طلیحہ بن خویلد اسدی قبیلہ بنی اسد کی طرف منسوب ہے جو خیبر کے آس پاس آباد تھا اس شخص نے رسالت ماب ﷺ ہی کے عہد سعادت میں مرتد ہو کر سمیرا میں اقامت اختیار کی اور وہیں نبوت کا دعویٰ کر کے حلق کو گمراہ کرنے میں مشغول ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں لوگ اس کے حلقہ ارادت میں داخل ہو گئے۔
اس خود ساختہ نبی نے اپنی خود ساختہ شریعت لوگوں کے سامنے اس شکل میں پیش کی کہ نماز میں صرف قیام کو باقی رکھا اور رکوع سجود وغیرہ کو حذف کر دیا اور دلیل یہ دی کہ خدائے بے نیاز اس سے مستثنیٰ ہے کہ لوگوں کے منہ خاک پر رگڑے جائیں اور وہ لوگوں کے کمر رکوع میں جھکانے سے بھی بے نیاز ہے اس معبود برحق کو صرف کھڑے ہو کر یاد کر لینا کافی ہے اسی طرح اسلام کے دوسرے احکام اور عبادات کے متعلق بھی بہت سی باتیں اختراع کی تھیں۔ وہ کہا کرتا تھا کہ جبرئیل امین ہر وقت میری صحبت میں رہتے ہیں اور وزیر کی حیثیت سے تمام اہم معاملات میں میری مدد کرتے ہیں اور مجھے مشورہ دیتے ہیں۔
طلیحہ نے اپنے عم زاد بھائی حبال کو دنیا کے ہادی اعظم ﷺ کے پاس اپنی نبوت کی دعوت کے لئے مدینہ منورہ روانہ کیا۔ اس نے مدینہ آکر حضور ﷺ کو (نعوذ باللہ) طلیحہ پر ایمان لانے کی دعوت دی اور کہا اس کے پاس روح الامین آتے ہیں اور لاکھوں لوگ اس کو اپنا ہادی اور نجات دہندہ مانتے ہیں وہ کیسے جھوٹا ہو سکتا ہے۔ حضور ﷺ اس پر بہت نا خوش ہوئے اور فرمایا "خدا تمہیں ہلاک کرے اور تمہارا خاتمہ بخیر نہ ہو چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ حبال حالت ارتداد ہی میں قتل ہو کر جہنم واصل ہوا۔
حبال کے جانے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے حضرت ضرار بن ازور کو ان سرداران قبائل کی طرف تحریک جہاد کی غرض سے روانہ کیا جو طلیحہ کے آس پاس رہتے تھے ان سب نے آپ ﷺ کے ارشاد پر لبیک کہا اور حضرت ضرار کے ماتحت ایک بڑی جماعت کو جہاد کیلئے بھیج دیا جس نے نہایت بے جگری اور بہادری سے طلیحہ کی فوج کا مقابلہ کیا اور جو سامنے آیا اس کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا۔ ہزار کوشش کے باوجود طلیحہ کی فوج مسلمانوں پر غالب آنے میں ناکام رہی اور سخت بدحواسی کے ساتھ بھاگ کھڑی ہوئی۔ حضرت ضراراس فتح کی خوش خبری دینے ابھی مدینہ بھی نہیں پہنچے تھے کہ اللہ کے رسول ﷺ انتقال فرما گئے اور حضرت ابوبکر صدیق اتفاق رائے سے مسلمانوں کے امیر منتخب ہوئے۔
طلیحہ نے اپنے بھائی حبال کو اپنا نائب مقرر کیا اور تمام اہم امور اس کو سونپ دیے حضور ﷺ کی وفات کے بعد بہت سے قبائل مرتد ہو گئے اور حبال کے ساتھ مل کر مدینہ شریف پر حملہ کا منصوبہ بنانے لگے۔ چنانچہ سب سے پہلے انہوں نے اپنا ایک قاصد حبال کے قاصد کے ساتھ مدینہ بھیجا اور حضرت ابوبکر صدیق سے کہا ہم نماز تو ضرور پڑھیں گے مگر زکوٰۃ آئندہ سے بیت المال میں نہیں بھیجیں گے حضرت ابوبکر نے صاف الفاظ میں کہا کہ تم اگر زکوٰۃ کے اونٹ کی ادنیٰ رسی بھی دینے سے انکار کرو گے تو میں تم سے قتال کروں گا۔
یہ صاف بات سن کر دونوں قاصد واپس چلے گئے اور تین ہی دن کے بعد حبال نے رات کے وقت مدینہ شریف پر حملہ کر دیا حضرت اسامہ کے لشکر کی روانگی کے بعد بہت تھوڑے سے لوگ مدینہ میں رہ گئے تھے حضرت ابوبکر صدیق بذات خود ان کو لے کر مقابلہ کے لئے نکلے اور حبال کے لشکر کو مدینے سے نکال دیا لیکن واپسی میں حبال کے امدادی لشکر سے ٹکراؤ ہو گیا۔ اس لشکر نے مسلمانوں کے سامنے خالی مشکیں جن میں ہوا بھر کر انکے منہ رسیوں سے باندھ دیئے تھے زمین پر بچھا دیں جس سے مسلمانوں کے اونٹ جن پر وہ سوار تھے بھڑک گئے اور اپنے سواروں کو لے کر ایسے بھاگے کہ مدینہ ہی آکر دم لیا۔
حضرت ابوبکر صدیق نے مدینہ آتے ہی دوبارہ حملے کا منصوبہ بنایا اور تازہ دم مسلمانوں کے ساتھ پیادہ پا دشمن کے سر پر جا پہنچے اور اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر مرتدین کو تہ تیغ کرنا شروع کر دیا۔ اس اچانک حملہ سے دشمن گھبرا گئے جب کہ مجاہدین نے ان کو اپنی شمشیر زنی کا خوب تختہ مشق بنایا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دشمن طلوع سے قبل ہی بھاگ کھڑا ہوا اور مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔
طلیحہ کے لوگوں نے اس شکست پر جوش انتقام میں بہت سے مسلمانوں کو اپنے اپنے قبائل میں شہید کر دیا۔ یہ خبر جب حضرت ابوبکر صدیق کو ملی تو آپ کو بہت رنج ہوا اور قسم کھائی کہ اس کا بدلہ ضرور لوں گا۔
دو مہینے کے بعد حضرت اسامہ بن زید کا لشکر بھی فتح کے پھریرے اڑاتا ہوا مدینہ واپس آگیا حضرت ابوبکر صدیق نے حضرت اسامہ کو مدینہ میں اپنا نائب مقرر کیا اور خود مسلمانوں کے ساتھ طلیحہ کی سرکوبی کے لئے روانہ ہوئے۔
مسلمانوں نے آپ کو بہت روکا اور قسمیں دیں کہ آپ خود جہاد کی مشقت گوارا نہ فرمائیں مگر آپ نے ایک نہ سنی اور یہ فرمایا میں اس لڑائی میں بہ نفس نفیس اس لئے جانا چاہتا ہوں کہ مجھے دیکھ کر تمہارے دل میں جہاد فی سبیل اللہ کا جذبہ پیدا ہو۔
حضرت ابوبکر صدیق اور دوسرے مسلمانوں نے میدان جنگ میں خوب اپنی شجاعت کے جوہر دکھائے اور ارتداد کے حلقوں میں قیامت مچا دی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مرتدین کے ایک مشہور سردار حطیہ کو قید کر کے بنی ذیبان کے سارے علاقے پر قبضہ جما لیا دوسرے قبائل نے میدان جنگ سے فرار ہو کر اپنی جان بچائی۔ اس کے بعد امیر المومنین معہ اپنے لشکر کے فوراً مدینہ کی طرف اس خیال سے لوٹ گئے کہ کہیں مرتدین مل کر مدینہ میں کوئی تازہ فتنہ نہ کھڑا کر دیں۔
حضرت ابوبکر صدیق نے مدینہ واپس آکر تمام اسلامی لشکر کو گیارہ دستوں میں تقسیم کر دیا اور ہر ایک دستے کے لئے الگ الگ جھنڈے اور امیر مقرر فرمائے چنانچہ:
·حضرت خالد بن ولید کو امیر بنا کر طلیحہ کی سرکوبی پر مامور فرمایا۔
·حضرت عکرمہ بن ابو جہل کو امیر بنا کر مسیلمہ کذاب کی طرف روانہ کیا۔
·حضرت عدی بن حاتم کو امیر بنا کر قبیلہ طے کی طرف بھیجا۔ کیونکہ اس قبیلہ نے بھی طلیحہ کی مدد کی تھی اس لئے اس کی گو شمالی بھی لازمی تھی۔ حضرت عدی نے اپنے قبیلہ میں جا کر اسلام کی دعوت دی اور انحراف وسرکشی کے نتائج سے آگاہ کیا چنانچہ قبیلہ طے نے سر تسلیم خم کر دیا اور دوبارہ حلقہ بگوش اسلام ہو گئے۔ اس طرح حضرت عدی کی دعوت اور تبلیغ سے دوسرے قبائل جو طلیحہ کے مددگار تھے دوبارہ مسلمان ہو گئے اور طلیحہ سے تعلق منقطع کر لیا۔
اب حضرت خالد بن ولید نے عکاشہ بن محض اور ثابت بن ارقم کو تھوڑی سی فوج دے کر طلیحہ کی خبر لینے کے لئے روانہ کیا اور ان کا سامنا حبال کی فوج سے ہو گیا اس جھڑپ میں عکاشہ نے حبال کو قتل کر دیا اس کی خبر جب طلیحہ کو ملی تو وہ خود اپنی فوج لے کر تیزی سے آیا اور مسلمانوں پر ٹوٹ پڑا اس معرکے میں طلیحہ نے حضرت عکاشہ اور ثابت بن ارقم دونوں کو شہید کر دیا۔ یہ خبر جب حضرت خالد بن ولید کے لشکر کو ملی تو مسلمانوں کو بہت افسوس ہوا۔ حضرت خالد نے اب بغیر وقت ضائع کئے طلیحہ سے فیصلہ کن جنگ کرنے کا ارادہ کر لیا اور فوج کو آراستہ کر کے طلیحہ کی لشکر گاہ کا رخ کیا۔
بزاخہ کے مقام پر دونوں فوجوں کا ٹکراؤ ہوا۔ بنی مزارہ کا سردار عینیہ بن حصین اپنی قوم کے سات سو آدمیوں کے ساتھ طلیحہ کا مددگار بنا ہوا تھا۔
حضرت خالد بن ولید اور ان کے ساتھیوں نے اس شدت سے حملہ کیا کہ مرتدین کے منہ پھر گئے طلیحہ کا مددگار عینیہ بن حصین اپنے سات سو آدمیوں کے ساتھ مسلمانوں سے جنگ کر رہا تھا مگر اس کو احساس ہو گیا کہ مسلمانوں کا پلہ بھاری ہے اور طلیحہ کو شکست ہو جائے گی وہ فوراً طلیحہ کے پاس گیا اور پوچھا آپ پر کیا وحی آئی۔ جبرئیل نے کوئی فتح کی خوشخبری سنائی یا نہیں۔ طلیحہ جو چادر اوڑھے بیٹھا ہوا تھا بولا جبرئیل ابھی تک نہیں آئے ہیں انہیں کا انتظار کر رہا ہوں عینیہ واپس میدان جنگ میں جا کر جاں بازی سے لڑنے لگا پھر دوسری اور تیسری مرتبہ جاکر طلیحہ سے وحی کے متعلق پوچھا تو طلیحہ نے کہا کہ ہاں جبرئیل آئے تھے اور رب جلیل کا یہ پیغام دے گئے ہیں۔
"ان لک رحی كرحاه وحدیثا لا تنساه"
"تیرے لئے بھی شدت جنگ ایسی ہوگی جیسے خالد کے لئے اور ایک معاملہ ایسا گزرے گا کہ تو اسے کبھی فراموش نہیں کر سکے گا۔"
عینیہ کو یہ سن کر اس بات کا یقین ہو گیا کہ طلیحہ جھوٹا اور خود ساختہ نبی ہے چنانچہ اس نے میدان جنگ سے اپنے تمام ساتھیوں سمیت فرار اختیار کیا اس کا اثر دوسرے لشکریوں پر بھی ہوا اور انہوں نے بھی فرار کو جنگ پر ترجیح دی۔ اس طرح طلیحہ کو فیصلہ کن شکست سے دو چار ہونا پڑا اور اس کی تمام امیدیں خاک میں مل گئیں اور اس کی بساط نبوت ہمیشہ کے لئے الٹ گئی۔
طلیحہ نے صورت حال کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے فرار ہونے میں اپنی عافیت سمجھی اور ایک تیز رفتار گھوڑی پر سوار ہو کر ملک شام کی طرف بھاگ گیا اور اس کے تمام بقایا لشکر نے دوبارہ اسلام قبول کر لیا۔
کچھ عرصے کے بعد طلیحہ کو بھی حق تعالیٰ نے توبہ کی توفیق عطا فرمائی اور وه مشرف بہ اسلام ہو کر حضرت عمر کے زمانے میں شام سے حج کے لئے آیا اور مدینے جا کر آپ کے ہاتھ پر بیعت کی اور عراق کی جنگوں میں مسلمانوں کے ساتھ مل کر بڑے کارہائے نمایاں انجام دیئے خصوصا جنگ قادسیہ میں طلیحہ نے بڑی بہادری اور جوانمردی سے لشکر اسلام کا دفاع کیا۔