اس شخص نے خراسان کے اطراف ہرات سجستان وغیرہ میں اپنی نبوت کے بلند بانگ دعوے کئے اور عوام اس کثرت سے اس کے معتقد ہوئے کہ چند ہی برس میں استاد کے پاس تقریباً تین لاکھ آدمیوں کی جماعت ہو گئی جو اس کو خدا کا فرستادہ نبی سمجھتے تھے اس زمانے میں خلیفہ ابو جعفر منصور مسلمانوں کا خلیفہ تھا۔
استادسیس کے دل میں اپنی اتنی بڑی جماعت دیکھ کر ملک گیری کی ہوس پیدا ہوئی اور خراسان کے اکثر علاقے اپنے قبضے میں کر لئے۔ خلیفہ منصور نے یہ حالت دیکھ کر اس کی سرکوبی کے لئے ایک لشکر روانہ کیا جسے استاد نے شکست دے دی۔ خلیفہ منصور نے یکے بعد دیگرے کئی لشکر اس کے بعد بھیجے مگر سب ناکام رہے اور استاد سے شکست کھا گئے۔
آخر کار منصور نے ایک نہایت تجربہ کار سپہ سالار خازم بن خزیمہ کو چالیس ہزار سپاہیوں کے ساتھ استاد کی سرکوبی کے لئے روانہ کیا۔ جس نے نہایت ہوشیاری اور پامردی سے استادسیس کے لشکر کو شکست فاش دی اور اس کے سترہ ہزار آدمی قتل کر دیے اور چودہ ہزار کو قیدی بنا لیا۔
استادسیس اپنی بقیہ تیس ہزار فوج کو لے کر پہاڑوں میں جا چھپا۔ خازم نے بھی تعاقب کر کے پہاڑ کا محاصرہ کر لیا۔ آخر کار استاد نے محاصرے سے تنگ آکر اپنے آپ کو خادم کے سپرد کر دیا۔ تاریخ اس باب میں خاموش ہے کہ اس کی موت کس طرح واقع ہوئی غالب قیاس یہی ہے کہ ابو جعفر منصور نے دوسرے جھوٹے نبیوں کی طرح اس کو بھی قتل کر دیا ہو۔