Khatam e Nabuwat

حارث کذاب دمشقی

شیطان کا معمول ہے کہ وہ طرح طرح کی نورانی شکلیں اختیار کر کے بے مرشد ریاضت کشوں کے پاس آتا ہے اور طرح طرح کے سبز باغ دکھا کے کسی سے کہتا ہے کہ تو ہی میری موعود ہے کسی کے کان میں یہ پھونکتا ہے کہ آنے والا مسیح تو ہی ہے۔ کسی کو حلال وحرام کی پابندیوں سے مستثنیٰ قرار دیتا ہے۔ کسی کے دل میں یہ ڈالتا ہے کہ تو اللہ کا نبی ہے اور وہ بد نصیب عابد اسیر یقین بھی کر لیتا ہے اور شیطان کی اس نورانی شکل اور آواز کو سمجھتا ہے کہ خود خداوند قدوس کا جمال دیکھ رہا ہے اور اسی سے ہم کلام ہے اور اس نے اس کو نبوت یا مہدویت کا نصب جلیل عطا کیا ہے۔

بڑے بڑے اولیاء کرام شیخ عبد القادر جیلانی اور ابو محمد حقاف جیسے بزرگوں پر بھی شیطان نے ایسا ہی شعبدہ دکھایا تھا مگر وہ لوگ گمراہ ہونے سے محفوظ رہے کیونکہ ان کا مجاہدہ اور ریاضت اپنے مرشد کے سائے میں طے ہوا تھا۔ لیکن جو بے مرشد عابد وزاہد ریاضتیں اور مجاہدے کرتے ہیں وہ اکثر اس شیطانی اغواء کا شکار ہو جاتے ہیں جیسے حارث دمشقی اور ہمارے زمانے میں غلام احمد قادیانی۔

حارث کے شعبدے (استدراج):

جو شخص بھوکا رہے، کم سوئے، کم بولے اور نفس کشی اختیار کر لے اس سے بعض دفعہ ایسے افعال صادر ہو جاتے ہیں جو دوسروں سے نہیں ہو سکتے۔ ایسے لوگ اگر اہل اللہ میں سے ہوں تو ان کے ایسے فعل کو کرامت کہتے ہیں اور اگر اہل کفر یا گمراہ بدعتی لوگ ہوں تو ان کے ایسے فعل کو استدراج کہتے ہیں۔ یہ تصرفات محض ریاضت اور نفس کشی کا ثمرہ ہوتے ہیں تعلق باللہ اور قرب حق سے ان کو کوئی واسطہ نہیں الا یہ کہ کسی متبع شریعت بزرگ سے ایسے افعال صادر ہوں۔ چنانچہ حارث اپنی ریاضت ومجاہدات اور نفس کشی کی بدولت ایسے تصرفات کرتا تھا مثلاً کہتا کہ آؤ میں تمہیں دمشق سے فرشتوں کو جاتے ہوئے دکھاؤں چنانچہ حاضرین محسوس کرتے کہ نہایت حسین وجمیل فرشتے بصورت انسان گھوڑوں پر سوار جا رہے ہیں۔ موسم سرما میں گرمیوں کے اور گرمیوں میں جاڑوں کے پھل لوگوں کو کھلاتا۔

حارث کا بیت المقدس کو فرار:

جب حارث کے استدراج اور شعبدوں نے شہرت اختیار کر لی اور خلق خدا زیادہ گمراہ ہونے لگی ایک دمشقی رئیس قاسم بن بخیرہ اس کے پاس آیا اور دریافت کیا کہ تم کس چیز کے دعویدار ہو اور کیا چاہتے ہو؟ حارث بولا میں اللہ کا نبی ہوں، قاسم نے کہا اے دشمن خدا تو بالکل جھوٹا ہے۔ حضرت ختم المرسلین ﷺ کے بعد نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہو چکا ہے۔ قاسم وہاں سے اٹھ کر سیدھا خلیفہ وقت عبد الملک بن مروان کے پاس گیا اور ملاقات کر کے حارث کے دعوائے نبوت اور لوگوں کی بد اعتقادی کا تذکرہ کیا۔ عبد الملک نے حکم دیا کہ حارث کو گرفتار کر کے دربار میں پیش کیا جائے لیکن جب پولیس پہنچی تو وہ بیت المقدس فرار ہو چکا تھا۔ حارث نے وہاں باقاعدہ اپنی نبوت کی دوکان کھولی اور لوگوں کو گمراہ کرنے لگا۔

بصرہ کے ایک سمجھدار شخص نے حارث سے ملاقات کی اور بعد دیر تک اس سے تبادلہ خیالات کیا جس سے اس کو یقین ہو گیا کہ یہ شخص جھوٹا ہے اور خلق خدا کو گمراہ کر رہا ہے۔ یہ شخص بہت عرصہ تک حارث کے ساتھ رہا اور جب اس کا اعتماد حاصل کر لیا تو حارث سے یہ کہہ کر میں اب اپنے وطن بصرہ جا رہا ہوں اور وہاں آپ کی نبوت کی طرف لوگوں کو دعوت دوں گا سیدھا خلیفہ عبد الملک کی خدمت میں پہنچا اور حارث کی شر انگیزیوں کا تذکرہ کیا اور کہا کہ اگر کچھ آدمی میرے ساتھ آپ کر دیں تو حارث کو میں خود گرفتار کر کے آپ کے سامنے پیش کروں گا۔ خلیفہ نے چالیس سپاہی اس کے ساتھ کر دیئے۔

بصری رات کے وقت حارث کی قیام گاہ پر پہنچا اپنے ساتھیوں کو قریب ہی کہیں چھپا دیا اور کہا جب آواز دوں تو سب اندر آ جانا۔ بصری چونکہ حارث کا معتمد تھا اس لئے کسی نے نہیں روکا۔ اندر جاتے ہی ساتھیوں کو آواز دی اور اس طرح حارث کو پا بہ زنجیر کر کے دمشق کے لئے روانہ ہوئے، راستے میں دوسری مرتبہ حارث نے اپنا شعبدہ دکھایا اور زنجیر ہاتھ سے ٹوٹ کر زمین پر گر پڑی ایسا دو مرتبہ ہوا مگر بصری بالکل متاثر نہیں ہوا اور اس کو لے جا کر خلیفہ عبد الملک کے سامنے پیش کر دیا۔

حارث کا قتل، خود ساختہ نبوت کا اختتام:

خلیفہ نے حارث سے پوچھا کیا واقعی تم نبی ہو؟ حارث بولا بے شک لیکن یہ بات میں اپنی طرف سے نہیں کہتا بلکہ جو کچھ میں کہتا ہوں وحی الہٰی کے مطابق کہتا ہوں۔ خلیفہ نے ایک قوی ہیکل محافظ کو اشارہ کیا کہ اس کو نیزہ مار کے ہلاک کر دے۔ اس نے ایک نیزہ مارا لیکن حارث پر کوئی اثر نہیں ہوا حارث کے مریدوں نے کہا کہ اللہ کے نبیوں کے اجسام پر ہتھیار اثر نہیں کرتے۔ عبد الملک نے محافظ سے کہا شاید تو نے بسم اللہ پڑھ کر نیزہ نہیں مارا۔ محافظ نے بسم اللہ پڑھ کر دوبارہ نیزہ مارا جو حارث کے جسم کے پار ہو گیا وہ بری طرح چیخ مار کر گر پڑا اور گرتے ہی ہلاک ہو گیا اور اس طرح خانہ ساز نبی اور اس کی نبوت اپنے انجام کو پہنچی۔

Powered by Netsol Online