Khatam e Nabuwat

میر محمد حسین مشہدی

ایران کے شہر مشہد کا رہنے والا تھا۔ سلطان اورنگزیب عالمگیر کے آخری زمانے میں دولت دنیا کی تحصیل کا شوق اس کو ہندوستان کھینچ لایا۔ اس سے پہلے یہ کابل گیا جہاں امیر خان حاکم تھا اور اس کی داد ودہش اور فیض گستری کا ایران بھر میں بڑا شہرہ تھا۔ میر محمد حسین عالم آدمی تھا اس لیے کابل میں اس کی بڑی پذیرائی ہوئی یہاں تک کہ امیر خان نے اپنے لڑکوں کی تعلیم وتربیت بھی اس کے سپرد کر دی امیر خان کی بیوی صاحب جی کے کوئی اولاد نہیں تھی اسلئے اس نے اپنے ملازم کی لڑکی لے کر پال رکھی تھی اور امیر خان سے کہہ دیا تھا کہ کوئی ذی علم نیک آدمی مل جائے تو اس لڑکی کا اس سے نکاح کر دینا۔ امیر خان نے میر محمد حسین کی علمی قابلیت دیکھ کر اس لڑکی سے نکاح کر دیا۔ اس تقریب سے اس کو امیر خان کے دربار میں مزید تقرب حاصل ہو گیا اور امیر خان کا لڑکا ہادی علی خان تو گویا میر محمد حسین کا جیسے زر خرید غلام کی طرح پیش آنے لگا۔

کچھ دن کے بعد امیر خان کا انتقال ہو گیا تو میر محمد خان بہت نفیس اور بیش بہا عطریات کے تحائف لے کر اورنگ زیب سے ملنے دہلی آیا تاکہ اس کے دربار میں رسائی حاصل کر کے کوئی بڑا منصب حاصل کرے لیکن یہ ابھی لاہور تک پہنچا تھا کہ اورنگ زیب کا انتقال ہو گیا۔

نئے مذہب کی ابتداء:

میر محمد خان کا دماغ اب نخوت وخود بینی سے بھر چکا تھا اور رائج الوقت مذاہب کی پیروی کو اپنے لئے ننگ وعار سمجھتا تھا اس لئے اس نے ایک نیا مذہب روشناس کرانے کا منصوبہ بنایا۔ چنانچہ اپنے شاگرد رشید منشی زادے سے کہا کہ ایک ایسی مشکل آن پڑی ہے کہ جس کی عقدہ کشائی تمہارے ہی ناخن تدبیر سے ہو سکتی ہے اگر تم مدد اور تعاون کا وعدہ کرو تو یہ راز تم پر آشکار کروں غرض خوب قول واقرار لے کر اس کے سامنے یہ تجویز پیش کی۔

ہم تم دونوں مل کر ایک نیا مذہب جدید قواعد اور نئی زبان میں ایجاد کر کے نزول وحی کا دعویٰ کریں اور اپنے لئے ایک نیا مرتبہ تجویز کریں جو نبوت اور امامت کے درمیان ہو تاکہ انبیاء اور اولیاء دونوں کی شان اپنے اندر پائے جانے کا دعویٰ درست ہو سکے۔ دنیا کا منصب، عیش وعشرت اور ریاست وسرداری حاصل کرنے کا یہ ایک ایسا طریقہ ہے کہ اس سے بہتر ممکن نہیں۔ دونوں استاد اور شاگرد ایک ہی خمیر سے اٹھے تھے شاگرد نے بڑی خوشی اور گرمجوشی سے اس تجویز کو قبول کر لیا۔

مذہبی اختراعات وایجادات:

اپنے منصوبہ کے مطابق محمد حسین نے ایک کتاب لکھی جس کو فارسی کے جدید الفاظ سے مزین کیا اور اس میں متروک اور غیر مانوس الفاظ کی خوب بھرمار کی اور بہت سے پرانے اور فارسی الفاظ عربی طریقہ پر ترخیم کر کے درج کیے اور اس کو الہامی کتاب کا درجہ دیا اور اس کا نام "آقوزہ مقدمہ" رکھا۔

اس کتاب کی اشاعت کے بعد اس نے نزول وحی اور اپنے کو "بیگوگیت" کہنا شروع کر دیا اور دعویٰ کیا کہ یہ رتبہ نبوت اور امامت کے درمیان ہے اور کہا کہ ہر اولو العزم پیغمبر کے نو بیگوک تھے چنانچہ حضرت محمد ﷺ کے بھی نو بیگوک تھے:

حضرت علی ، امام حسن ، امام حسین ، امام زین العابدين، امام محمد باقر، امام جعفر صادق، امام موسیٰ کاظم، امام علی رضا

1۔ امام علی رضا تک امامت اور بیگوگیت دونوں جمع رہیں پھر یہ دونوں منصب الگ الگ ہو گئے چنانچہ امام علی رضا کے بعد درجہ بیگوگیت میری طرف منتقل ہو گیا اور امامت امام محمد تقی کو ملی اس طرح اب میں خاتم بیگوگیت ہوں۔ شیعوں کے سامنے اس قسم کی باتیں کرتا اور جب اہل سنت والجماعت سے ملتا تو خلفا کے نام لے کر نواں بیگوگ اپنی ذات کو بتاتا اور کہا کہ مجھے کسی خاص مذہب سے کوئی سروکار نہیں بلکہ میں تو تمام مذاہب کا چراغ روشن کرنے والا ہوں اور وہ یہ بھی کہا کرتا تھا کہ (معاذ اللہ) حضرت فاطمہ زہرا کا جو حمل ساقط ہوا تھا اور جس کا نام محسن رکھا گیا تھا وہ دراصل میں ہی تھا۔

2۔ اپنے ماننے والوں کا لقب "فربودی" رکھا تھا اور اسلام کے عیدین کی طرح کچھ ایام اس نے بھی مخصوص کیے تھے جن کا احترام عید کی طرح کیا جاتا تھا۔

3۔ کہتا تھا کہ مجھ پر دو طرح وحی نازل ہوتی ہے ایک توجہ میں قرص آفتاب پر نظر کرتا ہوں تو اس پر کچھ کلمات لکھے ہوئے نظر آتے ہیں ان سے اکتساب علم کر لیتا ہوں بعض مرتبہ اس کا نور اس قدر محبط ہو جاتا ہے کہ برداشت نہیں ہو سکتا بلکہ ہوش وحواس بھی بجا نہیں رہتے اور دوسرے اس طرح کہ ایک آواز سنائی دیتی ہے چنانچہ میں جو کچھ اپنے ماننے والوں سے کہتا ہوں وہ اس آواز کے مطابق ہوتا ہے۔

4۔ جس روز اس پر پہلی وحی نازل ہوئی (شیطان القا) اس دن کا نام یوم جشن قرار دیا اور جس جگہ نازل ہوئی اس مقام کو غار حرا سے تشبیہ دیتا تھا۔ ہر سال ایک جم غفیر کے ساتھ اس مقام پر جا کر جشن منایا جاتا تھا اور سب سے کہتا تھا کہ یہی مقام تمہارے بیگوگ کا محیط وحی ہے یہ جشن سات دن تک جاری رہتا تھا۔

5۔ اس نے پانچ وقت کی نماز کی جگہ ہر روز تین مرتبہ اپنی زیارت فرض کی تھی پہلا وقت زیارت طلوع آفتاب کے بعد دوسرا نصف ابتار کے وقت اور تیسرا غروب آفتاب کے وقت اور اس زیارت کے بھی بڑے عجیب وغریب اور مضحکہ خیز طریقے اور کلمات رائج تھے جو بوقت زیارت زائرین پڑھتے جاتے تھے۔

6۔ خلفائے راشدین کی نقالی کرتے ہوئے اپنے بھی چار خلیفہ مقرر کیے تھے۔ پہلا خلیفہ اس کا وہی شاگرد رشید منشی زادہ تھا جس سے مل کر اس نے نیا دین گھڑا تھا اور اس منشی زادہ کو اپنی زبان میں "دوجی یار" کہتا تھا۔ اسی طرز پر اپنے اور اپنے معتقدین کے عجیب عجیب نام تجویز کرتا تھا۔

دہلی میں فربودی تحریک:

میر محمد حسین کو اپنی خود ساختہ فربودی تحریک کے لئے لاہور کی آب وہوا کچھ زیادہ سازگار نہ ثابت ہوئی تو اس نے دہلی جا کر مستقل بود وباش اختیار کرلی اور اپنے زہد کا سکہ جمانے کے لئے اس نے یہ ڈھنگ اختیار کیا کہ کسی سے کوئی نذر ونیاز قبول نہیں کرتا تھا فائدے کی بات ہے کہ بے طمع فقیر کی لوگوں کے دلوں میں عزت ووقعت بڑھ جاتی ہے چنانچہ تھوڑے ہی عرصے میں اس کے زہد وتوکل اور تقوی وتقدس کا اعتقاد لوگوں کے دلوں میں جم گیا۔

میر محمد حسین نے جب فضا اپنے موافق دیکھی تو اس نے اپنے عقائد اور اپنا خود ساختہ دین علی الاعلان پھیلانا شروع کر دیا۔ کابل کے صوبیدار کا لڑکا ہادی علی خان جو میر محمد حسین کے پرستاروں میں سے تھا اور اندھی عقیدت رکھتا تھا اس وقت دہلی میں تھا اس کی عقیدتمندی اور والہانہ ارادت کو دیکھ کر دہلی کے بڑے بڑے مدعیان بصیرت بھی محمد حسین کے گرویدہ ہو گئے اور ان کی دیکھا دیکھی تقریباً ہر طبقے کے لوگوں میں اس کے تقدس کا کلمہ پڑھا جانے لگا اور رفتہ رفتہ اس کی جماعت کی تعداد بیس پچیس ہزار تک جا پہنچی۔ مرزا غلام احمد قادیانی کی طرح اس نے بھی اپنے تقدس کی تجارت سے بہت کچھ دنیا کا نفع حاصل کیا اور بہت جلد کوئے گمنامی سے نکل کر بام شہرت پر پہنچ گیا۔

بادشاہ فرخ سیر کی خوش اعتقادی:

دہلی کے لوگوں کا جوش عقیدت دیکھ کر فرخ سیر شاہ دہلی کے دل میں بھی محمد حسین کی بزرگی اور پارسائی کے خیالات پکنے لگے اور تخت دہلی پر قدم رکھتے ہی اس کی زیارت کے لئے چند امراء کو ساتھ لے کر اس کے کاشانہ زہد کی طرف روانہ ہوا۔

جب نمود (میر محمد حسین نے اپنا لقب رکھا تھا) کو معلوم ہوا کہ دہلی کا بادشاہ فرخ سیر اس کی زیارت کے قصد سے آ رہا ہے تو اس کا ساغر دل خوشی سے چھلک اٹھا اور بادشاہ اور اس کے امراء پر اپنے زہد واستغنا کا سکہ جمانے کی غرض سے اپنے گھر کا دروازہ مقفل کر دیا۔ جب بادشاہ نے دروازہ کھولنے کی درخواست کی تو اندر سے بولا فقیروں کو بادشاہوں اور امیروں سے کیا کام؟ تم لوگ کیوں ہمیں پریشان کرتے ہو جاؤ چلے جاؤ۔ جب بادشاہ بہت دیر تک منت وسماجت کرتا رہا اور مریدوں نے بھی بہت کچھ عرض ومعروض کی تو دروازہ کھول دیا۔ بادشاہ نے جھک کر بڑے ادب سے سلام کیا اور دور ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ نمود نے ہرن کی کھال بادشاہ کے بیٹھنے کو دی اور یہ شعر پڑھا۔

پوست تخت گدائی وشاہی

ہمہ داریم آں چہ می خواہی

بادشاہ اس کی بے نیازی اور فقیرانہ استغنا کو دیکھ کر بہت متاثر ہوا اور ہزاروں روپے اشرفیاں جو نذرانے کے طور پر لایا تھا پیش کیں مگر اس ڈرامہ باز نے حقارت سے ان کو ٹھکرا دیا جب بادشاہ بہت بضد ہوا تو اس نے اپنے ہاتھ کے لکھے ہوئے مصحف کے عوض ستر روپے لے لیے اور بادشاہ کی روانگی کے بعد یہ روپے بھی لوگوں میں تقسیم کر دیے اور جس مقصد کے لئے یہ سارا کھیل کھیلا تھا وہ پورا ہو گیا اور لوگ اس کی عقیدت میں زمین وآسمان کے قلابے ملانے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کے مریدوں کی تعداد ہزاروں سے تجاوز کر کے لاکھوں تک پہنچ گئی۔

نمود کی گرفتاری اور وزیر کا درد قولنج ایک ساتھ شروع ہوا لوگ نمود کی کرامت سمجھے:

فرخ سیر بادشاہ کے بعد دہلی کے تخت سلطنت پر محمد شاہ کا پھریرا لہرانے لگا محمد امین اس کا وزیر تھا۔ محمد امین نے جب نمود کے اقوال سنے اور اس کی حرکتیں دیکھیں اور ایمان واسلام کی سربلندی کی تڑپ رکھنے والے ہزاروں لاکھوں دلوں کا خون ہوتے دیکھا تو اس نے نمود کو گرفتار کر کے اس فتنے کو ختم کرنے کا ارادہ کر لیا۔

تقدیر الٰہی کی نیرنگی دیکھیے کہ جیسے ہی محمد امین کے سپاہی نمود کی قیام گاہ پر اس کو گرفتار کرنے پہنچے محمد امین پر درد قولنج کا زبردست حملہ ہوا اور وہ اس کی تکلیف سے تڑپنے لگا۔ لوگ امین کے مرض کو نمود کی کرامت اور اس کی بد دعا کا اثر سمجھے۔ سارے شہر میں اس واقعہ کا چرچا ہونے لگا ان سپاہیوں تک بھی یہ خبر پہنچی جو نمود کو گرفتار کرنے گئے تھے وہ بے چارے گھبرا کر صحیح صورت حال معلوم کرنے کے لئے امین خان کے پاس واپس آگئے۔ امین خان کو یہ پرانا مرض تھا اور کبھی کبھی اس کا حملہ اس پر ہوتا تھا اس وقت بھی وہ درد کے مارے لوٹ رہا تھا اور ہوش میں نہیں تھا۔

جب ذرا ہوش بحال ہوئے تو کوتوال سے پوچھا کہ نمود کو گرفتار کر کے کہاں رکھا ہے؟ کوتوال نے عرض کیا کہ آپ کی اس تشویشناک حالت کی خبر سن کر ہم بدحواس ہو گئے اور واپس آگئے۔ امین خان نے نہایت خود اعتمادی اور ثابت قدمی کے ساتھ حکم دیا کہ اب تو وقت نہیں تاہم کل صبح فوراً اس کو گرفتار کر کے حاضر کرو۔

رات کو امین خان کی بیماری شدت اختیار کر گئی اور صبح اس کی زندگی سے لوگ نا امید ہونے لگے۔ نمود کا معتقد ہادی علی خان لحظہ بہ لحظہ امین خان کے جاں بلب ہونے کی خبریں نمود کو پہنچا رہا تھا۔ امین خان کے سپاہی جب امین کی بیماری کا سن کر نمود کو گرفتار کیے بغیر واپس آگئے تو نمود نے دہلی سے بھاگ جانے کا ارادہ کر لیا تھا مگر امین خان کی شدت علالت کی خبریں سن سن کر اس کی جان میں جان آتی جا رہی تھی اور جب اس نے یہ سنا کہ امین خان قریب المرگ ہے تو اپنے گھر سے نکل کر مسجد میں آکر بیٹھ گیا۔ خوش اعتقاد مریدین یہ سمجھ کر کہ امین کی بیماری نمود کی بد دعا کا اثر ہے نمود کو اپنے سر آنکھوں پہ بٹھا رہے تھے اور مسجد میں ایک مجمع لگا رہنے لگا۔

امین کے لڑکے کی عذر خواہی اور نمود کا مکر وفریب:

محمد امین خان کا لڑکا قمر الدین نے اپنے والد کی جب حد سے زیادہ بگڑتی ہوئی حالت دیکھی تو اس بے چارے کو بھی یہ یقین ہو چلا کہ یہ نمود کی ناراضی اور بد دعا کا اثر ہے چنانچہ اپنے دیوان کے ہاتھ پانچ ہزار روپیہ نقد نمود کو نذر کے طور پر روانہ کیا اور معافی کی درخواست کے بعد امین کے لئے دعا اور صحت یابی کے لئے تعویذ کی التجا کی۔

نمود کو پہلے ہی امین کی حالت نزع کا علم ہو چکا تھا بڑے غرور سے کہنے لگا کہ میں نے اس کافر کے جگر پر ایسا تیر مارا ہے کہ اب وہ جانبر نہ ہو سکے گا اور میں بھی شوق شہادت میں اس مسجد میں آکر بیٹھ گیا ہوں اور میرے جد اعلیٰ حضرت علی بھی مسجد ہی میں شہید ہوئے تھے۔ دیوان نے کافی منت وسماجت کی اور روپیہ نذر کر کے صحت یابی کے لئے دعا اور تعویذ کی بھی درخواست کی۔ جب دیوان بے چارہ کسی طرح سے بغیر تعویذ کے راضی نہ ہوا تو نمود نے اپنے شاگرد دوجی یار کو مخاطب کر کے کہا لکھ:

"ونزل من القرآن ما هو شفاء ورحمۃ اللمومنین ولا یزید الظلمین الا خسارا"

یہ آیت لکھ کر دیوان کو دی اور کہنے لگا تیری ضد سے ہم نے یہ تعویذ لکھ دیا لیکن اس سے پہلے کہ یہ تعویذ امین کے گلے میں ڈالا جائے وہ مر چکا ہوگا۔ پھر نمود اپنے عقیدتمندوں سے مخاطب ہو کر کہنے لگا امین بچ سکتا ہے اور اس کی صورت صرف یہ ہے کہ وہ توبہ کرے اور خلوص دل سے میری بیعت کرے پھر دیکھے کہ میرا اعجاز مسیحائی کس طرح اس کو دوسری زندگی بخشتا ہے۔

ادھر محمد امین کی معیاد زندگی پوری ہو چکی تھی چنانچہ اس کا انتقال ہو گیا۔ اس واقعہ سے نمود کی تحریک میں ایک نیا ولولہ اور جوش پیدا ہو گیا اور اس کی عظمت کے لوگ گن گانے لگے، اس کرامت کا دہلی میں بڑا چرچا ہوا۔ اکثر لوگوں نے محمد امین کی موت کو نمود کی بد دعا کا اثر سمجھا اور یہ سمجھے کہ اس سے بڑی کرامت کا صدور ہوا ہے حالانکہ امین کی موت کو نمود کی بد دعا اور گرفتاری سے کوئی تعلق نہیں مگر اندھے معتقد کب کسی کی سنتے ہیں۔

نمود کی موت، اس کے لڑکے نحا نمود کا دوجی یار سے جھگڑا:

محمد امین کی رحلت کے بعد نمود بھی تین سال کے بعد طبعی موت مر گیا اس کے بعد اس کا بیٹا نحا نمود اس کا جانشین ہوا۔ اس نے عطایا اور نذر ونیاز کے ان حصوں میں جو دوجی یار کے لئے کابل میں باہمی اتفاق رائے سے طے ہوئے تھے اور جن کو نمود مرتے دم تک با قاعده دوجی یار کو دیتا رہا تھا ازراہ کوتاہ اندیشی کمی کرنی چاہی۔ اس بناء پر دوجی یار اور نحا نمود میں رنجش اور مخاصمت شروع ہو گئی۔ دوجی نے لاکھ سمجھایا کہ میں تمہارے باپ کا دساز وہم راز ہوں میرے ساتھ جھگڑا کرنا مناسب نہیں مگر نحا نمود کے سر پر حرص وطمع کا بھوت سوار تھا۔ دوجی نے یہاں تک سمجھایا کہ کس طرح اس کے باپ نے کابل میں مجھ سے مشورہ لیا تھا کہ کس طرح ایک نیا مذہب جاری کریں اور تقدس کی دوکان کھول کر دنیا کا مال ومتاع جمع کریں دوجی نے وہ سارے حالات اور منصوبہ بندیاں اور مکر وفریب جو اس نے نمود کے ساتھ مل کر کیے تھے اور لوگوں کو اپنا عقیدت مند بنایا تھا اور وہ معاہدہ جس کے تحت ایک خاص حصہ آمدنی کا دوجی یار کو ملا کرے گا جو نمود مرتے وقت تک ادا کرتا رہا ان سب کی تفصیل نحا نمود کو بتائی اور آخر میں یہ بھی کہا کہ تمہاری اس مکر وفریب کی تحریک کو جو کچھ بھی ترقی حاصل ہوئی اس میں اس خاکسار کا حصہ تمہارے باپ سے بھی زیادہ ہے لہٰذا ضد چھوڑ کر جو آمدنی کا حصہ میرے لئے مقرر ہوا ہے بے تامل ادا کرنے کا عہد کرو تو بہتر ورنہ تمہارے مذہب، تمہاری کتابیں اور تمہاری تحریک کا ابھی بھانڈا پھوڑے دیتا ہوں۔

گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے، دوجی یار نے مکر وفریب کا پردہ چاک کر دیا:

دوجی یار نے جب یہ دیکھا کہ نحا نمود کسی صورت اس کا مقررہ حصہ دینے پر راضی نہیں تو ناچار اجتماع جشن کی تقریب پر جب کہ فربودی بکثرت جمع تھے اور دوسرے تماشائیوں کا بھی بڑا ہجوم تھا اچانک کھڑے ہو کر ایک تقریر کی جس میں محمد حسین المعروف نمود کے خود ساختہ مذہب اور دعویٰ نبوت کی ساری سازشیں لوگوں کے سامنے ظاہر کر دیں۔ نمود کی عیاری اور اپنی شرکت کا سارا ماجرا اول سے آخر تک حاضرین جلسہ کو سنا کر حیران کر دیا۔

دوجی یار نے پھر لوگوں سے کہا دوستو کیا تم میرا اور نمود کا لکھا پہچان سکتے ہو؟ بہت سے لوگوں نے اقرار کیا کہ ہم تم دونوں کا خط پہچانتے ہیں۔ اس پر دوجی یار نے وہ مسودات اور منصوبہ بندیاں جو محمد حسین اور دوجی یار نے باہم صلاح ومشورہ سے مرتب کیے تھے نکال کر دکھائے اور کہا کہ یہ مذہب میری اور نمود کی عیاری سے وجود میں آیا ہے نہ کسی کو نبوت ملی، نہ کسی پر کتاب اور وحی اتری یہ سب ہماری شعبدہ بازیاں تھیں۔

لوگوں نے ان مسودات کو غور سے دیکھا اور حرف بہ حرف دوجی کے بیان کی تصدیق کی۔ اس وقت مجمع سے ہزارہا آدمی جن کو خدا نے فطرت سلیمہ عطا فرمائی تھی اس باطل مذہب سے توبہ کر کے از سر نو اسلام میں داخل ہوئے اور رفتہ رفتہ اس واقعہ مکر وفریب کی اطلاع اور اجتماع میں دوجی یار کی تقریر کی تفصیل پورے دہلی اور قرب وجوار کے علاقوں میں پھیل گئی اور لوگ اس تحریک سے منحرف اور بیزار ہوتے گئے اور نصف صدی سے بھی پہلے یہ مذہب گمنامی کی قبر میں دفن ہو گیا۔

Powered by Netsol Online