logoختم نبوت

قادیانی وبہائی کے ساتھ سنیہ کا نکاح - (مفتی نعیم الدین مراد آبادی)

استفتاء:

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص پہلے قادیانی تھا اب قادیانی ہونے سے انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں بہائی ہوں یعنی بہاء اللہ کا معتقد اور اس مذہب پر ہوں۔ بہاء اللہ وہ شخص ہے جس کی نسبت اخبار وغیرہ میں لکھا ہے اور بہت مشہور ہے کہ وہ مدعی نبوت تھا جس کا زمانہ عنقریب گذرا ہے۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ مسلمہ سنیہ حنفیہ سیدانی لڑکی کا نکاح شخص مذکور سے شرعاً جائز ہے یا نا جائز؟ بینوا توجروا۔

المستفتی مقدس حسین نزد جامع مسجد دہلی 1358ھ

الجواب:

بعون الملک الوھاب، بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم،نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم

قادیانی مرزا کی نبوت کا قائل ختم نبوت کے معنی متواترہ کا منکر اور اس وجہ سے کافر ہے۔ اب اگر بہائی ہو گیا تو اس وجہ سے اس کا کفر اٹھ نہ گیا۔ جب تک کہ وہ اپنے کفر سے توبہ نہ کر ے اور ختم نبوت کے معنی متواترہ کو تسلیم نہ کرے۔ حضور ﷺ کی نبوت کے بعد کسی نبی جدید کے آنے کے خیال سے تائب نہ ہو۔ اور تمام کفر بات سے بیزاری کر کے از سر نو اسلام نہ لائے مسلمان نہیں ہو سکتا، بہائی ہو جانا اس کے کفر سے پاک نہیں کر سکتا بلکہ اب بھی وہ گندے کفر میں مبتلا ہے مرزا نے جس قسم کا دین ایجاد کیا اور ضلالت کی جو راہیں اختیار کیں وہ سب اس کی طبع زاد نہیں ہیں۔ اس نے اپنے زمانہ سے قبل کے بے دینوں دجالوں سے بہت کچھ اخذ کیا اور ان سب کا پس خورہ جمع کر کے ایک دوکان لگائی۔ انہی میں سے بہائی فرقہ بھی ہے تو قادیانی سے بہائی ہو جانا ایک ہی سلسلہ کے کفریات میں گشت لگانا ہے اب سب کی مکاری ختم نبوت کے معنی متواتر کے انکار کو اپنا اصول بنانے سے چلتی ہے۔ 845ھ میں جونپور میں ایک شخص ہوا جس کا نام میراں سید محمد تھا اس کے باپ کا نام سید خاں، ماں کا نام بی بی آقا ملک۔ ماں باپ کا نام بدل کر حضور پرنور ﷺ کے ابوین کریمین کے نام رکھے۔ ماں کا نام آمنہ اور باپ کا نام عبد اللہ رکھا، اور یہ شخص "مہدی" موعود بنا۔ اس سے بھی کام نہ چلا، ماں باپ کے نام جاننے والوں نے اعتراض کیا تو اس نابکار نے حضور اقدس ارواحنا فداہ ﷺ کے والد ماجد کا نام عبد اللہ ہونے سے انکار کر دیا اور یہ مکر گڑھا کہ حضور کا اسم گرامی محمد عبد اللہ ہے ابن کا لفظ راویوں کی غلطی سے زیادہ ہو گیا۔ لا حول ولا قوة الا باللہ العظیم۔ اس شخص کے معتقدین اس کی مہدیت کی تصدیق کو فرض اور اس کا انکار کفر جانتے تھے۔ لہٰذا وہ بھی اسی راستے پر چلا ہے جس طرح مرزا کے گھر والوں کو اس کے معتقدین "اہلبیت" اور اس کی بی بی کو "ام المومنین" کہہ کہ ایوان رسالت کی نقل اتارتے ہیں اسی طرح میراں سید محمد کے یہاں خلفاء راشدین پانچ اور صدیق دو اور مبشر بالجنہ ۱۲ اور چوہتر فرقے اور جنگ بدر، اور فاطمہ اور حسین ولایت سب بنائے گئے تھے۔ یہ لوگ اپنے گرد میراں سید محمد کو خلفاء راشدین اور تمام انبیا ومرسلین سے افضل اور حضور سید عالم ﷺ سے مرتبہ میں ہمسر وبرابر ٹھہراتے تھے اور اس کو مفترض الطاعہ سمجھتے تھے شریعت طاہرہ کے احکام کا ناسخ اور صاحب شریعت جدید مانتے تھے اس پر وحی آنے کے معتقد تھے چنانچہ اس کے رسالہ "ام العقائد" میں اس کی وحی یوں لکھی ہے۔

قال الامام المهدي صلی الله تعالى عليه وسلم علمت من الله بالواسطة جديد اليوم قلاتی عبد الله تابع محمد رسول الله محمد مهدى الزمان وارث نبی الرحمن عالم علم الكتاب والايمان مبين الحقيقة والشريفة والرضوان

اس وحی شیطانی کی زبان اور مضمون بھی قابل دید ہے یہ شخص بلا واسطہ اللہ سے اخذ علوم کا مدعی تھا۔ ہندی میں بھی وحی کا دعویٰ کرتا تھا اور نئے نئے احکام کا نزول بتاتا تھا۔ زکوٰۃ میں بھی بہت سی قطع وبریدیں کی تھیں اس کے عقائد فاسدہ اور مکائد کاسدہ کہاں تک بیان کئے جائیں، علماء عرب وعجم اور فضلاء مکہ مکرمہ نے ان لوگوں کے کفر وقتل کے فتوے دیئے اور شاہان اسلام نے انہیں سزائیں دیں اور ہلاک کر دیا پھر اس قسم کا کفر ایران سے پیدا ہوا۔

1819ء میں شیراز میں ایک شخص پیدا ہوا جس کا نام مرزا علی محمد تھا۔ اسی کو باب کہتے ہیں اور اس کے معتقدین اس پر ایمان لانے والے "بابی" کہلاتے ہیں یہ شخص بھی مہدی ہونے کا مدعی تھا اپنے آپ کو مثل حضرت یحیٰ کے، اور ایک شخص اور جس کا لقب اس نے من یظهر الله جل ذکرہ رکھا تھا اسے مثل حضرت عیسیٰ کہتا تھا۔ چنانچہ کتاب "بہاء اللہ کی تعلیمات" کے صفحہ سات پر اس مرزا علی محمد کا یہ قول مذکور ہے کہ میں یحیٰ ہوں من يظهر الله۔ اس مرزا علی محمد باب نے پیغمبری کا بھی دعوی کیا۔ بہاء اللہ کی تعلیمات صفحہ 10 میں ہے۔ "سید مرزا علی محمد باب نے بھی پیغمبری کا دعویٰ کیا ہے۔" اس نے اپنی علیحدہ شریعت بنائی تھی۔ کتاب بہاء اللہ کی تعلیمات صفحہ ۱۴ میں اس کا یہ قول موجود ہے۔ "میں نے جو شریعت لکھی ہے اس پر عمل کرنے کا حکم تم کو اسی وقت ملے گا جب کہ من یظھر اللّٰہ ظاہر ہوگا۔ اور شریعت میں سے وہ جس بات کو پسند کرے گا اس پر عمل کرنے کا حکم دے گا۔ اور جس کو وہ ناپسند کرے گا اس کو تم مت کرنا۔

طہران میں سب سے پہلے مرزا حسین علی اس پر ایمان لایا مرزا علی محمد نے اس کو بہاء اللہ کا لقب دیا مرزا حسین علی عرف بہاء اللہ نے دعویٰ کیا کہ وہ من يظهر الله ہے جس کی علی محمد باب نے بشارت دی ہے۔ کتاب بہاء اللہ کی تعلیمات صفحہ 19 میں ہے: "ایڈر بانوپل میں بہاء اللہ نے کہا کہ جس شخص کی بشارت مجھ کو حضرت باب نے دی ہے، اور جس کی راہ میں انہوں نے جان فدا کی وہ میں ہی ہوں۔ من يظهر اللّٰہ میرا لقب ہے۔ اس بہاء اللہ پر ایمان لانے والے "بہائی" کہلاتے ہیں۔" کتاب مذکور کے صفحہ ۲۰ میں ہے۔ "جنہوں نے حضرت بہاء اللہ کا دعویٰ قبول کیا ان کا نام بہائی ہو گیا۔ بہاء اللہ خدا کی طرف سے بے واسطہ علم ملنے اور مبعوث من اللہ ہونے کا مدعی تھا۔" بہاء اللہ کی تعلیمات صفحہ ۲۵ میں ہے "یکایک خدا کی نسیم لطف مجھ پر گذری اور جو کچھ ابتدا آفر نیش سے اب تک ظہور میں آیا اس کا علم اس نے مجھے دیا۔" صفحہ ۲۶ میں لکھا ہے۔ "اسی نے مجھ کو حکم دیا کہ میں اس کے نام کی منادی کر دوں۔" اس بہاء اللہ نے اپنی نبوت کا سکہ جمانے کے لئے ختم نبوت کا انکار کیا۔" چنانچہ صفحہ 33 میں لکھا ہے۔ "پیغمبروں کا ظاہر ہونا محال اور غیر ممکن نہیں جانتے اور اگر کوئی شخص اس بات کو محال جانے تو پھر اس میں اور ان لوگوں میں کیا فرق ہے جنہوں نے خدا کے ہاتھوں کو بندھا ہوا سمجھا وہ کون؟ جمہور اہل اسلام اور مخصوص اہلسنت اگر یہ لوگ خدائے تعالیٰ کو مختار جانتے ہیں تو انہیں لازم ہے کہ اس شہنشاہِ ازلی کے ہر حکم کو قبول کریں جو اس کے رسول کی معرفت صادر ہیں۔" صفحہ 35 میں لکھا ہے۔ "الطاف باری کی ٹھنڈی اور خوش گوار ہوا نے جگا کر مجھے یہ حکم دیا کہ میں زمین وآسمان کے درمیان اس کے نام کی منادی کر دوں۔ یہ بات میں نے خود نہیں کی۔ بلکہ خدا ہی کے طرف سے کی، اس کی ہدایت ہوئی تھی۔" صفحہ 41 پر یہ قول لکھا تھا۔ "میرا علم خدا کا عطا کردہ ہے کسی انسان سے حاصل نہیں کیا ہے۔" اس بہاء اللہ نے شرع کے احکام کو بھی درہم برہم کر دیا ہے اور نئے حکم اپنے دل سے تراشے ہیں۔ چنانچہ اسی کتاب "بہاء اللہ کی تعلیمات" کے آخر حصہ کے صفحہ17 میں لکھا ہے، خدا تم کو نکاح کا حکم دیتا ہے مگر خبردار دو سے زائد نہ کرنا۔ تیسری طلاق کے بعد کی حرمت اور بغیر حلالہ عدم علت کے حکم کی تبدیلی۔ صفحہ ۱۸ اسی کتاب کے صفحہ 4 میں ہے۔ "خدا نے منع کر دیا کہ جو تم تیسری طلاق کے بعد کیا کرتے تھے۔ گانا باجا سب حلال کر دیا۔ اسی کتاب کے صفحہ 4 میں ہے۔ "ہم نے حلال کیا تمہارے اوپر گانے اور بجانے کا سننا۔" اس گروہ کا دستور تقیہ کرنا بھی ہے۔ اسی کتاب کے صفحہ 47 میں اس کا اقرار ہے۔

اتنے بیان سے ظاہر ہوگیا کہ مرزا غلام احمد اور بہاء اللہ ختم نبوت کے منی متواتر کے انکار میں شریک ہیں۔ دعوئے مہدیت میں شریک ہیں مثل مسیح ہونے کے دعوے میں شریک ہیں، رسالت اور وحی کے دعوے میں شریک ہیں۔ تبدیل احکام شرع میں شریک ہیں۔ دونوں کے کافر ہوئے۔ اب بہاء اللہ خود بھی رسول بنتا ہے اور اپنے اوپر وحی آنے بے واسطہ اللہ سے علم پانے کا مدعی ہے اور مرزا علی محمد کو بھی پیغمبر مانتا ہے۔ حلال کو حرام اور حرام کو حلال بھی کرتا ہے، کتنے کفروں میں مبتلا اور اپنے معتقدین کو مبتلا کرنے والا ہے۔ یقیناً اس کی تصدیق کرنے والے کافر ومرتد خارج از اسلام ہیں، شفاء شریف میں ہے۔ وكذلك قال من تنباء وزعم انه يوحى اليه قاله سحنون و قال ابن القاسم دعى الى ذلك سرا وجهرا قال اصبغ وهو كالمرتد لانه كفر بكتاب الله مع القربة على الله وقال اشهب فى يهودى تنباء او زعم انه يوحى ارسل الى النا س او قال ان بعد نبيكم نبی انه يستناب ان كان معلنا بذلك فان تاب والا قتل وذلك لانه مكذب النبی صلى الله عليه وسلم فی قوله لا نبى بعدى مفترى على الله فی دعواه عليه الرسالة والنبوة۔

علامہ شرح فقہ اکبر میں فرماتے ہیں:

وقد يكون فی هولاء من يستحق القتل كمن يدعى النبوة بمثل هذه الخرا وبطلت تغير شی من الشريعة ونحو ذلك

اب ثابت ہو گیا کہ وہ شخص قادیانی تھا جب بھی کافر تھا اور بہائی ہوا اب بھی کافر ہے۔ اس کے ساتھ مسلمہ کا نکاح قطعی نہیں ہو سکتا۔ ہمیشہ حرام ہوگا۔ والعیاذ باللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم وعلمه عز اسمه اتقن احکم۔

کتب العبد المعتصم بحبل المتین

سید محمد نعیم الدین عفا عنہ المعین

10 شعبان المعظم 1358ھ

(فتاوی صدر الافاضل ،ص:111تا 116،مکتبہ اعلی حضرت لاہور)

Powered by Netsol Online