یہ شخص یمن کا باشندہ تھا۔ شعبدہ بازی اور کہانت میں اپنا جواب نہیں رکھتا تھا اور اس زمانے میں یہی دو چیزیں کسی کے باکمال ہونے کی دلیل سمجھی جاتی تھیں۔ اس کا لقب ذو الحمار بھی بتایا جاتا ہے اس کے پاس ایک سدھایا ہوا گدھا تھا یہ جب اس کو کہتا خدا کو سجدہ کرو تو وہ فوراً سر بسجود ہو جاتا اسی طرح جب بیٹھنے کو کہتا تو بیٹھ جاتا اور جب کھڑا ہونے کے لئے کہتا تو سر وقد کھڑا ہو جاتا تھا۔ نجران کے لوگوں نے جب اسود کے دعوائے نبوت کو سنا تو امتحان کی غرض سے اس کو اپنے ہاں مدعو کیا۔ یہ لوگ اس کی چکنی چپڑی باتوں اور مختلف شعبدوں سے متاثر ہو کر اس کے ہم نوا ہو گئے۔
اہل یمن اپنے حاکم باذان کے ساتھ جب اسلام میں داخل ہوئے تو آنحضرت ﷺ نے باذان ہی کو یمن کا حاکم برقرار رکھا۔ باذان کے مرنے کے بعد حضور ﷺ نے یمن کے مختلف علاقوں پر اپنے صحابہ کو مقرر فرمایا چنانچہ۔
نجران پر عمرو بن حزم ، نجران اور زبید کے درمیانی علاقے پر خالد بن سعید، ہمدان پر عامر بن شیر، صنعا پر شہر بن باذان، مک پر طاہر بن ابو ہالہ، مارب پر ابو موسیٰ اشعری ، مراد پر فرده بن مسیک، جند پر لعلیٰ بن امیہ ، حضرت موت پر زیاد بن لبید انصاری ، سکاسک اور سکون پر عکاثہ بن ثورکو انتظامی امور اور حکومت فرائض تفویض فرمائے۔
اسود نے دعوائے نبوت کے بعد آہستہ آہستہ اپنی طاقت بڑھانا شروع کی اور سب سے پہلے اہل نجران کو اپنا معتقد بنا کر نجران پر فوج کشی کر کے عمرو بن حزم اور خالد بن سعید بن عاص کو وہاں سے بے دخل کر دیا پھر بتدریج دوسرے علاقوں کو فتح کرتا ہوا تھوڑے ہی عرصے میں پورے ملک یمن کا بلا شرکت غیرے مالک بن بیٹھا، اسود کی ان فتوحات سے متاثر ہو کر اکثر اہل یمن اسلام سے منحرف ہو کر اسود کی جھوٹی اور خود ساختہ نبوت پر ایمان لے آئے۔
عمرو بن حزم اور خالد بن سعید نے مدینہ منورہ پہنچ کر سارے واقعات اللہ کے رسول ﷺ کو بتائے چنانچہ حضور ﷺ نے یمن کے بعض سرداروں کو اور اہل نجران کو اسود کے خلاف جہاد کے لئے لکھا چنانچہ یہ لوگ آپس میں رابطہ قائم کر کے اسود کے خلاف متحد ہو گئے۔
اسود عنسی نے یمن کے شہر صنعا پر فتح پانے کے بعد اس کے مسلمان حاکم شیر بن باذان کی بیوی آزاد کو جبراً اپنے گھر میں ڈال لیا تھا اس لئے وہ عورت اس سے سخت نفرت کرنے لگی تھی۔ ادھر اس عورت کا عم زاد بھائی فیروز دیلمی جو شاہ حبشہ کا بھانجہ تھا آزاد کو اسود کے پنجہ استبداد سے نجات دلانے اور اس سے اس کا انتقام لینے کے لئے موقع کا منتظر تھا۔ اسی دوران رسالت ماب ﷺ کا ایک پیغام اہل یمن کے نام آیا جس میں حکم تھا کہ اسود کی سرکوبی کی جائے۔ اس پیغام سے مسلمان بہت خوش ہوئے اور اسود کے خلاف لشکر کشی کے بجائے اس کے محل میں گھس کر اس کو قتل کرنے کے منصوبے بنائے جانے لگے۔
فیروز دیلمی اپنی عم زاد بہن آزاد سے ملا اور اس سے کہا کہ تم جانتی ہو کہ اسود تمہارے والد اور شوہر کا قاتل ہے اور اس نے تمہیں جبراً اپنے گھر میں ڈال رکھا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ کسی طرح اسے ٹھکانے لگا دیا جائے اس میں تم ہماری مدد کرو۔ آزاد نے یقین دلایا کہ وہ ہر طرح اسود کے قتل میں فیروز کی مدد کرے گی۔ چنانچہ کچھ روز کے بعد آزاد نے فیروز اور اس کے ساتھیوں کو بتایا کہ اسود کے محل میں ہر جگہ چوکی اور پہرہ ہے۔ اور وہ سخت محتاط ہو گیا ہے اور ہر شخص کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ البتہ اگر تم محل کے عقب سے نقب لگا سکو تو وہاں تمہیں کوئی نہیں دیکھ سکے گا۔ میں ایک چراغ روشن کر دوں گی اور اسلحہ بھی تم کو وہیں مل جائے گا۔
شام ہوتے ہی اس منصوبے پر عمل شروع ہوا اور فیروز اپنے ساتھیوں کے ساتھ نقب لگا کر اسود کے کمرہ تک پہنچ گیا دیکھا کہ اسود زور زور سے خراٹے لے رہا ہے اور آزاد اس کے قریب بیٹھی ہوئی ہے ابھی فیروز دو قدم اندر آیا ہوگا کہ اسود کے موکل شیطانی نے فوراً اس کو جگا دیا وہ فیروز کو دیکھ کر بولا کیا کام ہے جو تو اس وقت یہاں آیا ہے۔ فیروز نے ایک لمحہ ضائع کئے بغیر ایک جست لگائی اور اسود کی گردن پکڑ کر اس زور سے مروڑی جیسے دھوبی کپڑے نچوڑتے وقت کپڑے کو بل دیتا ہے۔ اسود کے منہ سے اس طرح خرخر کی آواز آنے لگی جیسے کوئی بیل ڈکارتا ہو۔ محل کے پہرے دار یہ آواز سن کر اس کے کمرے کی طرف دوڑے تو آزاد نے آگے بڑھ کر انہیں روک دیا اور کہنے لگی خاموش رہو تمہارے پیغمبر پر وحی کا نزول ہو رہا ہے۔ اس پر سب لوگ خاموش ہو کر چلے گئے۔
فیروز نے باہر نکل کر اسود کے قتل کی خبر سنائی اور فجر کی اذان میں مؤذن نے اشھد ان محمد رسول اللّٰہ کے بعد یہ الفاظ بھی کہے اشهد ان عیهلہ کذاب۔
اسود کے قتل کے بعد جب مسلمانوں کا قرار واقعی تسلط ہو گیا تو اسود کے لوگ صنعا اور نجران کے درمیان صحرا نوردی اور بادیہ پیمائی کی نذر ہو گئے اور صنعا اور نجران اہل ارتداد کے وجود سے پاک ہو گیا اور آنحضرت ﷺ کے حکام دوبارہ اپنے اپنے علاقوں میں بحال کر دیئے گئے۔ صنعا کی امارت پر حضرت معاذ بن جبل کا تقرر کیا گیا۔
اس قضیہ سے فارغ ہو کر ایک قاصد آنحضرت ﷺ کی خدمت میں بھیجا گیا حالانکہ حضور ﷺ کو یہ واقعہ بذریعہ وحی معلوم ہو چکا تھا چنانچہ آپ نے علی الصبح صحابہ سے فرمایا آج رات اسود مارا گیا۔ صحابہ نے دریافت کیا یا رسول اللہ ﷺ اسود کس کے ہاتھوں ہلاک ہوا۔ آپ نے فرمایا ایک مسلمان کے ہاتھ سے جو ایک بابرکت خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا اس کا نام کیا ہے۔ فرمایا فیروز۔ چند دن کے بعد جب یمن کا قاصد اسود کے مارے جانے کی خبر لے کر مدینہ منورہ پہنچا تو آنحضور ﷺ رحمت الہٰی کی آغوش میں استراحت فرما چکے تھے۔