کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک پیش امام جو مسجد کی امامت کے فرائض انجام دے رہا ہے وہ قادیانیوں کے گھر میں ان کے بچوں کو پڑھاتا اور وہاں جا کر کھانا پینا اور ان کے ساتھ لین دین کرتا ہو اور ان کی تقریریں سنتا ہو، لٹریچر بھی پڑھتا ہو۔ کیا اس کے پیچھے نماز ادا کر سکتے ہیں یا نہیں اور اب تک جو نمازیں اس کی امامت میں ہم ادا کر چکے ہیں ان کا کیا ہوگا۔ قرآن وسنت کی روشنی میں ہماری مدد فرمائیں۔
سائل: مشتاق احمد
باسمہ تعالیٰ
بعون الملک الوھاب اگر واقعی ایسا ہے جیسا کہ سوال میں لکھا ہے تو جاننا چاہیے کہ قادیانی مرتد ہیں اور مرتد کے جو احکام فقہائے کرام نے بیان کیے ہیں ان میں یہ بھی ہے کہ مرتد کے ساتھ معاملات بھی نہیں کیا جا سکتے چہ جائیکہ ان کے ساتھ تعلقات رکھنا، کھانا پینا، ان کے بچوں کو پڑھانا یہ سب امور سخت نا جائز وحرام ہیں جب کہ امام کے لیے اور سخت حرام ہیں اگر امام انہیں غیر مسلم جان کر مذکورہ معاملات کر رہا ہے تو یہ فعل حرام کا مرتکب ہے اور جو فعل حرام کا مرتکب ہو وہ فاسق ہے اور فاسق کی امامت مکروہ تحریمی ہے۔
چنانچہ در مختار میں ہے:ویکرہ امامة فاسق1
اور جو نماز مکروہ تحریمی ہو اس کا لوٹانا واجب ہے چنانچہ در مختار میں ہے:
كل صلوة ادیت مع كراھة التحریم تجب اعادتها 2
لہٰذا صورت مسئولہ میں ایسے شخص کا امام بنانا بھی جائز نہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
26 ربیع الثانی 1420ھ/ 19 اگست 1999ء
(فتاوی حنفیہ اشرفیہ ،ج:1،ص:267،تنظیم اہل سنت پاکستان)