پورا نام بایزید ابن عبد الله انصاری 931ھ بمقام جالندھر (پنجاب) میں پیدا ہوا۔ بڑا عالم اور صاحب تصنیف تھا۔ حقائق ومعارف بیان کرنے میں ید طولی رکھتا تھا اور لوگوں کے دل پر اسکی علمیت اور کمالات کا سکہ جما ہوا تھا۔ اس کے دعویٰ نبوت سے پہلے ہمایوں بادشاہ کے خلف مرزا محمد کلیم صوبہ دار کابل نے اپنے دربار میں علماء سے اس کا مناظرہ کرایا تھا۔ علمائے کابل جو علوم عقلیہ سے بالکل تہی دست تھے۔ روایتوں کے اسلحہ سے مسلح ہو کر مقابلے پر آئے مگر بایزید کے سامنے ان کو کامیابی نہ ہو سکی اور صوبہ دار بایزید کی علمیت اور زور کلام سے اتنا مرعوب ہوا کہ خود ہی اس کا معتقد ہو گیا۔
ابتداء میں یہ شخص ہر وقت یاد الٰہی میں مشغول رہتا اور تقویٰ پرہیزگاری کی زندگی گزارتا تھا۔ اس وقت اس کے رشتہ داروں میں ایک شخص خواجہ اسمٰعیل نامی اہل اللہ میں سے تھا اور صاحب ارشاد بھی تھا۔ بایزید نے بھی اس کے حلقہ ارادت میں داخل ہونا چاہا مگر اس کا باپ عبد الله مانع ہوا اور کہنے لگا کہ میرے لئے یہ بات بڑی بے عزتی کی ہے کہ تم اپنے ہی عزیزوں میں سے ایک غیر مشہور آدمی کے ہاتھ پر بیعت کرو۔ بہتر یہ ہے کہ مان جاؤ اور شیخ بہاؤ الدین ذکریا کی اولاد میں سے کسی کو اپنا شیخ بناؤ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بایزید کسی شیخ سے بھی مرید نہیں ہوا اور اہل اللہ کی صحبت اس کو نصیب نہ ہو سکی انجام کار شیطان کے اغواء کا شکار ہو گیا۔ تمام مشائخ اس پر متفق ہیں کہ جیسے ہی کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی عبادت واطاعت اور تقویٰ وپرہیزگاری کا راستہ اختیار کرتا ہے ابلیس کی طرف سے اس کو اس راستے سے ہٹانے کی کوششیں شروع ہو جاتی ہیں۔ ابلیس کے ہزاروں مکر وفریب ہیں وہ عالموں، زاہدوں اور عابدوں کو ان کے من بھاتے طریقے سے گمراہ کرتا ہے۔ مختلف نوری شکلوں میں ظاہر ہوتا ہے اور طرح طرح کے سبز باغ دکھا کر اور مدارج علیا کے مژدے سناکر ان کو راہ حق سے پھیرنے کی کوششیں کرتا ہے۔ ایسی حالت میں اگر کسی مسیحا نفس مرشد اور اہل اللہ کا سایہ سر پر ہو تب تو یہ عابد محفوظ رہتا ہے۔ ورنہ اس بری طرح شیطان اس کے دل ودماغ کو گمراہ کرتا ہے کہ وہ اسفل السافلین میں جا گرتا ہے۔
یا پھر دوسرا طریقہ محفوظ رہنے کا یہ ہے کہ اگر کسی شیخ اہل اللہ کی صحبت نصیب نہ ہو تو اپنے ہر عمل کو الہام کو مکاشفات کو شریعت کی کسوٹی پر پرکھ کر دیکھ لیں مشکل یہ ہے کہ عابد وزاہد اکثر نوری شکلیں دیکھ کر اور طرح طرح کی دل آویز صدائیں سن کر اپنے اوسان خطا کر دیتے ہیں اور کتاب وسنت اور مسلک سلف صالح سب کو پس پشت ڈال کر شیاطین کے آگے کٹ پتلی کی طرح ناچنے لگتے ہیں۔
بایزید کا بھی یہی حال ہوا۔ شیطان کا اس پر پورا قابو چل گیا اور اپنی ریاضت وعبادت کے انوار وثمرات سے بہک کر اپنے آپ کو عرش بریں پر خیال کرنے لگا اور یہ خیال یہاں تک بڑھا کہ اپنے آپ کو نبی کہنے لگا اور لوگوں سے کہتا تھا کہ جبریل امین میرے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیغام لاتے ہیں اور میں اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوتا ہوں۔ اس نے لوگوں سے کہا کہ مجھے غیب سے ندا آئی ہے کہ سب لوگ آج سے تمہیں روشن پیر کہا کریں گے چنانچہ اس کے ماننے والے اس کو ہمیشہ اسی لقب سے یاد کرتے ہیں۔ لیکن عام مسلمین میں وہ تاریک پیر اور پیر ظلالت کے نام سے مشہور تھا۔
اس نے ایک کتاب بنام "خیر البیان" چار زبانوں عربی، فارسی، ہندی اور پشتو میں لکھی اور اس کو کلام الٰہی کہہ کر لوگوں کے سامنے پیش کیا اور کہا کہ میں نے اس میں وہی کچھ لکھا ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر وحی کیا ہے۔
بایزید جب کالنجر سے کافی کرم آیا تو یہاں اس نے اپنے عقیدہ تناسخ کی اشاعت شروع کر دی۔ بایزید کا باپ عبد اللہ جو ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھا بیٹے کی اس گمراہی پر بہت غضبناک ہوا اور غیرت دینی سے مجبور ہو کر بایزید پر چھری لے کر چل پڑا۔ بایزید بری طرح مجروح ہوا اور کامی کرم چھوڑ کر افغانستان کے علاقے ننگر ہار چلا آیا اور قبیلہ مہند میں سلطان احمد کے مکان میں رہنے لگا۔
جب وہاں کے علماء کو بایزید کی گمراہی اور بد مذہبی کا حال معلوم ہوا تو سب اس کی مخالفت پر متفق ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے اور لوگوں کو بایزید کے عقائد سے آگاہ کرنے لگے اس لئے لوگ اب اس سے دور بھاگنے لگے۔ جب وہاں اس کا جادو نہ چل سکا تو یہ پشاور جا کر غور یا خیل پٹھانوں میں رہنے لگا۔ یہاں چونکہ کوئی عالم دین اس کی مزاحمت کرنے والا نہیں تھا اس لئے اسے خاطر خواہ کامیابی ہوئی یہاں تک کہ اس علاقے میں بلا شرکت غیرے اپنی پیشوائی اور مشیخت کا سکہ چلانے لگا اور قریب قریب ساری قوم خیل اس کی اطاعت کرنے لگی۔
بایزید یہاں اپنا تسلط قائم کر کے اب ہشت نگر وارد ہوا۔ یہاں بھی اس کی اطاعت اور عقیدت کا بازار گرم ہو گیا۔ ایک دینی عالم اخوند درویزہ سے بایزید کا مناظرہ ہوا جس میں بایزید مغلوب بھی ہو گیا مگر اس کے مرید ایسے اندھے خوش اعتقاد اور طاقتور تھے کہ اخوند درویزہ کی ساری کوششیں بیکار ہو گئیں۔
جب بایزید کی مذہبی غارت گری کا حال کابل کے گورنر محسن خان نے سنا جو اکبر بادشاہ کی طرف سے کابل کا حاکم تھا تو وہ بہ نفس نفیس ہشت نگر آیا اور بایزید کو گرفتار کر کے لے گیا اور ایک مدت تک اس کو قید میں رکھ کر رہا کر دیا۔ بایزید ہشت نگر آگیا اور اپنے مریدوں کو جمع کر کے آس پاس کے پہاڑوں میں جاکر مورچہ بند ہو گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے آفریدی اور درگزی پٹھانوں کو بھی اپنے مریدی کے رام میں پھانس لیا اور اہل سرحد کے دلوں میں اس کی عقیدت کی گرمی اس طرح دوڑنے لگی جس طرح رگوں میں خون دوڑتا ہے۔
جس طرح ابلیس ہندوستان کے جھوٹے نبی مرزا قادیانی کو اپنی جھوٹی نورانی شکلیں دکھایا کرتا تھا اور مرزا گمراہ ہو کر اس کو اپنا معبود برحق سمجھتا تھا اسی طرح بایزید بھی ابلیس کے شعبدے اور اس کی فریبی نورانی شکل دیکھ کر اس کو (معاذ اللہ) خدائے برتر سمجھ بیٹھا تھا۔ چنانچہ اسی یقین کی بدولت کہ میں نے خدا کو دیکھا ہے دوسروں سے یہ سوال کیا کرتا تھا کہ تم لوگ کلمہ شہادت "اشهد ان لا اله الا الله" پڑھنے میں جھوٹے ہو۔ کیونکہ جس نے خدا کو نہیں دیکھا پھر وہ کہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو وہ اپنے قول میں جھوٹا ہے کیونکہ جو شخص خدا کو نہیں دیکھتا وہ اس کو پہچانتا بھی نہیں۔
ایک سرحدی عالم کے ساتھ بایزید کی بحث ہوئی۔
عالم صاحب: تمہیں کشف القلوب کا دعویٰ ہے بتاؤ اس وقت میرے دل میں کیا ہے؟
بایزید: (ملحدانہ عیاری سے کام لیتے ہوئے) میں تو یقیناً کاشف قلوب اور لوگوں کے خیالات سے آگاہ ہوں لیکن چونکہ تمہارے سینے میں تو دل ہی نہیں ہے اس لئے میں کیا بتا سکتا ہوں۔
عالم صاحب: اس کا فیصلہ بہت آسان ہے۔ یہ قوم کے لوگ سن رہے ہیں۔ تم مجھے قتل کر دو اگر میرے سینے سے دل برآمد ہو جائے تو پھر لوگ میرے قصاص میں تمہیں بھی قتل کر دیں گے۔
بایزید: یہ دل جس کو تم دل سمجھتے ہو یہ تو گائے بکری اور کتے تک میں موجود ہے۔ دل سے مراد گوشت کا ٹکڑا نہیں دل اور ہی چیز چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:
"قلب المومن اكبر من العرش وارسع من الكرسی"
"مومن کا دل عرش سے زیادہ بڑا اور کرسی سے زیادہ وسیع ہے۔"
(بایزید کا یہ بیان بالکل لغو ہے دل اسی گوشت کے لوتھڑے کو کہتے ہیں جو صوفیائے کرام کی اصلاح میں لطیفہ قلب کی جگہ ہے اور حدیث شریف میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے اگر اس کی اصلاح ہو جائے تو سارے جسم کی اصلاح ہو جاتی ہے اور جب اس میں فساد رونما ہو تو سارا جسم فاسد ہو جاتا ہے اور وہ لوتھڑا دل ہے۔ حضرات صوفیہ طرح طرح کے مجاہدات اور ذکر واشغال سے اسی قلب کی اصلاح میں کوشاں رہتے ہیں جب یہ صاف ہو جاتا ہے اور ماسوا کے غبار سے پاک ہو جاتا ہے تو اس پر تجلیات الٰہی کا وارد ہوتا ہے اور یہ معرفت الٰہی کے نور سے جگمگا اٹھتا ہے اور اسی دل کی آنکھوں سے اہل اللہ خدائے بزرگ وبرتر کو دیکھتے ہیں اور دوسروں کے حالات اور خیالات سے باخبر ہونے کی صلاحیت بھی اس میں پیدا ہو جاتی ہے اور بایزید کو چونکہ کشف قلوب کا دعوی تھا اس لئے عالم صاحب اس سے اپنے دل کا راز دریافت کرنے میں حق بجانب تھے مگر بایزید نے جیسے کہ جھوٹے دجالوں، نبیوں اور شعبدہ بازوں کا طریقہ ہے اس سوال کو باتوں میں اڑا دیا اور مومن کے دل کا عرش سے بڑا ہوتا اور کرسی سے وسیع ہونے کا مقولہ جو بایزید نے حضرت خیرا بشر ﷺ کی طرف منسوب کیا وہ محض جھوٹ ہے یہ قول ہو سکتا ہے کہ کسی صوفی کا ہو مگر حضور ﷺ سے ثابت نہیں)
عالم صاحب: اچھا تم یہ بھی دعویٰ کرتے ہو کہ تمہیں کشف قبور ہوتا ہے ہم تمہارے ساتھ قبرستان چلتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کوئی مردہ تم سے ہم کلام ہوتا ہے یا نہیں بولو منظور ہے؟
بایزید: مردہ تو مجھ سے یقیناً ہم کلام ہوگا مگر مشکل یہ ہے کہ تم کچھ نہیں سن سکو گے اگر تم مردے کی آواز سن سکتے تو میں تمہیں کافر کیوں کہتا۔ اس جواب پر لوگ کہنے لگے کہ پھر ہم کس طرح یقین کریں کہ تم سچے ہو۔
بایزید بولا کہ تم میں سب سے بہتر اور فاضل شخص میرے پاس کچھ عرصے رہے اور میرے طریقے کے مطابق عبادت وریاضت بجا لائے پھر اس سے تصدیق کر لینا۔ پاکستان کے جھوٹے نبی مرزا قادیانی نے بھی اسی قسم کی ایک مضحکہ خیز شرط پیش کی تھی کہ جو کوئی میرا معجزہ دیکھنا چاہے وہ قادیان آئے اور نہایت حسن اعتقاد کے ساتھ ایک سال تک رہے اس کے بعد میں معجزہ دکھا دوں گا۔
سرحد کے عقیدت مندوں سے طاقت حاصل کر کے بایزید نے سرحد میں اپنے قدم مضبوطی سے جما لیے یہاں تک کہ اکبر بادشاہ کی اطاعت سے باہر ہو کر علی الاعلان اس کا حریف بن کر مقابلے پر آگیا۔ بایزید اپنی تقریروں میں کہتا کہ مغل بڑے ظالم اور جفا پیشہ ہیں انہوں نے افغانوں پر بڑے ظلم توڑے ہیں۔ اس کے علاوہ اکبر بادشاہ سخت بے دین ہے اس لئے اس کی اطاعت ہر کلمہ گو پر حرام ہے۔ ان تقریروں کا یہ اثر ہوا کہ ہر جگہ مغلیہ سلطنت کے خلاف اشتعال پیدا ہو گیا اور اکثر سرحدی قبائل اکبر بادشاہ سے منحرف ہو گئے۔
جب بایزید کی بغاوت حد سے بڑھ گئی تو اکبر کے کان کھڑے ہوئے اور اس نے ایک لشکر جرار اس کی سرکوبی کے لئے روانہ کیا مگر مقابلہ ہوتے ہی بایزید کے ہاتھوں شکست کھا گیا۔ اس فتح سے بایزید کے حوصلے اور بڑھ گئے اور افغانوں کی نظر میں شاہی فوج کی کوئی حقیقت نہ رہی اور ان کے علاقوں میں اکبری حکومت کے خلاف ایسے ایسے مفاسد پیدا ہوئے جو کسی طرح بھی ایک حکومت کے زوال کا باعث ہو سکتے تھے۔
اکبر بادشاہ یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا لہٰذا اس نے ایک شاطرانہ چال چلی اور وہ یہ کہ اس نے سب سے پہلے اہل تیراہ کو اندرون خانہ خوب انعام واکرام اور مال ودولت سے نواز کر ہم نوا بنا لیا۔ اب بظاہر تو اہل تیراہ یزید کا کلمہ پڑھتے تھے مگر باطن سلطنت مغلیہ کے وفادار تھے۔ جب بایزید کو اہل تیراہ کے اس مکر وفریب کا حال معلوم ہوا تو اس نے ان پر حملہ کر کے سینکڑوں کو قتل اور سینکڑوں کو ملک بدر کر کے پورے علاقے پر اپنا تسلط قائم کر لیا۔ اس کے بعد اس نے ننگر ہار پر حملہ کر کے اس کو بھی قبضے میں لے لیا اور جن بستیوں نے اس کے حکم سے ذرا بھی سرتابی کی انہیں لوٹ کر برباد کر دیا اس طرح اب سرحد میں کسی کو اس کی اطاعت سے انکار کی جرات نہیں رہی۔ مگر بایزید کے ظلم سے اور لوٹ مار سے لوگوں کے دل میں اس کی عقیدت کم ہونے لگی اور بعض قبائل نے اس سے منحرف بھی ہونا چاہا مگر چونکہ اس کی قوت اور شان وشوکت سے سب مرعوب تھے اس لئے کوئی مخالفت کامیابی نہ ہو سکی۔
اکبر بادشاہ بایزید کی بڑھتی ہوئی قوت دیکھ کر ہر وقت اس کی سرکوبی کے منصوبے بناتا تھا آخر کار اس نے بڑے اعتماد کے ساتھ ایک فوج گراں اس کے مقابلے کے لئے روانہ کی اور کابل کے صوبہ دار محسن خان کو بھی حکم دیا کہ ایک طرف وہ اس پر حملہ کرے چنانچہ کابل سے محسن خان اور دوسری طرف شاہی افواج نے بایزید کی فوج پر حملہ کر دیا۔ میدان جنگ آتش قتال سے بھڑک اٹھا ہر چند ہر طرف سے قبائلی بایزید کی حمایت میں آ رہے تھے مگر اب بایزید کا ستارہ روبہ زوال ہو چکا تھا وہ دو طرفہ فوجوں کے مقابلہ میں ٹھہر نہیں سکا اور شکست کھا کر بھاگا بہت سے اس کے فوجی مارے گئے باقی لشکر نے دشوار گزار پہاڑوں پر چڑھ کر جان بچائی خود بایزید ہشت نگر آکر از سر نو لشکر کی ترتیب میں مشغول ہوا مگر اس کی عمر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔ افغانستان کے سلسلہ کوہ میں بھیتر پور کی پہاڑیوں میں اس کا آخری وقت گزرا اور اس علاقے میں اس کی قبر واقع ہے۔
جیسے کہ آج تک کذاب یمامہ سے لے کر کذاب قادیان تک ہر جھوٹے نبوت کے دعویداروں نے اپنی خانہ ساز شریعتیں جاری کیں یا رسول اللہ ﷺ کی شریعت مطہرہ میں ترمیم وتنسیخ کی جسارت کی اسی طرح بایزید نے بھی اپنی شریعت گڑھی تھی اور عربی عبارتیں لکھ لکھ کر اپنی مرضی کے مطابق ڈھال کر اس کو نبی ﷺ کی طرف منسوب کر دیتا تھا مثلاً کہتا تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:
"الشریعته كمثل اليل والطیريقته كمثل النجوم والحقيقته كمثل القمر والمعرفته كمثل الشمس وليس فوق الشمس شئ"
"شریعت رات کی طرح ہے اور طریقت ستاروں کی طرح حقیقت چاند کی مانند ہے اور معرفت آفتاب کی طرح ہے اور آفتاب سے بڑھ کر کوئی شے نہیں۔"
حالانکہ یہ دعویٰ بالکل غلط اور باطل ہے کہ شریعت رات کی طرح ہے ان خرافات کا قائل سوائے ملحدوں اور زندیقوں کے کوئی اور نہیں ہوتا چہ جائیکہ ان خرافات کو رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کرنا۔
فخر موجودات جناب رسول اللہ ﷺ کی شریعت مطہرہ کے جتنے بھی احکام ہیں وہ سب انسان کے نفس امارہ کی خواہشات کی مخالفت پر مبنی ہیں تاکہ انسان ان پر عمل کر کے اپنے نفس امارہ پر غالب آئے اور اس کو صفائے نفس نصیب ہو اور قلب حق تعالیٰ کی تجلیات کا متحمل ہو سکے اس حدیث شریف میں اسی طرف اشارہ ہے:
"الا وان الجنته حفت بالمكاره وان النار حفت بالشهوات"
"سن لو جنت نفس کے خلاف کام کرنے سے حاصل ہوگی اور دوزخ میں لوگ اپنے نفس کی شہوات کی پیروی کی وجہ سے جائیں گے۔"
چنانچہ جتنے شریعت مطہرہ کے احکام ہیں وہ سب نفس کے خلاف ہیں مثلاً روزہ، خیرات، نماز، وضو، زکوٰة، حج، غسل جنابت وغیرہ اور یہ سب انسان کو جنت میں لے جانے والے اعمال ہیں۔
اس کے برعکس آج تک جتنے جھوٹے نبوت کے دعویدار کذاب یمامہ سے کذاب قادیان تک ظاہر ہوئے ہیں ان سب میں ایک چیز مشترک رہی ہے اور وہ ہے ان کی خود ساختہ شہوت انگیز اور نفس امارہ کی خواہشوں کے عین مطابق ان کا دین اور شیطانی شریعت۔ چنانچہ کسی نے نمازیں پانچ کے بجائے دو کر دیں کسی نے روزے اڑا دیے کسی نے حج ختم کر دیا کسی نے زنا کو جائز قرار دے دیا کوئی غسل جنابت کو لے اڑا۔ کہیں شراب حلال ہو گئی غرضیکہ جہنم میں جانے کا پورا پورا بندوبست اور سامان مہیا کر دیا گیا چنانچہ اب بایزید کی شریعت کا ۔۔۔۔۔ دیکھیے۔
1۔ غسل جنابت کی ضرورت نہیں۔ ہوا لگنے سے بدن خود بخود پاک ہو جاتا ہے کیونکہ چاروں عناصر ہوا، آگ، پانی اور مٹی پاک کرنے والے ہیں۔
2۔ جو شخص مجھ پر ایمان نہ لائے وہ مسلمان نہیں۔
3۔ ایسے شخص کا ذبیحہ حرام ہے۔
4۔ قبلہ کی طرف رخ کرنا ضروری نہیں۔ جدھر چاہو منہ کر کے نماز پڑھ لو۔
5۔ مسلمانوں کی میراث ان کے وارثوں کی نہیں بلکہ میرے مریدوں کی ہے۔
6۔ جو لوگ مجھ پر ایمان لائے بس وہی زندہ ہیں باقی سب مسلمان مردہ ہیں اور مردوں کو میراث نہیں ملا کرتی۔
7۔ ایسے مردہ مسلمانوں کو قتل کر دینا واجب ہے۔
بایزید کے مرنے کے بعد اس کی اولاد نے ایک عرصے تک مسلمانوں پر لوٹ مار اور قتل وغارت گری کا بازار گرم رکھا۔ مغل بادشاہ اکبر اور اس کے بیٹے جہانگیر سے اس کی اولاد کا ٹکراؤ ہوتا رہتا تھا آخر کار شاہجہاں بادشاہ کے زمانے میں اس کی اولاد مغل سلطنت کی مطیع ہو گئی اور جھوٹی نبوت کے پیرو بھی ختم ہو گئے۔