اس شخص نے ۳۳۲ھ کے زمانے میں نبوت کا دعوی کیا اور ایک پہاڑی مقام کو اپنا مستقر بنایا۔ یہ شخص انتہائی مکار اور شعبدہ باز تھا۔ پانی کے حوض میں ہاتھ ڈال کر جب باہر نکالتا تو اسکی مٹھی سرخ اشرفیوں سے بھری ہوئی ہوتی تھی۔
اس قسم کی شعبدہ بازیوں اور نظر بندیوں نے ہزاروں لوگوں کو گمراہی کے راستے پر ڈال دیا لوگ پروانہ وار اس کی طرف دوڑے اور اس کی خاک پا کو سرمہ چشم سمجھنے لگے۔ علمائے امت نے اپنے وعظ ونصیحت سے سینکڑوں لوگوں کو ارتداد کے بھنور سے نکالا لیکن جو ازلی شقی تھے وہ قبول ہدایت کے بجائے الٹا علماء حق کو اس طرح گالیاں دینے لگے جس طرح اب ہمارے زمانے میں مرزا قادیانی کذاب کے علماء سو علمائے شریعت محمدیہ کو گالیاں دیتے ہیں۔
ایک حدیث شریف میں حضرت مخبر صادق ﷺ نے ان نفس پرست دنیا دار علماء کو "شرتحت ادیم السماء" (زیر آسمان سب سے بدترین مخلوق) قرار دیا ہے جو قادیانی مولویوں کی طرح دنیا کی خاطر لوگوں کے دین وایمان پر ڈاکہ ڈالتے ہیں۔
قادیانی علماء سو نے ڈسٹرکٹ جج بہاولپور کی عدالت میں (جہاں ایک مسلمان عورت نے اس بناء پر تنسیخ نکاح کا دعوی کیا تھا کہ اس کا شوہر قادیانی ہو کر کافر ہو گیا ہے) بھی حسب عادت ان مسلمان علماء کی شان میں گستاخیاں کیں جنہوں نے ان کے جھوٹے نبی غلام احمد قادیانی کے کفر وارتداد کی شہادت دی تھی اور ان کو حدیث "زیر آسمان بدترین مخلوق" کے مصداق ٹھہرایا تھا۔ اس کے متعلق ڈسٹرکٹ جج نے اپنے فیصلہ مقدمہ میں کیا خوب حق گوئی کا ثبوت دیا ہے۔ انہوں نے لکھا:
"گواہان مدعیہ (یعنی علمائے اہل سنت والجماعت) پر مدعا علیہ یعنی مرزائی مولویوں کی طرف سے کنایۃ اور بھی کئی ذاتی حملے کیے گئے ہیں مثلاً انہیں علمائے سو کہا اور یہ بھی کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسے مولویوں کو جو ذریۃ البغایا میں مخاطب ہیں بندر اور سور کا لقب دیا ہے اور دوسری حدیث میں فرمایا ہے کہ وہ آسمان کے نیچے سب سے بدتر مخلوق ہیں۔ لیکن مقدمہ کی تفصیل پڑھ کر ہر عقلمند آدمی اندازہ لگا سکتا ہے کہ طرفین کے علماء میں سے اس حدیث کا مصداق کون ہے"
عبد العزیز باسندی کی دعوت نبوت اس بلند آہنگی اور زور وشر سے اٹھی کہ ہزاروں لوگوں نے اپنی قسمت اس سے وابستہ کر دی۔ اب باسندی نے ان اہل حق کے خلاف ظلم وستم کا بازار گرم کیا جو اس کی نبوت کے انکاری تھے۔ ہزاروں مسلمان اس جرم میں اس کے ہاتھوں شہید ہو گئے۔
جب لوگ اس کے ظلم وستم سے تنگ آگئے تو حکومت کو بھی اس کی تحریک سے خطرہ محسوس ہوا چنانچہ وہاں کے حاکم ابو علی بن محمد بن مظفر نے باسندی کی سرکوبی کے لئے ایک لشکر روانہ کیا۔ باسندی ایک بلند پہاڑ پر جا کر قلعہ بند ہو گیا لشکر اسلام نے اس کے گرد محاصرہ ڈال دیا اور کچھ مدت کے بعد جب کھانے پینے کی چیزیں ختم ہونے لگیں تو باسندی کے فوجیوں کی حالت دن بدن خراب ہونے لگی اور جسمانی طاقت بھی جواب دے بیٹھی یہ صورت حال دیکھ کر لشکر اسلام نے پہاڑ پر چڑھ کر ایک زبردست حملہ کیا اور مار مار کر دشمن کا حلیہ بگاڑ دیا۔ باسندی کے اکثر فوجی مارے گئے اور خود باسندی بھی جہنم واصل ہوا۔
باسندی کا سر کاٹ کر ابو علی کے پاس بھیجا گیا۔ باسندی کہا کرتا تھا کہ مرنے کے بعد میں دنیا میں لوٹ کر آؤں گا۔ ایک مدت تک اس کے خوش عقیدہ جاہل لوگ قادیانیوں کی طرح اسلام کی صراط مستقیم سے ہٹ کر گمراہی اور ضلالت کے میدانوں میں سر بکف پھرتے رہے پھر آہستہ آہستہ اسلام کی طرف لوٹ آئے اور یہ فرقہ صفحہ وجود سے بالکل نابود ہو گیا۔