مولانا سید حبیب اللہ شاہ بن سید سعد اللہ شاہ کی ولادت ۵ ستمبر ۱۸۹۱ء کو جلالپور جٹان ضلع گجرات (پنجاب) میں ہوئی۔ مشن ہائی اسکول وزیر آباد ضلع گوجرانوالہ سے میٹرک کیا۔ مختلف اساتذہ سے دینی تعلیم حاصل کی۔ پہلی عالمی جنگ سے پہلے شمس العلماء مولوی سید محمد ممتاز علی (1860ء – 1935ء) کے دار الاشاعت پنجاب لاہور سے بطور کلرک ملازمت کا آغاز کیا اور پھر ماہنامہ "پھول" اور "تہذیب" کے ایڈیٹر رہے۔ بعد ازاں مشہور کشمیری مورخ منشی محمد دین فوق (۱۸۷۷ء- ۱۹4۵ء) کے ساتھ "کشمیری میگزین" سے وابستہ ہو گئے۔ اس کے بعد فوج کے کسی محکمے میں بھرتی ہو کر شنگھائی (چین) چلے گئے۔ 1917ء میں فوج کی ملازمت سے سبکدوش ہو کر کلکتے پہنچے اور اخبار "رسالت" میں ملازمت اختیار کر لی۔ بعد ازاں اپنا ذاتی اخبار "ترمذی" کے نام سے جاری کیا۔ اس وقت صورت حال یہ تھی کہ پنجاب میں گورنر سر مائیکل اڈوائر (1864ء – 1940ء) کی سخت گیری کے باعث اخبارات بند ہو چکے تھے اور یہاں کے لوگوں کو جنگ کی خبروں کے لیے دوسرے صوبوں کے اخبارات دیکھنے پڑتے تھے۔ اس طرح ترمذی بھی لاہور میں بکنے لگا۔ "ترمذی" کے پنجاب میں داخلے پر پابندی لگی تو "رہبر" جاری کیا۔ اس کا داخلہ بند ہوا تو "نقاش" نکال لیا۔ اس کے بعد لاہور آ کر ۱۹۱۹ء میں روزنامہ "سیاست" نکالا جو ۱۹۳۷ء تک باقاعدگی کے ساتھ اشاعت پذیر ہوتا رہا۔
فدائے ملت سید حبیب صحافی بھی تھے اور قومی رضا کار بھی۔ چنانچہ جب کوئی تحریک اٹھتی تو اس میں آپ کا جو کردار ہوتا، اس کی عکاسی ان کے اخبار "سیاست" میں ہوتی۔ آپ کو مشائخ عظام خصوصاً امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری (۱۸۴۱ء -۱۹۵۱ء) کا تعاون وسرپرستی حاصل تھی۔ آپ اعلیٰ درجے کے اخبار نویس، بہت اچھے مقرر اور اسلامی تاریخ سے خوب واقف تھے۔ شعر وشاعری سے بھی اچھا خاصا لگاؤ تھا۔ زندگی کا بیشتر حصہ لاہور میں گزرا۔ نہایت محنتی، جفاکش، باہمت، دوستوں کے مخلص دوست اور دشمنوں کے سخت دشمن تھے۔ بڑے سے بڑے آفیسر اور لیڈر سے ٹکرا جانے میں تامل نہ کرتے تھے۔
روز نامہ سیاست کے مالک ہونے کی وجہ سے ابتداءً یہ مؤقف قائم کر لیا تھا کہ کسی بھی مذہبی فرقہ کے متعلق مواد کو اس روزنامے میں شامل نہیں کریں گے۔ تحریک قادیانیت کے مقدمے میں اس کی وجہ خود بیان فرماتے ہیں:
"کہ مدیر ومالکان سیاست بفضلہ تعالیٰ حنفی المذہب سنی مسلمان ہیں۔ اور وہابی، چکڑالوی، قادیانی یا دوسرے ایسے فرقوں سے انہیں دور کا تعلق بھی نہیں۔ اسلئے کہ یہ تفریق اتحاد ملت کے لیے مضر ہے، نہ صرف یہ بلکہ فتنہ ارتداد کے زمانہ میں اور مظلومی حجاز کے موقع پر وہابی گروہ کی سینہ زوریوں کے خلاف "سیاست" دین حقہ کی ایسی خدمت بجا لایا کہ اپنے بیگانے کے منہ سے صدائے آفریں بلند ہوئی لیکن اس کے ساتھ ہی سیاست یہ بھی خوب سمجھتا ہے کہ اس کا حلقہ عمل سیاسیات سے زیادہ نسبت رکھتا ہے۔" لہٰذا یہ فرقہ وار جھگڑوں میں بادل نا خواستہ کم سے کم دخل دیکر جلد سے جلد ان سے اجتناب کرتا ہے۔
پھر اپنے اس مؤقف سے برخواست ہو کر اسی روزنامے میں ایک بے نظیر قسط وار سلسلہ شروع کیا جس نے قادیانیوں کو لاجواب کر کے رکھ دیا۔ مؤقف میں تبدیلی کے محرکات اس طرح بیان فرماتے ہیں کہ:
"لیکن ایک روز میں حسب معمول صبح دفتر میں پہنچا۔ اپنا اخبار دیکھا تو اس میں چیختے ہوئے عنوانات سے مرزائیوں کے خلاف ایک مضمون دیکھا۔ جو دلیل سے بالکل خالی تھا تحقیقات پر معلوم ہوا کہ ایک رات قبل دفتر میں مرزائیت کے متعلق کچھ بحث ہوئی۔ مولوی آزاد صمدانی صاحب نے جو انجمن حمایت اسلام کے جلسہ کے سلسلے میں لاہور میں عارضی طور پر مقیم اور دفتر سیاست میں ازارہ کرم فروکش ہیں۔ اس مبحث پر کچھ لکھنے کا ذمہ لیا اور مولوی محمد اسحاق صاحب مدیر سیاست نے انہیں اجازت دی۔ انہوں نے رواروی میں مضمون لکھ کر ان کے حوالہ کر دیا جو مدیر صاحب نے شائع کر دیا۔
ان حالات میں مولوی آزاد صاحب کا مرزائی گروہ کے متعلق بہتر مضمون سپرد قلم کرنے سے معذور ہونا کوئی بڑی بات نہ تھی۔ لیکن یہ مضمون ایک قادیانی صاحب کیلئے اس بات کا بہانہ بن گیا کہ وہ مجھے آ کر مرزائیت کا پیام دیں میری اور ان کی ملاقات اکبری دروازہ کے باہر ہوئی۔ اور ان کی باتوں کے جواب میں مجھے نا چار عرض کرنا پڑا کہ تحریک قادیان کے بطلان کے دلائل ایسے واضح ہیں کہ میری سمجھ ہی میں یہ نہیں آ سکتا کہ کوئی شخص کیسے اس تحریک پر ایمان لاسکتا ہے۔ اس پر وہ چمکے اور فرمایا کہ تم دلیل پیش کرو۔ میں نے عرض کیا کہ سر بازار بحث کرنے سے معذور ہوں۔ "سیاست" میں میرے دلائل مطالعہ فرما لیجئے گا۔ وہ مجھے قسم دے گئے کہ ضرور کچھ لکھو۔ میں اس وقت لوٹ کر دفتر میں آیا۔ اور سیاست میں ایک خذرہ لکھا جس میں بے دلیل مضمون کی اشاعت پر اظہار افسوس کرنے کے بعد مبحث پر ایک سلسلہ لکھنے کا وعدہ کیا تھا اور یہ سلسلہ اسی عہد کے ایفا میں سپرد قلم ہوا۔"
کتاب تحریک قادیانی کے مقدمے میں مصنف مرحوم نے اس کتاب میں موجود دلائل کا خلاصہ اس طرح پیش کیا ہے جو انہی کے الفاظ میں پیش خدمت ہے:
"اس خیال سے کہ ناظرین کرام کو میرے استدلال کے سمجھنے میں آسانی ہو، میں ان دلائل کو جو تحریک قادیان کے متعلق میں نے پیش کیے ہیں ایک جگہ جمع کیے دیتا ہوں۔ باقی تفصیلات ہیں جو ان دلائل کے ثبوت میں سپرد قلم ہوئیں۔" یہ دلائل ملاحظہ فرمائیے:
پہلی دلیل: مرزا صاحب کی تحریر مبتذل اور پیش پا افتادہ اغلاط سے پُر ہے۔ لہٰذا یہ الہامی عبارت نہیں ہو سکتی۔ جس کو خدا کی زبان کہتے ہیں۔
دوسری دلیل: میرا ایمان ہے کہ حضور شافع المذنبین کے دین کی تجدید کے لیے اگر کوئی مرسل آئے تو وہ جس طرح مجنون، کاہن اور ساحر نہیں ہو سکتا، اسی طرح شاعر بھی نہیں ہو سکتا اور مرزا صاحب شاعر تھے مگر کلام شاعری کے لحاظ سے ناقص ہے۔
تیسری دلیل: مرزا صاحب کے دعاوی کی کثرت وندرت اور انکے تنوع کا یہ حال ہے کہ انسان ان کی فہرست ہی کو دیکھ کر پریشان ہو جاتا ہے۔
چوتھی دلیل: مرزا صاحب فرزند خدا ہونے کے مدعی ہیں اور یہ عقیدہ اسلام کے خلاف ہے۔
پانچویں دلیل: مرزا صاحب کا ایک دعویٰ الوہیت کا بھی ہے یعنی آپکو خود خدا ہونے کا دعویٰ ہے یہ بھی تعلیم اسلام کے خلاف ہے۔
چھٹی دلیل: میرے عقیدہ کے مطابق احمد مجتبیٰ محمد ﷺ خاتم النبیین ہیں۔ مرزائی صاحبان بھی حضور ممدوح کی شان میں خاتم النبیین کے الفاظ استعمال کرتے ہیں مگر مجھے علیٰ وجہ شہادت علم ہے کہ خاتم النبیین کا جو مفہوم عام مسلمانوں کے ذہن میں موجود ہے۔ وہ احمدی جماعت کے مفہوم ذہنی سے کوسوں دور ہے۔
ساتویں دلیل: تقریباً ہر پیغمبر کے معتقدین مرتد ہوئے۔ لیکن شاید تاریخ عالم میں مرزا صاحب کے سوا کوئی ایسی مثال نہیں ملتی جس میں کسی نبی پر ایمان لانے والوں میں اپنے نبی کے دعویٰ نبوت کے متعلق اختلاف ہوا ہو۔ مرزا صاحب واحد مدعی نبوت ہیں جن کے دعاوی نبوت کے متعلق خود ان کے معتقدین میں اختلاف ہے۔
آٹھویں دلیل: مرزا صاحب مدعی نبوت ہیں اور خدائے تعالیٰ نے نبوت کا دروازہ بند کر دیا ہے۔
نویں دلیل: مرزا صاحب نبوت کے مدعی بھی ہیں اور اس کا انکار بھی کرتے ہیں۔
دسویں دلیل: مرزا صاحب پر ایسے الہامات ہوئے ہیں جو خود انکی فہم میں نہیں آئے حالانکہ میرے علم ویقین کے مطابق دنیا میں کوئی پیغمبر یا نبی ایسا نہیں گذرا جس پر خدائے تعالیٰ نے اسقدر بے اعتمادی کی ہو کہ اس کو پیام بھیجا ہو اور پھر اسکو پیام کے معنی نہ سمجھائے ہوں۔
گیارہویں دلیل: مرزا صاحب کے ایسے الہامات کی وجہ سے جو خود مرزا صاحب نہیں سمجھ سکے، مدعیان نبوت کاذبہ کے لیے ایک وسیع میدان ہو گیا ہے۔ آئے دن ایک نبی علم نبوت بلند کیا کرے گا اور کہے گا کہ مرزا صاحب کے فلاں الہام کی وضاحت کے لیے مجھے مبعوث کیا گیا ہے۔
بارہویں دلیل: مرزا صاحب نے مجدد ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ہر صدی میں ایک مجدد ہوتا ہے۔ لیکن وہ پہلے بارہ سو سال میں سے کسی مجدد کا نام نہیں بتا سکے۔ حالانکہ ہر پیغمبر نے اپنے سے پہلے گزرے ہوئے انبیاء میں سے بعض کا نام ضرور لیا ہے۔
تیرہویں دلیل: مرزا صاحب نے الہامات کے نام سے قرآن وحدیث کی بعض آیات میں تصرف کیا ہے۔
چودہویں دلیل: مرزا صاحب کی پیشگوئیاں غلط ثابت ہوئیں اور انہوں نے خود پیشگوئی کی صحت کو معیار نبوت ٹھہرایا ہے۔
پندرہویں دلیل: مرزا صاحب کے بعض افعال واقوال پیغمبر تو کجا عام انسان کی شان کے شایان بھی نہ تھے۔
سولہویں دلیل: مرزا صاحب نے کوئی ایسا کام بطور نبی نہیں کیا جو انکے دعویٰ نبوت کو ضروری یا مسلمانوں کے لیے مفید ثابت کرے۔
سترہویں دلیل: مرزا صاحب کی بعض کاروائیوں سے اسلام اور مسلمانوں کو سخت نقصان پہنچا۔
اٹھارہویں دلیل: مرزا صاحب نے کرشن کو نبی ظاہر کر کے خود ان کے اوتار ہونے کا دعویٰ کیا۔ اور یہ دونوں باتیں تعلیم قرآن حمید کے خلاف ہیں۔
سید حبیب مرحوم نے تمام زندگی حق وصداقت کا پھریرا لہرایا۔ کئی بار قید وبند کی صعوبتوں سے نبرد آزما ہوئے۔ ہر ظالم وجابر سے ٹکرانے میں ذرہ بھر بھی تامل نہ کیا۔ تمام زندگی لوگوں کی سفارشیں کرنے، محتاجوں کی امداد کا جتن کرنے اور مظلوموں کی دادرسی کے لیے افسروں سے جھگڑنے والے اس بے لوث مرد مجاہد نے اپنے لیے غربت کی زندگی ہی کو ترجیح دی۔ ۲۳ فروری ۱۹۵۱ء بمطابق ۱۲ جمادی الاول ۱۳۷۰ھ بروز جمعۃ المبارک آپ اس دنیائے فانی سے دار آخرت کی طرف رحلت فرمائی۔ آپ کی آخری آرامگاہ لاہور کے مشہور ومعروف قبرستان میانی صاحب میں ہے۔