Khatm-E-Nabuwat

علی بن محمد خارجی

رے کے شہر کے مضافات میں پیدا ہوا۔ خوارج کے فرقہ ازراقہ سے تعلق رکھتا تھا۔ ابتدائی ذریعہ معاش اس کا یہ تھا کہ خلیفہ جعفر عباس کے بعض حاشیہ نشینوں کی مدح وتوصیف میں قصائد لکھ کر کچھ انعام حاصل کر لیا کرتا تھا۔ جب امراء ورؤسا کی مجلسوں میں آمد ورفعت سے کچھ رسوخ حاصل ہوا تو اس کے دل میں سرداری اور ریاست کے خیالات پیدا ہونے لگے۔

249ھ میں علی بغداد سے بحرین چلا گیا اور وہاں حالات سازگار دیکھ کر اپنی نبوت کا اعلان کر دیا اور اپنے اتباع کی دعوت دینی شروع کر دی۔ یہ کہتا تھا کہ مجھ پر بھی کلام الہٰی نازل ہوتا ہے۔ اس نے اپنا ایک آسمانی صحیفہ بھی بنا رکھا تھا۔ جس کی بعض سورتوں کے نام سبحان، کہف اور ص تھے۔ اور کہتا تھا کہ خدا نے میری نبوت کی بہت سی نشانیاں ظاہر فرمائی ہیں۔

بحرین کے اکثر قبائل نے علی کی نبوت کو تسلیم کر لیا اور وہاں اس نے ایک بڑی جماعت اور قوت حاصل کرلی۔ بحرین کے بعض عمائدین اس کی فوج کے افسر مقرر ہوئے اور بہبود زنگی کو امیر البحر کا عہدہ سونپا گیا۔

پانچ سال بحرین میں قیام کرنے کے بعد اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا کہ مجھے خدا کی طرف سے حکم ہوا ہے کہ یہاں سے بصرہ جاؤں اور وہاں کے لوگوں کو اللہ کا راستہ دکھاؤں۔ چنانچہ یہ ۲۵۴ھ میں بصرہ میں اپنے چند مریدوں کے ساتھ چلا آیا اور بصرہ کے حاکم محمد بن رجاء کے خلاف سرگرمیوں میں مصروف ہوا۔ محمد بن رجاء نے اس کی گرفتاری کے لئے آدمی بھیجے مگر یہ بھاگ گیا تاہم اس کی بیوی، بیٹا اور کچھ ساتھی گرفتار کر لئے گئے علی بھاگ کر بغداد آیا اور ایک برس تک مقیم رہ کر اپنی نبوت کی دعوت دیتا رہا۔ اس درمیان میں بصرہ میں ایک بغاوت ہوئی اور لوگوں نے عامل بصرہ محمد بن رجاء کو بصرہ سے نکال دیا اور بصرہ کے قید خانے کا دروازہ توڑ کر قیدیوں کو رہا کر دیا۔ جب ان واقعات کی خبر علی کو پہنچی تو اس نے موقع غنیمت جان کر رمضان ۲۵۵ھ میں بصرہ کا رخ کیا۔

حبشی (زنگی) غلاموں کو اپنے تابع کرنے کی ترکیب:

بصرہ پہنچ کر علی بن محمد نے اعلان کر دیا کہ جو زنگی غلام میری پناہ میں آجائیں گے میں ان کو آزاد کر دوں گا۔ یہ اعلان سنتے ہی حبشی غلام ملک کے اطراف واکناف سے بھاگ بھاگ کر علی کے پاس آنے شروع ہو گئے اور کچھ ہی عرصے میں غلاموں کی ایک بھاری جماعت علی کے پاس جمع ہو گئی۔

علی نے ان سب کو جمع کر کے ایک بڑی پر جوش تقریر کی اور ان سے ہمدردی کا اظہار کیا۔ مال ودولت دینے کا یقین دلایا اور ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کی قسم کھائی اور ایک جھنڈا ریشمی کپڑے پر یہ آیت لکھ کر ایک بلند مقام پر نصب کر دیا: ان الله اشترى من المومنين انفسهم واموالهم بان لهم الجنۃ۔

اب حالت یہ ہوئی کہ جس جس غلام کو یہ خبر ملتی تھی وہ اپنے آقا کو چھوڑ کر علی کے پاس آکر پناہ حاصل کرنے لگا۔ زنگی غلاموں کے آقاؤں کا رنگ پیلا پڑ گیا اور وہ علی کے پاس اپنے غلاموں کی شکایت لیکر آئے۔ علی نے اشارہ کر دیا اور غلاموں نے اپنے آقاؤں کو مارنا اور قید کرنا شروع کر دیا۔ بصرہ کے شریف لوگ یہ رنگ دیکھ کر دم بخود رہ گئے۔

قادسیہ وغیرہ پر لوٹ مار شروع کر دی۔ حکومت نے جب بھی اس کے مقابلے پر کوئی فوج بھیجی اس نے ہر دفعہ علی کے لشکر سے شکست کھائی ان فتوحات سے علی کا حوصلہ اور بڑھ گیا۔

اہل بصرہ چار مرتبہ علی کے مقابلے کے لئے نکلے مگر ہر مرتبہ زنگی غلاموں کے ہاتھ میدان رہا اور کافی سامان جنگ اور اسلحہ ان کے ہاتھ آیا۔ دربار خلافت سے بھی دو مرتبہ فوجیں بھیجی گئیں مگر ان کو بھی کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔ اہل بصرہ کے ایک وفد نے اس صورتحال کو خلیفہ کے سامنے پیش کیا چنانچہ خلیفہ نے ایک فوج گراں ایک ترک افسر جعلان کی نگرانی میں علی کے مقابلے کے لئے اہل بصرہ کے ساتھ روانہ کیا۔ چھ مہینے تک جنگ جاری رہی آخر ترک افسر جنگ سے دستبردار ہو کر واپس بصرہ آگیا اور زنگیوں نے خوب اس کی لشکر گاہ میں لوٹ مچائی۔

علی خارجی کی مزید فتوحات:

۲۵۲ھ میں علی خارجی نے ایلہ میں گھس کر وہاں کے گورنر عبد اللہ اور اس کی مختصر سی فوج کو تہ تیغ کیا اور پورے شہر کو آگ لگا دی اور یہ شہر پورا کا پورا جل کر خاکستر ہو گیا۔ اس کے بعد دوسرے شہر رہواز کی باری آئی اور وہاں کے عامل ابراہیم کو گرفتار کر کے شہر میں خوب لوٹ مار مچائی۔

اب خلیفہ نے سعید بن صالح ایک مشہور سپہ سالار کو زنگیوں کی سرکوبی کے لئے روانہ کیا اور سعید نے کچھ کامیابی حاصل کی مگر انجام کار زنگیوں کا پلہ بھاری رہا اور سعید بن صالح نامراد وناکام واپس بغداد آگیا۔

خلیفہ معتمد اس ناکامی پر بہت غضبناک ہوا اور ایک دوسرے سردار جعفر بن منصور خیاط کو جو بڑے بڑے معرکے کر چکا تھا اس مہم پر مامور کیا مگر اس سردار کی بھی ایک نہ چلی اور یہ زنگیوں سے شکست کھا کر بحرین واپس چلا گیا اس دوران زنگیوں نے بصرہ پر چڑھائی کر دی اور نصف شوال ۲۵۷ھ میں بصرہ کو بزور شمشیر فتح کر لیا اور وہاں کے باشندوں کو نہایت سفاکی اور بے دردی سے گاجر مولی کی طرح کاٹ چھاٹ کر علی بن ریان زنگیوں کا سردار واپس ہوا اور پھر کچھ عرصے کے بعد دوبارہ بغرض قتل وغارت گری بصرہ آیا۔ اہل بصرہ نے اس سے امان طلب کی چنانچہ اس نے سب کو امان دے کر ایک جگہ جمع ہونے کا حکم دیا اور جب سب لوگ جمع ہو گئے تو سب کو ہلاک کر کے جامع مسجد اور بصرہ کے اکثر محلات میں آگ لگا دی۔

بصرہ کی بربادی اور تباہی کی خبر سن کر خلیفہ معتمد نے پھر ایک سپہ سالار محمد معروف بہ مولد کو ایک لشکر جرار کے ساتھ بصرہ کی جانب روانہ کیا وہ بصرہ پہنچا تو لوگوں نے رو رو کر زنگیوں کے ظلم وتشدد کی شکایت کی۔ علی خارجی نے اپنے افسر یحیٰ کو مولد کے مقابلے میں بھیجا۔ دس دن تک جنگ جاری رہی مگر کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ آخر کار زنگیوں نے مولد کے لشکر پر شنجون مارا پوری رات اور پھر صبح سے شام تک لڑائی ہوتی رہی اور مغرب کے وقت مولد کے لشکر نے شکست کھائی اور زنگیوں نے مولد کے لشکر گاہ کو خوب لوٹا اور کافی دور تک مولد کا تعاقب کیا۔

شہزادہ ابو العباس (آئندہ کا خلیفہ معتمد باللہ) زنگیوں کے مقابلے پر:

اس کے بعد مسلسل نو برس تک دار الخلافہ سے زنگیوں کو زیر کرنے کے لئے لشکر آتے رہے جنگیں ہوتی رہیں مگر علی خارجی کی قوت نہیں ٹوٹ سکی۔ آخر کار خلیفہ نے تنگ آکر ایک فیصلہ کن جنگ کا منصوبہ بنایا اور اپنے بھتیجے ابو العباس کو زنگیوں کے مقابلہ پر ایک عظیم لشکر کے ساتھ روانہ کیا۔ ابو العباس وہ شخص ہے جو آئندہ چل کر خلیفہ معتمد کے تخت خلافت کا وارث ہوا اور معتمد بالله لقب اختیار کیا۔ ابو العباس ۲۶۶ھ میں دس ہزار فوج کے ساتھ زنگیوں کی سرکوبی کے لئے روانہ ہوا۔

علی خارجی نے بھی اس کے مقابلے کے لئے بے شمار فوج تیار کی ہوئی تھی۔ اس نے سن رکھا تھا کہ ابو العباس ایک نوجوان شہزادہ ہے جسے میدان جنگ کا کوئی تجربہ نہیں ہے اس کا خیال تھا کہ اول تو اور سرداروں کی طرح ابو العباس بھی ہماری فوجی کثرت سے خائف ہو کر پسپا ہو جائے گا اور اگر مقابلہ پر ڈٹا بھی رہا تو دس پانچ دن کے بعد بھاگ کھڑا ہوگا۔

ابو العباس کا جاسوسی نظام بہت اچھا تھا پل پل کی خبریں، تنظیم کی حرکات، لشکر کی تعداد سب خبریں اس کو صحیح اور بر وقت مل رہی تھیں چنانچہ سب سے پہلے ابو العباس کی مڈ بھیٹر علی خارجی کے مقدمتہ الجیش سے ہوئی اس میں ابو العباس کو فتح ہوئی۔ زنگی دریا کی طرف بھاگے ابو العباس کی فوجی کشتیاں پہلے ہی راستہ روکے ہوئے کھڑی تھیں انہوں نے بھی زنگیوں کو اپنی تلوار کی باڑھ پر رکھ لیا اور چھ کوس تک زنگیوں کا تعاقب کر کے قتل کرتے رہے کافی مال قیمت ہاتھ آیا۔ یہ پہلی فتح تھی جو خلیفہ کی فوج کو بارہ تیرہ سال کی مسلسل شکستوں کے بعد نصیب ہوئی تھی۔

شہزادہ ابو العباس کی مزید فتوحات:

ایک ہفتہ کے بعد زنگیوں کا ایک سردار سلیمان بن جامع اپنے لشکر کو تین حصوں میں بانٹ کر خشکی اور دریا کے راستے سے ابو العباس کے لشکر پر ٹوٹ پڑا۔ دوپہر تک شدت کی جنگ جاری رہی۔ ظہر کے قریب زنگی ہمت ہار بیٹھے اور نہایت افراتفری اور بے ترتیبی کے ساتھ جان بچا کر بھاگنے لگے۔ ہزاروں قتل ہوئے اور سینکڑوں اپنی کشتیوں سمیت گرفتار کر لئے گئے۔ ابو العباس فتح کے شادیانے بجاتا ہوا اپنے لشکر گاہ میں واپس ہوا۔

زنگیوں کی مزید ناکامیاں:

اس شکست کے بعد زنگیوں نے خلیفہ کے لشکر کے راستوں میں بڑے بڑے کنویں اور گڑھے کھود کر انہیں گھاس پھونس سے پاٹ دیا۔ ابو العباس کی فوج اپنی فتح کا جشن مناتی ہوئی اس راستے سے گزری تو اس کے کچھ سپاہی ان کنوؤں میں گرے۔ عباس نے فوراً راستہ تبدیل کر دیا۔ اور اس طرح زنگی اپنی اس ایذا رسانی میں ناکام ہو گئے۔

علی خارجی کو جب اپنی ناکامی کا علم ہوا تو اس نے اپنے سپہ سالاروں کو حکم دیا سب اپنی فوجیں یکجا کر لیں اور متحد ہو کر پوری قوت سے ابو العباس پر ضرب لگائیں ابو العباس کے باپ موفق کو معلوم ہوا کہ علی خارجی کی ساری فوجی قوت اس کی بیٹے ابو العباس کے خلاف صف آراء ہو رہی ہے تو وہ خود بھی بہ نفس نفیس خلیفہ سے اجازت لے کر ۲۶۷ھ میں ایک بھاری فوج کے ساتھ اپنے بیٹے ابو العباس سے آکر مل گیا۔

اب دونوں باپ بیٹوں نے دو طرف سے زنگی فوج پر حملہ کر دیا۔ گھمسان کی لڑائی ہوئی اور زنگیوں کو راہ فرار اختیار کرنا پڑی۔ زنگیوں کا سردار شعرانی اپنی بچی کھچی فوج لے کر جنگل میں جا چھپا۔ موفق اس فتح کے بعد اپنے کیمپ پر واپس آیا۔ تقریباً ڈیڑھ ہزار مسلم خواتین جن کو زنگیوں نے قید کر رکھا تھا۔ رہا کر دی گئیں۔

زنگیوں کے شہر منصورہ پر مسلمانوں کا قبضہ:

موفق کے جاسوسوں نے آکر اطلاع دی کہ علی بن خارجی کا سپہ سالار سلیمان بن جامع اس وقت منصورہ شہر میں اپنی افواج کے ساتھ زبردست تیاریوں میں مصروف ہے موفق نے فوراً لشکر کو تیاری کا حکم دیا اور ابو العباس کو دریا کی راہ سے بڑھنے کا اشارہ کیا اور خود خشکی کی راہ سے چل پڑا راستے میں زنگیوں کے ایک دستے سے مڈ بھیڑ ہو گئی جس میں زنگیوں کو شکست ہوئی اور ان کا ایک بڑا سردار موفق سے امان طلب کر کے اس کے لشکر میں آگیا موفق نے منصورہ کے قریب پہنچ کر دو میل کے فاصلے پر مورچہ بندی کرلی اور دوسرے دن زنگیوں سے مقابلہ ہوا۔ شام تک لڑائی ہوتی رہی آخر کار دونوں لشکر اپنی اپنی قیام گاہ پر واپس آگئے۔

دوسرے دن معرکہ کارزار پھر گرم ہوا اور سخت لڑائی کے بعد جس میں ابو العباس نے جنگی کشتیوں کے ذریعہ اور موفق نے خشکی کی راہ سے زنگیوں پر بھر پور حملہ کیا جس کی وہ تاب نہ لا سکے اور ان کے پاؤں اکھڑ گئے اور پورے منصورہ شہر پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا دس ہزار مسلمان عورتوں اور بچوں کو جن میں زیادہ تر سادات کے زن وفرزند تھے خارجیوں کی غلامی سے نجات دلائی گئی۔ خارجی سردار سلیمان بن جامع بھاگنے میں کامیاب ہو گیا مگر اس کے بیوی بچے گرفتار کر لیے گئے۔

زنگیوں کے دوسرے شہر مختارہ کا محاصرہ اور بہبود زنگی امیر البحر کی ہلاکت:

ابو العباس اور موفق نے اب زنگیوں کے شہر مختارہ کے گرد ڈیرے ڈال دیے اس شہر کے فصیلیں بہت مستحکم تھیں اس کے چاروں طرف گہری اور چوڑی خندقیں پورے شہر کی حفاظت کے لئے بنائی گئیں تھیں۔ موفق نے رات بھر جائے وقوع کا معائنہ کیا اور اس رات کی صبح خشکی کی راہ سے اور ابو العباس نے جنگی کشتیوں کی مدد سے دریا کی طرف سے مختارہ پر حملہ کر دیا لیکن زنگیوں نے اس قدر تیز پتھروں کی بارش کی کہ مسلمانوں کا شہر کی فصیل تک پہنچنا مشکل ہو گیا۔

اب علی خارجی نے اپنے امیر البحر بہبود زنگی کو دریا کی طرف سے مسلمانوں پر حملہ کا حکم دیا ابو العباس مقابلہ پر آیا نہایت خونریز جنگ کے بعد بہبود کو شکست ہوئی اور یہ ایک کشتی میں بیٹھ کر بھاگ رہا تھا کہ موفق کے ایک غلام نے اس کے پیٹ میں نیزہ مار کر اس کو ہلاک کر دیا۔ بہبود زنگی کے مارے جانے سے علی خارجی کی ہمت ٹوٹ گئی۔

پچاس ہزار زنگیوں کا حلف اطاعت:

۱۵ شعبان ۲۶۷ھ کو موفق نے بعد نماز فجر ابو العباس کی فوج کے ساتھ ایک زبردست حملہ کیا اور زنگیوں کو مارتے کاٹتے شہر پناہ کے قریب پہنچ گیا اس معرکے میں زنگیوں کی تعداد تین لاکھ تھی اور ان کے مقابلے میں مسلمان صرف پچاس ہزار تھے۔ با وجود اس قلت کے موفق نے اس خوبی سے شہر کو حضار میں لیا کہ زنگیوں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ اب موفق نے اعلان کرایا کہ جس کو اپنی جان عزیز ہو وہ آکر ہم سے امن کا طلبگار ہو ہم اس کو امن دے کر اس کی حفاظت کریں گے اور یہ رعایت فوجی اور شہری سردار اور سپاہی سب کے لئے ہے اور اس مضمون کے پرچے لکھ لکھ کر تیروں سے باندھ کر شہر کے اندر پھینکے چنانچہ بہت سے سپاہی اور اس کے بعد سردار موفق کے پاس آکر امان طلب کرنے لگے یہ دیکھ کر شہر کے عمائدین بھی آنے شروع ہو گئے اور موفق نے سب کا بڑا احترام کیا اور خلعت وانعامات سے نوازا۔ ان نوازشات کا نتیجہ یہ ہوا کہ روزانہ سینکڑوں لوگ فوجی اور شہری امان طلب کرنے آنے لگے اور رمضان کے آخر تک تقریباً پچاس ہزار زنگی فوجیوں نے عباسی علم کے سایہ میں حلف اطاعت اٹھایا۔

لشکر اسلام پر زنگیوں کا شب خون اور شکست:

یہ صورت حال دیکھ کر علی بن محمد خارجی نے اپنے سردار علی بن ابان کو حکم دیا کہ رات کی تاریکی میں دریا عبور کرو اور چار پانچ کوس کا چکر کاٹ کر علی الصبح جب موفق کا لشکر نماز فجر میں مشغول ہو حملہ کر دو میں بھی تم سے آکر مل جاؤں گا۔

جاسوس نے یہ خبر موفق تک پہنچا دی۔ موفق نے اس وقت اپنے بیٹے ابو العباس کو علی بن ابان کے مقابلے کے لئے روانہ کیا۔ ابو العباس اس راستے میں چھپ کر بیٹھ گیا جس راستے سے علی بن ابان کو موفق پر حملہ کرنا تھا اور جیسے ہی اس کا لشکر نمودار ہوا ابو العباس نے زبردست حملہ کر دیا۔ اس غیر متوقع حملہ سے زنگی گھبرا گئے اور راہ فرار اختیار کی، عباس کے لشکر نے خوب قتل عام کیا۔ بے شمار قیدی اور مال غنیمت ہاتھ آیا۔ علی خارجی کو ابھی تک اس شکست کی اطلاع نہیں ملی تھی اور وہ نکلنے کی تیاری کر رہا تھا کہ اتنے میں موفق زنگیوں کے کٹے ہوئے سروں کو گوپھن کے ذریعے شہر میں پھینکنے لگا یہ دیکھ کر تو شہر کے لوگوں میں ایک قیامت سی مچ گئی اور علی خارجی بھی کٹے ہوئے سروں کی بارش کو دیکھ کر رونے لگا۔

علی خارجی کا موفق کو چیلنج:

علی خارجی اور ابو العباس کی فوجوں میں کئی مرتبہ بحری لڑائی بھی ہوئی مگر ابو العباس نے ہر مرتبہ زنگیوں کو شکست دی۔ ادھر موفق نے شہر کا محاصرہ اور تنگ کر دیا یہاں تک کہ شہر کا غلہ ختم ہونے کے قریب آگیا اور زنگیوں کے بڑے بڑے سردار اور نامی گرامی سورما فاقہ کشی اور محاصرے کی شدت سے تنگ آکر شہر سے نکلے اور موفق سے امان کی درخواست کی۔ موفق نے نہ صرف انہیں امان دی بلکہ انعام واکرام سے نواز کر اپنے خاص مصاحبین میں شامل کر لیا۔ علی خارجی نے بھی محاصرے کی سختیوں سے تنگ آکر اپنے دو افسروں کو حکم دیا کہ موفق کے پاس جاؤ اور اس سے کہو کہ محاصرے کو طول دینے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا آؤ ہم تم کھلے میدان میں نکل کر اپنی قسمت کا فیصلہ کر لیں۔

محصورین کی فاقہ کشی انسان انسانوں کو کھانے لگے:

موفق نے اس درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا۔ مگر اس نے سمجھ لیا کہ اگر محاصرہ کچھ دن اور جاری رکھا جائے اور رسد کے راستوں کی کڑی نگرانی رکھی جائے تو فاقہ کشی سے زنگیوں کا لشکر خود ہی تہس نہس ہو جائے گا۔

محرم ۲۹۸ھ میں زنگیوں کے ایک بہت بڑے اور نامور سپہ سالار جعفر بن ابراہیم المعروف بہ سبحان نے موفق کی خدمت میں حاضر ہو کر سر تسلیم خم کیا۔ موفق نے اسے امان دے کر خلعت فاخرہ سے نوازا۔ دوسرے دن سبحان کو ایک جنگی کشتی پر سوار کرا کر علی خارجی کے محل کی طرف روانہ کیا۔ سبحان نے محل کے پاس جا کر ایک بڑی دلچسپ اور معنی خیر تقریر کی جس میں علی خارجی کے عیوب اور خلیفہ کے محاسن بیان کیے۔ علی خارجی اور اس کے افسران اس صورتحال سے بہت رنجیدہ اور مایوس ہوئے۔ سبحان کی تقریر کا یہ اثر ہوا کہ زنگیوں کی فوج سے سپاہی اور افسران جوق در جوق موفق کے ساتھ آکر وابستہ ہونے لگے یہاں تک کہ علی خارجی کا سیکریٹری محمد بن شمعان بھی موفق سے آکر مل گیا۔

علی خارجی اس محاصرے سے اور اپنے فوجیوں کی بے وفائی سے خاصا پریشان تھا رسد کی آمد بالکل بند ہو چکی تھی۔ شہر کے تمام غلے کے ذخائر ختم ہو چکے تھے محصورین نے پہلے تو گھوڑوں اور گدھوں کو ذبح کر کے کھایا پھر یہ ہوا کہ انسان انسان کو کھانے لگے۔

شہر پر مسلمانوں کا قبضہ اور علی خارجی کا قتل:

موفق نے اس صورتحال سے فائدہ اٹھایا اور شہر پر اپنی پوری فوج سے ایک فیصلہ کن حملہ کیا اور شہر کے سب سے بڑے بازار پر آتشکیر مادہ پھینک کر جلا دیا جس سے پورے شہر کے اندر بھگدڑ مچ گئی۔

آخر کار ۲۷ محرم ۲۷۰ھ کو موفق نے شہر پر قبضہ کر لیا۔ بڑے بڑے سردار گرفتار کر لیے گئے مگر علی خارجی چند افسران کو لے کر شہر سفیانی کی طرف بھاگ گیا اسلامی فوج تعاقب کرتی ہوئی اس کے سر پر پہنچ گئی اور معمولی سی جھڑپ کے بعد علی خارجی کو قتل کر کے اس کا سر نیزے پر چڑھا لیا۔ موفق نے سجدہ شکر ادا کیا اور پورے بلاد اسلامیہ میں زنگی غلاموں کی واپسی اور امن دینے کا گشتی فرمان جاری کر دیا اور اس طرح زنگیوں کا یہ خانہ ساز نبی چودہ برس چار مہینے بر سر پیکار رہ کر یکم صفر ۲۷۰ھ کو اپنے انجام کو پہنچا۔

Powered by netsolonline