Khatam e Nabuwat

علی بن فضل یمنی

یمن کے علاقے صنعا کے مضافات سے ایک شخص علی بن فضل جو ابتداء میں اسماعیلی فرقے سے تھا اس دعوے کے ساتھ ظاہر ہوا کہ وہ اللہ کا نبی ہے۔ بہت عرصے تک اپنی جھوٹی نبوت کی دعوت دینے کے بعد بھی جب کسی نے اس کی تصدیق نہیں کی تو اس نے سوچا کہ کسی حیلے یا شعبدے کے ذریعے لوگوں کو اپنا عقیدت مند بنانا چاہیے چنانچہ بہت غور وفکر کے بعد اس نے ایک سفوف تیار کیا اور ایک مرتبہ رات کو ایک بلند مقام پر چڑھ گیا اور نیچے کوئلے جمع کر کے دھکا دیے اوپر سے اس نے اپنا بنایا ہوا کیمیائی سفوف ڈال دیا۔

علی کا شعبده:

اچانک آگ سے ایک سرخ رنگ کا دھواں اٹھنے لگا جو دیکھتے ہی دیکھتے آس پاس کی ساری فضا پر چھا گیا اور ایسا معلوم ہونے لگا کہ ساری فضا آگ سے بھری ہوئی ہے پھر اس نے کوئی ایسا عمل کیا یا منتر پڑھا کہ دھویں میں بے شمار ناری مخلوق دکھائی دینے لگی۔ یہ مخلوق گھوڑوں پر سوار تھی اور ان کے ہاتھوں میں آگ کے نیزے تھے اور یوں لگ رہا تھا جیسے یہ آپس میں جنگ کر رہے ہیں۔ یہ وحشتناک منظر دیکھ کر لوگ خوفزدہ ہو گئے اور ان پر یہ وہم سوار ہو گیا کہ انہوں نے ایک اللہ کے نبی کی دعوت کو ٹھکرا دیا تھا اس لئے خدا کی طرف سے نزول عذاب کا منظر دکھا کر ہمیں ڈرایا گیا ہے۔ اس خیال کے تحت ہزارہا حماقت شعار تہی دستان قسمت نے اپنی متاع ایمان اس شعبدہ باز جھوٹے نبی کے سپرد کر دی۔ علماء امت نے بہت سمجھایا کہ اس شعبدہ باز کی باتوں میں نہ آؤ یہ کوئی نبی وبی نہیں ہے بلکہ ایک ملحد اور زندیق ہے جو تمہاری دولت ایمان پر ڈاکہ مار رہا ہے مگر ان پر اس عیار کا جادو چل چکا تھا۔ بجز تھوڑے سے لوگوں کے جن کو اللہ پاک نے ہر قول وعمل کو پرکھنے کے لئے شریعت مطہرہ کی کسوٹی اور دین کی سمجھ عطا فرمائی ہے کوئی شخص راہ راست پر نہ آیا۔

علی بن فضل کی جب مجلس جمتی تھی تو ایک عقیدت مند پکار کر کہتا تھا کہ اشهد ان علی بن فضل رسول الله لیکن معلوم ہوتا تھا کہ دعوی نبوت کے ساتھ اسے کسی حد تک خدائی کا بھی دعوی تھا چنانچہ جب اپنے کسی اندھے عقیدت مند کے نام کوئی تحریر بھیجتا تو یوں لکھتا:

من باسط الارض وداحيها وقزلزل الجبال وقرسها على ابن الفضل الى عهده فلان ابن فلان
یہ تحریر زمین کے پھیلانے اور ہانکنے والے اور پہاڑوں کے ہلانے اور ٹھہرانے والے علی من فضل کی جانب سے اس کے بندے فلاں بن فلاں کے نام ہے۔

اس نے بھی اپنے مذہب میں تمام حرام چیزوں کو حلال کر دیا تھا حتیٰ کہ شراب اور سگی بیٹیوں سے عقد نکاح بھی جائز قرار دے دیا گیا تھا۔ جب نوبت یہاں تک پہنچی تو بعض شرفائے بغداد غیرت ملی اور ناموس اسلامی سے مجبور ہو کر اس کی ہلاکت کے درپے ہوئے اور ۳۰۳ھ میں اس کو زہر دے کر ہلاک کر دیا گیا۔

علی بن فضل کا فتنہ ارتداد انیس سال تک جاری رہا لیکن تعجب ہے کہ صنعا کے حکام نے انیس سال تک اس سے کیوں تعرض نہیں کیا اور لوگوں کی متاع ایمان پر ڈاکہ ڈالنے کی اس کو کیوں کھلی چھوٹ دی گئی۔ مرزا غلام احمد قادیانی کذاب تو انگریزوں کی عملداری میں تھا بلکہ ان کی حمایت میں تھا اس لئے اس کو اپنی جھوٹی رسالت کی تشہیر وتبلیغ میں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آئی۔ لیکن بڑی حیرت کی بات ہے کہ کوئی شخص اسلامی مملکت میں رہ کر شریعت مطہرہ میں رخنہ اندازیاں کرتے رہے اور اپنی خود ساختہ نبوت کی دعوت دیتا رہے اور خدا کی مخلوق کو اس کے شر سے نہ بچایا جائے۔ علی بن فضل نے جیسے ہی نبوت کا دعوی کیا تھا صنعا کے حکام کا فرض تھا کہ فوراً اس کا نوٹس لیتے اور اس کی رگ جاں کاٹ دیتے۔

Powered by Netsol Online