کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ لاہور کے ایک جج نے اپنے فیصلہ میں لکھا ہے کہ غیر مسلم قادیانی مسجد کے نام سے اپنی عبادت گاہ تعمیر کر سکتے ہیں اور اس میں اذان واقامت اور جماعت اسلامی طور پر ادا کر سکتے ہیں۔ اس فیصلے کی کاپی سوال کے ساتھ منسلک ہے کیا یہ فیصلہ شرعی نقطہ نظر سے صحیح ہے؟
المستفتی: محمد شریف جالندھری
صورت مسئولہ میں لفظ مسجد اصطلاحاً مسلمانوں کی عبادت گاہ کا نام ہے۔ اور قرآن کریم میں مسجد اور مسجد کا لفظ استعمال کرتے ہوئے ایمان کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ جبکہ دیگر عبادت گاہوں صوامع وغیرہ کو غیر مسلم کے لئے استعمال کیا گیا ہے، جس سے صاف ظاہر ہے کہ کسی غیر مسلم کو اپنی عبادت گاہ کا نام مسجد دینا صراحتاً قرآن کریم اور حدیث پاک اور مسلمہ اسلامی اصولوں کے خلاف ہے۔
قادیانی مرتد ہیں اور مرتد کا وقف، وقف نہیں ہے۔ اور مسجد وقف ہوتی ہے۔ اس لیے مرتد ہونے کی بنا پر قادیانی اپنے وقف کا اسلامی نام رکھنے کے مجاز نہیں ہیں۔ علامہ ابن نجیم متوفی 970ھ نے بحر الرائق شرح کنز الدقائق میں لکھا:
الحادي عشر ان يكون للواقف ملة فلا يصح وقف المرتد ان قتل او مات علی ردته وان اسلم صح ويبطل وقف المسلم ان ارتد 1
یعنی وقف کی (شرائط میں سے) گیارہویں شرط یہ ہے کہ وقف کرنے والا کسی دین سماوی کا ماننے والا ہو۔ لہٰذا مرتد کا وقف صحیح نہیں ہے اگر اسے قتل کر دیا جائے یا ارتداد کی حالت میں مر جائے۔ اور اگر اسلام لے آئے تو وقف صحیح ہے اور مسلمان کا وقف باطل ہو جاتا ہے اگر وہ مرتد ہو جائے۔
بحر الرائق کی عبارت مذکورہ کا خلاصہ یہی ہے کہ مرتد کا وقف درست نہیں اور عبادت گاہ وقف ہوتی ہے۔ لہٰذا جب اس کا وقف، وقف نہیں تو پھر اس وقف کا مسجد ہونا تو در کنار عبادت گاہ ہونا ہی درست نہیں۔ رہا عدالتی فیصلہ تو شریعت مطہرہ کی رو سے اس کی حیثیت شرعی فیصلہ کی نہیں ہے۔ اس لئے کہ شریعت مطہرہ کے اصول کے مطابق اس کی حیثیت اصول دین میں مقید نہیں۔ علاوہ ازیں اگر غیر مسلم اور مرتد اپنی عبادت گاہ کا نام مسجد رکھیں تو مسلمانوں کا شعار مذہبی مجروح ہوگا اور اس میں وہی لوگ عبادت کریں گے۔ اس عبادت کو عام مومنین نماز قرار دیں گے حالانکہ ایمان کے بغیر کوئی عبادت، عبادت نہیں ہے اور نہ اس کو نماز کہنا درست ہے۔
(وقار الفتاوی ،ج:2،ص:295تا296،بزم وقار الدین)