یہ شخص خالد بن عبد اللہ قسری والی کوفہ کا آزاد کردہ غلام تھا حضرت امام محمد باقر کی رحلت کے بعد پہلے امامت اور پھر نبوت کا دعویٰ کرنے لگا۔ یہ کہتا تھا کہ میں اسم اعظم جانتا ہوں اور اس کی مدد سے مردوں کو زندہ اور فوجوں کو شکست دے سکتا ہوں۔ اگر میں قوم عاد وثمود کے درمیانی عہد کے لوگوں کو بھی چاہوں تو زندہ کر سکتا ہوں۔
اس کو جادو اور سحر میں بھی کامل دستگاہ حاصل تھی اور دوسرے طلسمات مثلاً نیر نجات وغیرہ بھی جانتا تھا جس سے کام لے کر لوگوں پر اپنی بزرگی اور عقیدت کا سکہ جماتا تھا۔
مغیرہ نے پیشن گوئی کی تھی کہ محمد بن عبد الله بن حسن مثنی بن امام حسن (نفس ذکیہ) بنی مہدی آخر الزماں ہوں گے اور اس طرح پوری روئے زمین پر ان کی حکمرانی ہوگی۔ مگر مغیرہ کے مرنے کے ۲۶ سال کے بعد جب حضرت نفس ذکیہ نے خلیفہ ابو جعفر منصور کے خلاف خروج کر کے حجاز مقدس پر قبضہ کر لیا تھا۔ خلیفہ نے ان کے خلاف ایک لشکر عیسیٰ بن موسیٰ کی کمان میں بھیجا تھا جس میں حضرت نفس ذکیہ شہید ہو گئے تھے تو اس پیشنگوئی کے جھوٹ ہو جانے پر اس کے مریدین کی ایک جماعت اسپر لعنت کرنے لگی اور دوسرے یہ کہہ کر اپنی خوش اعتقادی پر قائم رہے کہ حضرت نفس ذکیہ شہید نہیں ہوئے بلکہ وہ مستور ہو گئے ہیں اور جب حکم ہوگا تو آکر رکن اور مقام ابراہیم کے درمیان لوگوں سے بیعت لیں گے جب ان لوگوں سے سوال کیا جاتا کہ پھر وہ کون شخص تھا جو خلیفہ ابو جعفر منصور کے لشکر کے ہاتھوں ہلاک ہوا تو اس کا وہ مضحکہ خیز جواب دیتے کہ وہ ایک شیطان تھا جس نے محمد بن عبد اللہ نفس ذکیہ کی شکل وصورت اختیار کرلی تھی۔
جب خالد بن عبد الله قسری کو جو خلیفہ ہشام بن عبد الملک کی طرف سے عراق کا حاکم تھا یہ معلوم ہوا کہ مغیرہ اپنے آپ کو نبی کہتا ہے اور اس نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا ہے۔ تو اس نے 19 ہجری میں اس کی گرفتاری کا حکم دیا۔ مغیرہ اپنے چھ مریدوں کے ساتھ گرفتار ہو کے خالد کے سامنے پیش کیا گیا۔ خالد نے اس سے پوچھا تو کس چیز کا دعویدار ہے۔ اس نے کہا میں اللہ کا نبی ہوں۔ خالد نے پھر اس کے مریدوں سے پوچھا تم اس کو اللہ کا نبی مانتے ہو سب نے اثبات میں جواب دیا۔
خالد نے مغیرہ کو سر کنڈے کی گھٹے کے ساتھ باندھا اور تیل چھڑک کر اس کو زندہ جلا دیا۔ خالد نے جوش میں اس کو آگ کی سزا دی ورنہ حدیث شریف میں آگ سے عذاب دینے کی ممانعت کی گئی ہے۔