ابتداء میں یہ شخص جمہور مسلمین کے مذہب ومسلک پر کاربند تھا لیکن بعد میں اغوائے شیطان سے مرزا غلام احمد قادیانی کی طرح قرآنی آیات کی عجیب عجیب تحریفات بیان کرنا شروع کر دیں اور ملحدوں کی طرح نصوص پر اپنی نفسانی اور شیطانی خواہشات کا روغن قاز ملنے لگا پھر نوبت یہاں تک پہنچی کہ اپنی نبوت کا دعویٰ بھی کر دیا۔
اس کو بھی ہزاروں بے وقوف متابعت اور عقیدت مندی کے لئے مل گئے۔ شاہ مراکش علی بن یوسف بن تاشقین کو جب معلوم ہوا کہ ایک شخص احمد بن قسی نام کا نبوت کا دعویدار ہے تو اس نے اس کو اپنے پاس بلایا اور پوچھا کہ میں نے سنا ہے تم نبوت کے دعویدار ہو؟ اس نے صاف لفظوں میں اپنی نبوت کا اقرار نہیں کیا بلکہ مختلف قسم کی باتیں بنا کر اور حیلے گڑھ کر بادشاہ کو مطمئن کر کے چلا آیا۔
واپس آنے کے بعد اس نے شیلہ کے ایک گاؤں میں ایک مسجد تعمیر کرائی اور اس میں بیٹھ کر اپنے مسلک اور مذہب کا پرچار کرنے لگا۔ جب اس کے ماننے والوں کی تعداد بڑھ گئی تو اس نے شلب کے مقالات احیلہ اور مزیلہ پر بزور شمشیر قبضہ کر لیا۔ لیکن تھوڑے ہی دن کے بعد خود اس کا ایک فوجی سردار محمد بن وزیر نامی اس سے برگشتہ ہو کر اس کا مخالف ہو گیا اس کو دیکھ کر دوسرے معتقدین بھی اس سے الگ ہو گئے اور اس کو ہلاک کرنے کی تدبیریں سوچنے لگے۔
انہیں ایام میں مراکش کی حکومت شاہ یوسف بن تاشقین کے ہاتھ سے نکل کر عبد المومن کے عنان اختیار میں آگئی۔ یہ شخص بھاگ کر عبد المومن کے پاس پہنچا۔ عبد المومن نے اس سے کہا کہ میں نے سنا ہے تم نبوت کے مدعی ہو کہنے لگا جس طرح صبح صادق بھی ہوتی ہے اور کاذب بھی اسی طرح نبوت بھی دو طرح کی یعنی صادق اور کاذب، میں نبی ہوں مگر کاذب ہوں۔
ذہبی کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ عبد المومن نے اس کو قید کر دیا۔ اس کے سوا اس کا مرید حال تاریخ میں نہیں ملتا۔ اس کی موت ۵۵۰ھ اور ۵۶۰ھ کے درمیان کسی وقت ہوئی ہے اور اس کے ساتھ ہی اس کی خانہ ساز نبوت بھی دم توڑ گئی۔