کوفہ کا باشندہ تھا کیونکہ بیل پر سوار ہوا کرتا تھا اس لئے اس کو کرمیط کہتے تھے جس کا محرب قرمط ہے۔ شروع میں زہد وتقویٰ کی طرف مائل تھا مگر ایک باطنی کے ہتے چڑھ کر سعادت ایمان سے محروم ہو گیا اور الحاد وزندقہ کے سرغنہ اور باطنی فرقہ کے مناد کی حیثیت سے کام کرنے لگا اور اس کے ماننے والے اسی نسبت سے قرمطی یا قرامطہ کہلاتے ہیں۔ اس فرقے نے دین اسلام کے مقابلے میں ایک نئے مذہب کی بنیاد ڈالی جو سراسر الحاد، ارتداد اور زندقہ ہے۔
اس نے سب سے پہلے اپنے ماننے والوں پر پچاس نمازیں فرض کیں جب لوگوں نے شکایت کی کہ نمازوں کی کثرت نے ہمیں دنیا کے کاروبار اور کسب معاش سے روک دیا ہے تو بولا کہ اچھا میں اس کے متعلق اللہ تعالیٰ سے رجوع کروں گا اور چند روز کے بعد لوگوں کو ایک نوشتہ دکھانے لگا جس میں حمدان کو مخاطب کر کے لکھا کہ تم ہی مسیح ہو تم ہی عیسیٰ ہو تم ہی کلمہ ہو تم ہی مہدی ہو اور تم ہی جبریل ہو۔ اس کے بعد کہنے لگا جناب مسیح ابن مریم میرے پاس انسان کی شکل میں آئے اور مجھ سے فرمایا تم ہی داعی ہو تم ہی حجتہ ہو، تم ہی ناقہ ہو تم ہی دابہ ہو تم ہی روح القدس اور تم ہی یحیٰ بن زکریا ہو اور عیسیٰ یہ بھی فرما گئے ہیں کہ اب نماز صرف چار رکعتیں ہیں دو رکعت قبل از فجر اور دو رکعت قبل از غروب اور اذان اس طرح دی جائے گی اللہ اکبر چار مرتبہ پھر دو مرتبہ اشهد ان لا اله الا اللہ پھر ایک مرتبہ یہ کلمات کہیں اشهد ان آدم رسول الله۔ اشهد ان لوطا رسول الله۔ اشهد ان ابراهيم رسول الله۔ اشهد ان موسى رسول الله۔ اشهد ان عیسی رسول الله۔ اشهد ان محمد رسول الله۔ اشهد ان احمد بن محمد بن حنفیه رسول الله۔ روزے صرف دو فرض ہیں ایک مہر جان کا اور دوسرا نو روز کا۔ شراب حلال کر دی اور غسل جنابت کو بر طرف کر دیا گیا۔ تمام درندوں اور پنجے والے جانور حلال کر دیے اور قبلہ بجائے کعبہ کے بیت المقدس قرار دیا۔
جس طرح ہمارے یہاں قادیان کے جھوٹے نبی نے قرآن کی آیات اور اس کے بعض حصوں کا سرقہ کر کے اپنا کلام وحی بنا لیا ہے (دیکھیے کتاب "حقیقۃ الوحی" مؤلفہ مرزا قادیانی) اسی طرح حمدان نے بھی آیات قرآنی اور احادیث نبوی کے الفاظ میں قطع برید کر کے ایک سورت تیار کی تھی اور حکم دیا تھا کہ تکبیر تحریمہ کے بعد وہ عبارت پڑھیں جو اس کے زعم میں احمد بن محمد بن حنفیہ پر نازل ہوئی تھیں بعد میں وہ سورت جو اس نے تیار کی تھی (طوالت کے خوف سے ہم نے اس سورت کو نقل نہیں کیا ہے) پھر رکوع میں یہ تسبیح پڑھیں "سبحان ربی رب العزة و تعالى عم الصفون" پھر سجدے میں جا کر کہیں "الله اعلی الله اعظم۔"
اس کے مذہب کا ایک اصول یہ تھا کہ جو شخص قرمطی مذہب کا مخالف ہو اس کا قتل کرنا واجب ہے اور جو شخص مخالف ہو مگر مقابلے پر نہ آئے اس سے جزیہ لیا جائے۔
اسلام پر ابتدائی صدیوں میں جو جو آفتیں نازل ہوئیں اور جن جن فتنوں کا سامنا کرنا پڑا اس میں یہ ایک فتنہ قرامطہ کا بھی تھا۔ ابو سعید جنابی، ابو طاہر قرمطی یحییٰ بن زکریا اور علی بن فضل یمنی جنہوں نے عرصہ دراز تک عالم اسلام کے خلاف ہلچل مچائے رکھی اور لاکھوں مسلمان بے گناہوں کا خون بہایا اس مذہب قرمطہ کے چیلے چانٹے اور ماننے والے تھے۔ ان لعنیوں کی قوت یہاں تک بڑھ گئی تھی کہ خلفائے بنی عباس تک ان بھیڑیوں کا نام سن کر کانپ جاتے تھے۔ آخر میں تو یہ مصر کے سلاطین بنی عبید کی گرفت سے بھی آزاد ہو گئے تھے۔ اور خراسان سے لے کر شام تک ہر شہر کے باشندے ان کے ظلم وستم سے چیخ اٹھے تھے۔ یہ لوگ اس قدر باطن ملحد اور زندیق تھے کہ کعبہ شریف کو ڈھانے پر بھی آمادہ ہو گئے تھے اور ابو طاہر قرمطی حجر اسود کو اکھاڑ کر اپنے شہر عمان لے گیا تھا۔ تاریخ کی کتابوں میں بڑی تفصیل سے ان واقعات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
جب ہضیم حاکم کوفہ کو معلوم ہوا کہ حمدان نے دین اسلام کے مقابلے میں ایک نیا دین جاری کیا ہے اور شریعت محمدیہ میں ترمیم وتنسیخ کر رہا ہے تو اس نے اس کو گرفتار کر لیا اور اس خیال سے کہ کوئی حیلہ کر کے یہ بھاگ نہ جائے قید خانے کے بجائے اپنے ہی پاس قصر امارت کی ایک کوٹھری میں بند کر کے قفل کر دیا اور کنجی قفل کی اپنے تکیے کے نیچے رکھ دی اور قسم کھائی کہ اس کو قتل کیے بغیر نہیں چھوڑوں گا۔
ہضیم کے گھر کی ایک کنیز بڑی رحمدل تھی جب اس کو معلوم ہوا کہ یہ شخص قتل کیا جانے والا ہے تو اس کا دل بھر آیا اور رقت طاری ہو گئی جب ہضیم سو گیا تو اس کنیز نے کنجی اس کے تکیے کے نیچے سے نکالی اور حمدان کو آزاد کر کے پھر اسی جگہ رکھ دی صبح جب ہضیم نے اس غرض سے دروازہ کھولا کہ حمدان کو موت کی نیند سلا دیا جائے تو یہ دیکھ کر وہ بڑا حیران ہوا کہ حمدان غائب ہے۔
جب یہ خبر کوفہ میں مشہور ہوئی تو خوش عقیدہ لوگ فتنہ میں پڑ گئے اور یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ خدائے قدوس نے حمدان کو آسمانوں پر اٹھا لیا۔ اس کے بعد لوگوں میں حمدان آیا تو اس سے پوچھا گیا کہ آپ حاکم کوفہ کے مقفل قید خانے سے کس طرح نکلے۔ حمدان بڑے ناز وغرور سے کہنے لگا کہ کوئی میری ایذا رسانی میں کامیاب نہیں ہو سکتا یہ سن کر لوگوں کی عقیدت اور بڑھ گئی۔
حمدان کو اب ہر وقت یہ خطرہ رہتا تھا کہ دوبارہ نہ گرفتار کر لیا جائے اس لئے ملک شام کی طرف بھاگ گیا۔ کہتے ہیں کہ اس نے علی بن محمد خارجی کے پاس جا کر کہا تھا کہ میں ایک مذہب کا بانی اور نہایت صائب الرائے ہوں ایک لاکھ سپاہی اپنے لشکر میں رکھتا ہوں آؤ ہم اور تم مناظرہ کر کے کسی ایک مذہب پر متفق ہو جائیں تاکہ بوقت ضرورت ایک دوسرے کے مددگار بن سکیں۔ علی خارجی نے اس رائے کو پسند کیا اور بہت دیر تک مذہبی مسائل پر گفتگو ہوتی رہی لیکن آپس میں متفق نہ ہو سکے۔ اس کے بعد حمدان واپس آکر گوشہ نشین ہو گیا آگے کا حال کچھ معلوم نہ ہو سکا تاہم اس کے چیلوں نے عالم اسلام کو بہت نقصان پہنچایا ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کو عین حج کے زمانے میں خانہ کعبہ کے اندر قتل کیا۔ حجر اسود اکھاڑ کر لے گئے اور دس برس تک لوگ ان کے خوف سے حج ادا نہ کر سکے۔