یہ شخص نبوت کا دعویدار تھا اور اہل ہنود کی طرح تناسخ اور حلول کا قائل تھا اس کا دعویٰ تھا کہ میرے جسم میں خدائے کردگار کی روح حلول کر گئی ہے۔ یہ بھی کہتا تھا کہ میں اسم اعظم جانتا ہوں اور اس کے ذریعہ زہرہ کو بلا لیتا ہوں اس کے پیرو اسکو اسی طرح خدا کا اوتار مانتے تھے جس طرح اہل ہنود رام چندر جی اور کرشن جی کو۔
یہ خانہ ساز نبی بھی قرآن پاک کی ایسی تاویلات کرتا تھا جیسے ہمارے زمانے میں قادیان کے خود ساختہ نبی نے کی ہیں۔ اس کے ماننے والے کہتے تھے کہ قرآن کی یہ آیت بیان ہی کی شان میں اتری ہے۔
هذا بيان للناس وهدى وموعظه للمتقين
اور خود بیان نے بھی اپنے متعلق لکھا ہے۔
انا البيان وانا الهدي والموعظة
یعنی میں ہی بیان ہوں اور میں ہی ہدایت والمواعظۃ ہوں۔
بیان نے اپنی خانہ ساز نبوت کی دعوت حضرت امام محمد باقر جیسی جلیل القدر ہستی کو بھی دی تھی اور اپنے ایک خط میں جو اپنے قاصد عمر بن عفیف کے ہاتھ امام موصوف کے پاس بھیجا اس نے لکھا۔
اسلم تسلم و ترتقى من سلم فانك لا تدرى حیث یجعل لله النبوة
تم میری نبوت پر ایمان لے آؤ گے تو سلامتی میں رہو گے اور ترقی کرو گے۔ تم نہیں جانتے کہ اللہ کس کو نبی بناتا ہے۔
کہتے ہیں کہ حضرت امام محمد باقر یہ خط پڑھ کر بہت غضبناک ہو گئے اور قاصد سے فرمایا اس خط کو نگل جاؤ قاصد بے تامل نگل گیا اور اس کے فوراً بعد ہی گر کر مر گیا اس کے بعد حضرت امام محمد باقر نے بیان کے حق میں بھی بد دعا فرمائی بیان قرآن کی آیت:
وهو الذى فى السماء اله وفى الارض اله
کی یہ تاویل کرتا تھا کہ آسمان کا الٰہ اور ہے اور زمین کا اور مگر آسمان کا الٰہ زمین کے الٰہ سے افضل ہے۔
خالد بن عبد الله قسری حاکم کوفہ نے مغیرہ بن سعید کے ساتھ ہی بیان کو بھی گرفتار کر کے دربار میں بلایا تھا جب مغیرہ ہلاک ہو چکا تو خالد نے بیان سے کہا اب تیری باری ہے۔ تیرا دعویٰ ہے کہ تو اسم اعظم جانتا ہے اور اس کے ذریعے فوجوں کو شکست دیتا ہے اب یہ کر کہ مجھے اور میرے عملہ کو جو تیری ہلاکت کے درپے ہیں اسم اعظم کے ذریعے ہلاک کر۔ مگر چونکہ وہ جھوٹا تھا اس لئے کچھ نہ بولا اور خالد نے مغیرہ کی طرح اس کو بھی زندہ جلا دیا۔