Khatam e Nabuwat

سجاح بنت حارث

یہ عورت اپنے زمانے کی مشہور کاہنہ تھی اس کے ساتھ ہی نہایت فصیح وبلیغہ اور بلند حوصلہ عورت تھی مذہباً عیسائی تھی اور تقریر وگویائی میں بھی اپنا جواب نہیں رکھتی تھی۔

جب سجاح نے اپنی ہونہار فطرت اور باکمال خوبیوں پر نظر کی اور دیکھا کہ مسیلمہ جیسا سو سالہ بوڑھا نبوت کا دعویٰ کر کے اتنا با اقتدار بن گیا تو اسے بھی اپنے جوہر خداداد سے فائدہ اٹھا کر کچھ کرنا چاہیے جیسے ہی اس نے سید العرب وعجم ﷺ کی وفات کی خبر سنی۔ اپنی نبوت اور وحی الہٰی کی دعویدار بن بیٹھی سب سے پہلے بنی تغلب نے اس کی نبوت کو تسلیم کیا جس سے سجاح کو ایک گونہ قوت حاصل ہو گئی۔ اب اس نے نہایت فصیح وبلیغ مسجع اور مقفی عبارتوں میں خطوط لکھ کر تمام قبائل عرب کو اپنی نبوت کی دعوت دی۔

بنی تمیم کا رئیس مالک بن ہبیرہ اس کے خط کی فصاحت وبلاغت سے اتنا متاثر ہوا کہ اسلام ترک کر کے اس کی نبوت پر ایمان لے آیا۔ دوسرے قبائل بھی جن میں احنف بن قیس اور حارث بن بدر جیسے معزز اور شریف لوگ تھے اس کی سحریبانی سے مرغوب ہو کر اس کے عقیدت مند ہو گئے۔

سجاح کی مدینے اور یمامہ پر فوج کشی:

جب سجاح کو کافی قوت حاصل ہو گئی تو اس کے دماغ میں مدینہ شریف پر حملہ کرنے کی سمائی۔ مالک بن نویرہ نے سجاح کو اس ارادہ سے باز رکھا اور بنی تمیم پر حملہ کرنے کی رائے دی۔ سجاح کا لشکر بنی تمیم پر ٹوٹ پڑا اور دونوں طرف کافی نقصان ہوا۔

ایک رات اس نے ایک نہایت فصیح وبلیغ عبارت تیار کی اور صبح سرداران فوج کو جمع کر کے کہنے لگی کہ اب میں وحی الہٰی کی ہدایت کے مطابق یمامہ پر حملہ کرنا چاہتی ہوں۔ یمامہ میں مسیلمہ کذاب اپنی نبوت کی دوکان لگائے بیٹھا تھا ادھر سجاح یمامہ پر حملہ کرنے کے لئے نکلی ادھر حضرت ابوبکر صدیق نے ایک لشکر حضرت خالد کی سرداری میں سجاح کی سرکوبی کے لئے روانہ فرمایا۔ حضرت خالد آگے بڑھے تو معلوم ہوا کہ اسلام کے دو مشترکہ دشمنوں میں تصادم ہونے والا ہے تو حضرت خالد وہیں رک گئے۔

ادھر مسیلمہ کو جب سجاح کے حملہ کی خبر ملی تو اس کو کافی تشویش لاحق ہو گئی کیونکہ اس کو معلوم تھا کہ مسلمانوں کا ایک لشکر بھی اس کے مقابلے پر آ رہا ہے۔ اس لئے اس نے سجاح سے مقابلہ کرنے کے بجائے عیاری ومکاری سے کام لینا چاہا۔ چنانچہ بہت سے نفیس تحائف کے ساتھ سجاح سے ملاقات کی۔ اس کی سیرت، صورت، صباحت وملاحت کا بہ نظر غائر مطالعہ کیا اور گرد وپیش کے حالات سے اس کو اندازہ ہو گیا کہ سجاح پر جنگ وجدل کے ذریعے فتح پانا دشوار ہے۔ عورت ذات عشق ومحبت کے جال میں پھنسا کر ہی رام کی جاسکے گی۔ چنانچہ چلتے وقت اس نے سجاح سے درخواست کی کہ آپ میرے خیمہ تک تشریف لا کر مجھے سرفراز فرمائیں وہیں ہم اپنی اپنی نبوت کے متعلق گفتگو کریں گے۔ سجاح جو دور اندیشی سے عاری تھی راضی ہو گئی اور یہ بھی وعدہ کر لیا کہ دونوں کے آدمی خیمہ سے دور رہیں گے تاکہ بات چیت راز میں رہے۔ اس وعدے پر اس پیر فرتوت کی تو باچھیں کھل گئیں۔

مسیلمہ نے آتے ہی حکم دیا کہ ایک نہایت خوش نما اور پر تکلف خیمہ نصب کیا جائے اس حکم کی فوراً تعمیل ہوئی۔ مسیلمہ نے اسے اعلیٰ قسم کے اسباب عیش اور سامان زینت سے آراستہ کرایا۔ انواع واقسام کے عطریات اور مسحور کن خوشبوؤں سے اسے معطر کر کے حجلہ عروسی کی طرح سجا دیا۔

وقت موعود پر سجاح ملاقات کے لئے آئی دونوں خیمہ میں داخل ہوئے۔ مسیلمہ نے سجاح کو نرم نرم ریشمی گد گدے گدیلے پر بیٹھایا اور اس سے میٹھی میٹھی باتیں بنانا شروع کیں خوشبو کی لپٹوں نے سجاح کو مسحور کر دیا تھا اور مسیلمہ اس کے چہرے اور جذبات کا بغور مطالعہ کرتا رہا۔ مسیلمہ بولا اگر جناب پر کوئی تازہ وحی نازل ہوئی ہو تو مجھے سنائے سجاح بولی نہیں پہلے آپ اپنی وحی کے الفاظ سنائیے کیونکہ میں پھر بھی عورت ذات ہوں مسیلمہ بھانپ گیا کہ سجاح کی نبوت بھی اس کے دعویٰ کی طرح جھوٹی اور خانہ ساز ہے۔

اب مسیلمہ نے سجاح پر عشق ومحبت کا جال پھینکا اور عورت کی فطری کمزوری سے فائدہ اٹھانا چاہا چنانچہ بولا مجھ پر یہ وحی اتری ہے۔ الم ترا كيف فعل ربك بالحیلی اخرج منها نسمتہ نسعى بین صفاق وحشی۔ ترجمہ: کیا تم اپنے پروردگار کو نہیں دیکھتے کہ وہ حاملہ عورتوں سے کیا سلوک کرتا ہے۔ ان سے چلتے پھرتے جاندار نکالتا ہے جو نکلتے وقت پردوں اور جھلیوں کے درمیان لپٹے رہتے ہیں۔

یہ عبارت چونکہ بہ تقاضائے جوانی سجاح کی نفسانی خواہش سے مطابقت رکھتی تھی بولی اچھا کچھ اور سنائیے۔ مسیلمہ نے جب دیکھا سجاح برا ماننے کے بجائے خوش ہوئی تو اس کا حوصلہ اور بڑھا اور کہنے لگا کہ مجھ پر یہ آیتیں بھی نازل ہوئی ہیں۔ ان الله خلق الناء افراجا وجعل الرجال لهن ازواجا فتولج فيهن ايلاجا ثم نخرجنا اذا انشاء اخراجا فيتجن لنا سخالا انتساجا

اس عبارت کا مضمون چونکہ انتہائی فحش ہے اس لئے ترجمہ نہیں کیا گیا۔ اس شرمناک اور شہوت انگیز ابلیسی وحی نے سجاح پر پورا پورا اثر کیا۔ مسیلمہ کی منہ مانگی مراد پوری ہوئی فوراً بولا سنو سجاح خدائے برتر نے عرب کی نصف زمین مجھے دی تھی اور نصف قریش کو مگر قریش نے نا انصافی کی اس لئے رب العزت نے قریش سے ان کا نصف حصہ چھین کر تمہیں عطا کر دیا۔ کیا اب یہ بہتر نہ ہوگا کہ ہم دونوں اس وقت نکاح کر لیں اور پھر ہم دونوں کے لشکر مل کر سارے عرب پر قبضہ کر لیں۔

سجاح پر مسیلمہ کا جادو چل چکا تھا بولی مجھے منظور ہے۔ یہ حوصلہ افزاء جواب سن کر مسیلمہ نے انتہائی فحش اشعار اس کو سنانے شروع کیے اور آخر میں منہ کالا کرنے کے بعد کہنے لگا مجھے ایسا ہی کرنے کا حکم ملا تھا۔

تین شب وروز سجاح اور مسیلمہ خیمہ کے اندر داد وعیش دیتے رہے اور باہر ان کے اندھے مرید چشم براہ اور گوش بر آواز بنے ہوئے تھے۔ خوش اعنقاد امتی یہ گمان کر رہے تھے کہ ہر مسئلہ پر بہت کچھ رد وقدح ہو رہی ہوگی اور بحث واختلاف کے لئے وحی ربانی کا انتظار کیا جا رہا ہوگا مگر وہاں دونوں پر شوق دولہا دلہن بساط نشاط پر بیٹھے بہار کامرانی کے مزے لوٹ رہے تھے۔

سجاح کے مہر میں فجر اور عشاء کی نماز معاف:

تین روز کے بعد سجاح اپنی عصمت ونبوت کو خاک میں ملا کر اپنے لشکر واپس آئی اور سب کو بلا کر کہا کہ مسیلمہ بھی نبی برحق ہے میں نے اس کی نبوت تسلیم کر کے اس سے نکاح کر لیا ہے کیونکہ تمہاری مرسلہ کو ایک مرسل کی اشد ضرورت ہے۔ سب نے حیرت زدہ ہو کر پوچھا مہر کیا قرار پایا؟ سجاح نہایت سادگی سے بولی یہ بات تو میں اس سے پوچھنا ہی بھول گئی۔ سرداران لشکر نے کہا کہ حضور بہتر ہوگا کہ ابھی واپس جا کر مہر کا تصفیہ کر لیجیے کیونکہ کوئی عورت بغیر مہر اپنے آپ کو کسی کی زوجیت میں نہیں دیتی۔ سجاح فوراً واپس مسیلمہ کے پاس گئی ادھر مسیلمہ واپس اپنے قلعہ میں جا کر دروازہ بند کر کے سہما ہوا بیٹھا تھا کہ کہیں سجاح کے سرداران لشکر اس عقد کو اپنی توہین سمجھ کر مجھ پر حملہ نہ کریں سجاح جب قلعہ پر پہنچی اور اپنے آنے کی اطلاع کرائی تو مسیلمہ بہت خوفزدہ ہوا ور دروازہ بھی نہیں کھولا۔ چھت پر آکر اس نے پوچھا اب کیسے آنا ہوا؟ سجاح بولی تم نے مجھ سے نکاح تو کر لیا لیکن میرا مہر تو بتاؤ۔ مسیلمہ نے کہا کہ تم جاکر اعلان کر دو کہ محمد (ﷺ) خدا سے پانچ نمازیں لائے تھے۔ رب العزت نے فجر اور عشاء کی دو نمازیں مومنوں کو سجاح کے مہر میں معاف کر دیں۔

سجاح کا قبول اسلام:

سجاح کے بہت سے سرداران لشکر اور سمجھ دار امتی نکاح کے واقعے سے بہت دل برداشتہ ہوئے اور آہستہ آہستہ اس سے بد اعتقاد ہو کر الگ ہوتے گئے اور اس کی فوج میں بجائے ترقی کے انحطاط ہوتا چلا گیا۔ سجاح نے بھی یہ محسوس کر لیا کہ اس کی خود ساختہ نبوت اور فصاحت وبلاغت اب مزید کام نہیں آسکے گی چنانچہ وہ قبیلہ بنی تغلب میں جس سے وہ نا نہالی رشتہ رکھتی تھی رہ کر خوشی کی زندگی بسر کرنے لگی۔

جب حضرت امیر معاویہ کا زمانہ آیا تو ایک سال سخت قحط پڑا تو انہوں نے بنی تغلب کو بصرہ میں آباد کر دیا لہٰذا سجاح بھی ان کے ساتھ بصرہ آگئی اور یہاں آکر اپنی پوری قوم کے ساتھ مسلمان ہو گئی اور پھر بڑی دینداری اور پرہیزگاری کی زندگی گزاری اور اسی ایمان کی حالت میں اس کی وفات ہوئی۔ بصرہ کے حاکم اور صحابی رسول حضرت سمرہ بن جندب نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔

Powered by Netsol Online