی اس آیت میں دی ہے:

وان الشياطين ليوحون الى اوليائھم
"شیاطین اپنے مددگاروں پر وحی نازل کیا کرتے ہیں۔"

جھوٹے نبوت کے دعویدار نصرت الٰہی کی اور غیبی امداد کی دولت سے ہمیشہ محروم رہتے ہیں اس لئے ان کو اپنی جودت طبع اور حیلہ سازیوں سے کام لے کر نقل کو اصل کی طرح ظاہر کرنا پڑتا ہے۔ مختار بھی اسی اصول کے تحت اپنی من گھڑت وحی، معجزات اور پیشنگوئیوں کو سچا ثابت کرنے کے لئے عجیب وغریب چالاکیاں کیا کرتا تھا۔ چنانچہ ایک مرتبہ بڑا لمبا چوڑا عربی الہام تالیف کیا جس کے آخری الفاظ یہ تھے۔

"رب السماء لينزلن نار من السماء فليحرقن دار لاسماء"

"آسمان کے رب کی قسم ضرور آسمان سے آگ نازل ہوگی اور اسماء کا گھر جلا دے گی۔"

دوسرے کا گھر جلوا کر پیشنگوئی پوری کر لی:

جب اسماء بن خارجہ کو مختار کے اس الہام کی خبر ہوئی تو وہ اپنا تمام مال واسباب نکال کر وہاں سے دوسری جگہ منتقل ہو گیا۔ لوگوں نے نقل مکانی کی وجہ دریافت کی تو اس نے کہا کہ مختار نے ایک الہام اپنے دل سے گھڑا ہے اس میں میرا گھر جلنے کی پیشن گوئی کی ہے اب وہ اپنے خود ساختہ الہام کو سچا ثابت کرنے کے لئے میرا مکان ضروری جلوا دے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ رات کی تاریکی میں اپنے ایک کارندے کو بھیج کر اسماء کے گھر میں آگ لگوا دی اور اپنے حلقہ مریدین میں شیخی مارنے لگا کہ دیکھا کس طرح میرے الہام کے مطابق آسمان سے آگ نازل ہوئی اور اسماء کا گھر جلا دیا۔

فرشتوں کی مدد کا ڈھونگ:

حضرت پیغمبر خدا ﷺ کا ایک معجزہ یہ بھی تھا کہ بدر وحنین کی لڑائیوں میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے آپ کی مدد فرمائی جن کو لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا قرآن پاک میں حق تعالیٰ نے اس کا ذکر بھی کیا ہے۔ ایک دفعہ مختار نے بھی بڑی چالاکی اور ہنر مندی سے ایسا ہی شعبدہ اپنے فوجیوں کو دکھایا۔

اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب مختار نے ابراہیم بن اشتر کو ابن زیاد سے لڑنے کے لئے فوج دے کر موصل روانہ کیا تو رخصت کرتے وقت لشکر کو مخاطب کر کے کہنے لگا: خدائے قدوس نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ میں کبوتروں کی شکل میں اپنے فرشتے بھیج کر تمہارے لشکر کی مدد کروں گا۔

جب لشکر روانہ ہو گیا تو اس نے اپنے خاص مقرب راز دار غلاموں کو بہت سے کبوتر دے کر حکم دیا کہ تم لوگ لشکر کے پیچھے لگ جاؤ اور جب لڑائی شروع ہو جائے تو کبوتروں کو پیچھے سے لشکر کے اوپر اڑا دینا چنانچہ غلاموں نے ایسا ہی کیا۔ فوج میں ایک دم شور مچ گیا کہ نصرت الٰہی فرشتوں کے ساتھ کبوتروں کی شکل میں آ پہنچی ہے۔ یہ دیکھ کر مختار کے لشکر کے حوصلے بڑھ گئے اور انہوں نے اپنی فتح کا یقین کر کے اس بے جگری سے دشمن پر حملہ کیا کہ اس کے پاؤں اکھڑ گئے۔

ایک خارجی فرشتوں کا عینی گواہ بن کر قتل ہونے سے بچ گیا:

جس طرح مختار نے اپنی فوج کو کبوتر دکھا کر دھوکہ دیا اسی طرح ایک خارجی قیدی مختار کو چکمہ دے کر قتل سے بچ گیا۔ واقعہ یہ ہوا کہ اس واقعہ کے بعد مختار کی خارجیوں سے مڈ بھیٹر ہو گئی جس میں مختار کو فتح ہوئی اور بہت سے لوگ قیدی بنا لیے گئے ان میں ایک شخص سراقہ بن مرداس بھی تھا اس شخص کو یقین تھا کہ مختار اس کو قتل کر دے گا چنانچہ اس نے ایک ترکیب سوچی اور جیسے ہی پہرے دار اس کو مختار کے سامنے پیش کرنے لگے تو وہ ان کو مخاطب کر کے کہنے لگا سنو نہ تو تم لوگوں نے ہمیں شکست دی اور نہ قید کیا۔ شکست اور قید کرنے والے در اصل وہ فرشتے تھے جو ابلق گھوڑوں پر سوار ہو کر تمہاری حمایت میں ہم سے لڑ رہے تھے۔ یہ بات سن کر مختار کی تو باچھیں کھل گئیں اور فرط مسرت سے جھوم اٹھا۔ فوراً حکم دیا کہ سراقہ کو رہا کر کے انعام واکرام سے نوازا جائے اور پھر سراقہ سے کہا کہ تم منبر پر چڑھ کر تمام لشکر کے سامنے اپنا مشاہدہ اور فرشتوں کے نزول کی کیفیت بیان کرو چنانچہ اس شخص نے جان بچانے کے لئے ایسا ہی کیا بعد میں یہ شخص بصرہ جا کر حضرت مصعب بن زبیر ﷜ کے لشکر میں شامل ہو کر مختار کے خلاف نبرد آزما ہوا۔

مختار کا ایک اور شعبدہ۔ تابوت سکینہ:

بنی اسرائیل میں ایک صندوق چلا آتا تھا جسے تابوت سکینہ کہتے تھے اس تابوت کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کے دوسرے پارے کے آخر میں بیان کیا ہے اس صندوق میں بعض انبیاء سلف کے تبرکات محفوظ تھے۔ جب کبھی بنی اسرائیل کو کسی دشمن کا مقابلہ در پیش ہوتا تو اس صندوق کو اپنے لشکر کے ساتھ لے جاتے حق تعالیٰ اس کی برکت سے کامیابی عطا فرماتا تھا۔

مختار نے بھی تابوت سکینہ کی حیثیت سے ایک کرسی اپنے پاس رکھی تھی جسے وہ لڑائی کے موقع پر لشکر کے ساتھ بھیجا کرتا تھا۔ اس کے فوجیوں کو یہ یقین تھا کہ یہ حضرت علی کی کرسی ہے اور اس کی برکت سے دشمن مغلوب ہو جاتا ہے۔

اب اس کرسی کا قصہ سن لیجئے۔ امیر المومنین حضرت علی کی حقیقی بہن کا نام حضرت ام ہانی تھا جو صحابیات میں داخل ہیں ان کے پوتے طفیل بن جعدہ بن ہبیرہ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ گردش روزگار سے میں ایسی مفلسی میں مبتلا ہوا کہ کسی تدبیر سے بھی کوئی صورت کشادگی اور فراخی کی نہ بن سکی آخر صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹ گیا اور میں عالم اضطرار میں اس بات پر غور کرنے لگا کہ کوئی حیلہ بنا کر کسی مالدار سے رقم اینٹھی جائے۔ اس ادھیڑ بن میں تھا کہ مجھے میرے ہمسایہ تیلی کے یہاں ایک بہت پرانی وضع کی کرسی دکھائی دی میں نے دل میں خیال کیا کہ اس کرسی سے کچھ شعبدہ دکھایا جائے۔ چنانچہ وہ کرسی میں نے اس تیلی سے خریدی اور مختار کے پاس جا کر کہا کہ ایک راز میرے دل میں پنہاں تھا جس کو میں کسی پر ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا مگر اب میں نے یہی مناسب خیال کیا کہ آپ کے روبرو بیان کر دوں مختار نے کہا ہاں ضرور اور فوراً بیان کرو میں نے کہا کہ حضرت علی مرتضیٰ ﷜ کی ایک کرسی ہمارے گھرانے میں بطور تبرک چلی آئی ہے اور اس کرسی میں ایک خاص تصرف اور اثر ہے۔ مختار نے کہا سبحان اللہ تم نے آج تک اس کا تذکرہ بھی نہیں کیا۔ اب جاؤ اور فوراً میرے پاس لے کر آؤ۔ میں نے گھر جا کر اس کرسی کا معائنہ کیا اس کا جما ہوا تیل کھرچ کر اتارا اور خوب گرم پانی سے دھو کر صاف کیا تو وہ بہت خوبصورت دکھائی دینے لگی۔ کیونکہ اس نے روغن زیتون خوب پیا تھا اس لئے چمکدار بھی ہو گئی۔

میں اس کرسی کو صاف کپڑے سے ڈھانپ کر مختار کے روبرو لایا۔ مختار نے مجھے اس کے عوض بارہ ہزار درہم انعام دیئے۔ جس سے میرے سارے دلدر دور ہو گئے اور مجھے خوشحال کر دیا۔

طفیل بن جعدہ مزید کہتے ہیں کہ مختار اس "نعمت غیر مترقبہ" ملنے پر پھولے نہیں سماتا تھا اس نے اعلان کرایا کہ سب لوگ جامع مسجد میں جمع ہو جائیں جب سب لوگ جمع ہو گئے تو اس نے سب لوگوں کے سامنے ایک خطبہ دیا اور کہا کہ لوگوں سابقہ امتوں میں کوئی بات ایسی نہیں ہوئی جس کا نمونہ اور مثال اس امت محمدیہ میں موجود نہ ہو۔ بنی اسرائیل کے پاس ایک تابوت تھا جس میں آل موسیٰ اور آل ہارون کے تبرکات محفوظ تھے اسی طرح ہمارے پاس بھی ہمارے بزرگوں کا ایک تحفہ موجود ہے۔ یہ کہہ کر مختار نے کرسی سے کپڑا ہٹایا اور اشارہ کر کے کہا کہ یہ اہل بیت کے تبرکات میں سے ہے۔ کرسی کو سب کے سامنے لایا گیا۔ سیائی فرقے کے لوگ جوش مسرت میں کھڑے ہو کر نعرہ تکبیر بلند کرنے لگے۔

کرسی کی عظمت کا غلو حد کفر تک پہنچ گیا:

جب مختار نے ابن زیاد کے مقابلے میں ابراہیم بن اشتر کو روانہ کیا تو شیعان علی نے اس کرسی پر دیباج حریر لپیٹ کر اس کا جلوس نکالا۔ سات آدمی داہنی طرف اور سات بائیں جانب اس کو تھامے ہوئے تھے اور تابوت سکینہ کی طرح یہ کرسی لشکر کے ساتھ بھیجی گئی۔ قضائے الٰہی سے اس لڑائی میں ابن زیادہ کو ایسی زبردست شکست ہوئی کہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔ یہ دیکھ کر شیعہ حضرات اس "تابوت سکینہ" کے حصول پر حد سے گزری ہوئی خوشیاں اور مجنونانہ حرکتوں کا اظہار کرنے لگے اور ان کی نظر میں اس کرسی کی عظمت وتقدس کائنات کی ہر چیز سے بڑھی ہوئی تھی۔

طفیل کہتے ہیں کہ یہ افسوسناک صورت حال دیکھ کر مجھے اپنی حرکت پر سخت ندامت ہونے لگی کہ میری نا لائقی سے عقیدے کا اتنا بڑا فتنہ پیدا ہو گیا۔ مورخین نے لکھا ہے کہ مختار ہی نے شیعوں میں رسم تعزیہ داری جاری کی تھی جس سے یہ یقین ہوتا ہے کہ یہی کرسی تعزیہ داری اور تابوت سازی کی اصل تھی۔

مختار کا الہامی کلام جو اس نے قرآن کے مقابل پیش کیا:

مختار اپنے خود ساختہ الہام کو بڑی مسجع اور مقفی عبارت میں لکھتا رہا یہاں تک کہ ایک پورا رسالہ تیار کر لیا پھر لوگوں کے سامنے اس کو پیش کیا۔ اور قرآن پاک کا مقابل ٹھہرایا۔ علامہ عبد القاہر کی کتاب "الفرق بین الفرق" میں اس عبارت کو نقل کیا گیا ہے۔

مختار کا زوال:

کوفہ کا ایک بہادر شخص ابراہیم بن اشتر اس کا دست راست تھا۔ مختار کو جس قدر ترقی اور عروج نصیب ہوا وہ سب ابراہیم بن اشتر کی شجاعت اور حسن تدبیر کا رہین منت تھا۔ ابراہیم جس طرف گیا شجاعت واقبال مندی کے پھریرے اڑاتا گیا اور جس میدان جنگ میں گیا کامیابی وکامرانی نے اس کے قدم چومے۔ ابراہیم ہر میدان میں مختار کے دشمنوں سے لڑتا رہا۔ یہاں تک کہ اس کے اقبال کو اوج ثریا تک لے گیا۔ لیکن جب مصعب ابن زبیر والی بصرہ نے کوفہ پر حملہ کیا جس میں مختار کے لشکر کو زبر دست شکست اٹھانی پڑی تو اس موقع پر ابراہیم نے مختار کا ساتھ نہیں دیا بلکہ موصل شہر میں الگ بیٹھ کر مختار کی ذلت وبربادی کا تماشا دیکھتا رہا اور یہی وقت تھا جب سے مختار کا کوکب اقبال رو بہ زوال ہونا شروع ہوا۔

مختار کے دعوائے نبوت نے ابراہیم کو بیزار کر دیا:

اور مورخین مثلاً ابن جریر طبری اور کامل ابن اثیر وغیرہ نے اس راز سے پردہ نہیں اٹھایا کہ ابراہیم جیسا رفیق مختار سے کیوں بیزار ہوا اور مصعب ابن زبیر کے خلاف کیوں اس کا ساتھ نہیں دیا۔ لیکن علامہ عبد القادر بغدادی نے حقیقت حال کے چہرے کو بے نقاب کیا ہے وہ اپنی کتاب "الفرق بین الفرق" میں لکھتے ہیں کہ:

"جب ابراہیم کو اس بات کا علم ہوا کہ مختار نے علی الاعلان نبوت کا دعویٰ کیا ہے تو وہ نہ صرف اس سے الگ ہو گیا بلکہ اپنی خود مختاری کا اعلان کر کے بلاد جزیرہ پر قبضہ بھی جما لیا۔"

مصعب ابن زبیر کا کوفہ پر حملہ۔ محاصرہ اور مختار کا قتل:

ابراہیم بن اشتر کی رفاقت سے محروم ہونے کے بعد مختار کی قوت مدافعت بہت کم ہو گئی اس بات سے مصعب بن زبیر نے فائدہ اٹھایا اور کوفہ پر حملہ کی غرض سے بصرہ سے کوچ کیا۔ مختار بیس ہزار کا لشکر لے کر مصعب کے لشکر پر ٹوٹ پڑا۔ حرورا کے مقام پر سخت گھمسان کا رن پڑا۔ مصعب ابن زبیر نے کافی نقصان برداشت کرنے کے بعد آخر کار مختار کو شکست دی اور مختار بھاگ کر قصر امارت میں محصور ہو گیا بیس ہزار کے لشکر میں سے اب مختار کے پاس صرف آٹھ ہزار کی تعداد تھی جو سب قصر امارت میں اس کے ساتھ محصور تھے۔

مصعب ابن زبیر نے چار مہینے تک قصر امارت کا محاصرہ کیا اور غلہ پانی اور دوسری ضروریات زندگی کی رسد بالکل کاٹ دی۔ جب محاصرہ کی سختی نا قابل برداشت ہو گئی تو مختار نے اپنے لشکر کو باہر نکل کر لڑنے کی ترغیب دی۔ مگر صرف اٹھارہ آدمیوں کے سوا کوئی باہر نکلنے پر تیار نہیں ہوا۔

آخر کار مختار اپنے اٹھارہ آدمیوں کے ساتھ قصر امارت سے نکل کر مصعب کے لشکر پر حملہ آور ہوا اور تھوڑی ہی دیر میں معہ اپنے اٹھارہ ساتھیوں کے ہلاک ہو گیا۔ یہ واقعہ ۱۴ رمضان ۶۷ھ کو پیش آیا۔

Powered by Netsol Online