شمالی افریقہ کا رہنے والا تھا۔ ۱۳۵ھ میں جب ممالک اسلامیہ پر عباسی خلیفہ سفاح کا پرچم اقبال بلند تھا اسحاق اصفہان میں ظاہر ہوا۔ اہل سیر نے اس کی خانہ ساز نبوت کی دوکان آرائی کی کیفیت اس طرح لکھی ہے کہ اس سے پہلے تمام آسمانی کتابوں توراة، انجیل، زبور اور قرآن کی تعلیم حاصل کی پھر تمام مروجہ علوم رسمیہ کی تکمیل کی۔ مختلف زبانیں سیکھیں اور مختلف قسم کی صناعیوں اور شعبدہ بازیوں میں مہارت حاصل کی اور ہر طرح سے مخلوق کو گمراہ کرنے کے سامان سے لیس ہو کر اصفہان آیا۔
اصفہان آکر اس نے ایک عربی مدرسہ میں قیام کیا اور اپنے رہنے کے لئے ایک تنگ وتاریک حجره اختیار کیا اور اس میں دس برس تک خلوت نشین رہا اور اپنی زبان پر ایسی مہر سکوت لگائی کہ ہر شخص اسے گونگا یقین کرتا رہا اس نے اپنی عدم گویائی اور جھوٹے گونگے پن کو دس سال کی طویل مدت تک اس خوبصورتی اور مہارت سے نبھایا کہ کسی کو یہ گمان بھی نہیں ہوا کہ یہ شخص جھوٹا اور بنا ہوا گونگا ہے۔ یہاں تک کہ اس کا لقب ہی اخرس یعنی گونگا پڑ گیا۔ ہمیشہ اشاروں سے اظہار مدعا کیا کرتا تھا۔
دس برس کی صبر آزما مدت گزارنے کے بعد اخرس اب اپنے منصوبے یعنی دعویٰ نبوت کے اعلان کی تدبیریں سوچنے لگا۔ آخر کار اس نے نہایت رازداری کے ساتھ ایک نفیس قسم کا روغن تیار کیا اس روغن کی خاصیت یہ تھی کہ اگر کوئی شخص اسے اپنے چہرے پر مل لے تو اس درجہ حسن اور نورانیت پیدا ہو کہ شدت انوار سے کوئی اس کو دیکھنے کی بھی تاب نہ لاسکے۔
اس کے ساتھ اس نے دو رنگ دار شمعیں بھی تیار کیں اور پھر ایک رات جب سب لوگ اپنے اپنے گھروں میں سو رہے تھے اس نے کمال احتیاط سے وہ روغن اپنے چہرے پر ملا اور وہ شمعیں جلا کر اپنے سامنے رکھ دیں ان کی روشنی میں اس کے منصوبے کے مطابق اس کے چہرے میں ایسی رعنائی اور چمک دمگ پیدا ہوئی کہ آنکھیں خیرہ ہوتی تھیں۔ یعنی وہ لوگوں کو یہ دھوکہ دینا چاہتا تھا کہ دس سال کی مسلسل ریاضت اور مجاہدے کو اللہ تعالیٰ نے قبول کیا اور اس کے انوار وکیفیات اب اس کے چہرے سے نمایاں ہیں۔ چنانچہ اس نے یہ سب ڈھونگ رچا کر اس زور سے چیخنا شروع کیا کہ مدرسے کے تمام مکین جاگ اٹھے جب لوگ اس کے پاس دوڑ کے آنے لگے تو یہ اٹھ کر نماز میں مشغول ہو گیا اور ایسی پر سوز اور خوش گلو آواز سے قرآن کی تلاوت کرنے لگا کہ بڑے بڑے قاری جو وہاں موجود تھے عش عش کر اٹھے۔
جب مدرسے کے معلمین اور طلبہ نے دیکھا کہ ایک مادر زاد گونگا باتیں کر رہا ہے اور قوت گویائی کے ساتھ ہی اسے اعلیٰ درجہ کی فصاحت اور فن قرات اور تجوید کا کمال بھی بخشا گیا ہے اور چہرے سے ایسی نورانیت اور جلال ظاہر ہو رہا ہے کہ نگاہ نہیں ٹھہرتی تو لوگ سخت حیرت زدہ ہوئے اور یہی سمجھے کہ اس شخص کو خدا کی طرف سے بزرگی اور ولایت عطا ہو گئی ہے۔
صدر مدرس جو نہایت متقی مگر زمانے کی عیاریوں سے نا آشنا تھے بڑی خوش اعتقادی سے طلبہ سے مخاطب ہو کر بولے "کیا اچھا ہو اگر عمائد شہر بھی خداوند قدوس کے اس کرشمہ قدرت کا مشاہدہ کر سکیں۔ چنانچہ سب اہل مدرسہ نے صدر مدرس صاحب کی قیادت میں اس غرض سے شہر کا رخ کیا کہ شہر کے لوگوں کو بھی خدا کی اس قدرت کا جلوہ دکھائیں تاکہ ان کے ایمان تازہ ہوں۔"
سب سے پہلے قاضی شہر کے مکان پر پہنچے۔ قاضی صاحب شور وپکار سن کر گھبرائے ہوئے گھر سے نکلے اور ماجرا دریافت کیا اور حیرت زدہ ہو کر سب مجمع کو لے کر وزیر اعظم کے در دولت پر جا کر دستک دینے لگے۔ وزیر نے سب حالات سن کر کہا ابھی رات کا وقت ہے آپ لوگ جا کر آرام کریں صبح دیکھا جائے گا کہ ایسی بزرگ ہستی کے شایان شان کیا طریقہ مناسب ہوگا۔
غرض شہر میں ایک اودھم بچ گئی۔ باوجود ظلمت شب لوگ جوق در جوق مدرسے کی طرف رواں دواں تھے اور خوش اعتقادوں نے ایک ہنگامہ برپا کر رکھا تھا۔ قاضی صاحب شہر کے چند رؤسا کو لے کر اس بزرگ ہستی کا جمال مبارک دیکھنے کے لئے مدرسے میں آئے مگر دروازہ پر قفل لگا ہوا تھا۔
قاضی صاحب نے نیچے سے پکار کر کہا "یا حضرت آپ کو اس خدائے ذو الجلال کی قسم جس نے آپ کو اس کرامت اور منصب جلیل پر فائز کیا۔ دروازہ کھولئے اور مشتاقان جمال کو اپنے شرف دیدار سے مشرف فرمائیے۔ یہ سن کر اسحاق بولا اے قفل انہیں اندر آنے دے اور ساتھ ہی کسی حکمت عملی سے بغیر کنجی کے قفل کھل کر نیچے گر گیا اور اس کرامت کو دیکھ کر لوگوں کی خوش اعتقادی دو آتشہ ہو گئی۔
سب لوگ اسحاق کے سامنے سر جھکا کر مودب بیٹھ گئے۔ قاضی صاحب نے نہایت نیاز مندانہ لہجے میں عرض کیا "حضور والا اس وقت سارا شہر آپ کا معتقد اور اس کرشمہ خداوندی پر حیران ہے اگر حقیقت حال سے کچھ پردہ اٹھا دیا جائے تو بڑی نوازش ہوگی۔"
اسحاق جو اس وقت کا بہت پہلے سے منتظر تھا اور جس کے لئے اس نے دس سال سے یہ سب محنت برداشت کی تھی نہایت ریاکارانہ لہجے میں بولا کہ چالیس روز پہلے ہی سے فیضان کے کچھ آثار نظر آ رہے تھے پھر دن بدن الہام اور القائے ربانی کا تانتا باندھ گیا حتیٰ کہ آج رات خداوند قدوس نے اپنے فضل مخصوص سے اس عاجز پر علم وعمل کے وہ اسرار منکشف فرمائے کہ مجھ سے پہلے لاکھوں رہروان منزل اس کے خیال اور تصور سے بھی محروم رہے۔ ان اسرار ورموز کا زبان پر لانا مذہب طریقت میں ممنوع ہے تاہم اتنا مختصر کہنے کا مجاز ہوں کہ آج رات دو فرشتے حوض کوثر کا پانی لے کر میرے پاس آئے اور مجھے غسل دے کر کہنے لگے "السلام علیک یا نبی اللہ" مجھے جواب میں تامل ہوا اور میں گھبرایا کہ خدا جانے یہ کیا ابتلا اور آزمائش ہے تو ایک فرشتہ یوں گویا ہوا "یا نبی اللّٰہ افتح فاک بسم اللّٰہ ازلی" (اے اللہ کے نبی بسم اللہ کہہ کر منہ کھولو" میں نے منہ کھولا تو فرشتے نے ایک سفید سی چیز میرے منہ میں رکھ دی جو شہد سے زیادہ شیریں، برف سے زیادہ ٹھنڈی اور مشک سے زیادہ خوشبودار تھی۔ اس نعمت خداوندی کا حلق سے اترنا تھا کہ میری زبان کھل گئی اور پہلا کلمہ جو میرے منہ سے نکلا وہ تھا اشھد ان لا اله الا الله و اشهد ان محمدا عبده و رسولہ یہ سن کر فرشتوں نے کہا کہ محمد ﷺ کی طرح تم بھی اللہ کے رسول ہو۔ میں نے کہا میرے دوستو تم یہ کیسی بات کہہ رہے ہو میں شرم وندامت سے ڈوبا جاتا ہوں۔ جناب باری تعالیٰ نے تو سیدنا محمد ﷺ کو خاتم الانبیاء قرار دیا ہے اب میری نبوت کیا معنی رکھتی ہے۔ فرشتوں نے کہا کہ یہ درست ہے مگر محمد (ﷺ) کی نبوت مستقل حیثیت رکھتی ہے اور تمہاری بالتبع ظلی وبروزی ہے (مرزا قادیانی نے بھی یہی دعویٰ کیا تھا)
اس کے بعد اسحاق نے حاضرین سے کہا کہ جب ملائکہ نے مجھے ظلی اور بروزی نبوت کا منصب تفویض کیا تو میں نے انکار کیا اور اپنی معذوری ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ میرے لئے نبوت کا دعویٰ بہت سی مشکلات سے لبریز ہے کیونکہ معجزہ نہ رکھنے کی وجہ سے کوئی بھی میری تصدیق نہیں کرے گا۔
فرشتوں نے کہا کہ وہ قادر مطلق جس نے تمہیں گونگا پیدا کر کے پھر بولتا کر دیا اور پھر فصاحت وبلاغت عطا فرمائی وہ خود لوگوں کے دلوں میں تمہاری تصدیق کا جذبہ پیدا کر دے گا یہاں تک کہ زمین آسمان تمہاری تصدیق کے لئے کھڑے ہو جائیں گے لیکن میں نے ایسی خشک نبوت قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
جب میرا اصرار حد سے زیادہ بڑھ گیا تو فرشتے کہنے لگے اچھا معجزات بھی لیجئے جتنی آسمانی کتابیں انبیاء پر نازل ہوئی ہیں تمہیں ان سب کا علم دیا گیا اس کے علاوہ کئی قسم کی زبانیں اور رسم الخط بھی تمہیں دیے گئے (یاد رہے کہ یہ ساری زبانیں اور آسمانی کتابیں اسحاق اپنے منصوبے کے مطابق پہلے ہی پڑھ چکا تھا)
اس کے بعد فرشتے کہنے لگے قرآن پڑھ کر سناؤ۔ میں نے جس ترتیب سے قرآن کا نزول ہوا تھا پڑھ کر سنا دیا۔ انجیل پڑھوائی وہ بھی سنا دی پھر تورات، زبور اور دوسرے آسمانی صحیفے بھی پڑھوائے جو میں نے ان کے نزول کی ترتیب کے مطابق سنا دیئے تمام کتب سماویہ کی قرات سن کر فرشتوں نے اس کی تصدیق کی اور مجھ سے کہا "قم فانذر الناس" (اٹھو اور لوگوں کو غضب الہٰی سے ڈراؤ) یہ کہہ کر فرشتے غائب ہو گئے اور میں فوراً ذکر الہٰی میں مشغول ہو گیا۔
اسحاق مزید بولا آج رات سے جن انوار وتجلیات کا میرے دل پر ہجوم ہے زبان اس کی شرح سے قاصر ہے۔ یہ میری سرگذشت تھی۔ اب میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ جو شخص خدا پر، محمد ﷺ پر اور میری ظلی وبروزی نبوت پر ایمان لایا اس نے نجات پائی اور جس نے میری نبوت کا انکار کیا اس نے سیدنا محمد ﷺ کی شریعت کو بیکار کر دیا ایسا منکر ابد الاباد تک جہنم میں رہے گا۔ (مرزا قادیانی کذاب کا بھی اپنے نبوت کے متعلق یہی قول ہے)
دنیا ہر قسم کے لوگوں سے بھری پڑی ہے اور عوام کا تو یہ معمول ہے کہ جونہی نفس امارہ کے کسی پجاری نے اپنے جھوٹے تقدس اور پاکبازی کی صدا لگائی غول کا غول انسانوں کا اس کے پیچھے لگ جاتا ہے۔ اور مرید ان خوش اعتقاد اپنی سادہ لوحی سے ایسے ایسے افسانے اور کرامتیں اپنے پیروں سے منسوب کرتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔
اسحاق کی تقریر سن کر بھی بڑوں بڑوں کا پایہ ایمان ڈگمگا گیا اور ہزارہا مخلوق اس کی نبوت پر ایمان لے آئی۔ جن لوگوں کا دل نور ایمان سے منور تھا اور جن کو ہر عمل شریعت کی کسوٹی پر پرکھنا آتا تھا انہوں نے لوگوں کو بہت سمجھایا کہ اسحاق اخرس کوئی نبی یا ولی نہیں جھوٹا، کذاب، شعبدہ باز اور رہزن دین وایمان ہے لیکن عقیدتمندوں کی خوش اعتقادی میں کوئی فرق نہیں آیا بلکہ جوں جوں علمائے حق انہیں راہ راست پر لانے کی کوشش کرتے ان کا جنون عقیدت اور زیادہ بڑھتا جاتا تھا۔
نتیجہ یہ ہوا کہ اسحق اخرس کے پاس اتنی قوت اور لوگوں کی تعداد ہو گئی کہ اس کے دل میں ملک گیری کی ہوس پیدا ہونے لگی۔ چنانچہ اس نے ایک بڑی تعداد اپنے عقیدت مندوں کی لے کر بصرہ، عمان اور اس کے قرب وجوار کے علاقوں پر دھاوا بول دیا اور عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور کے حاکموں کو بصرہ اور عمان وغیرہ سے بے دخل کر کے خود قابض ہو گیا۔
خلیفہ جعفر منصور کے لشکر سے اسحاق کے بڑے بڑے معرکے ہوئے آخر کار عساکر خلافت فتح یاب ہوئے اور اسحاق مارا گیا اور یوں وہ خود اور اس کی جھوٹی ظلی وبروزی نبوت خاک میں مل گئی۔