انیسویں صدی ملک وملت کی جن ممتاز ترین اور عظیم المرتبت شخصیتوں پر فخر کر سکتی ہے ان میں ایک عہد آفریں شخصیت شیخ الاسلام حضرت مولانا حافظ محمد انوار اللہ نوراللہ مرقدہ کی ہے۔ جن کو اپنے علمی فضل وکمال کی وجہ سے نہ صرف ہند میں بلکہ جنوبی ہند میں ایک خاص امتیاز حاصل رہا اور جن کے علمی مذہبی اور قومی خدمات سے سارے عالم اسلام کو مستفید ہونے کا موقع ملا۔
حضرت شیخ الاسلام کے والد محترم ابو محمد شجاع الدین بڑے متبع سنت اور عالم با عمل بزرگ تھے، دینی اور دنیاوی وجاہتوں سے مالا مال تھے۔ حضرت شیخ الاسلام کا سلسلہ نسب والد ماجد کی طرف سے امیر المؤمنین سیدنا عمر تک پہنچتا ہے اور والدہ محترمہ کی طرف سے حضرت سید احمد کبیر رفاعی سے جا ملتا ہے۔
شیخ الاسلام کی ولادت با سعادت ۴ ربیع الثانی ۱۲۶۴ھ ضلع ناندیڑ میں ظہور پذیر ہوئی۔ ان کی والدہ محترمہ فرماتی ہیں کہ جب انہیں ایک عرصے تک اولاد نہ ہوئی تو حضرت تمیم شاہ مجذوب ناندیڑی سے دریافت فرمایا۔ جس پر شاہ صاحب نے عالم فاضل لڑکے کی خوشخبری دی اور یہ کہلا بھیجا کہ اللہ سے لو لگائے رہو۔ چنانچہ شیخ الاسلام کی والدہ فرماتی ہیں کہ جب انہیں اپنے میں آثار حمل دکھائی دیئے تو خواب میں حضور نبی کریم رؤف رحیم ﷺ کو تلاوت کلام مجید فرماتے ہوئے دیکھا۔
حضرت شیخ الاسلام کی ابتدائی تعلیم والد محترم سے ہوئی۔ مولانا شاہ بدیع الدین رفاعی سے قرآن پاک شروع کیا، جو اس وقت کے مستند عالم تھے۔ سات سال کی عمر میں حفظ قرآن مجید کیلئے حافظ امجد علی صاحب نابینا کے سپرد کیا گیا اور گیارہ سال کی عمر میں آپ نے قرآن پاک حفظ کر لیا۔ خوش قسمتی سے آپ کو اپنے وقت کے قابل ترین اساتذہ مل گئے تھے۔ درسی کتب کی تحصیل مولوی فیاض الدین صاحب اورنگ آبادی سے پائی۔ حدیث، فقہ، تفسیر، ادب اور معقول کی تعلیم مولانا محمد عبد العلیم صاحب فرنگی محلی، مولانا عبد الحی فرنگی محلی اور حضرت شیخ عبد اللہ یمنی سے حاصل کی۔ اس طرح ان پاک ونیک طینت علماء نے حضرت شیخ الاسلام کو زمانے کا ایک قابل ترین شخص بنا دیا، باوجود اس قابلیت کے شیخ الاسلام کی تشنگی علم میں کوئی کمی واقعی نہ ہوئی بلکہ جب کبھی اور جہاں کہیں ان کو حصول علم کا کوئی مزید موقع ملا اس سے پورے طور پر استفادہ کی کوشش کی، اس طرح حضرت شیخ الاسلام علوم قرآن، حدیث، فقہ اور علوم تصوف کے باعتبار ہمہ گیر قابلیت کے امام اور جامع الکمال ہستی کے مالک بنے۔
حضرت مولانا حاجی محمد امیر الدین صاحب جو تعلقہ بنولہ میں محتسب تھے اور لوگ ان کو عالم وفاضل ہونے کی وجہ سے بڑی وقعت وعزت کی نگاہ دیکھتے تھے۔ ان کی صاحبزادی سے 1284ھ میں تقریباً بیس سال کی عمر میں شادی ہوئی۔ اور 1285ھ محکمۂ مالگزاری میں پچہتر (۷۵) روپیہ ماہوار پر خلاصہ نویس مقرر ہوئے۔ ایک مرتبہ آپ کے ہاں سودی لین دین کی مثل خلاصہ لکھنے کے لیے آئی، جس کی وجہ سے اسی دن آپ نے ملازمت سے سبکدوشی حاصل کر لی۔
ترک ملازمت کے بعد حضرت شیخ الاسلام نے درس وتدریس کا سلسلہ شروع فرمایا علمی تبحر کی شہرت سن کر دور دراز مقامات سے جوق در جوق تشنگانِ علم اس چشمہ فیض کے کنارے جمع ہونے لگے، یہاں تک کہ شیخ الاسلام نے ۱۲۹۲ھ میں "جامعہ نظامیہ" کے نام سے ایک درسگاہ کی بنیاد رکھی، جس کا ڈنکا عرصہ دراز تک برصغیر کے طول وعرض میں بجتا رہا۔
1295ھ میں حضرت مولانا محمد زمان خان کی شہادت ہوئی، خاندان آصفیہ کے آصف سادس نواب میر محبوب علی خان کی تعلیم کے لیے حضرت شیخ الاسلام کی تقرری عمل میں آئی اور 1301ھ میں آصف سادس نے "خان بہادر" کے خطاب اور منصب ایک ہزاری سے سرفراز کیا۔ جب 1308ھ میں مدینہ طیبہ سے واپسی ہوئی تو ولی عہد آصف سابع حضرت نواب میر عثمان علی خان کے معلم مقرر کئے گئے، یہ سلسلہ تاریخ تخت نشینی آصف سابع 7 رمضان ۱۳۲۹ھ تک جاری رہا۔ آصف سادس نواب میر محبوب علی خان صاحبِ دکن کا ۱۳۲۹ھ میں انتقال ہوا اور آصف سابع نواب میر عثمان علی خان کے ہاتھوں نظام آیا تو انہوں نے حضرت شیخ الاسلام کو صدارت اور احتساب کا عہدہ بخشا اور حضرت شیخ الاسلام کا لقب "نواب فضیلت جنگ" رکھا گیا اس طرح حضرت شیخ الاسلام کو مسائل شرعیہ اور امور دینیہ میں اختیار مل گیا اور آپ نے بہت سی اصلاحات قائم فرمائیں جن سے اپنے ملک اور اس کے باشندوں کو بڑا فائدہ پہنچا۔ ۱۲ ربیع الاول ۱۳۳۲ھ سے شہزادگان اعظم جاہ ومعظم جاہ کی تعلیم بھی حضرت شیخ الاسلام کے ذمے کی گئی۔
حضرت مولانا مفتی محمد رکن الدین صاحب کا کہنا ہے کہ جو کوئی حضرت شیخ الاسلام کی صحبت میں رہا ضرور فیض پایا۔ دوست واحباب تو خیر، ملازمین تک پابند صوم صلوٰۃ اور منبع شریعت ہو گئے تھے۔
حضرت آصف سادس کی تعلیم شیخ الاسلام کے ذمے بہت تھوڑے عرصے تک رہی لیکن آصف سابع نواب میر عثمان علی خان تقریباً اکیس (۲۱) سال تک زیر تعلیم رہے۔ ظاہر ہے کہ ان میں نماز کی پابندی، سماعت قرآن سے دلچسپی، حضور اکرم ﷺ اور اہل بیت اطہار سے محبت، علوم وفنون کے اشاعت کا جذبہ، دین ومذہب کی جانب رغبت، مساکین کی امداد اور اس قسم کے دوسرے رفاہ عامہ کاموں کی اجرائی شیخ الاسلام کی صحبت وتعلیم وتربیت ہی کے محمود اثرات ہیں جن کی وجہ سے حضرت آصف سابع کو ملک اور بیرون ملک میں مقبولیت حاصل ہوگئی۔
شیخ الاسلام کے والد ماجد کو مولانا شاہ رفیع الدین قندھاری سے خلافت حاصل تھی اس لیے انہوں نے سلوک کی ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد سے حاصل کی۔ ظاہری وباطنی تعلیم سے فراغت کے بعد انہوں نے تین بار بلاد اسلامیہ کا سفر کیا۔
پہلی بار 1294ھ میں حج کے ارادے سے مکہ معظمہ پہنچے، اس وقت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی وہاں موجود تھے۔ ان سے حضرت شیخ الاسلام نے تمام سلسلوں میں بیعت کی، اس موقع پر بغیر کسی طلب کے حاجی صاحب نے شیخ الاسلام کو خلعت خلافت سے سرفراز کیا۔
۱۳۰۱ھ میں حجاز مقدس کا دوسر اسفر اور ۱۳۰۵ھ میں تیسر اسفر کیا۔ اور تین سال تک مدینہ منورہ میں مقیم رہے۔ یہاں تمام وقت حرم محترم کے کتب خانہ میں گزرتا۔ آپ کی مایہ ناز تصنیف "انوار احمدی" اسی زمانے میں یہاں لکھی گئی۔ اسی دوران قیام میں آپ نے ایک بہت بڑا علمی اور دینی کام یہ بھی کیا کہ یہاں کے قدیم کتب خانوں سے تفسیر، حدیث اور فقہ کی نادر الوجود کتابوں کی نقول حاصل کیں، جن میں علی متقی کی "کنز العمال"، "جامع مسانید امام اعظم"، "جوہر النقی علی سنن بیہقی" اور "احادیث قدسیہ" خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
سوانح نگار کی روایت کے مطابق شیخ الاسلام مدینہ منورہ کے قیام کے دوران تین بار خواب میں حضور اکرم سید عالم ﷺ کی زیارت سے مشرف ہوئے اور حضور ﷺ نے خواب میں ارشاد فرمایا کہ حیدر آباد واپس جاؤ اور دین حق کی تبلیغ واشاعت کا کام انجام دو۔ جب آپ نے اپنا خواب حاجی صاحب کے سامنے پیش کیا تو انہوں نے واپسی کا حکم دے دیا۔
حیدر آباد واپس آنے کے بعد حضرت شیخ الاسلام نے ۱۳۱۸ھ میں دو نہایت اہم اداروں کی بنیاد رکھی ایک کتب خانہ آصفیہ اور دوسرا مجلس دائرۃ المعارف۔ آخر الذکر ادارے نے نادر الوجود کتابوں کی طباعت واشاعت کی ایسی گرانقدر خدمت انجام دی کہ ایک عظیم مرکز اشاعت علم وفن کی حیثیت سے مجلس دائرۃ المعارف کو علمی دنیا میں ایک نہایت بلند مقام حاصل ہو گیا۔ اس ادارہ سے وہ سارے قلمی نسخے زیور طبع سے آراستہ ہوئے جن کی نقلیں مدینہ طیبہ کے دوران قیام میں حاصل کی گئی تھیں۔
ایک شہرہ آفاق استاد اور ایک متبحر عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ شیخ الاسلام ایک پختہ کار صاحب قلم اور ایک قادر الکلام شاعر بھی تھے، آپ عربی، فارسی اور اردو تینوں زبانوں میں شعر کہتے تھے۔ حضرت شیخ الاسلام کی گرانقدر تصنیفات میں یہ کتابیں شامل ہیں۔
ا۔ مقاصد اسلام کے گیارہ حصے
2۔ حقیقۃ الفقہ کے دو حصے
3۔ افادة الافہام کے دو حصے
4۔ کتاب العقل
5۔ انوار الحق
6۔ خدا کی قدرت
7۔ خلق افعال
8۔ شمیم الانوار
9۔ انوار التمجيد
10۔ مسئلۃ الربوٰا
11۔ الكلام المرفوع
12۔ انوار احمدی اور
13۔ انوار اللہ الودود فی مسئلۃ وحدة الوجود۔
غرض شیخ الاسلام کی تصانیف سے ان کی علمی جامعیت صاف طور پر جھلکتی ہے وہ اپنے عہد کے علمی ہمہ دانست کے بہت اچھا نمونہ تھے۔ غرض شیخ الاسلام انیسویں صدی میں دکن کے بہت بڑے عالم دین، جید صوفی منش بزرگ تھے جنہوں نے اپنے فیض علم کی روشنی سے دنیا کو خوب منور کیا اور جن کے کارنامے دکن کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
حضرت شیخ الاسلام نے تریسٹھ (63) برس تک خالص علمی ومذہبی خدمت انجام دیتے ہوئے غرہ جمادی الثانی ۱۳۳۶ھ میں انتقال کیا۔ جامعہ نظامیہ کے احاطے میں انہیں سپرد خاک کیا گیا جو آج تک زیارت گاہ عوام وخواص ہے۔
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
سوانح نگار نے حضرت شیخ الاسلام کے معمولات کی جو تفصیل بیان کی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے ظاہر وباطن کے اعتبار سے ایک نہایت صوفی بزرگ تھے اور سلف صالحین کے نقش قدم پر چلنے والوں میں سے تھے۔ دن کا وقت جامعہ نظامیہ میں درس وتدریس میں گزرتا جسے وہ حبۃً لِلّٰه انجام دیا کرتے تھے۔ عشاء کی نماز کے بعد فتوحات کلیہ کا درس دیتے۔ راوی کے بیان کے مطابق فتوحات کے درس میں اکثر انوار وتجلیات کا نزول ہوتا، بہت سے لوگوں نے ارواح قدسیہ کی تشریف آوری کا واقعہ بیان کیا ہے۔
تہجد کی نماز سے پہلے تصنیف وتالیف کا کام کرتے۔ تہجد کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد رات کے پچھلے پہر تک آرام کرتے اور پھر نماز فجر کے بعد جامعہ نظامیہ میں تشریف لے جاتے اور تدریس وافتاء اور دعوت وارشاد کی خدمت انجام دیتے۔ یہی ان کے شب وروز کے معمولات تھے جسے زندگی کی آخری لمحے تک انہوں نے برقرار رکھا۔
حضرت مولانا معین الدین اجمیری اہلسنت کے مشہور عالم دین تھے اور اعلیٰ حضرت کے سیاسی حریف، ۳۵ صفحات پر مشتمل ان کی ایک کتاب ہے، "القول الاظهر فيما يتعلق بالاذان عند المنبر" جس میں اسی بات پر زور دیا گیا ہے کہ جمعہ کی اذان ثانی اندرون مسجد ہو۔ ان کا یہ رسالہ "حیدر آباد دکن" سے شائع ہوا۔ اس رسالہ کی لوح پر یہ عبارت درج تھی۔ "حسب الحکم فضیلت مآب خان بہادر مولانا مولوی حافظ حاجی محمد انوار اللہ فاروقی معین المہام امور مذہبی بصدر الصدور صو بہ جات دکن دامت برکاتہم بانی جامعہ نظامیہ۔"
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان اذان ثانی بیرون مسجد کے قائل تھے۔ چنانچہ انہوں نے شیخ الاسلام مولانا انوار اللہ فاروقی کو کئی خطوط اس لیے ارسال کئے کہ "حسب الحکم" کا انتساب کہاں تک درست ہے۔ اعلیٰ حضرت نے پہلا خط ۱۲ رمضان المبارک ۱۳۳۳ھ کو روانہ کیا، جس کا جواب شیخ الاسلام نے ۳۵ دن بعد دیا جو غیر مؤرخ ہے۔ دوسرا خط ۱۸ شوال کو بھیجا گیا، کامل سودن انتظار جواب کے بعد ۹ محرم ۱۳۳۴ھ کو اعلیٰ حضرت نے تیسرا خط ارسال کیا۔ مؤخر الذکر دونوں خط کا جواب شاید نہیں آیا۔ انہی خطوط ومراسلت کا مجموعہ ہے، "اجلی انوار الرضا"، اسے حجۃ الاسلام شہزادہ اعلیٰ حضرت مولانا حامد رضا خان نے ترتیب دیا اور سن مذکورہ (یعنی ۱۳۳۴ھ ) میں ہی شائع ہوا۔ ان خطوط میں سے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان کا صرف پہلا مکتوب پیش کیا جا رہا ہے۔ جس سے اندازہ ہوگا کہ اعلیٰ حضرت کی شیخ الاسلام مولانا انوار اللہ فاروقی سے کیسی عقیدت تھی اور اعلیٰ حضرت کی نظر میں شیخ الاسلام کی تصانیف کی کیا اہمیت تھی اس کا اندازہ دوسرے مکتوب اعلیٰ حضرت کے اس جملے سے لگائیں جس میں آپ نے فرمایا۔ "کُل تصانیف گرامی کا شوق ہے۔ اگر بہ قیمت ملتی ہوں، قیمت سے اطلاع بخشی جائے۔ دو جلد قادیانی مخذول کے چند صفحات دیکھے تھے، ایک صاحب سے ان کی تعریف کی، وہ لے گئے۔" (تفصیل کے لئے ملاحظہ کریں۔ "کلیات مکاتیبِ رضا")
از بریلی
۱۲ رمضان المبارک 1333ھ
بسمِ الله الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ
نحمدُه وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ
یا شیخ عبد القادر جيلاني شيئاً لله
بشرف ملاحظہ والائے حضرت بابرکت جامع الفصائل لا مع الفواضل شریعت آگاه طریقت دستگاه حضرت مولانا الحاج مولوی محمد انوار اللہ خان صاحب بہادر بالقابہ العز
سلام مسنون، نیاز مشحون ہدیہ مجلس ہمایوں
یہ سنگ بارگاہِ بیکس پناہ قادریت غفرلہ ایک ضروی دینی عرض کے لیے مکلف اوقات گرامی۔ پرسوں روز سہ شنبہ شام کی ڈاک سے ایک رسالہ" القول الاظهر" مطبوع حیدر آباد سرکار اجمیر شریف سے بعض احباب گرامی کا مرسلہ آیا، جس کی لوح پر حسب الحکم عالی جناب لکھا ہے۔ یہ نسبت اگر صحیح نہیں، تو نیازمند کو مطلع فرمائیں، ورنہ طالب حق کو اس سے بہتر تحقیق حق کا کیا موقع ملے گا۔ کسی مسئلہ دینیہ شرعیہ میں استكشاف حق کے لیے نفوس کریمہ جن جن صفات کے جامع درکار ہیں، بفضلہ عزوجل ذات والا میں سب آشکار ہیں۔ علم فضل، انصاف وعدل، حق گوئی، حق جوئی، حق دوستی، حق پسندی، پھر بحمدہ تعالیٰ غلامی خاص بارگاہ بیکس پناہ قادریت جناب کو حاصل اور فقیر کا منہ تو کیا قابل۔ ہاں! سرکار کا کرم شامل۔
اس اتحاد کے باعث حضرت کی جو محبت ووقعت قلب فقیر میں ہے۔ مولیٰ عزوجل اور زائد کرے، یہ اور زیادہ امید بخش ہے۔ اجازت عطا ہو کہ فقیر محض مخلصانہ شبہات پیش کرے اور خالص کریمانہ جواب لے۔ یہاں تک حق کا مالک حق واضح کرے۔ فقیر بارہا لکھ چکا اور اب لکھتا ہے کہ اگر اپنی غلطی ظاہر ہوئی، بے تامل اعتراف حق کرے گا۔ یہ امر جاہل متعصب کے نزدیک عار مگر عند اللہ وعند العقلاء اعزاز ووقار ہے اور حضرت تو ہر فضل کے خود اہل ہیں، لله الحمد! امید کہ ایک غلام بارگاه قادری طالب حق کا یہ مامول حضور پر نور سیدنا غوث الاعظم کے واسطے مقبول ہو۔ اللهم آمين بالخير يا ارحم الراحمين۔ اگر چہ ایک نوع جرات ہے۔ رجسٹری جواب کو ۳، کے ٹکٹ ملفوف نیاز نامہ ہیں۔
والتسليم مع الكريم
(فقیر احمد رضا قادری) 1
یہاں ہم شیخ الاسلام جامع الفضائل لا مع الفواضل شریعت آگاه وطریقت دستگاه حضرت مولانا الحاج مولوی محمد انوار اللہ خان صاحب کی کتابوں سے چند اقتباسات پیش کرتے ہیں جس میں آپ نے قرآن پاک سے خاتم النبیین والی آیت اور احادیث مبارکہ اول ما خلق الله نوری اور كنت نبيا وادم بين الماء والطین سے استدلال کرتے ہوئے منکرین ختم نبوت اور ختم نبوت کے نئے معنی گھڑنے والوں کو دندان شکن جواب دیا اور فرمایا حق تعالیٰ اپنے کلام قدیم میں آنحضرت ﷺ کو خاتم النبیین فرما چکا ہے۔ اب کونسا ایسا زمانہ نکل سکے گا کہ صفت علم وکلام باری تعالیٰ پر مقدم ہو۔ اس کے علاوہ مزید عقلی ونقلی دلائل بھی دیئے ہیں۔
ان اقتباسات میں دیگر موضوعات یہ ہیں۔ نبی پاک ﷺ کا سماع اور انبیاء کرام کے اجساد پاک، نماز میں نبی کریم ﷺ کا تصور اور نداء، امتناع النظیر، ادب رسول، نام پاک سرکار ﷺ سن کر انگوٹھے چومنا وغیرہ۔ شیخ الاسلام نے اپنی کتاب میں ان موضوعات پر بھی سیر حاصل بحث کی ہے، بے ادبی کی ابتداء کب ہوئی، خوارج کی ابتداء اور فتنہ وہابیہ کیا ہے؟ اور اس کی ابتداء۔ دنیائے اسلام کی معروف شخصیت مفتی حرم مکہ اور دیوبندی مکتب فکر کے مولوی خلیل احمد انبیٹھوی کے استاد احمد بن زینی دحلان مکی کی شہرہ آفاق کتاب"السنیہ" کے حوالے سے محمد بن عبد الوہاب نجدی کے حالات اور اس کے چند گمراہ کن عقائد بیان کئے ہیں اور ساتھ ہی اس کے ان عقائد کا مضبوط دلیلوں سے رد بھی کیا ہے۔ حضرت شیخ الاسلام کی مایہ ناز کتاب انوار احمدی پر آپ کے پیر ومرشد حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کی اردو اور عربی دونوں زبانوں میں تقاریظ موجود ہیں۔ جو اس تعارف میں شامل کی جارہی ہیں۔
ان اقتباسات میں عنوانات قائم نہیں تھے، قارئین کی سہولت کے لیے عنوانات قائم کئے گئے ہیں۔ اور آخر میں حضرت شیخ الاسلام کی وہ تقریظ بھی شامل کی گئی ہے جو آپ نے حضرت علامہ مولانا محمد حیدر اللہ خان نقشبندی حنفی درانی کی کتاب "درة الدرانی علیٰ ردة القادیانی" پر تحریر فرمائی ہے۔ یاد رہے کتاب "درۃ الدرانی" ہمارے اس مجموعے "عقیدۂ ختم نبوت" کی تیسری جلد میں شامل ہے۔
1۔ انوار احمدی:
یہ کتاب حضور سرور عالم سید العرب والعجم باعث ایجاد کونین رسول الثقلین سیدنا ومولانا حضور رحمۃ للعالمین ﷺ کے ذکر میلاد وفضائل آداب پر مشتمل ہے۔
محال بُودن خاتم النبیین شخص دیگر:
اب اگر بالفرض کوئی تمام ملائکہ وجن وانس وغیرہ کی عبادت کر کے یہ توقع رکھے کہ ہم بھی ایسا رتبہ حاصل کر سکتے ہیں تو کیا ممکن ہوگا؟ نعوذ باللہ من ذالک۔ یہ بھی ایک قسم کا جنون سمجھا جائے گا خالق عالم جل شانہ ازل سے ابد تک کی فضیلت اپنے حبیب ﷺ کو عطا کر چکا۔ ازل کا حال تو کسی قدر معلوم ہوا ابد کا حال بھی آئندہ ان شاء اللہ معلوم ہوگا۔
quranic-verse
کے جب ابد الاباد یہ لقب مختص آنحضرت ﷺ ہی کے لیے ٹھہرا تو جزئیت اس مفہوم کی ابد الاباد کے لیے ہوگئی۔ کیونکہ یہ لقب قرآن شریف سے ثابت ہے جو بلا شک قدیم ہے۔}}اس مفہوم کی جزئیت میں کوئی شک نہیں اور یہ بات عبد اللہ میں نہیں ،اب اس دعویٰ کا قضیہ بنائے کہ (غیرہ خاتم النبیین بالامکان) بادنیٰ تامل ثابت ہو جائے گا یہ قضیہ بحمل صحیح منعقد ہی نہیں ہو سکتا۔ اس لیے کہ حمل جزئی حقیقی کا کلی پر سچ نہیں اور اگر بنظر اہمال موضوع کے جزئی سمجھا جائے پھر خواہ وہ معین ہو خواہ غیر معین غیر موضوع لہ محمول کا ہوگا اور ابھی معلوم ہوا کہ محمول جزئی حقیقی ہو تو اس کا حمل دوسری جزئی پر ہر گز نہیں ہو سکتا۔ جیسا "زید عمرو" درست نہیں اور حمل مذکور کے عدم جواز کی دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ خاصہ کا حمل غیر ذی الخاصہ پر درست نہیں۔ جیسے "الحمار کاتب" یا "غیر آدم ابو البشر" يا "زيد ابو زید" یعنی زید اپنا آپ باپ ہے مثال آخری ممثل لہ پر اس وجہ سے منطبق ہے کہ عمرو مثلاً زید کا باپ ہے تو یہ صفت اس کا خاصہ ہوگی۔ پھر یہ صفت اگر غیر عمرو پر اطلاق کی جائے تو اس امر میں کہ موضوع غیر ذی الخاصہ ہے زید اور بکر دونوں برابر ہوں گے پس اطلاق ابو زید خاصہ کا اگر بکر پر صحیح ہو تو چاہیے کہ اس کی جہت سے زید پر بھی صحیح ہو کیونکہ غیر ذی الخاصہ ہونے میں دونوں برابر ہیں، واللازم باطل فالملزوم مثلہ اور قطع نظر اس کے یہ تو ظاہر ہے کہ زید کا پدر حقیقی جب عمرو ہو تو یہ صفت دوسرے پر کیونکر صادق آسکے۔ الحاصل خاصہ ایک شے کا دوسرے پر صادق نہیں آسکتا ورنہ وہ خاصہ، خاصہ نہ ہوگا وھو خلف۔ لم اس کا یہ ہے کہ محمول کو چاہیے کہ ذاتی موضوع کا ہو یا عرضی اور حمل وہی صادق آتا ہے جہاں مبداء محمول کا ذاتی موضوع کا ہو جیسے "الانسان ناطق" یا صفت منضمہ ہو جیسے "زید کاتب" یا منزعہ ہو خواہ بالاضافت جیسے "السماء فوقنا"، "الاربعۃ زوج" پھر جب مبداء محمول کا خاصہ کسی دوسری چیز کا ہو تو غیر ذی الخاصہ کی نہ ذاتی ہو سکے گا، نہ وصف منضمہ، نہ منتزعہ۔ اس سبب سے خاصہ کا حمل غیر ذی الخاصہ پر صحیح نہیں پس معلوم ہوا کہ خاتم النبیین کا حمل غیر آنحضرت ﷺ پر صحیح نہیں۔ اور یہ تو ظاہر ہے کہ نسبت حکمیہ وقت حمل پیدا ہوتی ہے، پھر حمل پیدا ہوتی ہے، پھر حمل ہی نہیں تو نسبت حکمیہ کہاں! اور جب نسبت ہی کا پتہ نہ ہو تو جہت امکان کیونکر ثابت ہو سکے۔ اس لیے کہ جہت تو نسبت کی کیفیت کا نام ہے تو ضرور ہوا کہ ثبوت کیفیت کے پہلے ثبوت نسبت ہو کیونکہ ثبوت الشئ للشى فرع ثبوت ثبت لہ ہے۔ یا یوں کہئے کہ ثبت العرش ثم انقش الحاصل اس سے معلوم ہوا کہ قضیہ مذکورہ غلط ہے۔
اور سینے محمول قضیہ کا جو جزئی حقیقی ہے اگر دوسری چیز پر حمل کیا جائے تو سلب الشئ عن نفسه لازم آئے گا۔ دیکھو اس حمل کی نظیر بعینہ "زید عمرو" ہے سو جب تک زید سے زیدیت یا عمرو سے عمرویت مسلوب نہ ہو عمرویت زید میں قائم نہیں ہو سکتی۔ اور ظاہر ہے کہ سلب الشئ عن نفسه محال ہے۔ پھر یہ محال جو لازم آ رہا ہے وقت حمل ہے یعنی ہنوز نسبت ہی کا وجود نہیں ہوا کہ محال لازم آگیا تا بہ امکان چہ رسد۔ اور علی سبیل التنزل اگر مساوق بھی ہو تو تب بھی امکان کو حل نہ ملا۔ اس تقریر سے بھی یہی ثابت ہے کہ وہ قضیہ باطل ہے، کیونکہ مستلزم محال محال ہوا کرتا ہے۔ اب اگر کہا جائے کہ یہ بھی منجملہ وجوہ امتناع لغیرہ ہے سو اس کا جواب یہ ہے کہ تقریر بالا سے امکان ذاتی کا وجود باطل ہو گیا اگر اس بطلان کو بھی منجملہ وجوہ امتناع لغیرہ کے تصور کر لیں تو امتناع کا پلہ خوب ہی بھاری ہو جائے گا جس میں بطلان ذاتی یعنی امتناع ذاتی بھی شریک ہوگا۔ سو وہ دعویٰ امکان ذاتی کا کہاں رہا اور اس دعویٰ کا ابطال اس تقریر سے بھی ہو سکتا ہے کہ مفہوم خاتم النبیین کا اگر چہ کلی ہے مگر کلیت اس کی ایسی نہیں جیسے انسان وغیرہ کی ہے اس لیے کہ انسان کے افراد کثیرہ ہونے میں کوئی قباحت لازم نہیں آتی بلکہ موجود ہیں بخلاف خاتم النبیین کے کہ اس کے معنی میں کثرت صادق آ ہی نہیں سکتی جیسے مرکز یا اول یا آخر یا مبداء۔
حال مرکز کا سینے کہ مرکز اس نقطہ کو کہتے ہیں کہ جتنے خطوط اس سے نکل کر محیط تک پہنچیں سب آپس میں برابر ہوں۔ وہ خطوط نصف قطر دائرہ ہوں گے جن کے ملتقی کا نام مرکز ہے۔ پھر اگر ان خطوط کی ابتدا محیط دائرہ سے لے جائے تو مرکز منتہیٰ ان خطوط کا ہوگا اور اگر مرکز سے لے جائے تو وہ مبداء ان کا ہوگا۔ بہر حال خواہ وہ مبدا ہو یا منتہیٰ مرکز ایک نقطہ معین ہوگا جس کا فرض کرنا ہر جگہ مثل اور نقطوں کے ممکن نہیں۔ اور اسی نقطہ میں یہ صفت قائم ہوگی کہ مبداء یا منتہیٰ ان تمام خطوط کا ہے جو نصف قطر دائرہ ہو سکیں۔ اب اگر سوائے اس نقطہ معینہ کے دوسرا نقطہ فرض کریں اور کہیں کہ ممکن ہے کہ وہ بھی مرکز اس دائرہ کا ہو تو یہ فرض محال ہوگا اس لیے کہ وہ صفت مختصہ (یعنی منتہیٰ ان خطوط کا ہونا) دوسرے میں قائم نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ دوسرا نقطہ اس دائرہ میں جس جگہ فرض کیا جائے اصلی مرکز سے ہٹ کر ایک نصف قطر پر ہوگا تو جملہ خطوط مذکورہ کا مبدا یا منتہیٰ ہونا تو در کنار خود اس خط کا مبدا یا منتہیٰ نہیں ہو سکتا جس پر وہ واقع ہے۔ اس لیے کہ آخر وہ خط بھی نصف قطر ہے اور ہر نصف قطر کا مبدا مرکز حقیقی ہونا لازم ہے ورنہ خط نصف قطر نہ ہوگا۔ الحاصل مصداق مرکز کا اگر دوسرا فرض کیا جائے تو انسلاخ الشئ عن لوازمه بل عن ذاته لازم آجائے گا اور یہ محال لذاتہ ہے۔ اب اس دائرہ کے کسی نقطہ میں صلاحیت اور امکان نہیں کہ مرکز اورمنتہیٰ ان خطوط کا بن سکے۔ یہاں تک کہ اگر خود واضع اس دائرہ کا چاہے کہ کسی دوسرے نقطہ کو اس دائرہ کا مرکز قرار دے تو نہیں ہو سکتا کیونکہ کسی میں صلاحیت ہی نہیں۔ ہاں وقت دائرہ کھینچنے کے ممکن تھا کہ جس نقطہ کو چاہتا مرکز بنا دیتا لیکن جب اس نقطہ کو معین کر چکا تو سب نقاط موجودہ وغیر موجودہ کو اس دائرہ کے مایوسی کلی حاصل ہو گئے کہ اب کوئی مرکز نہیں ہو سکتا۔ حالانکہ مرکز کوئی شے موجود فی الخارج نہیں وجود اس کا صرف علم میں ہے کیونکہ مرکز بھی ایک نقطہ ہے اور ماہیت نقطہ کی یہی ہے کہ طرف خط ہو اور ظاہر ہے کہ خود خط بالفعل موجود نہیں ورنہ ترکب سطح کا خطوط سے لازم آئے گا جو باطل ہے۔ پھر جب خط ہی کا وجود نہیں تو مرکز جو طرف اس کا ہے کہاں۔ مگر باوجود اس کے مرکز ایک معین شے ہے اس لیے اس دائرہ پاکرہ پر اطلاق دائرہ کا جب ہی ہوگا کہ نسبت محیط کی مرکز کے ساتھ ہر جہت میں برابر ہو اور اگر مرکز ہی نہ ہو جو احد الحسین ہے تو نسبت کیسی۔ پھر جب سے کہ مرکز معین ہوا وہ صفت مختصہ اس کی یعنی منتہیٰ جميع خطوط مذکورہ کا ہونا بھی اس پر صادق آرہی ہے۔ ہر چند یہ صفت بھی کلی ہے مگر کلیت اس کی بھی مثل کلیت مرکز کے ہے کہ قبل تعین مصداق کے علی سبیل البدلیت مصادیق اس کے بہت سے ہو سکتے ہیں اور جب مصداق معین ہو گیا اب احتمال کثرت کا جاتا رہا۔ پس یہ صفت اگر چہ کہ علم مرکز کا نہیں مگر اختصاص میں اس درجہ کو پہنچی ہوئی ہے کہ عند الاطلاق سوائے اس مرکز کے جو جزئی حقیقی ہے دوسرے کے طرف ذہن منتقل ہو ہی نہیں سکتا اسی طرح خاتم النبیین کا مفہوم کہ عند الاطلاق سوائے اس ایک ذات خاص کے دوسرا کوئی متبادل نہیں ہوتا۔ پس معلوم ہوا کہ بعد تعین مصداق کے مرکز اور مبدا اور انتہا میں کثرت نہیں آسکتی اسی طرح اول وآخر سلسلہ کا مبدا اور منتہیٰ ہوگا وہاں بھی اس قسم کی تقریر جاری ہوگی۔ چونکہ خاتم النبیین کے معنی بھی منتہائے نبیین ہے اس سبب سے یہ بھی اس قسم کی کلی ہوگی کہ بعد تعین مصداق کے جزئی حقیقی ہو جائے اور سوائے ایک ذات کے دوسرے پر صادق نہ آسکتے ہاں کلیت اس کی قبل تعین مصداق متحقق ہے کہ علی سبیل البدلیت بہت افراد پر صادق آسکتی تھی جیسے مرکز مثال مذکورہ میں۔
اب یہ دیکھا جائے کہ مصداق اس کا کب سے معین ہوا سو ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ ابتدائے عالم امکان سے جس قسم کا وجود فرض کیا جائے ہر وقت آنحضرت ﷺ اس صفت مختصہ کے ساتھ متصف ہیں کیونکہ حق تعالیٰ اپنے کلام قدیم میں آنحضرت ﷺ کو خاتم النبیین فرما چکا ہے۔ اب کونسا ایسا زمانہ نکل سکے گا کہ صفت علم وکلام باری تعالیٰ پر مقدم ہو۔ پھر تعین ذات خاصہ اور اتصاف اس صفت مختصہ کے لیے وجود خارجی شرط نہیں جیسے مرکز میں ابھی معلوم ہوا اور قطع نظر اس کے خود آنحضرت ﷺ نے فرما دیا ہے اور جس کو حاکم نے مستدرک میں روایت کیا ہے۔ كنت نبيا وادم بين الماء والطين یعنی ہنوز آدم پانی اور کیچڑ میں تھے اور میں نبی (ﷺ) تھا۔ اب ہم یقیناً کہہ سکتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ ازل سے متصف اس صفت خاصہ کے ساتھ ہیں اور جو جو تقلبات آنحضرت ﷺ کے ہر عالم میں ہوئے ہیں اس کو ہم ایسے سمجھتے ہیں جیسے لڑکپن جوانی وغیرہ کہ ذات ہر وقت میں محفوظ ہے۔ حق تعالیٰ فرماتا ہے: و تقلبك فی الساجدین۔ امام سیوطی نے مسالک الحنفاء میں نقل کیا ہے۔ وقد قال ابن عباس رضی الله عنهما فی تأويل قول الله وتقلبك فی الساجدین ای تقلبک من اصلاب طاهرة من اب بعد اب الى ان جعلک نبیا۔ اس مضمون کو حافظ شمس الدین بن ناصر الدین دمشقی نے نظم میں لکھا ہے۔
تنقل احمد نور عظیمت
لالا فی جبين الساجدين
تقلب فيهم قرنا فقرنا
الى ان جاء خير المرسلينا
ذكره الامام السيوطی رحمۃ اللّٰه علیه فی مسالك الحنفاء۔
اور حافظ العصر ابن حجر عسقلانی نے کہا ہے۔
نبی الهدى المختار من اٰل هاشم
فعن فخرهم فليقصر المتطاول
تنقل فی اصلاب قوم تشرفوا
بہ مثل ما للبدر تلك المنازل
ذكره السيوطی رحمةالله عليه فی المقامات السندسية
اس سے بھی معلوم ہوا کہ عالم شہادت کے پہلے بھی ذات آنحضرت ﷺ کی محفوظ تھی کیونکہ تقلب صفت ہے اور تمام اور قیام صفت کا بغیر ذات موصوف کے محال ہے۔ اس عالم میں تشریف فرما ہونے کے بیشتر آدم سے پہلے بھی آنحضرت ﷺ موجود تھے جو كنت نبیا اور اول ما خلق الله نوری سے معلوم ہوا اور بعد آدم کے بھی جو وتقلبك فی الساجدین سے معلوم ہوا۔
الحاصل وجود جزئی حضرت ﷺ کا ثابت ہے اگر چہ اطوار وجود مختلف ہوں اور حال جزئیت میں اتصاف اس صفت کے ساتھ بھی موجود رہا پھر خاتم النبیین کے جزئی حقیقی ہونے میں کیا کلام۔ اگر کہا جائے کہ اس تقریر سے خاتم النبیین مثل دوسرے اعلام کے ایک علم ہو جائے گا تو اس میں فضیلت ہی کیا ہوئی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ پہلے علم کی حقیقت معلوم کر لیجئے کہ ہر جماعت انسان اپنے ما فی الضمیر ظاہر کرنے میں محتاج اس امر کی ہے کہ ہر چیز کے مقابلہ میں ایک لفظ مقرر کرے تاکہ جو شخص اس وضع سے واقف ہو وہ لفظ سنتے ہی سمجھ جائے کہ مقصود متکلم کا یہ ہے۔ اب اس وضع کے وقت یہ ضرور نہیں کہ اس لفظ میں کوئی معنی وصفی ہوں بلکہ حروف تہجی سے چند حروف لے کر جو لفظ ترکیب دے دیا جائے وہی علم ہو جائے گا اور اگر کوئی لفظ معنی دار علم ہو تو معنی سابق اس میں نہیں ہوتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ تقرر علم کا صرف اس واسطے ہے کہ اس کے کہنے سے ذات معینہ معلوم ہو جائے بخلاف صفت کے۔ سوائے ذات کے ایک دوسرے معنی پر بھی اس سے دلالت ہوتی ہے مثلاً عالم کہ اس سے ذات مع صفت علم سمجھی جاتی ہے اور صفت کا مبداء اس ذات میں موجود ہوگا اور عالم میں یہ بات نہیں۔ اب دیکھئے کہ صفت ختم نبوت کی آنحضرت ﷺ کی ذات مبارک میں ازل سے قائم ہے جیسے ابھی مذکور ہوا مگر صفت مختصہ ہونے کی وجہ سے انحصار اس صفت کا ذات مبارک میں ہے۔ اس انحصار سے یہ لازم نہیں آتا کہ لفظ خاتم النبیین علم ہو جائے کیونکہ یہ لفظ ذات مع الصفت پر دلالت کرتا ہے، نہ صرف ذات پر۔ الحاصل صفت خاتمیت آنحضرت ﷺ کے لیے ازلاً وابداً مسلم ہوگئی۔ اب کسی دوسرے کا اتصاف اس صفت مختصہ کے ساتھ محال ہے جیسے کہ سوائے نقطہ مخصوصہ کے متصف بصفت مرکزیت ہونا کسی دوسرے لفظ کا دائرہ خاص میں محال ہے۔ اب ہم ذرا ان صاحبوں سے پوچھتے ہیں کہ اب وہ خیالات کہاں ہیں جو کل بدعۃ ضلالۃ پڑھ پڑھ کے ایک عالم کو دوزخ میں لے جارہے تھے۔ کیا اس قسم کی بحث فلسفی بھی کہیں قرآن وحدیث میں وارد ہے، یا قرون ثلثہ میں کسی نے کی تھی؟ پھر ایسی بدعت قبیحہ کے مرتکب ہو کر بحسب واقع کیا استحقاق پیدا کیا اور اس مسئلہ میں جب تک بحث ہوتی رہے گی اس کا گناہ کس کی گردن پر۔ دیکھیے حدیث شریف میں وارد ہے:فى المشكوٰة
وعن جرير قال قال رسول اللهﷺ من سن فى الاسلام سنة سيئة كان عليه وزرها ووزر من عمل بها من بعده من غير ان ينقص من أوزارهم شئ (الحديث رواه مسلم)
یعنی فرمایا رسول اللہ ﷺ نے جو شخص اسلام میں برا طریقہ نکالے تو علاوہ اس جرم ارتکاب کے جتنے لوگ اس کے بعد اس پر عمل کرتے رہیں سب کا گناہ اس کے ذمہ ہوگا اور ان کے گناہ میں کچھ کمی نہ ہوگی۔ (روایت کیا اس کو مسلم نے)۔ انتہیٰ
بھلا جس طرح حق تعالیٰ کے نزدیک صرف آنحضرت ﷺ خاتم النبیین ہیں، ویسا ہی اگر آپ کے نزدیک بھی رہتے تو اس میں کیا نقصان تھا؟ کیا اس میں بھی کوئی شرک وبدعت رکھی تھی جو شاخشانے نکالے گئے۔ یہ تو بتلائیے کہ ہمارے حضرت ﷺ نے آپ کے حق میں ایسی کونسی بدسلوکی کی تھی جو اس کا بدلہ ایسے طور پر کیا جا رہا ہے کہ فضیلت خاصہ کا مسلّم ہونا مطلقاً نا گوار ہے۔ یہاں تک کہ جب دیکھا کہ خود حق تعالیٰ فرما رہا ہے کہ آپ سب نبیوں کے خاتم ہیں کمال تشویش ہوئی کہ ہائے فضیلت مختصہ ثابت ہوئی جاتی ہے جب اس کے ابطال کا کوئی ذریعہ دین اسلام میں نہ ملا فلاسفہ معاندین کی طرف رجوع کیا اور امکان ذاتی کی شمشیر دودم ان سے لے کر میدان میں آ کھڑے ہوئے۔ افسوس ہے اس ذہن میں یہ بھی نہ سوچا کہ معتقدین سادہ کو انتظار اس خاتم فرضی کا کس قدر کنوئیں جھکائے گا مقلدین سادہ کے دلوں پر اس تقریر معقولی کا اتنا تو ضرور اثر ہوا کہ آنحضرت ﷺ کی خاتمیت میں کسی قدر شک پڑ گیا گود قایق معمولی کو نہ سمجھے ہوں۔ چنانچہ بعض اتباع نے اس بنا پر الف ولام خاتم النبیین سے یہ بات بنائی کہ حضرت ﷺ ان نبیوں کے خاتم ہیں جو گزر چکے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ آئندہ جو انبیاء پیدا ہوں گے ان کا خاتم کوئی اور ہوگا؟ (معاذ اللہ)۔ اس تقریر نے کہاں تک پہنچا دیا کہ قرآن کا انکار ہونے لگا۔ ذرا سوچئے تو کہ آنحضرت ﷺ کے روبرو خاتم النبیین ہونے میں یہ احتمالات نکالے جاتے تو کس قدر حضرت ﷺ پر شاق ہوتا۔
حضور اقدس ﷺ کے زمانے میں حضرت موسیٰ بھی ہوتے تو حضور ﷺ ہی کی اتباع کرتے:
حضرت عمر نے صرف توراۃ کے مطالعہ کا ارادہ کیا تھا اس پر آنحضرت ﷺ کی حالت کیسی متغیر ہوگئی کہ چہرہ مبارک سے آثار غضب پیدا تھے اور باوجود اس خلق عظیم کے ایسے صحابی کے جلیل القدر پر کیسا عتاب فرمایا کہ جس کا بیان نہیں، جو لوگ مذاق تقرب واخلاص سے واقف ہیں اس کو سمجھ سکتے ہیں۔ پھر فرمایا کہ اگر خود موسی میری نبوت کا زمانہ پاتے تو سوائے میری اتباع کے ان سے کچھ نہ بن پڑتی۔ دیکھ لیجئے وہ روایت مشکوٰۃ شریف میں ہے۔ یعنی روایت ہے حضرت جابر سے کہ ایک بار حضرت عمر نے تورات کا نسخہ لا کر عرض کی یا رسول اللہ ﷺ یہ تورات کا نسخہ ہے۔ حضور ﷺ خاموش ہو گئے۔ وہ لگے پڑھنے۔ ادھر چہرہ مبارک متغیر ہونے لگا۔ حضرت ابوبکر صدیق نے یہ دیکھ کر کہا۔ اے عمر تم تباہ ہو گئے کیا چہرہ مبارک کو نہیں دیکھتے؟ حضرت عمر یہ دیکھتے ہی کہنے لگے۔ میں پناہ مانگتا ہوں خدا ورسول کے غضب سے۔ ہم راضی ہیں اپنے پروردگار اور دین اسلام اور اپنے نبی حضرت محمد ﷺ سے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا قسم ہے اللہ کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر موسیٰ تم میں ظاہر ہوتے اور تم لوگ مجھے چھوڑ کر ان کی پیروی کرتے تو ضرور گمراہ ہو جاتے، اگر حضرت موسیٰ اس وقت زندہ ہوتے اور میری نبوت کے زمانہ کو پاتے تو میری ہی اطاعت کرتے۔ اور روایت احمد وبیہقی میں وما وسعه الا اتباعی ہے یعنی سوائے میری اتباع ان سے کچھ بن نہ پڑتی۔ اب ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ جب حضرت عمر جیسے صحابی با اخلاص کی صرف اتنی حرکت اس قدر نا گوار طبع غیور ہوئی تو کسی زید وعمرو کی اس تقریر سے جو خود خاتمیت میں شک ڈال دیتی ہے، کیسی اذیت پہنچتی ہوگی۔ کیا یہ ایذار سانی خالی جائے گی، ہرگز نہیں۔ حق تعالیٰ فرماتا ہے:
إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللهُ فِی الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِيْنًا1
جو لوگ ایذا دیتے ہیں اللہ کو اور اللہ کے رسول کو لعنت کرے گا ان کو اللہ دنیا اور آخرت میں اور مہیا کر رکھا ہے ان کے واسطے ذلت کا عذاب۔
نسأل الله تعالىٰ توفيق الادب وهو ولی التوفيق
روایات کثیرہ سے ثابت ہے کہ ایک فرشتہ تمام روئے زمین کے درود سنتا ہے اور خدمت میں آنحضرت ﷺ کے عرض کرتا ہے اور اس کو ویسی ہی سماعت دی گئی ہے جیسے ان دو فرشتوں کو دی گئی ہے جو اس کام پر مقرر ہیں کہ درود پڑھنے والوں کے حق میں دعائے خیر کیا کریں جن کا حال احادیث سے معلوم ہوتا ہے، جب اتنی احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ بعض فرشتوں کے پاس قرب وبعد یکساں ہے اور آن واحد میں ہر شخص کی آواز برابر سنتے ہیں تو اب اہل ایمان کو آنحضرت ﷺ کے احاط علمی میں شک کا کیا موقع ہوگا؟ اس لیے مبنی شک وانکار کا یہی تھا کہ اس میں شرک فی الصفت لازم آتا ہے۔ پھر جب آنحضرت ﷺ کے خدام میں یہ صفت موجود ہے تو چاہیے کہ خود آنحضرت ﷺ میں بطریق اولیٰ بوجہ اتم ہو۔ چنانچہ خود آنحضرت ﷺ نے اس کی تصریح فرما دی
كما فی الطبرانی ليس من عبد يصلى على الا بلغنى صوته قلنا يا رسول الله وبعد وفاتك قال وبعد وفاتى ان الله حرم على الارض ان تاكل اجساد الانبياء 2
فرمایا جو کوئی مجھ پر درود بھیجتا ہے اس کی آواز سنتا ہوں۔ صحابہ نے عرض کیا، کیا آپ کی وفات کے بعد بھی یا رسول اللہ ﷺ۔ فرمایا: ہاں خدائے تعالیٰ نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ انبیاء کے اجساد کو کھائے۔
رہی یہ بات کہ جب حضرت ﷺ خود سنتے ہیں تو پھر درود وسلام پہنچانے پر جو اتنے عظیم الشان وکثیر التعداد فرشتے مقرر ہیں جن کا حال کچھ معلوم ہوا اور کچھ معلوم ہوگا اس سے کیا فائدہ؟ سو اس کا جواب یہ ہے کہ آخر حق تعالیٰ کے حضور میں بھی اعمال بذریعہ ملائک پیش ہوا کرتے ہیں اور باوجود اس کے صفت علمیہ کا انکار ممکن نہیں۔ حاصل یہ کہ شے واحد کے حصول علم کے طریقے اگر متعدد مختلف ہوں تو کچھ قباحت لازم نہیں آتی بلکہ اس سے کمال قدرت وعظمت الہٰی معلوم ہوتی ہے اسی طرح آنحضرت ﷺ کے علم کے بھی دو طریقے ٹھہرائے گئے ہیں، ایک یہ کہ صفت علمیہ جو کمال نشاء انسانی ہے عطا کی گئی تاکہ اس کے حاصل کرنے میں افضل مخلوقات کی احتیاج ملائک کے طرف نہ ہو جو فی الحقیقت خدام آپ ﷺ کے ہیں۔ دوسرا طریقہ یہ کہ عظیم الشان ملائک اس خدمت پر مامور کئے گئے جس سے شان مصطفائی اور تزک فرمان روائی اپنے حبیب ﷺ کی تمام انبیاء وملائک پر آشکار ہو جائے اور وہ خصوصیت وعظمت جو ازل سے سرور کائنات ﷺ کی نسبت مرعی ہو رہی ہے جس کی وجہ سے انبیاء نام مبارک کو اپنے انجاح مرام کا وسیلہ اور ذریعہ ٹھہرایا کئے بعد نشا عصری حضرت ﷺ کے بھی سب پر مشہود ومنکشف ہو جائے۔ امر اول یعنی علم بلا واسطہ کی نسبت یہ بھی ایک قرینہ ہے کہ عموماً اموات کا سماع قریب سے بدلائل ثابت ہے۔ چنانچہ بخاری شریف میں روایت ہے کہ جو کفار بدر کے کنوئیں میں ڈال دیے گئے تھے ان کی طرف جب آنحضرت ﷺ نے خطاب فرمایا کہ هل وجدتم ما وعد ربكم حقا یعنی کیا تم نے اپنے رب کے وعدے کو سچا پا لیا۔ صحابہ نے عرض کیا، کیا آپ مُردوں کو پکارتے ہیں یا رسول اللہ ﷺ۔ فرمایا: ہاں ما انتم باسمع منهم ولكن لا يجيبون یعنی تم لوگ ان سے زیادہ نہیں سنتے۔
اور سوائے اس کے سماع موتی کے باب میں کئی روایات وآیات وارد ہیں۔ الحاصل جب عموماً اہل قبور قریب سے سنتے ہیں تو چاہیے تھا کہ قبر شریف کے پاس اگر کوئی شخص سلام عرض کرے تو اس کی اطلاع کے واسطے فرشتہ کا توسط نہ ہوتا۔ حالانکہ یہ سلام بھی فرشتہ ہی کے ذریعہ سے پہنچتا ہے چنانچہ تصریحاً فرماتے ہیں
ما من عبد يسلم على عند قبرى الا وكل الله بها ملكا يبلغنی 3
فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ جو بندہ مجھ پر سلام کرے گا میری قبر کے پاس تو ایک فرشتہ مقرر ہوگا کہ وہ سلام مجھ کو پہنچا دیا کرے گا۔
اور کنز العمال میں اس حدیث کو اس طور سے روایت کیا ہے:
ما من عبد يسلم على عند قبرى الا وكل الله به ملكا يبلغنی وكفی امر اخرته ودنياه وكنت به شهيدا يوم القيمة (هب عن أبی هريرة رضی اللّٰہ عنہ)
فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ جو بندہ عرض کرے گا مجھ پر سلام میری قبر کے پاس تو حق تعالیٰ ایک فرشتہ مقرر فرمائے گا جو وہ سلام مجھ کو پہنچائے گا اور کافی ہوگا اس کے دنیا وآخرت کے کاموں کے لیے اور میں اس کا گواہ بنوں گا قیامت کے دن۔
اور قول بدیع میں امام سخاوی نے لکھا ہے۔
وفی السمعونيات بسند ضعيف عن ابی هريرة رضی اللّٰہ عنہ ايضا مرفوعا من صل على عند قبرى وكل بها ملک يبلغنی وکفی امر دنياه واخرته وكنت له يوم القيمة شهيدا وشفيعا
فرمایا رسول اللہ ﷺ نے جو شخص میری قبر کے پاس مجھ پر درود پڑھے گا تو ایک فرشتہ مجھے وہ پہنچائے گا جو اس کام کے لیے مقرر ہوگا اور کفایت کرے گا وہ اس کے دنیا وآخرت کے کاموں کو اور میں قیامت کے دن اس کا گواہ ہوں گا اور شفاعت کروں گا۔
اور روایت ہے کہ ایک شخص قبر شریف کے پاس آ کر سلام عرض کیا کرتا تھا حسن بن حسین نے اس کو فرمایا کہ تو اور وہ شخص جو اندلس میں ہو برابر ہیں۔ یعنی آنحضرت ﷺ کو علم دونوں کا برابر ہے۔ چنانچہ اس کو بدیع میں نقل کیا ہے :
قد روي ان رجلا ينتاب قبر النبی ﷺ فقال الحسن بن حسين يا هذا اما انت ورجل بالاندلس سواء
اس سے ظاہر ہے کہ جو لوگ مقامات دور دراز سے آنحضرت ﷺ پر سلام عرض کیا کرتے ہیں وہ بھی حضوری سے محروم نہیں ہیں۔ اب رہی وہ حدیث شریف جو فرماتے ہیں کہ اگر کوئی میری قبر کے پاس مجھ پر سلام کرے تو میں سنتا ہوں اور دور سے ملائک پہنچاتے ہیں تو بعد ان دلائل کے جواب اس کا آسان ہے اس لیے کہ اس میں نفی سماع کی تصریح نہیں ہے۔ ایک طریقہ علم کا فرما دیا جس میں سامعین کو استبعاد بھی نہ ہو اور مقصود بھی حاصل ہو جائے۔ چونکہ عادت شریف تھی کہ حتی الامکان بحسب عقول وفہم سامعین کے کلام فرمایا کرتے تھے اور پہلے سے فرشتوں کی عظمت سامعین کے اذہان میں جمی ہوئی تھی اور ان کی وسعت علم کا کسی کو استبعاد نہ تھا اس لیے برعایت بعض سامعین ارشاد فرمایا کہ جو درود پڑھا جائے فرشتہ پہنچا دیا کرتا ہے۔ فہم سامعین کی روایت دوسری حدیثوں سے ثابت ہے چنانچہ زرقانی شرح مواہب میں روایت ہے:
حدثوا الناس بما يعرفون اتريدون ان يكذب الله ورسوله (رواه الديلمی من على ورفعه وهو فی البخاري موقوف علیه)
فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ بیان کرو تم لوگوں سے وہ باتیں جو وہ پہچانتے ہو۔ کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ اور رسول (ﷺ) کی تکذیب ہو جائے۔
یعنی ایسی باتیں کہنا چاہیے کہ مخاطب کی سمجھ میں آسکیں اور اسی مضمون کی مؤید یہ بھی حدیث ہے جو زرقانی میں مروی ہے:
وروي الحسن بن سفيان عن ابن عباس رضى الله تعالىٰ عنهما يرفعه امرت ان اخاطب الناس على قدر عقولهم قال الحافظ وسنده ضعيف جد ا لا موضوع
فرمایا رسول الله ﷺ نے کہ حکم کیا گیا میں کہ خطاب کروں لوگوں سے ان کی عقلوں کے موافق۔ انتہیٰ
اس وجہ سے جو وقائع شب معراج میں آنحضرت ﷺ نے ملاحظہ فرمائے ہر شخص سے بیان نہ فرمایا بلکہ ہر ایک کو اس کے حوصلے کے موافق خبر دی۔ چنانچہ توفیق احایث معراج میں صاحب مواہب نے اسکی تصریح کی ہے۔ الحاصل کی مصلحت سے آنحضرت ﷺ نے اس موقع میں علم ذاتی کی تصریح نہ فرمائی جو دوسری احادیث میں مصرح ہے، ورنہ سمجھ میں نہیں آتا کہ حق تعالیٰ ایک فرشتہ کو تو اس قدر علم سے سرفراز کرے اور خاص اپنے حبیب ﷺ کو اس سے ممتاز نہ فرمائے بسبب غرابت مقام کے اس پر اقتصار کیا گیا۔ یہاں کلام اس میں تھا کہ تمام روئے زمین پر جس قدر درود پڑھے جاتے ہیں سب کو ایک فرشتہ سنتا ہے اور آنحضرت ﷺ کی خدمت میں اس وقت عرض کر دیتا ہے۔ اور یہ طریقہ سوائے اس کے ہے جو عرش سے ہو کر حضور ﷺ کی خدمت میں درود گزارا جاتا ہے اور سوائے اس کے علیحدہ فرشتے بھی مقرر ہیں جو درود حضور ﷺ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ چنانچہ اس حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے۔
من صلی علی صلوة جارنی بها ملك فاقول بلغه على عشرا وقل له لو كان من هذه العشرة واحدة لدخلت معى الجنة وحلت لک شفاعتی (رواه ابو موسیٰ المدنی عن ابی ہریرۃ ذکرہٗ فی الوسیلۃ العظمیٰ)
فرمایا رسول اللہ ﷺ نے جو شخص مجھ پر ایک بار درود پڑھے ایک فرشتہ وہ درود میرے پاس لاتا ہے پس میں کہتا ہوں کہ میری طرف سے دس درود اس کو پہنچا اور کہہ دے اگر ان دس میں سے ایک بھی ہو تو تو میرے ساتھ جنت میں داخل ہو جائے اور میں تیری شفاعت کروں۔
اور اسی طرح سلام پہنچانے کے لیے بھی کئی فرشتے مقرر ہیں کہ ہمیشہ اسی تلاش میں پھرا کرتے ہیں پھر جہاں کسی نے سلام عرض کیا فوراً گزران دیتے ہیں چنانچہ مسالک الحنفاء میں روایت ہے :
عن ابن مسعود قال ان الله ملائكته سياحين يبلغونی عن امتی السلام (رواه احمد والنسائی والدارمی والبیهقی وابن حبان والحاكم فی صحیھما وقال صحیح الاسناد)
فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ حق تعالیٰ نے کئی فرشتے مقرر کئے ہیں کہ سیاحت کیا کرتے ہیں اور پہنچاتے ہیں مجھ کو سلام میری امت کا۔
پس معلوم ہوا کہ جیسے درود گزارنے جانے کے دو ذریعے ہیں اسی طرح سلام عرض ہونے کے بھی دو ذریعے ہیں ایک جبرئیل دوسرے یہ ملائک۔ مناسب اس مقام کے اور بہت سی حدیثیں صحیح وضعیف وغیرہ ہیں۔ منجملہ ان کے دو تین حدیثیں یہاں بیان کی جاتی ہیں ہر چند بعض محدثین نے ان میں کلام کیا ہے، مگر ہم اتباع ان محدثین کا کرتے ہیں جنہوں نے ان کو روایت کیا ہے۔
قسطلانی نے مسالک الحنفاء کی اس حدیث کو نقل کیا:
عن انس بن مالك عن النبی ﷺ قال من صلى على صلوة تعظيما الحقى جعل الله من تلك الكلمة ملكا جناح له فی المشرق وجناح له فی المغرب ورجلاه فى تخوم الارض وعنقه ملتوية تحت العرش يقول الله تعالى له صل على عبدى كما صلى على نبی فهو يصلى عليه الى يوم القيمة (رواه ابن شاهین فی الترغيب والديلمی فی مسند الفردوس وابن بشکوال وهذا حدیث منکر)
فرمایا رسول ﷺ نے کہ جو شخص مجھ پر ایک درود پڑھے میرے حق کی تعظیم کے واسطے تو حق تعالیٰ اس کلمہ سے ایک فرشتہ ایسا پیدا کرتا ہے کہ ایک بازو اس کا مشرق میں ہوتا ہے اور ایک مغرب میں اور پاؤں زمین کے نیچے اور عرش کے نیچے اس کی گردن جھکی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو فرماتا ہے کہ تو درود پڑھ اس میرے بندے پر جیسا کہ اس نے میرے نبی ﷺ پر درود پڑھا تو وہ قیامت تک اس پر درود پڑھتا رہے گا۔
روایت کیا اس کو ابن شاہین نے اپنی کتاب ترغیب اور دیلمی نے فردوس میں اور ابن بشکوال نے۔ اور یہ روایت بھی مسالک الحنفاء میں ہے:
وعن معاذ بن جبل الله قال قال رسول الله ﷺ ان الله اعطانی ما لم يعط احدا من الانبياء وفضلنی عليهم وجعل لامتی فی الصلوة على افضل الدرجات وعند قبرى ملكا يقال له منطوش رأسه تحت العرش ورجلاه فى تخوم الارض السفلى وله ثمانون الف جناح فی كل جناح ثمانون الف ريشة تحت كل ريشة ثمانون الف زغبة تحت كل زغبة لسان يسبح الله تعالى وبحمده وليستغفر لمن يصلى على من امتى ومن لدن رأسه الى بطون قدميه افواه ولسن وريش وزغب ليس فيه موضع شبر الا وفيه لسان يسبح الله تعالى ويحمده ويستغفر لمن يصلى على من امتى حتى يموت (رواه ابن بشكوال وهو غريب منكر بل لوائح الوضع لائحة عليه)
فرمايا رسول ﷺ نے کہ حق تعالیٰ نے مجھے دو رتبے دیئے ہیں جو کسی نبی کو نہ ملے اور مجھ کو سب نبیوں پر فضیلت دی۔ اور اعلیٰ درجے مقرر کئے میری امت کے لیے مجھ پر درود پڑھنے میں متعین فرمایا میری قبر کے پاس ایک فرشتہ جس کا نام منطوش ہے اس کا سر عرش کے نیچے اور پاؤں منتہائے زمین اسفل ہیں اور اس کے اسی ہزار بازو میں اسی ہزار پر اور نیچے ہر پر کے اسی ہزار رونگٹے اور ہر رونگٹے کے نیچے ایک زبان ہے جس سے تسبیح وتحمید اللہ تعالیٰ کی کیا کرتا ہے اور اس شخص کے لیے دعائے مغفرت کیا کرتا ہے جو میرا امتی مجھ پر درود پڑھے اس کے سر سے بدن کے نیچے تک تمام منہ اور زبانیں اور پر اور رونگٹے ہیں کہیں بالشت بھر جگہ اس میں ایسی نہیں کہ جس میں زبان نہ ہو اور اس کا کام یہ ہے کہ تسبیح اور تحمید اللہ تعالیٰ کی اور طلب مغفرت ان لوگوں کے حق میں کیا کرے جو مجھ پر درود پڑھا کرتے ہیں مرنے تک۔ (روایت کیا ابن بشکول نے)
اب یہاں یہ امر پیش نظر ہے کہ اس سلام کی کس قدر وقعت ہے جو عین نماز میں ضروری ٹھہرایا گیا، حالانکہ نماز عبادت محضہ ہے اور ظاہر ہے کہ عبادت میں توجہ صرف معبود حقیقی کی طرف چاہیے اگر کہا جائے کہ وہ سلام جو التحیات میں پڑھا جاتا ہے یعنی السلام عليك ايها النبی اس سے خطاب مقصود نہیں بلکہ حکایت ہے شب معراج کی۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس صورت میں التحیات کا کوئی مطلب ہی نہ ہوا صرف الفاظ ہی رہ گئے نہ التحیات للہ سے تمام تحیات اللہ تعالیٰ کے لیے ہونے کا اعتراف ہوا، نہ اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ سے توحید پر شہادت ہوئی۔ حالانکہ جب رسول اکرم ﷺ نے التحیات کی تعلیم فرمائی یہ نہ کہا کہ شب معراج میں اس قسم کا مخاطبہ ہوا تھا اور بطور حکایت اس کو پڑھنا چاہیے۔ حدیث تعلیم التحیات کی یہ ہے جس کو ابن تیمیہ نے مشقی الاخبار میں روایت کیا ہے:
عن ابی مسعود قال علمنی رسول الله ﷺ التشهد كفى بين كفيه كما يعلمنی السورة من القرآن التحيات لله والصلوات والطيبات السلام عليك ايها النبى ورحمة الله وبركاته السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين اشهد ان لا اله الا الله واشهد ان محمداً عبده ورسوله. رواه الجماعة وفی لفظ ان النبى قال اذا قعد احدكم فی الصلوةِ فَلْيَقُلْ التحيات لله وذكرہ وفيه عند قوله وعلى عباد الله الصَّالِحِينَ فَإِنَّكُمْ اذا فعلتم ذلك فقد سلمتم على كل عبد الله صالح فی السماء والأرض وفی اخره ثم يتخير من المسألة ماشاء متفق عليه وعن ابن مسعود قال كنا نقول قبل أن يفرض علينا التشهد السلام على الله السلام على جبرئيل وميكائيل فقال رسول الله لا تقولوا هكذا ولكن قولوا التحيات لله ذكره الدار قطنی وقال اسناده صحيح وهذا يدل على انه فرض
خلاصہ ان تینوں روایتوں کا یہ ہے کہ روایت ہے، ابن مسعودسے کہا انہوں نے کہ تشہد فرض ہونے کے پیشتر ہم لوگ السلام علی الله، السلام على جبرئيل وميكائيل کہا کرتے تھے۔ پس فرمایا حضور ﷺ نے کہ ایسا مت کہو، پس جب کوئی نماز میں بیٹھے تو چاہیے کہ کہے التحیات للہ آخر تک اور سکھایا مجھ کو حضور ﷺ نے یہ التحیات میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر جیسا کوئی سورۂ قرآن کا تعلیم فرماتے تھے۔ اور فرمایا کہ جب تم نے وعلی عباد الله الصالحین کہا تو گویا سلام کیا تم نے ہر بندہ صالح پر خواہ آسمان میں ہو وہ یا زمین میں، روایت کیا اس کو اہل صحاح ستہ اور امام احمد بن حنبل اور دار قطنی نے بحسب تفصیل مذکور۔ پھر کہا ابن تیمیہ نے کہ اس سے معلوم ہوتا ہے التحیات صحابہ پر فرض تھی۔ انتہیٰ
مخلصاً ہر چند الفاظ التحیات کے مختلف طور پر وارد ہیں مگر جن میں السلام علیک ایھا النبی آنحضرت ﷺ سے مروی ہے ان احادیث کو بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، امام احمد بن حنبل، ابن ابی شیبہ اور عبد الرزاق نے روایت کی ہے۔ (کما فی کنز العمال) ان روایات سے کسی میں یہ بات نہیں ہے کہ وہ سلام بطور حکایت پڑھا جائے پھر جب حکایت ہونا اس کا ثابت نہ ہوا تو معنی مقصود بالذات ہوئے جس سے ثابت ہوا کہ بطور انشاء کہا جائے جیسا کہ شیخ عابد سندھی نے طوالع الانوار شرح در مختار میں اس کی تصریح کی ہے۔ کما سیجئی
دوسری دلیل یہ ہے کہ صحابہ السلام علی جبرئیل ومیکائیل اور بروایت امام محمد بن حنبل السلام علی فلان وفلان کہا کرتے تھے آنحضرت ﷺ نے اس سے منع فرمایا اور ارشاد کیا کہ جب تم السلام علينا وعلى عباد الله الصالحین کہو گے تو تمہارا سلام تمام مقربین ومرسلین وصالحین کو پہنچ جائے گا۔ اس سے ظاہر ہے کہ یہ سلام بطور انشاء ہے، نہ بطور حکایت۔ اگر چہ یہ کہ آنحضرت ﷺ کو بھی اسی تعمیم میں سلام پہنچ سکتا تھا لیکن چونکہ اس میں کوئی خصوصیت آنحضرت ﷺ کی نہیں رہتی تھے اس لیے ضرور ہوا کہ بحسب مرتبہ آنحضرت ﷺ کی طرف متوجہ ہو کر خطاب کے ساتھ سلام عرض کرے اور تکمیل تحیت کے واسطے ورحمۃ اللہ وبرکاتہ بھی زیادہ کرے جس سے اعتنا بالشان اس سلام کا ظاہر ہوتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ جیسا السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين انشاء ہے ویسا ہی السلام علیک بھی انشاء ہے۔
تیسری دلیل یہ ہے السلام علیک ایھا النبی جس میں خطاب وندا ہے متواتر ہے بتواتر لفظی اگر معنی اس سے مراد نہ لیے جائیں تو ایک قسم کا نسخ لازم آئے گا۔ پھر دلیل نسخ کو چاہیے کہ ویسی ہی قطعی ہو اور مخاطبہ شب معراج کا احادیث صحیحہ سے اگر ثابت ہو جائے جب بھی اس متواتر کا نسخ اس سے نہ ہو سکے گا اس لیے کہ ان کو وہ احادیث احاد ہوں گی جس میں قطعیت نہیں۔ دوسرا یہ کہ اس التحیات کو اس کے ساتھ کچھ نسبت نہیں غایۃ الامر یہ ہے کہ ہیئت دونوں کی ایک ہوگی لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ اس کی حکایت ہو۔ بلکہ وہاں جیسا حق تعالیٰ نے بطور انشاء فرمایا تھا ویسا ہی یہاں مصلی بطور انشاء عرض کرتا ہے۔ الحاصل بعد تصحیح ان احادیث کے اس متواتر کے نسخ کے لیے یہ بات ضرور ہے کہ بطور حکایت پڑھنے کے امر بتواتر ثابت کیا جائے۔ واذ لیس فلیس
چوتھی دلیل یہ ہے کہ جب آیہ شریفہ
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ
نازل ہوئی صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ سلام کا طریقہ تو ہم نے جان لیا صلوٰة کا طور ارشاد فرمائیے۔ چنانچہ در منثور میں امام سیوطی نے روایت کی ہے۔
واخرج ابن ابی سعید واحمد بن حميد والبخاري والنسائی وابن ماجة وابن مردوية عن ابی سعيد الخدري قال قلنا يا رسول الله هذا السلام عليك قد علمناه فكيف الصلوة قال قولوا اللهم صل على محمد (الحدیث)
امام سخاوی نے قول بدیع میں لکھا ہے کہ مراد اس سلام سے جس کی نسبت صحابہ نے اپنا علم ظاہر کیا سلام تشہد ہے۔ یعنی
السلام علیك ايها النبى حيث قال والمراد بقولهم السلام عليك فقد عرفناه فكيف الصلوة عليك فاعلمهم اياه فی التشهد من قولهم السلام عليك ايها النبی ورحمة الله وبركاته فيكون المراد بقولهم فكيف نصلى علیک ای بعد التشهد قاله البيهقى
اس سے ظاہر ہے کہ صحابہ کرام کے نزدیک یہ سلام انشائے تحیت تھا اس لیے کہ سلموا کے امتثال میں اس کو قرار دیا تھا اور امتثال کے لیے انشاء کی ضرورت ہے حکایت مفید نہیں ہو سکتی۔
پانچویں دلیل یہ ہے کہ امام سخاوی نے لکھا ہے کہ سلام عرض کرنا آنحضرت ﷺ پر کئی مواقع میں واجب ہے۔ ایک تشہد اخیر میں اور امام شافعی کے نزدیک دوسرا نام مبارک آپ کا سن کر تیسرا جب قبر شریف کے پاس حاضر ہو۔
حيث قال فی القول البديع وليعلم انه يرتقى درجه التسليم عليه وسلم الى الوجوب فی مواضع الأول فی التشهد الأخير نص عليه الشافعی رحمة الله عليه الثانى ما نقله الحليمی انه يجب التسليم على النبی كلما ذكر وفى الشفاء نقلاً عن القاضی ابی بكر بن بكر نزلت هذه الآية على النبی فامره الله اصحابه ان تسلموا عليه وكذالك من بعدهم امروا ان يسلموا على النبی عند حضورهم قبره وعند ذكره
چھٹی دلیل شیخ عابد سندھی نے طوالع الانوار شرح در مختار میں لکھا ہے کہ السلام علیک ایھا النبی کے معنی کو مقصود بالذات سمجھے اور بطور انشاء سلام عرض کرے۔
كما قال ويقصد بالفاظ التشهد معانيها حال كون تلك الالفاظ مراة له اى مقصودة لنفسه على وجه الانشاء وكانه يحى الله تعالىٰ ويسلم على نبيه ﷺ بقوله السلام عليك ايها النبی ورحمة الله وبركاته فان قيل كيف شرع هذا اللفظ وهو خطاب بشر مع كونه منهيا فی الصلوة اجيب عن ذالك باجوبة۔انتهیٰ
نادرہ ندائے غیب کے مسئلہ میں جب استدلال السلام عليك ايها النبی کے ساتھ کیا جائے تو بعض لوگ اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ یہاں ندا مقصود نہیں بلکہ یہ حکایت ہے مخاطبہ شب معراج کی۔ پھر جو ان سے پوچھا جائے کہ کیا اس حدیث کو مانتے ہو تو کہتے ہیں کہ اگر وہ حدیث مانی جائے تو اس سے آنحضرت ﷺ کا عرش پر جانا ثابت ہوتا ہے حالانکہ سدرۃ المنتہیٰ سے اس طرف جانے میں کوئی حدیث صحیح یا حسن محدثین کے پاس ثابت نہیں۔ یہ عجیب بات ہے کہ اگر نماز کی التحیات کو حکایت اس کی قرار دیں تو چاہیے کہ محکی عنہ کو اپنے قواعد کے موافق ثابت کریں یا مان لیں اور اگر محکی عنہ کا انکار ہے تو حکایت کا نام نہ لیں۔ اس کے کیا معنی کہ حکایت میں تو وہ زور وشور اور محکی عنہ سے بالکل انکار کیا، اس کو الف لیلیٰ کی حکایت سمجھی ہے جس میں محکی عنہ سے کچھ بحث نہیں۔ الحاصل ہر مسلمان کو چاہیے کہ نماز میں آنحضرت ﷺ کی طرف متوجہ ہو کر سلام عرض کرے اور شک نہ کرے کہ اس میں شرک فی العبادت ہوگا کیونکہ جب شارع کی طرف سے اس کا امر ہو گیا تو اب جتنے خیالات اس کے خلاف میں ہوں وہ سب بیہودہ اور فاسد سمجھے جائیں گے اس میں تعلل ایسا ہوگا جیسے ابلیس نے حضرت آدمکے سجدے میں تعلیل کیا تھا۔ اب یہ بات معلوم کرنا چاہیے کہ جب اس سلام کا یہ رتبہ ہوا کہ ایک حصہ عبادت محضہ یعنی نماز کا اس کے لیے خاص کیا گیا تو دوسرے اوقات میں ہم لوگوں کو کس قدر اہتمام وآداب چاہیے ہر چند کہ عوام الناس اس قسم کے امور سے مرفوع القلم ہیں کیونکہ ان کو تو اسی قدر کافی ہے کہ جتنا شارع نے ضروری بتایا اتنا کر دیا مگر اہل عقل وتمیز کو چاہیے کہ ایسے امور میں غور وفکر کیا کریں اور ادب سیکھیں، العاقل تکفیہ الاشارة۔ الغرض جب کسی وقت خاص میں سلام عرض کرے تو چاہیے کہ کمال ادب کے ساتھ کھڑا ہو اور دست بستہ ہو کر السلام علیک یا سیدنا رسول الله السلام علیک یا سیدنا سید الاولین والآخرين وغیرہ صیغہ جن میں حضرت ﷺ کی عظمت معلوم ہو عرض کرے۔ اب یہاں شاید کوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ قیام تشبیہ بالعبادت ہے اور وہ جائز نہیں۔ تو جواب اس کا یہ ہے جب عین عبادت میں یہ سلام جائز ہو تو تشبیہ بالعبادت میں کیوں نہ ہو۔ اگر کہا جائے کہ قوموا الله قانتین سے معلوم ہوتا ہے کہ قیام خاص اللہ کے واسطے چاہیے تو ہم کہیں گے کہ بے شک نماز کا قیام خاص اللہ کے واسطے ہے اور اگر مطلق قیام کی اس میں تخصیص ہوتی تو لفظ اللہ کی ضرورت نہ تھی۔ خلاصہ یہ کہ اس آیہ شریفہ سے نماز کا قیام فرض ہوا نہ یہ کہ انحصار قیام کا اس میں ثابت ہوا۔ اگر یہی بات ہوتی تو کوئی قیام درست ہی نہ ہوتا حالانکہ جمہور محدثین وفقہاء کے نزدیک علاوہ اور مقاموں کے کسی کے اکرام کے واسطے کھڑے رہنا بھی درست ہے۔ چنانچہ اس مسئلہ کو حافظ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری میں بشرح وسط لکھا ہے ما حصل اس کا یہ ہے احکام قیام کے مختلف ہیں ایک وہ کہ جیسے امراء وسلاطین مثلاً بیٹھے ہوتے ہیں اور خدام واتباع ان کے تعظیماً روبرو کھڑے رہتے ہیں یہ بالاتفاق نا جائز ہے۔ دوسرا وہ کہ جیسے کوئی سفر سے آئے یا کوئی خوشخبری یا تہنیت آنے والے کو دینا ہو، ایسے مواقع میں قیام بالاتفاق جائز ہے۔ تیرا کسی کے اکرام کے واسطے کھڑا رہنا جس کو ہمارے محاورہ میں تعظیم کہتے ہیں یہ صورت مختلف فیہ ہے ابن قیم اور ابو عبد اللہ ابن الحاج کے پاس نا جائز ہے اور امام مالک اور عمر بن عبد العزیز اور امام بخاری اور مسلم، ابو داؤد، بیہقی، طبرانی، ابن بطال خطابی، منذری، تورپشتی اور امام نووی کے اقوال سے اس کا جواز ثابت ہے۔
اگر عام جن وانس آنحضرت ﷺ کی عظمت کو نہ مانیں تو انہیں کا نقصان ہوگا اس سے عظمت میں حضرت ﷺ کے کسی قسم کا دھبہ نہیں آسکتا۔ اب یہ دیکھنا چاہیے کہ باوجود اتنے معجزات اور کھلی کھلی دلیلوں کے کیا سبب تھا کہ کفار کو آنحضرت ﷺ کی عظمت میں کلام رہا۔ کیا بات یہ ہے کہ ہر نفس کی جبلت میں یہ بات رکھی ہوئی ہے کہ کسی نہ کسی طرح اپنے ہم جنس پر اپنی تعلی اور بڑائی ہو۔ چنانچہ لڑکوں تک یہ بات دیکھی جاتی ہے کہ اگر ان کی ہم جنس کسی لڑکے سے انہیں اچھا کہے تو خوش اور برا کہے تو نا خوش ہوتے ہیں بلکہ رونے لگتے ہیں۔ چونکہ مرتبہ رسالت کا کفار کے ذہنوں میں نہایت جلیل القدر تھا اور تصدیق رسالت میں انبیاء کی طرح ان پر فضیلت ثابت ہوتی تھی جس سے وہ اپنی کسر شان سمجھے تھے اس لیے نفوس پر ان کے یہ امر نہایت شاق ہوا اور کہنے لگے
اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَایعنی تم تو ہم جیسے بشر ہی ہو، کچھ فرشتہ نہیں}}
جو فضیلت تمہاری مانی جائے حالانکہ ابتداء دعوت انبیاء کی صرف توحید کی طرف تھی جس کے کفار بھی مقر تھے۔ چنانچہ حق تعالیٰ فرماتا ہے:
وَلَئِنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْاَرْضَ لَيَقُولُنَّ الله
اگر پوچھیں آپ کہ کس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو تو البتہ کہیں گے اللهوقال الله تعالى
وَلَئِن سَأَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ الله
اگر پوچھیں آپ ان سے کہ کس نے پیدا کیا ان کو البتہ کہیں گے اللہوقال الله تعالیٰ
قُلْ تَعَالَوْا اِلىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ اَنْ لَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللهَ
کہیے کہ آؤ طرف ایک بات کے جو برابر ہے تم میں اور ہم میں کہ نہ عبادت کریں ہم سوائے اللہ تعالیٰ کے۔
quranic-verse
اور کہنے لگے یہ کیا رسول ہے کہ کھانا کھاتا ہے اور پھرتا ہے بازاروں میںايضًا
فَقَالَ الْمَلَاءُ الَّذِينَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِهِ مَا هٰذَا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُرِيدُ أَن يَتَفَضَّلَ عَلَيْكُمْ وَلَوْ شَاءَ اللّٰهُ لَاَنْزَلَ مَلٰئِکَة
تب بولے سردار جو منکر تھے اس قوم کے یہ کیا ہے ایک آدمی ہے جیسے تم، چاہتا ہے کہ بڑائی کرے تم پر اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو اتارتا فرشتے۔ایضًا
وَقَالَ الْمَلَاءُ مِنْ قَوْمِهِ الَّذِينَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوْا بِلِقَاءِ الآخِرَةِ وَاَتْرَفْنَاهُمْ فِی الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا مَا هَذَا إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يَاْكُلُ مِمَّا تَأْكُلُوْنَ مِنْهُ وَيَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُونَ وَلَئِنْ أَطَعْتُمْ بَشَرًا مِّثْلَكُمْ إِنَّكُمْ إِذًا لَّخَاسِرُونَ
اور بولے سردار ان کی قوم کے جو منکر تھے اور جھٹلاتے تھے آخرت کی ملاقات کو جن کو آرام دیا تھا ہم نے دنیا کی زندگی میں اور کچھ نہیں یہ ایک آدمی ہے جیسے تم، کھانا کھاتے ہو جس قسم سے تم کھاتے ہو اور پیتے ہو جس قسم سے تم پیتے ہو اور اگر اطاعت کی تم نے اپنے برابر کے آدمی کی تو تم بیشک خراب ہوئے۔
الحاصل خود بینی اور خودسری نے انہیں اندھا بنا دیا تھا۔ کسی نے یہ نہ سمجھا کہ اگر خدائے تعالیٰ کسی خاص بشر کو اپنے فضل سے سب پر فضیلت دے دے تو کونسا نقصان لازم آجائے گا چنانچہ خود انبیاء نے اس قسم کا جواب بھی دیا: کما قال تعالی
قَالَت لَهُمْ رُسُلُهُمْ إِنْ نَحْنُ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَمُنُّ عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِه
کہا اُن کو اُن کے پیغمبروں نے کہ ہم بھی بشر ہیں جیسے تم، لیکن اللہ تعالیٰ فضل کرتا ہے جس پر چاہتا ہے۔
مگر یہ جواب کب مفید ہو سکتا تھا وہاں تو مہار اختیار کی نفس امارہ کے ہاتھ تھی۔ پھر اس کو کون ضرورت تھی جو خواہ مخواہ اپنی خاص صفت تعلی کو چھوڑ کر ذلت اختیار کرے۔ یہ تو انہیں کا کام تھا جنہوں نے پہلے پہل نفس پر ایک ایسا حملہ کیا کہ زمام اختیار کو اس کے ہاتھ سے چھین لیا۔ پھر اس کی اصلاح کے درپے ہوئے اور ماشاء اللہ خوب ہی اصلاح کی، یا تو وہ تھا کہ نبی کے مقابلہ میں اس کو ذلت ناگوار ہوتی تھی یا یہ حالت ہوئی کہ اپنے جنس والے ہر ادنی واعلیٰ کے مقابلہ میں ہمسری کا دعویٰ نہیں۔ چنانچہ حق تعالیٰ ان کی صفت میں فرماتا ہے: اذلة على الْمُؤْمِنين جب مومنین کے ساتھ یہ حالت ہو تو خیال کرنا چاہیے کہ خود آنحضرت ﷺ کے ساتھ ان کا کس قسم کا معاملہ ہوگا۔ ایک بات تو ابھی معلوم ہوئی کہ سب صحابہ حضرت ﷺ کو سجدہ کرنے پر آمادہ ہو گئے تھے۔ اگر کسی کو عقل سلیم اور فہم مستقیم حاصل ہو تو سمجھ سکتا ہے کہ کس قدر عظمت آنحضرت ﷺ کی صحابہ کے پیش نظر ہوگی جس نے کمال تذلیل کو جو سجدہ کرنے میں ہے آسان کر دیا تھا۔ اب سمجھنا چاہیے کہ اس قدر عظمت آنحضرت ﷺ کی صحابہ کے دلوں میں کیونکر ممکن ہوئی حالانکہ خود آنحضرت ﷺ نے بموجب ارشاد حق تعالیٰ فرما دیا:
قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمُ
وجہ اس کی یہ معلوم ہوتی ہے کہ ان حضرات نے جب دیکھا کہ کفار کو آیہ شریفہ وَلكِنَّ اللهَ يَمُنُّ عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِہ کے مضمون کی طرف بالکل توجہ نہیں اور صرف دعویٰ ہمسری میں خراب ہوئے جاتے ہیں اس لیے برخلاف ان کے اس آیت کے مضمون کو اپنا پیش رو بنایا اور اس میں اس قدر استغراق حاصل کیا کہ گویا
اِنَّمَا انا بشر مثلُكُمْ
کو سنا ہی نہیں۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے سجدہ پر آمادگی ظاہر کی اور حضرت کو پھر بشریت کا مضمون یاد دلانے کی گویا ضرورت ہوئی۔ چنانچہ فرمایا کہ بشر کو بشر کا سجدہ کرنا مناسب نہیں جیسا کہ ابھی معلوم ہوا۔ مولانا روم فرماتے ہیں۔
شاہ دیں رامنگر اے ناداں بطیں کیں نظر کرده است ابلیس لعیں
نیست ترکیب محمد لحم وپوست گر چہ در ترکیب ہرتن جنس اوست
گوشت دارد پوست دارد استخواں ہیچ این ترکیب را باشد ہماں
کاند راں ترکیب باشد معجزات کہ ہمہ ترکیب ہا گشتند مات
اس قسم کی عظمت آنحضرت ﷺ کی جیسی صحابہ کے دلوں میں تھی ایک مدت تک مسلمانوں کے دلوں میں رہی جس کا حال ان شاء اللہ آئندہ لکھا جائے گا۔ مگر افسوس ہے کہ چند روز سے پھر وہی مساوات کا خیال آخری زمانے کے بعض مسلمانوں کے سروں میں سمایا اور گویا یہ فکر شروع ہوئی کہ وہ سب باتیں تازہ ہو جائیں، اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ میں خوض ہوتا ہے، کبھی کہا جاتا ہے کہ ہم لوگوں کو حضور ﷺ نے بھائی کہا ہے اس لیے حضرت ﷺ بڑے بھائی ہیں، اب اس خیال نے یہاں تک پہنچا دیا ہے کہ وہ آیات واحادیث منتخب کی جاتی ہیں جن سے اُن کے زعم میں منقصت شان ہو، اور وہ احادیث کہ آنحضرت ﷺ نے براہ تواضع کچھ فرمایا ہے اپنی دانست میں ان کو کسر شان کے باب میں قرار دے کر شائع کی جاتی ہیں۔ ہم نے مانا کہ نقلا وعقلاً ہر طرح سے اس مسئلہ میں زور لگایا جائے گا لیکن یہ دیکھنا چاہیے کہ انتہاء اس کی کہاں ہوگی۔ ہم یقین سمجھتے ہیں کہ آخر یہ حضرات بھی مسلمان ہیں، آنحضرت ﷺ کے رتبے کو اس سے تو ہرگز کم نہ بیان کریں گے کہ جس قدر کفار سمجھتے تھے یعنی بشر مثلنا مگر معلوم نہیں اس سعی کا کیا نتیجہ ہوگا اتنی بات تو کافروں سے پوچھنے میں حاصل ہو جاتی ہے، اس میں نہ قرآن کی ضرورت ہے، نہ حدیث کی۔ اب اس کے ساتھ یہ بھی دیکھ لیا جائے کہ ہم لوگ جو آیات واحادیث سے استدلال کر کے بیان عظمت میں آنحضرت ﷺ کے مبالغہ کرتے ہیں انتہا اس کی کہاں ہوگی۔ یہ بات ہر جاہل سے جاہل جانتا ہے کہ حضور ﷺ مخلوق اور بشر ہیں اور حق تعالیٰ خالق ہے۔ اب انتہا اس مبالغے کی یہی ہوگی کہ حضور ﷺ کا رتبہ قریب مرتبہ مسجودیت کے سمجھا جائے گا وہ بھی اس وجہ سے کہ ایک عالم آپ کو سجدہ کرتا تھا اور صحابہ بھی سجدہ کرنے کے لیے مستعد ہو گئے تھے، غرض اس مبالغے کی حد وہ ہوگی جو صحابہ کی حسن عقیدت تھی۔ اب ہم سے یہ نہیں ہو سکتا کہ جس راہ کو صحابہ نے مدت العمر طے کیا اور جس مقام پر عمر بھر سر لگائے رہے جہاں سے وہ فتحیاب ہوئے اس مقام کو چھوڑ دیں اور اس راہ میں رجعۃ القہقری کر کے وہ راستہ چلیں جو کفار کی حد اعتقاد کو یعنی
ان انتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُنَا
کو پہنچادے، جہاں سے کفار بڑھ نہیں سکتے۔
ترسم نرسی بکعبہ اے اعرابی کیں رہ کہ تو میروی ترکستان است
کسی بزرگ نے ہم لوگوں کے اعتقاد کی شرح ایک چھوٹے سے جملے میں نہایت ہی مبسوط کی ہے کہ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر۔ یقین ہے کہ اس تقریر سے اہل انصاف پر دونوں راستے اور ان کی انتہا اور حسن وقبح ہر ایک کی منکشف ہوگئی ہوگی۔ طالب راہ حق کو چاہیے کہ جب کسی کو اپنا رہبر بنائے تو پہلے اس امر کی بخوبی تحقیق کرلے کہ کونسی راہ لے جائے گا۔ اگر بے چارے جاہل کوتاہی نظر سے دریافت نہ کر سکیں تو معذور ہیں مگر اہل امتیاز انداز کلام اور طرز بیان سے معلوم کر سکتے ہیں کہ وہ شخص کسی راہ کی آمادگی کر رہا ہے۔ مثلاً کسی نے وہ حدیث پڑھی جس میں آنحضرت ﷺ نے متاخرین کو اپنا بھائی فرمایا ہے، یہاں ایک تو وہ شخص ہوگا کہ مارے شرم کے سر ہی نہ اٹھا سکے گا کیونکہ اگر کوئی اچھی طرح آنکھیں مل کر اپنی حالت کو دیکھے تو معلوم ہو کہ کسی قدر آلودہ عصیان ہے۔ اسی کتاب میں بخاری شریف کی روایت سے ثابت ہو چکا ہے کہ صحابہ جب کبھی اپنے احوال پر نظر ڈالتے، نفاق کا خوف آجاتا۔ معلوم نہیں کہ باوجود ان کی بشارتوں کے کس چیز نے انہیں خوف میں ڈال رکھا تھا ، جب ان حضرات کا یہ حال ہو تو پھر کس کا منہ ہے جو کچھ دعویٰ کر سکے، غرض کہ بھائی سمجھنا تو کہاں ایسے خیالات کبھی تو نسبت غلامی سے بھی خجالت پیدا کیے دیتے ہیں، چنانچہ کسی بزرگ نے کہا ہے۔
نسبت خود بسگت کردم وبس منفعلم
منشا اس کا اگر دیکھئے تو صرف یہی ہے کہ نقشہ اپنے سارے اعمال کا آنکھوں کے سامنے کھنچ گیا ہے جس سے ندامت کے پورے پورے آثار دل میں نمایاں ہیں۔ اور قریب ہے کہ دروازہ توبہ کا کھل جائے اور کبھی اشفاق ومراحم، شفیع المذنبین کا تصور ادائی شکریہ میں مصروف کر دیتا ہے کہ ہر چند ہم میں قابلیت نہیں مگر شان رحمۃ للعٰلمینی ہے کہ اس درجہ قدر افزائی کی ایسے آقائے مہربان پر قربان ہونا چاہیے کہ ہم جیسے غلاموں کو بھی یاد کیا اور اس سرفرازی کے ساتھ جو دوسروں کو نصیب نہیں۔
الحاصل اس حدیث شریف کے ذکر کرتے وقت اس شخص کی کچھ کیفیت ہی اور ہے اور وہ نورانیت کے آثار مرتب ہیں جو عموماً اعمال پر غالباً مرتب ہو سکیں، اس قسم کے قدر افزائیوں کا لطف وہی لوگ جانتے ہیں جن کو بارگاہ نبوی ﷺ کے ساتھ خاص قسم کی نسبت ہے۔ حضرت عمر فرماتے ہیں کہ میں نے ایک بار آنحضرت ﷺ سے عمرہ ادا کرنے کی اجازت چاہی، حضور ﷺ نے اجازت دے کر فرمایا کہ اے بھائی اپنی دعا میں ہمیں نہ بھولیو، وہ فرماتے ہیں کہ یہ ارشاد مجھ میں اس قدر اثر کیا کہ اگر تمام روئے زمین میری ملک ہوجائے تو ان الفاظ کے مقابلے میں میرے پاس وہ کچھ چیز نہیں۔
كما فی كنز العمال عن عمر رضی الله عنه قال استاذنت النبی ﷺ فی العمرة فاذن لی وقال لا تنسنا اخی من دعائك او قال اشركنا يا اخی فی دعائك كلمته ما احب ان لى بها ما طلعت عليه الشمس۔ (وابن سعد حم دت حسن صحیح ع والشاشی ص ق)
بظاہر یہ ارشاد آقا کا کوئی ایسی بڑی بات نہیں، صرف دعا کرنے کو فرمایا تھا مگر اس کی وقعت کا اندازہ سیدنا حضرت عمر کا ہی دل کر سکتا تھا کہ تمام روئے زمین کی سلطنت ایک طرف تھی اور اس مختصر کلمہ کی شان دل ربائی ایک طرف۔ غرض اس حدیث مذکورہ بالا کو سن کر ایک شخص کے دل کی وہ حالت ہوگی جو خارج از بیان ہے اور ایک شخص وہ ہوگا کہ اسی حدیث شریف سے یہ بات نکالے گا کہ اخوة امر اضافی ہے تقدم وتاخر زمانہ کے اعتبار سے، اگر فرق ہے تو بڑے چھوٹے کا یعنی حضرت ﷺ بڑے بھائی ہوئے اور ہم چھوٹے بھائی (نعوذ باللہ من ذالک)۔ ایسے شخص کو اس حدیث شریف سے اس قدر حصہ ملا کہ سر میں ہمسری سمائی اور یہ خیال بڑھتا چلا یہاں تک کہ رفتہ رفتہ إِن كُنتُمْ إِلَّا بَشَرٌ تک پہنچا دیا۔ اب یہ شخص اس دہن میں ہوگا کہ جہاں خود پہنچا ہے اوروں کو بھی وہیں پہنچا دے۔ شاید اسکے خیال میں یہ بھی نہ آیا ہوگا کہ ہم کہاں اور شان رحمۃ للعالمین وسید المرسلین کہاں؟ چہ نسبت خاک را با عالم پاک۔ اکثر اکابر وسلاطین خادموں اور غلاموں کو بھائی کہہ دیا کرتے ہیں بلکہ خود احادیث میں وارد ہے کہ تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں۔ اگر بادشاہ کہنے سے یا اس حدیث سے خدام اور غلام اپنے آقا کو بھائی کہنے لگیں تو ظاہر ہے کہ نہایت بے ادب واحمق سمجھے جائیں گے۔ حضرت عمر نے باوجود اس قرابت کے جو اظہر من الشمس ہے اپنے کو حضور ﷺ کی غلامی کے ساتھ منسوب کیا۔ چنانچہ مستدرک میں حاکم نے روایت کیا ہے۔
عن سعيد بن المسيب قال لما ولى عمر بن الخطاب رضی الله عنه خاطب الناس على منبر رسول الله ﷺ فحمد الله واثنى عليه ثم قال ايها الناس انی قد علمت انکم تونسون منى شدة وغلظة وذلك انى كنت مع رسول الله ﷺ فكنت عبده وخادمه وكان كما قال الله تعالى بالمؤمنين رحيما فكنت بين يديه كالسيف المسلول الا ان يغمدنی اوينها فی عن امر فاكف والا اقدمت على الناس لمكان لنيته هذا حديث صحيح الاسناد
روایت ہے سعید بن مسیب سے کہ جب سیدنا عمر بن خطاب مسند نشین خلافت ہوئے رسول اللہ ﷺ کے منبر پر خطبہ پڑھا کہ آپ لوگ جو لوگ مجھ میں شدت اور سختی دیکھتے ہو، اس کا سبب یہ ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کا غلام اور خادم تھا چونکہ حضرت ﷺ رحیم تھے جیسا کہ حق تعالیٰ فرماتا ہے:
وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًااور لوگ حضرت ﷺ کی نرمی کی وجہ سے جرات کرتے تھے اس سبب سے میں حضرت ﷺ کے روبرو مثل شمشیر برہنہ کے رہتا، اگر میان کرتے اور منع فرما دیتے تو باز رہتا تھا، ورنہ پیش قدمی کرتا۔ }}
کہا حاکم نے کہ حدیث صحیح ہے۔
quranic-verse
نہیں ہیں محمد ﷺ باپ کسی کے تمہارے مردوں میں لیکن رسول ہیں اللہ تعالیٰ کے اور ختم کرنے والے ہیں تمام نبیوں کے۔
دیکھئے باوجود قرینہ قطعیہ کے حضور ﷺ کا والد ہونا ناگوار ہے تو اخوة کی تساوی کیونکر گوارا ہوگی۔ ارباب بصیرت سمجھتے ہوں گے کہ وَكَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَئٍ عَلِيمًا میں حضور ﷺ کے علو شان کی طرف کیسا لطیف اشارہ ہے اس وجہ سے لکن جو استدراک کے لیے آتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابوۃ کی نفی میں کسی قسم کا توہم پیدا ہوتا تھا جو اس سے دور کیا گیا اور یہ تو ظاہر ہے کہ حضرت محمد ﷺ کسی مرد کے باپ نہ تھے یہاں توہم کا کوئی محل نہیں رہا۔ کسی متبنی کے باپ ہونا تو اس میں بھی کوئی توہم نہیں ہو سکتا کیونکہ متبنی لینے والے کو بھی عرف میں باپ کہا کرتے تھے پھر جب صراحۃً اس کی نفی ہوگئی تو معلوم ہو گیا کہ یہ اطلاق شریعت میں درست نہیں۔ اس میں توہم کو کیا دخل جو ولكن رَسُولَ اللّٰہ سے دفع کیا جا رہا ہے اور ان صفات کی تصریح سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ توہم حضرت ﷺ کے منصب رسالت سے متعلق ہے تا ابوة ورسالت میں مناسبت ہو ورنہ اس کی یہ مثال ہوگی ما كان زيد ابا عمرو لكنه كاتب بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ ہر شخص کے نزدیک اپنے باپ کی وہ وقعت ہوا کرتی ہے کہ عالی سے عالی اسی کا مرتبہ سمجھا کرتا ہے اس سبب سے یا ازواجہ امهاتهم وغیرہ اسباب سے صحابہ آنحضرت ﷺ کو بجائے والد سمجھتے ہوں گے جب حق تعالیٰ نے فرمایا کہ حضرت ﷺ کسی کے باپ نہیں تو اب ایک قسم کا توہم پیدا ہوا کہ پھر کیا سمجھنا چاہیے۔ ارشاد ہوا کہ لکن اللہ کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں پھر یہاں یہ شبہ پیدا ہوا کہ مخلوقات میں باپ سے زیادہ اور کیا رتبہ ہوگا تو گویا اس کے جواب میں ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جانتا ہے کہ باپ کا کس قدر رتبہ ہوتا اور رسول اللہ ﷺ کا کس قدر۔ مطلب یہ ہوا کہ ان دونوں مرتبوں میں کوئی نسبت نہیں۔ پہلے خیال کو چھوڑ دو اور حضرت ﷺ کو انہی مراتب کے ساتھ متصف سمجھو اور فرق مراتب کو اللہ تعالیٰ پر سونپ دو، وہی ہر چیز کو جانتا ہے تمہاری عقلیں ان امور میں نہیں پہنچ سکتیں۔
هذا ماظهر لی والله اعلم بمراده
حق تعالیٰ فرماتا ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا
اے وہ لوگو جو ایمان لائے مت کہو راعنا اور کہو انظُرُنا
در منشور نے اس آیت کی تفسیر میں روایتیں نقل کی ہیں کہ: ابن عباس وغیرہ سے روایت ہے کہ بعض یہود جب حضرت ﷺ سے کلام کرتے تو اثنائے کلام میں لفظ راعنا کہا کرتے تھے جس کے معنی یہ ہیں کہ ہماری بات کی مراعات کیجئے اور سماعت فرمائیے۔ مسلمانوں نے سمجھا کہ شاید یہ کوئی عمدہ بات ہے اور اہل کتاب اس کو انبیاء کی تعظیم میں کہا کرتے ہیں اس لیے اس کا استعمال شروع کیا مگر اس وجہ سے کہ یہ کلمہ لخت یہود میں دشنام کے محل میں بھی مستعمل تھا حق تعالیٰ نے اس سے منع فرما دیا ، پھر تو مسلمانوں نے یہ حکم دے دیا کہ جس سے یہ کلمہ سنو اس کی گردن مارو۔ اس کے بعد کسی یہودی نے یہ کلمہ نہ کہا۔
حاصل یہ کہ ہر چند صحابہ اس لفظ کو نیک نیتی سے تعظیم کے محل میں استعمال کیا کرتے تھے مگر چونکہ دوسری زبان میں گالی تھی، حق تعالیٰ نے اس کے استعمال سے منع فرما دیا۔ اب یہاں ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ جس لفظ میں کنایۃً بھی توہین مراد نہ تھی بلکہ صرف دوسری زبان کے لحاظ سے، اس کا استعمال نا جائز ٹھہرا تو وہ الفاظ نا شائستہ جس میں صراحۃً کسر شان ہو کیونکر جائز ہوں گے۔ اگر کوئی کہے کہ مقصود ممانعت سے یہ تھا کہ یہود اس لفظ کو استعمال نہ کریں، تو ہم کہیں گے کہ یہ بھی ہو سکتا ہے مگر اس میں شک نہیں کہ نبی صراحت خاص مومنین کو ہوئی، جن کے نزدیک یہ لفظ محض تعظیم میں مستعمل تھا جس میں نہ یہود کا ذکر ہے، نہ ان کی لغت کا۔ اگر صرف یہی مقصود ہوتا تو مثل اور ان کی شرارتوں کے اس کا ذکر بھی یہیں ہو جاتا۔ صرف مومنین کو مخاطب کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قسم کے الفاظ نیک نیتی سے بھی استعمال کرنا درست نہیں۔ پھر سزا اس کی یہ ٹھہرائی گئی کہ جو شخص یہ لفظ کہے خواہ کافر ہو یا مسلمان، اس کی گردن مار دی جائے بالفرض اگر کوئی مسلمان بھی یہ لفظ کہتا تو اس وجہ سے کہ وہ حکم عام تھا بیشک مارا جاتا اور کوئی یہ نہ پوچھتا کہ تم نے اس سے کیا مراد لی تھی۔ اب غور کرنا چاہیے کہ جو الفاظ خاص توہین کے محل میں مستعمل ہوتے ہیں آنحضرت ﷺ کی نسبت استعمال کرنا خواہ صراحۃً ہو یا کنایۃً کس درجہ قبیح ہوگا۔ اگر صحابہ کے رو بروجن کے نزدیک راعنا کہنے والا مستوجب قتل تھا کوئی اس قسم کے الفاظ کہتا تو کیا اس کے قتل میں کچھ تامل ہوتا یا یہ تاویلات باردہ مفید ہوسکتیں؟ ہر گز نہیں۔ مگر اب کیا ہو سکتا ہے سوائے اس کے کہ اس زمانے کو یاد کر کے اپنی بے بسی پر رویا کریں۔ اب وہ پرانے خیالات والے پختہ کار کہاں، جن کی حمیت نے اسلام کے جھنڈے مشرق ومغرب میں نصب کر دیئے تھے، ان خیالات کے جھلملاتے ہوئے چراغ کو آخری زمانے کی ہوا دیکھ نہ سکی۔ غرض میدان خالی پا کر جس کا جی چاہتا ہے کمال جرات کے ساتھ کہہ دیتا ہے۔ پھر اس دلیری کو دیکھئے کہ وہ گستاخیاں اور بے ادبیاں جو قابل سزا تھیں انہی پر ایمان کی بنا قائم کی جارہی ہے۔ جب ایمان یہ ہو تو بے ایمانی کا مضمون سمجھنے میں البتہ غور وتامل درکار ہے۔
نام مبارک کی برکت کو دیکھئے: وہب بن منبہ سے روایت ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص نہایت گنہگار تھا، جس نے سو برس تک حق تعالیٰ کی نا فرمانی کی، جب اس کا انتقال ہوا تو اس کو لوگوں نے مزبلہ میں پھینک دیا، جہاں نجاست ڈالی جاتی تھی، ساتھ ہی موسیٰ پر وحی آئی کہ اس شخص کو وہاں سے نکال لاؤ اور اس پر نماز پڑھو۔ موسیٰ نے عرض کیا، اے رب بنی اسرئیل گواہی دیتے ہیں کہ وہ شخص سو برس تیری نافرمانی کرتا رہا، ارشاد ہوا۔ یہ سچ ہے لیکن اس کی عادت تھی کہ جب تورات کو کھولتا اور حمد کے نام کو دیکھتا تو بوسہ دے کر اس کو آنکھوں پر رکھ لیا کرتا تھا، اس لیے میں نے اس کی شکر گزاری کی اور اس کو بخش دیا، اور ستر حوریں اس کے نکاح میں دیں۔ انتہیٰ
اب یہاں کس کس چیز کا بیان کیا جائے اگر ان بزرگوار کی بے باکی کو دیکھئے تو موسیٰ کے سے نبی کے وقت میں عمر بھر نا فرمانی کر کے ایمان سلامت لے جانا بغیر کسی تائید باطنی کے ایک امر خطرناک ہے اور اگر خوش اعتقادی کو سوچئے تو باوجود اس ظاہری بے گانگی اور معاصی کے کبھی یہ خیال نہ آیا کہ ایسے عملوں کے ساتھ اس قسم کے ادب سے کیا ہوگا اور سابقہ ازلی کی طرف نظر بڑھائی جائے تو کیسا مقبول ذریعہ قائم کیا گیا کہ سو برس کے گناہ ایک طرف رکھے رہے اور اس سے وہ کام نکالا گیا کہ تمام عمر کی جانفشانی سے نکلنا دشوار ہو۔ اگر اس ادب کی وقعت کا خیال کیا جائے تو حق تعالیٰ کو غضب میں لانے والا عمر بھر کے اعمال پر سبقت کر کے سب کو بخشوالینا اسی کا کام تھا۔ غرض کہ جب ادب کا یہ رتبہ ہو کہ گزشتہ امت والوں کو اس خوبی کے ساتھ سرفراز کرا دے تو ہم خاص غلاموں کو اس سے کس قدر توقع ہوگی۔ اس پر بھی اگر ہم نام مبارک کو دیکھ کر اور سن کر کبھی بوسہ نہ لیں تو اتنا ضرور چاہیے کہ حق تعالیٰ سے اس کی توفیق طلب کریں۔ اگر فضل الہٰی شامل حال ہو اور ہم لوگ حضرت ﷺ کا نام مبارک سن کر تقبیل کیا کریں تو ان شاء اللہ برکات دارین کے مستحق ہو سکتے ہیں۔ چونکہ یہ مسئلہ اس زمانے میں مختلف فیہ ہو رہا ہے اس لیے کسی قدر اس میں بحث کی جاتی ہے، ان شاء الله امید ہے کہ اہل انصاف کو اس سے حظ وافر نصیب ہوگا۔
تفصیل روح البیان میں قہستانی کی شرح کبیر اور محیط اور قوت القلوب وغیرہ سے نقل کیا ہے کہ جب مؤذن اشهد ان محمدا رسول اللّٰہ کہے تو سننے والے کو مستحب ہے کہ
صلَّی اللَّه عَلَيْك يَا رَسُولَ اللهِ ﷺ
کہے اور دوسرے بار میں انگوٹھوں کے ناخن آنکھوں پر رکھے اور
قرة عينی يا رسول اللّٰه
کہہ کر یہ دعا پڑھے
اللهم متعني بالسمع والبصر
اور محیط میں لکھا ہے کہ حضرت سیدنا صدیق اکبر نے حضور ﷺ کا نام پاک مؤذن سے سن کر انگوٹھوں کے ناخن اپنی آنکھوں پر رکھے۔ اور مضمرات میں لکھا ہے کہ حضرت آدم جب جنت میں آنحضرت ﷺ کی ملاقات کے مشتاق ہوئے حق تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کے جمال کو ان کے دونوں ابہام کے ناخنوں میں جلوہ گر فرمایا انہوں نے اس پر بوسہ دے کر اپنی آنکھوں پر ملا۔
دین میں ادب کی نہایت ضرورت ہے اور جس کسی کی طبیعت میں گستاخی اور بے ادبی ہو، ضرور ہے کہ تدین میں اس کے کچھ نہ کچھ علت ہوگی۔ سبب اس کا یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب شیطان نے حضرت آدم کے مقابلے میں گستاخانہ انداز میں انا خیر منہ کہا اور ابد الاباد کیلئے مردود بارگاہ کبریائی ٹھہرا۔ اس وقت سے آدمیوں کی عداوت اس کے دل میں جمی اور ان کی خرابی کے درپے ہوا۔ كما قال
ولاغوينهم اجمعين
اقسام کی تدابیر پر سوچیں مگر اس غرض کو پوری کرنے میں اس سے بہتر کونسی تدبیر ہو سکتی ہے جس کا تجربہ خود اسی کی ذات پر ہو چکا ہے یعنی دعوی انانیت اور ہمسری بزرگان دین۔ جب دیکھا کہ گستاخی اور بے ادبی کو مردود بتانے میں نہایت درجہ کا اثر اور کمال ہے اس لیے ان انتم الا بشر مثلنا کی عام تعلیم شروع کردی۔ چنانچہ ہر زمانے کے کفار، انبیاء کے مقابلہ میں یہی کہا کرتے تھے۔ اب اس کلام کو دیکھئے تو اس میں بھی وہی بات ہے جو انا خیر منہ میں تھی اور اگر کسی قدر فرق ہے تو وہ بھی بے موقع نہیں کیونکہ تابع ومتبوع کی ہمتوں میں اتنا فرق ضرور ہے جس پر تفاوت درجات ودرکات مرتب ہو۔ غرض کہ انبیاء نے ہزارہا معجزے دکھائے مگر کفار کے دلوں میں ان کی عظمت اس نے جمنے نہ دی۔ پھر جن لوگوں نے ان کی عظمت کو مان لیا اور مسلمان ہوئے ان سے کسی قدر اس کو مایوسی ہوئی، کیونکہ ان سے تو وہ بے باکی نہیں ہو سکتی تھی جو کفار سے ظہور میں آئی، یہاں اس فکر کی ضرورت ہوئی کہ وہ چیز دکھائی جائے جو دین میں بھی محمود ہو۔ آخر یہ سوچا کہ راست گوئی کے پردے میں یہ مطلب حاصل ہو سکتا ہے۔ پس یہاں سے دروازہ بے ادبی کا کھول دیا، اب کیسی ہی ناشائستہ بات کیوں نہ ہو، اس لباس میں آراستہ کر کے احمقوں کے فہم میں ڈال دیتا ہے اور کچھ ایسا بے وقوف بنا دیتا ہے کہ راست گوئی کی دہن میں نہ ان کو کسی بزرگ کی حرمت وتوقیر کا خیال رہتا ہے نہ اپنے انجام کا اندیشہ۔ چنانچہ کسی بے وقوف نے خود آنحضرت ﷺ سے کہا آپ جو یہ مال بانٹتے ہیں اس میں عدل وانصاف کیجئے۔ چنانچہ بخاری شریف میں (اصل کتاب میں اس مقام پر عربی عبارت بھی ہے طوالت کے خوف سے عربی عبارت حذف کر کے صرف اردو ترجمے پر اکتفا کیا گیا ہے۔ 12 مرتب) روایت ہے حضرت ابو سعید خدری سے کہ ایک بار ہم لوگ حضور ﷺ کے پاس حاضر تھے اور آپ کچھ مال تقسیم فرما رہے تھے کہ ذو الخویصرہ آیا جو قبیلہ بنی تمیم سے تھا اور کہا یا رسول اللہ ﷺ عدل کیجئے، حضور ﷺ نے فرمایا تیری خرابی ہو جب میں ہی عدل نہ کروں تو پھر کون کرے گا اور جب میں نے عدل نہ کیا تو تو محروم اور بے نصیب ہو گیا۔ سیدنا عمر نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ حکم دیجئے کہ اس کی گردن ماروں۔ فرمایا: جانے دو اس کے رفقاء ایسے لوگ ہیں کہ ان کی نماز اور روزوں کے مقابلے میں تم لوگ اپنی نماز وروزوں کو حقیر سمجھو گے وہ قرآن پڑھیں گے لیکن ان کے گلے سے نیچے نہ اترے گا، وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے کہ با وجود یہ کہ اس جانور کے پیٹ کی آلائش وخون میں سے پار ہوتا ہے مگر نہ اس کے پیکان میں کچھ لگا ہوتا ہے، نہ اس کے بندن میں جس سے پیکان باندھا جاتا ہے، نہ لکڑی میں، نہ پر میں۔ نشانی ان کی یہ ہے کہ ان میں ایک شخص سیاہ فام ہوگا جس کی ایک بازو مثل عورت کی پستان کے یا مثل گوشت پارہ کے حرکت کرتی ہوگی وہ لوگ اس وقت نکلیں گے جب لوگوں میں تفرقہ ہوگا۔ حضرت ابو سعید کہتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اس حدیث کو میں نے خود رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ سیدنا علی کرم اللہ وجہ نے ان لوگوں کو قتل کیا اور میں بھی سیدنا علی کرم اللہ وجہ کے ساتھ تھا۔ انہوں نے بعد فتح کے حکم کیا کہ اس شخص کی تلاش کی جائے جس کی خبر حضور ﷺ نے دی تھی۔ چنانچہ اس کی لاش لائی گئی دیکھا میں نے کہ جتنی نشانیاں اس کی حضور ﷺ نے کہی تھیں سب اس میں موجود تھیں۔ انتہیٰ
الحاصل شیطان نے اس احمق کے ذہن میں یہی جمایا کہ عدل بیشک عمدہ شے ہے اگر صاف صاف حضور ﷺ سے اس بارے میں کہہ دیا جائے تو کیا مضائقہ۔ اس بے وقوف نے یہ نہ خیال کیا کہ بات تو چھوٹی ہے، مگر بہ نسبت شان نبوی کتنی بڑی بے ادبی ہوگی اور انجام اس کا کیا ہوگا۔ چنانچہ اسی بے ادبی پر واجب القتل ہو گیا تھا مگر چونکہ آنحضرت ﷺ کو منظور تھا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہ کے ہاتھ سے اپنے تمام مشربوں کے ساتھ مارا جائے اس لیے با وجود حضرت عمر کی درخواست کے اس وقت اغماض فرمایا۔ چنانچہ اس حدیث سے ظاہر ہے۔
نبیط ابن شریط سے روایت ہے کہ جب فارغ ہوئے علی اہل نہروان کے قتل سے کہا کشتوں میں اس شخص کو تلاش کرو جب ہم نے خوب ڈھونڈا تو سب کے آخر میں ایک شخص سیاہ فام نکلا جس کے شانہ پر ایک گوشت پارو مثل سر پستان کے تھا یہ دیکھتے ہی علی نے کہا اللہ اکبر قسم ہے خدا کی نہ مجھے جھوٹی خبر دی گئی، نہ میں اس کا مرتکب ہوا۔ ایک بار ہم نبی ﷺ کے ساتھ تھے اور حضرت ﷺ غنیمت کا مال تقسیم فرما رہے تھے کہ ایک شخص آیا اور کہا اے محمد (ﷺ) عدل کیجئے کہ آج آپ نے عدل نہیں کیا۔ حضرت ﷺ نے فرمایا تیری ماں تجھ پر روئے جب میں عدل نہ کروں تو پھر کون عدل کرے گا۔ عمر نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کیا اس کو قتل نہ کروں؟ فرمایا نہیں چھوڑ دو اس کو قتل کرنے والے کوئی اور شخص ہیں۔ علی نے یہ کہہ کر کہا صدق الله۔ انتہیٰ }}
اس حدیث سے ظاہر ہے کہ سب سے پہلے وہی شخص قتل کیا گیا اس لیے کہ اس کی لاش سب لاشوں کے نیچے تھی۔ اب دیکھئے کہ اس ایک گستاخی نے اس شخص کو کہاں پہنچا دیا اور وہ کثرت عبادات اور ریاضت اس کی کس کام پر آئی جس کی تصریح اس حدیث میں ہے۔ (اصل کتاب میں اس مقام پر عربی عبارت بھی ہے طوالت کے خوف سے عربی عبارت حذف کر کے صرف اردو ترجمے پر اکتفا کیا گیا ہے۔ 12 مرتب) ترجمہ: روایت ہے ابی برزہ سے، کہیں سے دینار آنحضرت ﷺ کے پاس آ گئے تھے، اس کو تقسیم فرمانا شروع کیا آپ ﷺ کے پاس ایک شخص سیاہ فام تھا، سر کے بال کترایا ہوا اور سفید کپڑے پہنا ہوا، جس کے دونوں آنکھوں کے بیچ میں اثر سجدے کا نمایاں تھا، چاہتا تھا کہ آنحضرت ﷺ کچھ عنایت فرما دیں مگر کچھ نہ دیا، رو برو آ کر سوال کیا کہ کچھ عنایت نہ فرمایا داہنے طرف سے آکر سوال کیا جب بھی کچھ نہ ملا، بائیں طرف سے آکر مانگا کچھ نہ ملا، پیچھے سے آکر سوال کیا جب بھی کچھ نہ پایا۔ کہا اے محمد (ﷺ) آج آپ نے تقسیم میں عدل نہ کیا۔ حضرت محمد ﷺ اس بات پر بہت خفا ہوئے اور شدت غضب سے تین بار فرمایا خدا کی قسم مجھ سے زیادہ عدل کرنے والا تم کسی کو نہ پاؤ گے۔ پھر فرمایا یہ ان لوگوں سے ہے جو تم پر مشرق کی طرف سے نکلیں گے وہ قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے گلوں سے نیچے نہ اترے گا اور وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسا کہ تیر شکار سے نکل جاتا ہے، پھر نہ لوٹیں گے دین کی طرف اور دست مبارک سینے پر رکھ کر فرمایا نشانی ان کی یہ ہے کہ سر کے بال منڈوایا کریں گے ہمیشہ وہ لوگ نکلتے رہیں گے یہاں تک کہ آخر دجال کے ساتھ ہوں گے۔ پھر تین بار فرمایا کہ جب تم ان کو دیکھو تو قتل کر ڈالو وہ لوگ تمام مخلوقات سے بد تر ہیں، یہ جملہ تین بار فرمایا۔ روایت کیا اس کو امام احمد، نسائی، ابن جریر، طبرانی اور حاکم نے۔ انتہیٰ
اس حدیث سے ظاہر ہے کہ وہ شخص نہایت عابد تھا کہ کثرت صلوٰۃ سے پیشانی میں اس کی گٹھا پڑ گیا تھا۔ غرض کہ ان احادیث میں تامل کرنے کے بعد ہر شخص معلوم کر سکتا ہے کہ با وجود کثرت عبادت اور ریاضت شاقہ کے وہ شخص اور اس کے ہمخیال جو واجب القتل اور بدترین مخلوقات ٹھہرے وجہ اس کی سوائے بے ادبی اور گستاخ طبعی کے اور کوئی نہ نکلے گی۔
اب اس قوم کا حال سنئے جس کی نسبت آنحضرت ﷺ نے اس بے ادب کے اصحاب سے فرمایا ہے۔ ابن اثیر نے تاریخ کامل میں لکھا ہے کہ ابتداء اس گروہ یعنی خوارج کی یہ ہوئی کہ جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور سیدنا امیر معاویہ میں بہت سی لڑائیاں ہوئیں طرفین سے ہزار ہا صحابہ اور تابعین شہید ہوئے آخر یہ ٹھہرا کہ دونوں طرف سے دو شخص معتمد قرار پائیں جو موافق کتاب وسنت کے کوئی ایسی تدبیر نکالیں کہ لڑائی موقوف ہو اور باہمی جھگڑے مٹ جائیں، چنانچہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کی طرف سے ابو موسیٰ عبداللہ بن قیس اور حضرت معاویہ کی طرف سے عمرو بن عاص مقرر ہوئے اور طرفین سے عہد نامہ لکھا گیا، پھر اشعث بن قیس نے اس کاغذ کو لے کر ہر ہر قبیلے میں سنانا اور اس کا اشتہار دینا شروع کیا۔ جب قبیلہ بنی تمیم میں پہنچے عروہ بن اویہ تمیمی نے سن کر کہا کہ اللہ کے امر میں آدمیوں کو حَکَم بناتے ہیں، سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی حکم نہیں کر سکتا۔ یہ کہہ کر اشعث بن قیس کے سواری کے جانور کو تلوار ماری اور اس پر سخت جھگڑا ہوا، جب سیدنا علی کو یہ خبر پہنچی فرمایا بات تو سچی ہے مگر مقصود اس سے باطل ہے۔ اگر وہ لوگ سکوت کریں تو ہم ان پر مصیبت ڈالیں گے اور اگر گفتگو کریں تو ان پر دلیل قائم کریں گے اور اگر مقابل ہوں تو ہم ان سے لڑیں گے۔ یہ سنتے ہی یزید بن عاصم محاربی اُٹھ کھڑا ہوا اور خطبہ پڑھا۔ جس کا ترجمہ یہ ہے حمد اللہ تعالیٰ کو سزاوار ہے جس سے ہم مستغنی نہیں ہو سکتے۔ یا اللہ پناہ مانگتے ہیں ہم تجھ سے کہ اپنے دین میں دناءت اور کم ہمتی کو عمل میں لائیں کیونکہ اس میں مداہنت ہے اللہ کے امر میں اور ذلت ہے جو اللہ تعالیٰ کے غصے کی طرف لے جاتی ہے، اے علی کیا ڈراتے ہو تم ہم کو قتل سے، آگاہ رہو قسم ہے اللہ کی میں امید رکھتا ہوں کہ ماریں گے ہم تم کو تلواروں کی دھار سے تب تم جانو گے کہ ہم میں سے کون مستحق عذاب ہے۔ پھر اس کے بھائی نکلے اور خوارج کے ساتھ مل گئے اسی طرح روز بروز جمعیت ان کی بڑھتی چلی گئی۔ ایک روز سب عبد اللہ بن وہب راسبی کے گھر میں جمع ہوئے اور اس نے خطبہ پڑھا جس میں دنیا کی بے ثباتی اور خواہش دنیا کی خرابیاں اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی ضرورت بیان کی، پھر کہا کہ اس شہر کے لوگ ظالم ہیں ہمیں ضرور ہے کہ پہاڑوں یا دوسرے شہروں کی طرف نکل جائیں تاکہ ان گمراہ کرنے والی بدعتوں سے ہمارا انکار ثابت ہو جائے اس کے بعد حرفوض ابن زبیر کھڑا ہوا اور خطبہ پڑھا۔ کہ لوگو! متاع اس دنیا کی بہت تھوڑی ہے اور جدائی اس سے قریب ہے، کہیں زینت اور تازگی اس کی تمہیں اس میں مقام کرنے پر آمادہ نہ کرے اور طلب حق انکار ظلم سے نہ پھیرے اور یہ آیت پڑھی إِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِينَ هُمْ مُحْسِنُون یعنی الله تعالیٰ متقیوں کے ساتھ ہے۔ اس خطبے کے بعد حمزہ ابن سنان اسدی نے کہا اے قوم رائے وہی ہے جو تم نے سوچی مگر اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک شخص مقرر ہو جو متولی تمامی امور کا ہو سکے۔ سب نے زید بن حصین طائی پر اتفاق کیا، مگر اس نے امارت کو قبول نہ کیا، پھر حرفوض ابن زبیر پر سب کی رائے قرار پائی، اس نے بھی انکار کیا۔ اسی طرح حمزہ بن سنان اور شریح ابن اوفی عبسی نے بھی انکار کیا، پھر سب نے عبد اللہ بن وہب کی طرف رجوع کیا، جب اس نے دیکھا کہ کوئی قبول ہی نہیں کرتا مجبوری قبول کیا، اور کہا خدا کی قسم مجھے اس امارت کے قبول کرنے میں مطابقاً کوئی خواہش دنیوی نہیں اور نہ موت سے خوف ہے کہ اس سے باز رہوں، غرض کہ میں نے صرف اللہ کے واسطے قبول کیا ہے۔ اگر اس میں مر جاؤں تو کچھ پروا نہیں۔ پھر سب شریح ابن اوفی عبسی کے گھر جمع ہوئے، اس مجلس میں ابن وہب نے کہا اب کوئی شہر ایسا دیکھنا چاہیے کہ ہم سب اس میں جمع ہوں اور اللہ تعالیٰ کا حکم جاری کریں۔ کیونکہ اہل حق اب تمہی لوگ ہو۔ سب نے بالاتفاق نہروان کو پسند کیا اور روانہ ہو گئے پھر سیدنا علی کرم اللہ وجہ نے ان کو نامہ لکھا جس کا ترجمہ یہ ہے۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم طرف سے عبد اللہ علی امیر المومنین کے زید بن حصین اور عبد اللہ بن وہب اور ان کے اتباع کو معلوم ہو کہ وہ دو حَکَم جن کے فیصلے پر ہم راضی ہوئے تھے انہوں نے کتاب اللہ کے خلاف کیا اور بغیر اللہ کی ہدایت کے اپنی خواہشوں کی پیروی کی، جب انہوں نے قرآن وسنت پر عمل نہیں کیا، اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ اور سب اہل ایمان ان سے بری ہوگئے۔ تم لوگ اس خط کو دیکھتے ہی ہماری طرف چلے آؤ تاکہ ہم اپنے اور تمہارے دشمن کی طرف نکلیں اور اب ہم اپنی پہلی اسی پہلی بات پر ہیں۔ انتہیٰ
اس نامہ کے جواب میں انہوں نے سیدنا علی کرم اللہ وجہ کو لکھا کہ اب تمہارا غضب خدا کے واسطے نہیں ہے اس میں نفسانیت شریک ہے اب بھی اگر اپنے کفر پر گواہی دیتے ہو اور نئے سرے سے توبہ کرتے ہو تو دیکھا جائے گا ورنہ ہم نے تم کو دور کر دیا کیونکہ اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا (نعوذ باللہ من ذلک) انتہیٰ
وہابی بھی جن کا فتنہ مدتوں ملک عرب میں رہا غالباً یہ وہی فرقہ ہے جس کی طرف اس حدیث شریف میں اشارہ ہے۔
عن ابن عمر قال قال رسول الله ﷺ اللهم بارك لنا فی شامنا وفى يمننا قال قالوا وفی نجدنا فقال قال اللهم بارك لنا فی شامنا وفى يمننا قال قالوا وفی نجدنا قال قال هنالك الزلازل والفتن وبها يطلع قرن الشيطان (رواه البخاري)
روایت ہے ابن عمرسے کہ ایک بار آنحضرت ﷺ نے دعا کی کہ الہٰی ہمارے شام اور یمن میں برکت دیجیو۔ صحابہ نے عرض کی اور ہمارے نجد میں مقصود یہ کہ نجد کو بھی حضرت ﷺ دعا میں شریک فرما لیں۔ پھر وہی دعا کی کہ الہٰی ہمارے شام اور یمن میں برکت دیجیو۔ پھر صحابہ نے نجد کے لیے عرض کی حضرت ﷺ نے فرمایا وہاں زلزلے اور فتنے ہیں اور وہاں شیطان کا سینگہ نکلے گا۔ (روایت کیا اس کو بخاری نے) انتهیٰ
اس حدیث شریف سے بتصریح معلوم ہوا کہ نجد سے فتنے برپا ہوں گے اور اوپر کی حدیث سے معلوم ہوا کہ وہ لوگ مشرق سے نکلیں گے اگر چہ شرق عام ہے کہ ہندوستان بھی مدینہ طیبہ کے شرق ہی میں واقع ہے مگر مدینہ طیبہ کے عام وخاص لوگ نجد ہی کو شرق اور وہابیوں کو شرقی کہا کرتے ہیں، جن کی اقامت ملک نجد میں ہے۔ پس معلوم ہوا کہ ان حدیثوں سے وہابیوں کا فتنہ مراد ہے۔ پھر آنحضرت ﷺ نے ان کی علامتیں بیان فرمائیں۔ منجملہ ان کے ایک یہ ہے کہ مشرق سے نکلیں گے جیسا کہ ابھی معلوم ہوا، اور ایک یہ کہ بات نہایت ہی عمدہ کہیں گے جیسا کہ ارشاد ہے۔ روایت ہے ابن مسعود سے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ نکلیں گے آخر زمانہ میں بیوقوف لوگ۔ بات نہایت اچھے لوگوں کی سی کہیں گے اور قرآن پڑھیں گے مگر وہ ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گا جو شخص اُن سے ملے چاہیے کہ اُن کو قتل کر ڈالے کیونکہ ان کے قتل میں ثواب ہے۔ انتہیٰ
ظاہر ہے کہ ان کا دعویٰ یہی تھا کہ شرک وبدعت کو مٹاتے ہیں اور ایک علامت یہ ہے کہ وہ لوگ مسلمانوں کو قتل کریں گے چنانچہ اس حدیث شریف سے ظاہر ہے۔
روایت ہے حضرت ابن عمر سے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ نکلے گی ایک قوم میری امت سے کہ قرآن پڑھیں گے مگر ان کے حلق سے نہ اترے گا، قتل کریں گے وہ اہل اسلام کو۔ خوشخبری ہے اس کو جس نے انہیں قتل کیا اور جس کو انہوں نے شہید کیا۔ جب کوئی شاخ ان کی نکلے گی حق تعالیٰ اس کو قطع کر دے گا۔ (روایت کیا اس کو امام احمد نے) انتہیٰ
یہ بات ثابت ہے کہ ہزار ہا مسلمانوں کو ان لوگوں نے قتل کر کے حرمین شریفین اور تمامی ملک عرب پر تسلط کر لیا تھا اب بے باکی کو ان کے دیکھئے۔ حق تعالیٰ فرماتا ہے:
وَ مَنْ یُّرِدْ فِیْهِ بِاِلْحَادٍۭ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ
جو شخص مسجد حرام میں شرارت سے کجروی کرنا چاہے چکھائیں گے ہم اس کو عذاب دردناک۔
حافظ محی السنۃ بغوی تفسیر معالم التنزیل میں اس آیت کی تفسیر میں ابن عباسکا قول نقل کرتے ہیں:
ان تقتل فيه من لا يقتلك اوتظلم من لا يظلمک
یعنی الحاد بظلم یہ ہے کہ قتل کرے تو اس شخص کو جو تجھ کو نہ مارے یا ظلم کرے تو اس پر جو تجھ پر ظلم نہ کرے۔
اور ابن مسعود کا قول نقل کیا ہے
لو ان رجلاهم بخطية لم يكتب عليه ما لم يعلمها ولو ان رجلاهم بقتل رجل بمكة وهو بعدن او بلاد اخر اذاقه الله من عذاب الیم
اگر کوئی کہیں گناہ کا قصد کرے تو جب تک اس کا وقوع نہ ہوگا گناہ لکھا نہ جائے گا۔ بخلاف اس کے جو شخص مکہ میں رہتا ہو تو اس کے قتل کے قصد پر عذاب الیم چکھایا جائے گا، اگر چہ کہ قصد کرنے والا عدن میں ہو یا دوسرے شہر میںاور مدینہ طیبہ کی نسبت ارشاد ہے۔
عن عائشه رضى الله تعالى عنها قالت سمعت سعداً قال سمعت النبی يقول لا يكيد اهل المدينة احد الا انماع الملح فى الماء (رواه البخاري)
یعنی بخاری شریف میں روایت ہے سعد سے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے جو شخص مدینہ والوں کے ساتھ مکر وحیلہ کرے تو ایسا گلے گا جیسا نمک پانی میں پگھلتا ہے۔
hadith-verse
یعنی فرمایا رسول اللہ ﷺ نے جو شخص مدینہ والوں کو برائی پہنچانے کا ارادہ کرے گا گلائے گا اس کو حق تعالیٰ دوزخ میں مثل سیسہ کے یا جیسے نمک پانی میں گھلتا ہے۔
جب مکہ معظمہ اور مدینہ طیبہ میں قتل اور برائی کے ارادہ پر یہ سزائیں ہوں تو جنہوں نے وہاں قتل عام کیا اور وہ وہ اذیتیں پہنچائیں جس سے ہزار ہا لوگ جلا وطن ہو گئے ان کا کیا حال ہوگا۔ اور ایک علامت اس قوم کی یہ کہ قرآن پڑھیں گے جیسا کہ کئی حدیثوں سے یہ بات معلوم ہو چکی۔ قرآن شریف پڑھنے کا اس قوم میں اس قدر اہتمام تھا کہ دلائل الخیرات کے صدھا نسخے جلا دیئے تاکہ اس کا وقت بھی تلاوت قرآن ہی میں صرف ہو جیسا کہ درر السنیہ میں مذکور ہے۔ ایک علامت یہ ہے کہ اس قوم میں جو کوئی داخل ہو اس کے پھرنے کی توقع نہیں۔ جیسا کہ روایت ہے حضرت ابی ہریرہ سے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ آخر زمانہ میں ایک قوم نکلے گی وہ قرآن پڑھیں گے مگر وہ اُن کے حلق سے نہ اترے گا اسلام سے وہ ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے پھر نہ پھریں گے اسلام کی طرف۔ علامت ان کی یہ ہے کہ سر منڈایا کریں گے یہ قوم ہمیشہ خروج کرتی رہے گی یہاں تک کہ آخر دجال کے ساتھ ہوں گے جب کبھی تم اُن سے ملو، ان کو قتل کر ڈالو کیونکہ وہ کل آدمیوں اور جانوروں سے بدتر ہیں۔ (روایت کیا اس کو ابن شیبہ اور امام احمد، نسائی، طبرانی اور حاکم نے)
اس میں شک نہیں کہ کوئی باطنی نکبت اس فرقہ میں ضرور ہے جس کی وجہ سے مخبر صادق ﷺ نے فرمایا کہ پھر وہ دین میں نہ آئیں گے مگر بظاہر ایک وجہ یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ حمایت توحید اور دفع شرک وبدعت کے غرور میں محبوبان بارگاہِ الہٰی کی نہ صرف توہین کرتے ہیں بلکہ مثل اصول دین کے تعلیم وتعلم میں اس کو داخل کرتے ہیں جس کی وجہ سے غیرت الہٰی ان کو تباہ کر دیتی ہے۔ اور ایک علامت یہ کہ بنی تمیم سے ہونا جیسا کہ درر السنیہ میں کتاب جلاء الظلام سے نقل کیا ہے، کہ ظن غالب ہے کہ محمد ابن عبد الوہاب ذو الخویصرہ تمیمی کی اولاد سے ہوگا جس کی خبر آنحضرت ﷺ نے اس حدیث میں دی ہے۔ روایت ہے حضرت ابی سعید خدری سے فرمایا نبی ﷺ نے کہ اس شخص کے خاندان یا نسل میں ایک قوم ہوگی کہ وہ قرآن پڑھیں گے مگر ان کے حلق سے نہ اترے گا دین سے وہ ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے وہ مسلمانوں کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے اگر میں ان کو پاتا تو قتل کرتا مثل قوم عاد۔ (روایت کیا اس کو امام بخاری نے)
اس حدیث شریف سے ثابت ہے کہ ذو الخویصر وقبیلہ بنی تمیم سے تھا اور ابن عبد الوہاب بھی تمیمی ہے۔ تعجب نہیں کہ اس کی نسل سے ہو اور اگر نہ بھی ہو تو ہم خاندان ہونے میں شک نہیں اور ایک علامت یہ ہے کہ سر کے بال منڈوایا کریں گے جیسا کہ کئی حدیثوں سے ابھی معلوم ہو چکا۔
پھر قول عبد الرحمٰن اہدل مفتی زبید کا نقل کیا کہ ابن عبد الوہاب کے رد میں کوئی کتاب لکھنے کی ضرورت نہیں صرف یہ نشانی کافی ہے جس کی خبر مخبر صادق ﷺ نے دی ہے کہ سر منڈوایا کریں گے۔ کیونکہ اس شخص نے جیسا سرمنڈوانے میں اہتمام کیا تھا کسی فرقہ میں نہ ہوا اس نے دستور ٹھہرا دیا تھا کہ جو شخص اپنی ملت میں داخل ہو اس کو سرمنڈوانا ضرور ہے یہاں تک کہ عورتوں میں بھی یہ حکم جاری کر دیا تھا۔ ایک روز کسی عورت نو گرفتار سے بحسب عادات سر منڈوانے کو کہا اس نے جواب دیا کہ عورتوں کے سر کے بال اور مردوں کی داڑھیاں برابر ہیں اگر مردوں کو داڑھیاں منڈوائی جائیں تو عورتوں کے سر کے بال منڈوانا بجا ہوگا یہ سن کر مبہوت ہوگیا اور کچھ جواب نہ دے سکا۔
الحاصل علامات مذکورہ بالا سے ثابت ہے کہ مخبر صادق ﷺ فرقہ وہابیہ کے نکلنے کی خبر دے چکے ہیں اور جو علامتیں بیان فرمائیں سب اس میں پائی گئیں۔ الدرر السنیہ میں کئی اور حدیثیں نقل کی گئی ہیں جن میں علامتیں اس گروہ کی مذکور ہیں اور وہ سب علامتیں ان میں پائی گئیں۔ احادیث مذکور سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ فرقہ خوارج کی وہ ایک شاخ ہے مگر اس وجہ سے کہ نئے طور پر اس کا خروج ہوا اس لیے اس کا نام جداگانہ قرار پایا اور اس کے بانی کی طرف منسوب کیا گیا اسی وجہ سے یہ لوگ محمدی کہلاتے ہیں مگر محتاط علماء نے جب دیکھا کہ عوام الناس ان کو ضرور گالیاں دیں گے اور اس میں توہین لفظ نام مبارک ہوگی اس لیے محمد ابن عبد الوہاب کے نام سے جزو دوم کی طرف منسوب کر کے باختصار لفظ وہابی مقرر کیا۔ غرض وہابی اور محمدی کے یہاں ایک معنی ہیں۔
محمد ابن عبد الوہاب کا مجملاً حال یہ ہے کہ 11ھ میں وہ پیدا ہوا اور بعد کسی قدر تحصیل علم کے ۱۱۴۳ھ میں اپنے خیالات فاسد کو رواج دینے کے واسطے خطہ نجد میں گیا پہلے صرف اسی بات پر زور دیا کہ اس زمانہ میں شرک ہر طرف پھیل گیا ہے اور اسلام کی حالت روز بروز گھٹتی جا رہی ہے اس وقت ہر مسلمان پر واجب ہے کہ تو حید کو رواج دینے اور شرک کو مٹانے کی فکر کرے چونکہ یہ دعویٰ قابل تسلیم تھا لوگ اس کے دام میں پھنسنے لگے۔ چنانچہ ۱۱۵۰ھ میں اس کی شہرت ہوئی اور "درعیہ" اس کے اطراف وجوانب کے لوگ اس کے تابع ہو گئے اور روز بروز ترقی ہونے لگی جب کسی قدر مجمع ہو گیا جہاد پر آمادہ ہوا اور اپنے ہوا خواہوں کو جمع کر کے لیکچر دیا کہ سوائے اس خطہ کے اس وقت گل روئے زمین پر شرک پھیلا ہوا ہے اور سوائے تم چند شخصوں کے جتنے لوگ آسمان کے تلے ہیں سب مشرک ہیں اب ہم کو ضرور ہے کہ جہاد کر کے مشرکوں کو قتل کریں تمہیں یاد رہے جو کوئی مشرک کو قتل کرتا ہے اس کے لیے جنت ہے پھر سب سے بیعت لے کر جہاد کا حکم دیا۔ یہ فتنہ ایک مدت تک رہا اس قوم نے ہزار ہا مسلمانوں کو شہید اور جلا وطن کر دیا اور حرمین شریفین پر قبضہ کر کے کئی سال بالاستقلال حکمرانی کی آخر ۱۲۲۷ھ میں بحکم سلطان محمود، حرمین وغیرہ سے نکالے گئے مادہ تاریخ ان کے اخراج کا "قطع دابر الخوارج (1227ھ)" ہے۔ اس فتنہ کی کسی قدر تفصیل اور حال اُن مصیبتوں کا جو اہل حرمین شریفین پر گزریں شیخ دحلان مکی نے الدرر السنیہ میں لکھا ہے۔ اس فرقہ کو بھی مثل خوارج کے عمل میں نہایت اہتمام تھا یہاں تک کہ تارک فرض کو کافر حلال الدم سمجھتے اور توحید میں ان کو اس قدر غلو تھا کہ یا رسول اللہ کہنے والے اور بزرگوں سے مدد مانگنے والے کو کافر سمجھتے۔ ابن عبد الوہاب ہر جمعہ کے خطبہ میں کہا کرتا کہ جو شخص نبی ﷺ کا توسل کرے وہ کافر ہے اور زیارت قبور نا جائز سمجھی جاتی تھی۔ چنانچہ لکھا ہے کہ ایک قافلہ "احسا" سے مدینہ طیبہ کو آنحضرت ﷺ کی زیارت کے لیے گیا تھا واپسی کے وقت جب "درعیہ" پہنچا جہاں وہ تھا اس نے ان کی یہ سزا ٹھہرائی کہ داڑھیاں سب کی منڈوائی جائیں اور گدھوں پر اس رسوائی کے ساتھ سوار کئے جائیں کہ دم کی طرف منہ ہو اور یہی حالت "احسا" تک رہے جہاں ان کا گھر ہے تاکہ تشہیر ہو جائے کہ جو شخص آنحضرت ﷺ کی زیارت کو جائے اس کی یہ سزا ہے، چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ بدعت سے ان لوگوں کو اس قدر احتراز تھا کہ صدہا دلائل الخیرات اور دوسرے علوم کی کتابیں جلا دی گئیں۔ اس میں لکھا ہے کہ ایک بزرگ نابینا اذان کے بعد منارہ پر بآواز بلند درود شریف پڑھا کرتے تھے ابن عبد الوہاب نے اس کو منع کیا جب انہوں نے نہ مانا قتل کر ڈالا۔ اور کہا کسی عورت کے گھر سے رباب کی آواز درود کی آواز سے بہتر ہے جو مناروں پر پڑھا جائے اور مولود شریف کسی کو پڑھنے نہ دیتا، صرف ونحو وفقہ وغیرہ علوم کے مطالعہ سے منع کرتا اس کا قول تھا کہ اصل شریعت ایک تھی ان لوگوں کو کیا ہوا جو اس میں چار مذہب کر دیئے، کبھی کہتا کہ قول ائمہ اربعہ بالکل قابل اعتبار نہیں اور کبھی کہتا وہ تو حق پر تھے مگر اُن کے اتباع کتابیں تصنیف کر کے خود گمراہ ہوئے اور لوگوں کو گمراہ کیا۔ شیخ سلیمان بن سجیم حنبلی نے جو معاصر ابن عبد الوہاب کے ہیں ایک استفتاء کیا جس کا جواب علامہ احمد بن علی قتیانی نے دیا ہے۔ استفتاء میں لکھا ہے کہ ابن عبد الوہاب نے یہاں اقسام کی بدعتیں نکالیں اور لوگوں کو گمراہ کرنے پر کمر باندھی، منجملہ ان کے چند یہ ہیں کہ آنحضرت ﷺ پر ہر جمعہ کے دن اور رات میں درود پڑھنے سے منع کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ایک ایسی بدعت ہے کہ اس سے آدمی دوزخی بن جاتا ہے۔ دلائل الخیرات اور روض الریاحین کے کئی نسخے اس نے جلا دیئے۔ اس کا قول ہے کہ آنحضرت ﷺ کے نام پر سیدنا کہنے سے آدمی کافر ہو جاتا ہے اور کہتا ہے کہ کبھی جو قدرت ہوگی، قبہ شریف کو آنحضرت ﷺ کے ڈھا دے گا، زید بن خطاب اور اُن کے ساتھ والے صحابہ کی قبروں کو کھدوا ڈالا، غرض کہ اس کی بے باکیاں اور گستاخیاں کوئی شمار وحساب نہیں رکھتے، اس سے بڑھ کر کیا ہو کہ خود آنحضرت ﷺ کی نسبت کمال بے ادبی کے الفاظ کہتا ہے اور سن کر چپ رہتا ہے، چنانچہ رسول کے معنی طارش کہتا ہے جو ان لوگوں کی زبان میں ہرکارہ کو کہتے تھے اور اس کی اتباع کہتے تھے کہ جو اس عصا سے کام نکلتا ہے وہ بھی ان سے نہیں نکلتا، اور وہ ایسی باتیں سن کر خوش ہوتا اور سوائے اس کے صدہا خرافات ان لوگوں کے زبان زد تھے، یہ فرقہ نجد میں اب تک موجود ہے۔ اہل انصاف غور کر سکتے ہیں کہ کون مسلمان ایسا ہوگا کہ ان اعتقادوں کو پسند کرے گا۔
اس کتاب پر حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کی اردو اور عربی دونوں زبانوں میں تقریظ موجود ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔
بعد الحمد والصلوة ان دنوں میں ایک عجیب وغریب کتاب لا جواب مسمی "بانوار احمدی" مصنفہ حضرت علامہ زماں وفرید دوراں عالم باعمل وفاضل بے بدل جامع علوم ظاہری وباطنی عارف باللہ مولوی محمد انوار اللہ حنفی وچشتی سلمہ اللہ تعالیٰ فقیر کی نظر سے گزری اور بلسان حق ترجمان مصنف علامہ کی اوّل سے آخر تک بغور سنی تو اس کتاب کے ہر ہر مسئلہ کی تحقیق محققانہ حقانی میں تائید ربانی پائی گئی کہ اس کا ایک ایک جملہ اور فقرہ امداد مذہب اور مشرب اہل حق کی کر رہا ہے اور حق کی طرف بلاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ اس کے مصنف کے علم اور عمل اور عمر میں برکت دے اور نعماء عرفانی اور دولت قربت ربانی سے مشرف فرما کر مراتب عالیہ کو پہنچادے اور اس کتاب کو مقبول کرے تاکہ طالبان حق اس سے مستفید ہوتے رہیں۔
آمين يا رب العالمين وصلى الله تعالىٰ على سيدنا ومولانا محمد وآلہ واصحابہ اجمعين۔
فقیر حقیر
امداد اللہ حنفی چشتی عفی اللہ عنہ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ
الحمد لله الذی هدانا بمصداق من اراد الله به خيرا يفقهه فی الدين والصلوة والسلام على من بشرنا بمقبوليته اتفاق العلمين وعلى اٰلہ واصحابه الطاهرين المطهرين والائمة المجتهدين المطاعين
اما بعد فيقول الفقير امداد الله الحنفی مذهبا والچشتى مشرباً والتهانوى مثوا المكى موطنا جعله الله المدينة المنورة مدفنا رانی سمعت هذا الكتاب من اوله الى آخر بحث الادب ووجدته موافقا للسنة السنية قسميته "بالانوار الاحمدية" وانما هذا مذهبى وعليه مدار مشربی يقبله المقبولين وجعله ذخيرة ليوم الدين آمين وبارك الله فی علم المصنف القمقام
وشرفه بنعمه حسن الختام آمین بجاه طه ویٰسین
جاء بالنور فوقه نور المصنف كاسمه انوار
ارجو ان تنفع دلائله مطمئن القلوب بالاذكار
(حضرت مولانا) فقیر امداد اللہ چشتی
1278ھ
2۔ مقاصد الاسلام (حصہ چہارم)
توہین نبی ﷺ کی سزا:
نبی ﷺ کی تعظیم وتوقیر میں حق تعالیٰ فرماتا ہے۔
اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا لِتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ وَتُسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا
یعنی اے پیغمبر ( ﷺ) ہم نے تم کو بھیجا احوال بتانے والے اور خوشی اور ڈر بتانے والے، تاکہ تم لوگ اے مسلمانو! یقین لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور رسول کی تعظیم وتوقیر واجلال کرو اور صبح وشام اس کی پاکی بیان کرو۔{p |اگر تُسَبِّحُوهُ کی ضمیر ذات خدا تعالیٰ کی طرف راجع ہے تو ظاہر ہے کہ وہ تمام عیوب سے منزہ ہے اور اگر سیاق کلام اور انتشار ضمائر کے لحاظ سے نبی ﷺ کی طرف راجع ہو تو حضرت ﷺ کی تنزیہ وہی ہوگی جو حضرت ﷺ کی مناسب حال ہو، یعنی بے دین جو حضرت ﷺ پر الزام لگاتے ہیں کہ آپ بھی ہم جیسے ایک معمولی آدمی تھے، کوئی فضیلت آپ میں نہ تھی، یا ساحر تھے وغیرہ وغیرہ، ان سب نقائص سے آپ پاک ہیں۔ جب خدائے تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کی تعظیم وتوقیر کرنے کا ہمیں حکم دیا اور حضرت ﷺ نے تعلیم کی کہ عین نماز میں ایھا النبی کہہ کر اپنے دل میں مجھے پکارو اور خطاب کر کے السلام علیک کہو، تو اب ہمیں کس کا خوف ہے۔ شعر }}
گر طمع خواہد زمن سلطانِ دیں خاک بر فرق قناعت بعد ازیں
اگر خوف ہے تو ان لوگوں کو ہے جو نہ خدا کی مانیں اور نہ رسول کی۔ خدائے تعالیٰ نے تعظیم وتوقیر کرنے کو فرمایا جس سے مقصود آپ ﷺ کی تعظیم وتوقیر کرانی ہے، اس صورت میں آپ کی توہین خدائے تعالیٰ کی توہین ہوگی۔ دیکھئے خدائے تعالیٰ کو منظور تھا کہ حضرت آدم کی تعظیم وتوقیر ہو تو فرشتوں کو حکم ہوا کہ ان کو سجدہ کریں، چونکہ یہ مقربین بارگاہ تھے، فوراً بے چوں وچراں سب سجدے میں گر پڑے اور ابلیس گو پرانا عابد تھا، مگر جنگلی تھا، کہنے لگا کہ حضرت کہاں شان مسجودیت اور کجا آدم بے چارے۔ ابھی مٹی پانی میں پڑے لوٹ رہے تھے۔ بھلا یہ کیونکر ہو سکے کہ سجدہ جو خاص شان کبریائی کے شایاں ہے اور ان کو روبرو کیا جائے آخر اس توہین کا جو نتیجہ ہوا، ظاہر ہے۔ یہ تو ہر مسلمان جانتا ہے اور قرآن شریف سے بھی ثابت ہے کہ شیطان آدمی کا جانی دشمن ہے اور اس کو منظور ہے کہ کسی طرح آدمیوں کو دوزخی اور کافر بنا دے، یوں تو بہت سے طریقے گمراہ کرنے کے اسے یاد ہیں، مگر خاص طریقہ اس کو ایک ایسا معلوم ہے جس میں حتماً کامیابی ہو، کیونکہ اس کا ذاتی تجربہ ہے وہ مؤثر ثابت ہو گیا ہے، وہ یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ کو جن حضرات کی تعظیم وتوقیر کرانا منظور ہے ان کی توہین کی جائے اور اس کا ذریعہ یہ کہ شرک کے مضامین میں موشگافیاں کر کے اس کا دائرہ ایسا وسیع کیا جائے کہ اس تعظیم وتوقیر میں شرک کی جہت قائم ہو جائے۔ یہ طریقہ اس نے ان لوگوں کے لیے خاص کر رکھا ہے جن کو عبادت اور فضیلت ذاتی پر گھمنڈ ہو۔ کیونکہ ان کی نظروں میں سوائے اللہ کے کسی کی عظمت نہیں ہوتی، کیسا ہی معزز شخص ہو ان کو حقیر دکھائی دیتا ہے۔ دیکھئے حضرت آدمجیسی معزز شخصیت کو ابلیس نے حقیر سمجھا، اپنی عبادت وموحد ہونے پر گھمنڈ کیا اور ان کی تعظم نہ کر کے ابد الاباد کے لیے ملعون ٹھہرا۔ بخلاف اس کے جو لوگ اپنے آپ کو گنہگار سمجھ کر اپنی بخشش کی فکر میں رہتے ہیں پہلے ان کی نظر مقبولان بارگاہ الہٰی پر پڑتی ہے اور اپنے آپ کو ان کے مقابلے میں ذلیل سمجھ کر صدق دل سے ان کی تعظیم وتوقیر اس خیال سے کرتے ہیں کہ شاید کبھی ان کی توجہ ہمارے حال پر مبذول ہو جائے اور بارگاہ الہٰی میں ہماری طرف سے بطور شفاعت کچھ عرض کر دیں تو ان کی سفارش سے ہماری دینی اور دنیاوی مقاصد بآسانی حل ہو جائیں۔ کیونکہ صحیح حدیثوں سے یہ ثابت ہے کہ حق تعالیٰ ان کی دل شکنی نہیں چاہتا، وہ خدائے تعالیٰ کو ارحم الراحمین ضرور جانتے ہیں مگر جہاں توجہ رحمت کے اور اسباب ہیں ایک یہ بھی سبب قوی ہے کہ مقبولان بارگاہ ان سے راضی ہوں اور یہی وجہ تھی کہ صحابہ کرام آنحضرت ﷺ کے روبرو ایسے بیٹھتے تھے کہ کوئی غلام بھی اپنے آقا کے ساتھ ایسی عاجزی نہیں کرتا، اس کے چند نظائر ہم احادیث سے انوار احمدی میں ذکر کر چکے ہیں۔
عرس بزرگان دین:
شاید یہاں یہ اعتراض کیا جائے گا کہ اولیاء اللہ کی زیارت کو جا کر ان سے مرادیں مانگتے ہیں، یہ شرک ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اپنی حاجت روائیوں کے واسطے شفاعت طلب کرنا تو کسی طرح شرک نہیں ہو سکتا۔ اب رہا یہ کہ وہ سنتے ہیں یا نہیں۔ سو یہ مسئلہ دوسرا ہے اس کے دلائل کتب کلامیہ میں مذکور ہیں۔ اتنا تو قرآن شریف سے بھی ثابت ہے کہ خدا تعالیٰ ان کو لوگوں کی باتیں سنا سکتا ہے۔ کما قال الله تعالى
اِنَّ اللّٰهَ یُسْمِـعُ مَنْ یَّشَاءُۚ-وَ مَا اَنْتَ بِمُسْمِـعٍ مَّنْ فِی الْقُبُوْرِ
یعنی تم مُردوں کو نہیں سنا سکتے اور اللہ جس کو چاہتا ہے سناتا ہے۔
جب یہ ثابت ہے کہ حق تعالیٰ ان کو زائرین کی باتیں سناتا ہے جیسا کہ احادیث میں مذکور ہے تو دور رہنے والوں کے دل کی باتیں بھی اُن کو سنا دے تو کیا تعجب ہے۔ پھر قطع نظر اس کے وہ سنیں یا نہ سنیں، جب حق تعالیٰ کو یہی منظور ہے کہ ان کو نیک نام کرے، جیسا کہ ابھی معلوم ہوا، تو جن امور میں لوگ ان سے شفاعت چاہتے ہیں خود ان کی حاجت روائیاں کر دے تو کیا بعید ہے۔ یہی وجہ ہے کہ باوجودیکہ صدہا سال گذر گئے ہیں مگر اولیاء اللہ کی قبروں پر میلے لگے رہتے ہیں، اگر لوگوں کی مرادیں ان کے طفیل میں حاصل نہ ہوتیں تو کسی کو غرض تھی کہ مشقتیں اٹھا کر اُن کی زیارتوں کو جائے اور ہزاروں روپیہ ایصال ثواب کے لیے خرچ کرے۔ یہ فقط ان کی مقبولیت کا اثر ہے ورنہ صدہا سلاطین مر گئے اور اپنا نام باقی رکھنے کے لیے لاکھوں روپیوں کے گنبدوں میں مدفون ہوئے مگر کوئی اُن کو پوچھتا بھی نہیں۔ صحیح حدیث شریف میں وارد ہے کہ جب حق تعالیٰ کسی بندے کو دوست رکھتا ہے تو لوگوں کے دلوں میں اس کی محبت ڈال دیتا ہے۔ انتہیٰ۔ چنانچہ اس کے یہی اسباب ہوتے ہیں کہ لوگوں کی مرادیں ان کے طفیل میں حاصل ہونے لگتی ہیں جب خدا تعالیٰ اپنے دوستوں کا حامی ہو تو اُن کی توہین کرنے اور مسلمانوں کو اُن کی تعظیم وتوقیر کرنے سے مشرک بنانا کس قدر حق تعالیٰ کی مرضی کے خلاف ہوگا۔
قابل توجہ:
افادة الافہام میں ہم لکھ آئے ہیں کہ ہر زمانے میں اس قسم کے لوگ (گمراہ، بے دین۔ مرتب غفرلہ) بہ کثرت ہوا کرتے ہیں، ان کے واقعات بھی لکھے گئے ہیں۔ جن سے ظاہر ہے کہ کیسی کیسی تدابیر سے انہوں نے مسلمانوں کو تباہ کیا، پچھلے زمانوں میں اتفاقاً کوئی شخص ایسا لگتا تھا اب تو بقول شخصے ڈربہ کھل گیا ہے۔ ہر طرف سے یہی ہانک پکار ہے کہ آج یہ نکلا اور کل وہ نکلا۔
قابل توجہ یہ بات ہے کہ جس کا اثر پڑتا ہے ہمارے سنی حضرات ہی پر پڑتا ہے، قادیانی، نیچر وغیرہ نے عام دعوت کی اور کر رہے ہیں مگر نہ کوئی اہل یورپ نے ان کی بات مانی، نہ ہندوؤں نے، نہ اور کسی اسلامی فرقے نے۔ خدا ہماری جماعت کو سلامت رکھے یہی حضرات سخی ہیں کہ ہر ایک کی مراد پوری کرتے ہیں اور وقتاً فوقتاً ان کے شریک حال ہو کر ان کا ایک گروہ بنا دیتے ہیں۔ عقل سے معذور ہوں تو ہوں بے تعصب اور منصف اس درجے کے کہ جس نے کچھ کہہ دیا اس کو کمال غور سے دیکھیں گے اور بے علمی اور کم عقلی سے جواب نہ سوجھے تو اس کا نام انصاف رکھ دیں گے کہ وہ مان لیا جائے۔ ادھر جاہلوں کو شکار کرنے کے ہتھکنڈے ہاتھ لگ گئے ہیں، وہ ایسے دام بچھاتے ہیں کہ خواہ مخواہ ان میں پھنس جائیں، اگر علم ہو تو ان کی مکاریوں اور جعل سازیوں کا جواب دے سکیں۔ پھر عقل پر ناز ہے کہ ہم ہر چیز کو خوب سمجھ سکتے ہیں، اگر کچھ خرچ کر کے ایمان خریدا ہوتا ہے تو اس کے کھو جانے کا کچھ غم ہوتا۔ وہ تو باپ دادا کی کمائی تھی، مال میراث کی طرح بے دریغ لٹا دینی کوئی مشکل بات نہیں، اگر ایک روپیہ کوئی دھوکہ دے کر لے جائے تو پھر عمر بھر یاد رکھیں مگر کوئی پھسلا کر ایمان لے جائے تو اس کی کچھ پرواہ نہیں۔
3۔ مقاصد الاسلام (حصہ اول)حضور ﷺ نور ہیں:
بشرى الكرام فی عمل المولد والقيام مقاصد الاسلام میں فرماتے ہیں کہ مبداء کائنات سرور موجودات ﷺ فرماتے ہیں کہ انا من نور الله وكل شئ من نوری یعنی میں اللہ کے نور سے بنا اور ہر چیز میرے نور سے پیدا ہوئی۔ وہی نور ہے جس کی طرف اس آیہ شریفہ میں اشارہ ہے: اللّٰہ نور السموت والارض مثل نوره كمشكوة فيها مصباح اور ارشاد ہے قد جاءكم من الله نور یہی مقدس نور ہے کہ جب حضرت آدم کی پیشانی میں آیا ان کو مسجود ملائکہ بنایا، یہ وہ نور ہے کہ ساکنان ظلمت کدہ عدم کو اس کا قابل بنایا کہ انوار وجود کا اقتباس کر سکیں۔
حضور ﷺ سید الانبیاء ہیں:
آپ باعث ایجاد عالم وآدم ہیں جو کہ لولاک لما خلقت الافلاک اور لولاک لما خلقت سے ظاہر ہے، نبوت جو سلطنت خدائی میں اعلیٰ درجے کا منصب ہے اس کا سلسلہ آپ ﷺ ہی سے شروع ہوا جیسا کہ آپ ﷺ فرماتے ہیں۔ كنت نبيا وادم بين الماء والطين اور ایک روایت میں ہے کہ كنت نبيا وادم بين الروح والجسد یعنی میں اس وقت نبی تھا کہ حضرت آدم ہنوز پیدا نہیں ہوئے تھے۔ پھر انبیاء گویا آپ کے امتی بنائے گئے، کیونکہ آپ پر ایمان لانے کا صرف حکم ہی نہیں بلکہ نہایت شد ومد سے اقرار لیا گیا، كما قال الله واذ اخذ الله ميثاق النبيين لما أتيتكم من كتاب وحكمة ثم جاءكم رسول مصدق لما معكم لتؤمنن به ولتنصرنه قال ءاقررتم واخذتم على ذلكم اصرى قالوا اقررنا قال فاشهدوا وانا معكم من الشاهدين۔ یعنی جب لیا اللہ نے اقرار نبیوں کا کہ جو کچھ میں نے تم کو دیا کتاب اور علم پھر آئے تمہارے پاس رسول (ﷺ) جو سچ بتا دے اس کو جو تمہارے پاس ہے تو البتہ ایمان لاؤ اس پر اور البتہ مدد دینا اس کو فرمایا کیا تم نے اقرار کیا اور لیا تم نے اس پر بھاری عہد میرا، کہا انہوں نے اقرار کیا ہم نے۔ فرمایا تو اب شاہد رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ شاہد ہوں۔
اس سے ظاہراً تمام انبیاء کا حضور ﷺ کے امتی ہونا معلوم ہوتا ہے، اسی وجہ سے کل انبیاء قیامت میں حضور ﷺ کے جھنڈے کے نیچے رہیں گے اور شب معراج حضور ﷺ کی شان تمام انبیاء کو بتلا دی گئی، چنانچہ سب کے امام آپ ہی بنائے گئے اور سب نے آپ کی اقتدا کی، کل انبیاء کا یہ حال ہو تو ان کی امتوں کے امتی ہونے میں کیا تامل۔ اسی وجہ سے فرماتے ہیں کہ بعثت الى الناس كافة یعنی انسانوں کی طرف میں مبعوث ہوا ہوں، اور حق تعالیٰ فرماتا ہے۔ وما ارسلنك الا كافة للناس بشيراً ونذیراً یعنی ہم نے آپ (ﷺ) کو سب انسانوں کے واسطے بھیجا، خوشی اور ڈر سنانے کو۔
حضور ﷺ کا مثل ممکن ہی نہیں:
حضور ﷺ کا نام مبارک محمد ﷺ علی مسماۃ تمام عالم ملکوت والسموات میں لکھا ہوا ہے، مقصود اس سے ظاہر ہے کہ اہل ملکوت وغیرہم معلوم کر لیں کہ تمام عالم میں حضور ﷺ سے زیادہ کوئی اللہ کا محبوب نہیں، چنانچہ حضرت آدمنے یہی خیال کر کے آنحضرت ﷺ کے نام کے وسیلہ سے مغفرت چاہی۔
اب یہ دیکھ لیجئے کہ یہ نام مبارک حضرت محمد ﷺ کے لیے کیوں تجویز فرمایا گیا، بات یہ ہے کہ حق تعالیٰ کو حد نہایت محبوب اور مرغوب ہے جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے اسی وجہ سے قرآن شریف کی ابتدا الحمد لله رب العلمین سے ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ ہر طرح کی حمد خدا ہی کو سزاوار ہے جو تمام جہان کا پروردگار ہے۔ اور نماز جو تمام عبادتوں میں اعلیٰ درجہ کی عبادت ہے اس کی ابتداء بلکہ ہر رکعت کی ابتدا میں الحمد پڑھنے کا حکم ہے اور اہل ایمان جب جنت میں جائیں گے حمد کرتے ہوئے جائیں گے۔ كما قال الله تعالى وآخر دعواهم ان الحمد لله رب العلمین یعنی آخر پکارنا ان کا یہ ہے کہ سب تعریف واسطے اللہ کے ہے جو پروردگار سارے جہان کا ہے۔
اب دیکھئے کہ تمام حمد جب اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت ہیں جن کا مطلب یہ ہوا کہ سب حامد ہیں اور اللہ تعالیٰ محمود ہے تو اللہ تعالیٰ کے محمد (ﷺ) یعنی حمد کردہ شدہ ہونے میں کیا تامل۔ باوجود اس کے یہ پیارا لقب حق تعالیٰ نے ازل سے حضرت محمد ﷺ کے لیے خاص فرمایا اور ابتدائی تکوین عالم سے عالم ملکوت میں اس کی شہرت دی تاکہ اہل ملکوت پر یہ منکشف ہو جائے کہ جس لفظ کے معنی کا مصداق جناب باری ہو وہ لفظ جن کے لیے تجویز کیا گیا وہ ضرور ایسے ہوں گے کہ عالم میں ان کا نظیر نہ ہوگا۔ اس سے بکمال وضاحت یہ بات ثابت ہوگئی کہ عالم میں حضرت ﷺ کا مثل نہیں ہو سکتا، کیونکہ اب ممکن نہیں کہ کوئی دوسرا شخص ازل سے محمد ہو سکے۔ اور اس سے یہ بھی صاف طور پر معلوم ہوا کہ جتنی تعریف وتوصیف آنحضرت ﷺ کی کی جائے وہ باعث خوشنودی الہٰی ہے کیونکہ اس لقب کے عطا کرنے سے اور کیا مقصود ہو سکتا ہے۔ اسی وجہ سے آنحضرت ﷺ اشعار نعتیہ سے خوش ہوتے تھے جس کا منشا خوشنودی الہٰی تھا۔ النہجۃ السویہ میں لکھا ہے کہ حضرت ﷺ کی امت کا لقب کتب سابقہ میں حمادین ہے۔ تعجب نہیں کہ اس لقب سے اس طرف بھی اشارہ ہو کہ اپنے نبی محمد ﷺ کی حمد وہ کثرت سے کریں گے اگر چہ یہ کہ آپ ﷺ کے بہت سارے نام ہیں مگر چونکہ یہ پیارا نام حق تعالیٰ کو نہایت محبوب ہے اس لیے ایمان سے اس کو کمال درجے کا تعلق ہے۔ چنانچہ النہجۃ السویہ میں لکھا ہے کہ کافر جب تک محمد رسول اللہ نہ کہے اس کا ایمان صحیح نہیں، اور بجائے اس کے احمد کہنا کافی نہیں ہو سکتا۔ اس میں سِرّ یہی ہے کہ ایمان لانے ہی کے وقت آدمی سمجھ جائے کہ حضرت ﷺ قابل حمد وثناء ہیں اور حمد زبان ودل سے کیا کرے اور اسی میں بیہقی کی روایت نقل کی ہے کہ ایک جگہ محدثین کا مجمع تھا، یہ مسئلہ پیش ہوا کہ عرب کے اشعار میں کونسا شعر عمدہ ہے سب کا اتفاق سیدنا حسان بن ثابت کے اس شعر پر ہوا۔
وشق له من اسمه ليجله فذوا العرش محمود وهذا محمد
(یعنی حق تعالیٰ نے حضور ﷺ کی جلالت شان بتلانے کے لیے ان کا نام اپنے نام سے مشتق کیا، چنانچہ حق تعالیٰ محمود ہے اور ہمارے نبی کریم محمد ﷺ ہیں)
میلاد النبی ﷺ کی برکتیں:
جس رات آپ ﷺ پیدا ہوئے ملائکہ آپ کو خلیفۃ اللہ کہتے تھے۔ دیکھئے حق تعالیٰ نے ملائکہ سے حضرت آدم کے باب میں فرمایا تھا: انی جاعل فی الارض خليفة جس سے ظاہر ہے کہ ان کی خلافت صرف زمین سے متعلق تھی، لیکن فرشتے چونکہ افلاک وغیرہ میں دیکھتے تھے کہ حضور ﷺ کا نام مبارک حق تعالیٰ کے نام مقدس کے ساتھ ہر جگہ مکتوب ہے۔ اس لیے انہوں نے ان کو علی الاطلاق خلیفۃ اللہ کہہ دیا اور فی الارض کی قید جو حضرت آدم کی خلافت میں ملحوظ تھی نہیں لگائی۔ فرشتوں کی اس گواہی سے ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺ کل ملکوت میں خلیفۃ اللہ ہیں۔ اسی وجہ سے تمام آسمانوں کے ملائک اس خلیفۃ اللہ کے سلام کے لیے روز میلاد حاضر ہوئے جن کا نزول اجلال تمام عالم کے حق میں رحمت تھا جیسا کہ حق تعالیٰ فرماتا ہے۔
وما ارسلنک الا رحمة للعلمین
جب آپ رحمت مجسم ہو کر اس عالم میں تشریف لائے تو کون ایسا شقی ہوگا کہ نزول رحمت سے خوش نہ ہو۔ روایت ہے کہ تمام عالم میں اس روز ہر طرف خوشی تھی مگر شیطان کو کمال درجہ کا غم تھا جس سے زار زار روتا تھا، جبرئیلاس کی یہ حالت دیکھ کر نہ رہ سکے اور ایک ایسی ٹھوکر اس کو ماری کہ عدن میں جا پڑا۔ غرضیکہ جس طرح میلاد شریف کا غم کمال شقاوت کی دلیل ہے اس کی مسرت کمال سعادت کی دلیل ہوگی، جیسا کہ اس روایت سے ظاہر ہے جو کنز العمال وغیرہ میں مذکور ہے کہ ابو لہب کو جب ثوبیہ (ثوبیہ: 12 مرتب) نے جو اس کی لونڈی تھی خبر دی کہ تمہارے بھائی عبد اللہ کے لڑکا پیدا ہوا، اس کو اس خبر فرحت اثر سے نہایت خوشی ہوئی اور اس بشارت کے صلہ میں اس کو آزاد کر دیا، ابو لہب کے مرنے کے بعد کسی نے اس کو خواب میں دیکھا اور حال دریافت کیا تو اس نے معذب ہونے کا حال بیان کر کے کہا کہ ہر دو شنبہ کی رات اس خوشی کے صلہ میں جو محمد (ﷺ) کے پیدا ہونے میں ہوئی تھی مجھ سے عذاب کی تخفیف ہو جاتی ہے اور میری انگلیوں سے پانی نکلتا ہے جس کو چوسنے سے تسکین ہوتی ہے۔ دیکھئے جب ایسا ازلی شقی جس کی مذمت میں ایک کامل سورہ تبت یدا ابی لهب نازل ہے میلاد شریف کی مسرت ظاہر کرنے کی وجہ سے ایک خاص قسم کی رحمت کا مستحق ہو اور وہ بھی کہاں عین دوزخ میں، تو خیال کیا جائے کہ آپ ﷺ کی امتیوں کو اس اظہار مسرت کے صلہ میں کیسی کیسی سر فرازیاں ہوں گی۔ اسی مضمون کو حافظ شمس محمد بن ناصر الدین دمشقی نے نظم میں لکھا ہے۔
اذا كان هذا كافراً جاء ذمه وتب يداه في الحجيم مخلدا
اتي انه في يوم الاثنين دائما يخفف منه للسرور باحمدا
فما الظن بالعبد الذى كان عمره باحمد مسروراً ومات موحدا
اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر چند ولادت شریف ایک معین دو شنبہ کے روز ہوئی مگر اس کا اثر ہر دو شنبہ میں مستمر ہے اس لحاظ سے اگر ہر دو شنبہ اظہار مسرت کے لیے خاص کیا جائے تو بے موقع نہ ہوگا۔
کم سے کم سال میں ایک بار تو اظہار مسرت ہونا چاہیے اسی وجہ سے حرمین شریفین میں روز روز دواز دہم شریف نہایت اہتمام سے ہوتا ہے یہاں تک کہ اس روز اور عیدوں کی طرح خطبہ پڑھا جاتا ہے اور تمام مسلمان خوشیاں مناتے ہیں خصوصاً مدینہ طیبہ میں تو دور دور سے قافلے چلے آتے ہیں اور مراسم عید ادا کئے جاتے ہیں اور مکہ معظمہ میں ایک لطف خاص قابل دید یہ کہ ہر فرقے اور حرفے کے لوگ مسجد الحرام سے قبہ مولد النبی ﷺ میں جوق جوق ممتاز ہو کر جاتے ہیں اور وہاں مولود شریف پڑھ کر شیرینی وغیرہ تقسیم کرتے ہیں اور بمصداق ما راه المسلمون حسناً فهو عند الله حسن مورد تحسین ہوتے ہیں۔ شیخ نجم الدین غیطی نے رسالہ مولود شریف میں حضرت ابن عباس سے روایت نقل کی ہے کہ آنحضرت ﷺ کی ولادت اور ابتدائے نبوت اور ہجرت اور مدینہ شریف میں داخل ہونا اور وفات شریف یہ سب امور دو شنبہ کے روز واقع ہوئے۔ آپ ﷺ کے معاملات میں یہ ایسا روز ہے جیسے حضرت آدم کے حق میں جمعہ تھا ان کی پیدائش، زمین پر اترنا، توبہ کا قبول ہونا اور وفات سب جمعہ کے دن ہوئے۔ اس وجہ سے ایک ساعت جمعہ میں ایسی ہے کہ جو دعا اس میں کی جائے قبول ہوتی ہے تو خیال کرو کہ سید المرسلین ﷺ کی ساعت ولادت میں اگر دعا قبول ہو تو کونسی تعجب کی بات ہوگی۔
علماء نے اختلاف کیا ہے کہ میلاد شریف کی رات افضل ہے یا شب قدر؟ جن حضرات نے میلاد شریف کی رات کو افضل کہا ہے ان کے دلائل یہ ہیں کہ لیلۃ القدر کی فضیلت اس وجہ سے ہے کہ ملائکہ اس میں اترتے ہیں جیسا کہ خدائے تعالیٰ نے ارشاد فرمایا لیلۃ القدر خير من الف شهر تنزل الملائكة والروح فيها۔ اور شب میلاد میں سید الملائکہ والمرسلین کا نزول اجلال عالم میں ہوا ہے تو ظاہر ہے کہ یہ فضیلت شب قدر میں نہیں آسکتی۔
دوسری دلیل یہ ہے کہ شب قدر آنحضرت ﷺ کو دی گئی اور شب میلاد میں خود آپ ﷺ کا ظہو ہوا، جس کی وجہ سے شب قدر کو فضیلت حاصل ہوئی اور ظاہر ہے کہ جو چیز ذات سے متعلق ہو بہ نسبت اس چیز کے جو عطا کی گئی افضل ہوگی۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ شب قدر کی فضیلت صرف آپ ﷺ کی امت سے متعلق ہے اوروں کو اس سے کوئی تعلق نہیں اور شب میلاد تمام موجودات کے حق میں نعمت ہے اس لیے کہ اس میں رحمۃ للعلمین کا ظہور ہے جو کل موجودات کے حق میں نعمت عظمیٰ ہے۔ یہ بات دوسری ہے کہ جس طرح ابو لہب کے حق میں ہر دو شنبہ کی رات میں برکت مکرر ہوتی ہے۔ ہر دو شنبہ کی رات یا ہر تاریخ ولادت کی رات میں وہ فضیلت مکرر ہوتی ہے یا نہیں۔ مگر اس میں شک نہیں کہ نفس شب قدر سے شب میلاد افضل ہے۔
اب مولود شریف کے جواز اور استحباب کی دلیلیں سینے۔ نجم الدین غیطی نے شیخ الاسلام ابن حجر عسقلانی کا قول نقل کیا ہے کہ ہر سال مولود شریف معین روز میں کرنے کی اصل بخاری اور مسلم کی روایت سے ثابت ہے وہ یہ ہے کہ جب حضرت ﷺ مدینہ منورہ تشریف لے گئے دیکھا کہ یہود عاشورہ کے روز روزہ رکھا کرتے ہیں اس کی وجہ ان سے دریافت کی انہوں نے کہا کہ یہ روزہ وہ ہے کہ اس میں خدائے تعالیٰ نے فرعون کو غرق کیا اور حضرت موسیٰ کو نجات دی اس لیے اس کے شکریہ میں عاشورہ کے روز ہم لوگ روزہ رکھا کرتے ہیں، آپ نے فرمایا نحن احق بموسى منکم یعنی تم سے زیادہ ہم اس کے مستحق ہیں۔ چنانچہ آپ نے بھی اس روز روزہ رکھا اور صحابہ کو بھی اس کا حکم فرمایا اس سے ظاہر ہے کہ جب کوئی اعلیٰ درجے کی نعمت کسی معین روز میں حاصل ہوئی ہو اس کی ادائی شکر اس روز کے نظیروں میں کرنا مسنون ہے اور چونکہ کوئی نعمت رحمۃ للعلمین ﷺ کی ولادت با سعادت سے افضل نہیں ہو سکتی اس لیے بہتر ہے کہ اس شکریہ میں اقسام کی عبادتیں مثل صدقات اور اطعام وطعام وغیرہ روز میلاد شریف ادا کی جائیں۔
ابن حجر مکی نے لکھا ہے کہ عسقلانی سے پیشتر حافظ ابن رجب حنبلی نے بھی اس کے قریب قریب جواز مولود پر استدلال کیا ہے۔ امام سیوطی نے لکھا ہے کہ دوسری اصل مولود شریف یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے خود بنفس نفیس اپنا عقیقہ اد ا فرمایا باوجود یہ کہ روایات سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ کے جد امجد عبد المطلب نے ساتویں روز آپ کا عقیقہ کیا تھا اور یہ بھی ثابت ہے کہ عقیقہ دوبارہ نہیں کیا جاتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت محمد ﷺ کو اس اعادہ عقیقہ سے یہ معلوم کرنا منظور تھا کہ اعلیٰ درجہ کی نعمت پر اگر اعادہ شکر کیا جائے تو بہتر ہوگا۔ اس لیے میلاد شریف کے روز اظہار شکر میں کھانا کھلانا اور اظہار مسرت کرنا مستحب ہے۔
رسالہ اتمام النعمة الكبرى على العالم بمولد مصطفی ﷺ میں حافظ ابن حجر مکی نے ابن حجر مکی کا قول نقل کیا ہے کہ مولود شریف کی اصل خود آنحضرت ﷺ سے ماثور ہے۔ مولود کی فضیلت کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اس میں ادغام شیطان اور سرور اہل ایمان ہے۔ انتہیٰ۔ آپ نے دیکھ لیا کہ ان علماء کی تصریحات سے ظاہر ہے کہ جس سے اس کا مسنون اور مستحب ہونا ثابت ہوتا ہے۔
شیخ الاسلام عسقلانی نے صوم عاشورہ سے استدلال کیا ہے، اس میں غور کیجئے کہ باوجود یکہ حضرت موسیٰ کی کامیابی ایک معین عاشورہ میں ہوئی تھی۔ مگر تمام سال کے ایام میں صرف اس روز کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ اس نعمت کا شکریہ اسی روز مکرر ہر سال ادا کیا جائے۔ جس سے ثابت ہے کہ گو واقعہ مکرر نہیں مگر اس کی برکت کا اعادہ ضرور ہوتا ہے جس پر دلیل یہ ہے کہ ہر دو شنبہ میں ابو لہب کے لیے اس کی برکت کا اعادہ ہوتا ہے۔
بعض علماء نے یہاں پر یہ کلام کیا ہے کہ صوم عاشورہ منسوخ ہو گیا ہے اس لیے اس کی فضیلت باقی نہیں رہی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ رمضان شریف کے روزوں کی فرضیت کے بعد اب کسی روزے کی فرضیت نہ رہی۔ اس سے صوم عاشورہ کی علت جو حضرت ﷺ کے پیش نظر تھی اس میں کوئی فرق نہیں آیا، اس لیے کہ اس کے منسوخ کرنے کے وقت حضرت ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ نحن لسنا احق بموسى منكم جس طرح روزہ رکھنے کے وقت نحن احق بموسى منکم فرمایا تھا اور نہ یہ فرمایا کہ حضرت موسیٰ کا واقعہ گزر کر ایک زمانہ ہو گیا ہر سال اس کا لحاظ رکھنا جائز نہیں۔ کیونکہ اس میں اعادہ معدوم نظر آتا ہے پھر باوجود اس روزے کے منسوخ ہونے کے احادیث میں اس کے فضائل وارد ہیں، جس سے ثابت ہے کہ روزے کا حکم فرمانے کے وقت جو فضیلت ملحوظ تھی وہ اب بھی ملحوظ ہے اور یہ بات مسلّم ہے کہ فضائل منسوخ نہیں ہو سکتے۔ اس لیے شیخ الاسلام کے استدلال پر اس کے منسوخ ہونے کا کوئی اثر نہیں پڑ سکتا اور اگر تسلیم کر لیا جائے کہ اس روزے کی فضیلت بھی منسوخ ہو گئی تو بھی کوئی حرج نہیں، اس لیے کہ حضرت موسیٰ کی نجات کی بے حد خوشی اگر ہو تو ان لوگوں کو ہوگی جن کو ان کے امتی ہونے کا دعویٰ تھا یعنی یہود کو، ہمیں اس کی کیا ضرورت۔ اگر انبیائے سابق کے اس قسم کے واقعات کی خوشی ہم پر لازم ہو تو ہفتے کے تمام ایام انہی خوشیوں میں صرف ہو جائیں گے۔ آنحضرت ﷺ کو اس روزے سے صرف امت کو توجہ دلانا مقصود معلوم ہوتا ہے کہ جب ہم ایک نبی کی نجات پر شکریہ ادا کرتے ہیں تو تم کو ہماری ولادت کی بے حد خوشی کرنی چاہیے مگر طبع غیور کو صراحۃً یہ فرمانا گوارہ نہ تھا کہ ہمارے میلاد کے روز تم لوگ روزہ رکھا کرو بلکہ خود ہی اس شکریہ میں روز دو شنبہ ہمیشہ روزہ رکھا کرتے تھے اور اس کی وجہ اس وقت تک نہیں بتائی کہ کسی نے نہیں پوچھا۔ اس لیے کہ بغیر استفسار کے بیان کرنا بھی طبع غیور کے مناسب حال نہ تھا۔ یہ بات مسلم شریف کی اس روایت سے ظاہر ہے کہ جب حضور ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ آپ دو شنبہ کا روزہ کیوں رکھا کرتے ہیں؟ فرمایا وہ میری ولادت کا روز ہے اور اس روز مجھ پر قرآن نازل ہوا۔ انتہیٰ
اب غور کیجیے کہ جب خود بدولت ہمیشہ روز میلاد میں شکریہ کا روزہ رکھا کرتے تھے تو ہم لوگوں کو کس قدر اس شکریہ کی ضرورت ہے اس لیے کہ حضرت ﷺ کا وجود ہم لوگوں کے حق میں نعمت عظمیٰ ہے اور اگر یہی لحاظ ہوتا کہ اپنی ولادت کا شکریہ ضرور تھا تو فرما دیتے کہ ہر شخص اپنی ولادت کے روز شکریہ کا روزہ رکھا کرے۔ حالانکہ کسی روایت میں یہ وارد نہیں ہوا۔ اس سے ظاہر ہے کہ اس میں عمومی نعمت کا لحاظ تھا اور اس سے صرف تعلیم امت مقصود تھی کہ اس نعمت عظمیٰ کا شکریہ ہر ہفتے میں ادا کیا جائے۔ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں ملا علی قاری نے طیبی کا قول نقل کیا ہے کہ جس روز نبی ﷺ کا وجود اس عالم میں ہوا اور کتاب عنایت ہوئی تو روزہ کے لیے اس روز سے بہتر اور کونسا روز ہوسکتا ہے۔ غرض کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ میلاد مبارک کا شکریہ ہر ہفتے میں ادا کیا جائے پھر اگر سال میں بھی ایک بار اس نعمت عظمیٰ کا شکریہ ادا نہ کیا جائے تو کس قدر بد نصیبی اور بے قدری ہے۔ غرض کہ تکرار زمانہ نے گو اعادہ معدوم نہیں مگر ابتدائی فضیلت اس میں ضرور ملحوظ ہوتی ہے۔ دیکھئے حضرت اسمعیل جب مذبوح ہونے سے بچائے گئے جس کے سبب سے حضرت ابراہیم واسمعیل کو خوشی ہوئی ہر سال اس خوشی کا اعادہ ہوا کرتا ہے۔ اس سے بڑھ کر کیا ہو کہ اس دن عید ہوتی ہے اور اس واقعہ کے پیش نظر ہو جانے کے لیے جس قسم کے افعال وحرکات ان حضرات اور حضرت بی بی حاجرہ سے صادر ہوئے اس قسم کے حرکات کے ہم لوگ حج میں مامور ہیں۔ چنانچہ حضرت سیدہ حاجرہ نے پانی کی تلاش میں صفا ومروہ میں سات چکر کئے تھے ہم کو بھی حکم ہے کہ اس وسیع میدان میں سات چکر کیا کریں، میلین اخضرین کے مقام میں وہ دوڑیں تھیں ہمیں بھی وہاں دوڑنے کا حکم ہے اس طرح اور بہت سے افعال ہیں جن سے وہ اصلی واقعہ پیش نظر ہو جاتا ہے۔ اب اگر مولود شریف کے وقت سید المرسلین ﷺ کی تشریف فرمائی مسلمانوں کے پیش نظر ہو اور تعظیم کے لیے اٹھ کھڑے ہوں تو ایسی کونسی بے موقع حرکت ہوگئی جس سے لعن طعن کیا جاتا ہے اور اقسام کے الزام لگائے جاتے ہیں۔
بخاری شریف کی کتاب الانبیاء میں روایت ہے جس کا ملخص یہ ہے کہ سفر غزوۂ تبوک میں جبکہ آنحضرت ﷺ کا گزر مقام حجر پر ہوا تو آپ ﷺ کو بذریعہ وحی وہاں کے حالات پر اطلاع ہوئی اور فرمایا کہ حضرت صالح کی اونٹنی فلاں کنویں کا پانی پیا کرتی تھیں قوم نے اس کو اس وجہ سے قتل کر ڈالا کہ وہ ایک روز میں سب پانی پی جاتی تھی، حضرت صالح نے بہت منع کیا مگر انہوں نے نہ مانا اس پر عذاب نازل ہوا اور سب ہلاک کئے گئے اب تم لوگ اس کنویں پر اترو جو اونٹنی کے لیے خاص تھا اور دوسرے کنویں کے پانی سے احتراز کرو، صحابہ کرام نے عرض کیا کہ ہم نے تو اس کنویں کے پانی سے آٹا گوندھ لیا ہے، فرمایا خمیرہ اور بچا ہوا پانی سب پھینک دو اور اس کنویں کا پانی لو جو اونٹنی کے لیے خاص تھا، پھر فرمایا کہ اس قوم کی سکونت گاہ میں جب پہنچو تو روتے ہوئے وہاں سے جلد گزر جاؤ اور اگر رونا نہ آئے تو تکلف روؤ، اس خوف سے کہ کہیں تم پر ان کا عذاب نہ ہو جائے۔ چنانچہ جب اس قوم کے مکانات پر پہنچے تو آنحضرت ﷺ نے چادر مبارک سے اپنا سر مبارک ڈھانپ لیا، اور اونٹنی کو دوڑایا، یہاں تک کہ اس وادی سے نکل گئے۔ (یہ خلاصہ ان روایتوں کا ہے جو بخاری اور فتح الباری اور تفسیر ابن جریر وغیرہ میں مذکور ہیں) اس طرح مسلم وغیرہ کی روایتوں سے ثابت ہے کہ حج میں وادی محسر جہاں اصحاب فیل ہلاک ہوئے تھے وہاں سے جلد گزر جانا مسنون ہے۔ اب غور کیجیے کہ حضور ﷺ پر اس مقام میں جو خوف طاری ہوا اور سب کو رونے کا حکم فرمایا اور آپ بھی نہایت تفع کی حالت میں چادر مبارک سے سر ڈھانکے ہوئے نہایت جلدی سے اس مکان سے نکل گئے کیا یہ خیال ہو سکتا ہے کہ ان برگزیدگان حق پر اس وقت سچ مچ عذاب اترتا، وہ بھی ایسی حالت میں کہ صرف خوشنودی خدا اور سول کی غرض سے راہ خدا میں جان دینے کو چلے جا رہے ہیں اور تباہی نہیں بلکہ خود نبی کریم ﷺ کے ہمرکاب تھے جن کی شان میں وارد ہے ما کان الله ليعذبهم وانت فيهم یعنی حق تعالىٰ ان لوگوں پر عذاب نہیں کرتا جن میں آپ ہیں، پھر حضرت ﷺ کو اس خوف سے کیا تعلق جو خود بھی جلدی سے وہاں سے گزر گئے، کیا ضعیف الایمان بھی اس موقع میں ناشائستہ خیال کر سکتا ہے؟ ہر گز نہیں۔ پھر یہ تمام آثار جو اصلی واقعہ کے وجود کے وقت مرتب ہونے کے لائق ہیں اس وقت کیوں ظہور میں آئے۔ کیا اس وقت اس قوم پر عذاب اتر رہا تھا جس کے دیکھنے سے یہ خیال پیدا ہوا کہ اگر کوئی شخص بیباکانہ اس مقام میں چلا جائے تو اندیشہ ہے کہ مبتلائے عذاب ہو جائے، اس لیے کمال خضوع سے روتے ہوئے جانے کی ضرورت ہوئی، تاکہ حق تعالیٰ اس عذاب سے بچالے۔ اس سوال کا جواب سوائے اس کے کچھ نہیں کہ صرف اصلی واقعہ اس وقت پیش نظر ہو گیا تھا جس پر آثار خوف مرتب ہوئے پھر یہ آنحضرت ﷺ نے اپنی رائے سے بھی نہیں فرمایا کہ اس ویران مقام میں کیونکر معلوم ہوا کہ اونٹنی کا کنواں کونسا اور قوم کے کنویں کونسے ہیں جس سے پانی پینے کی ممانعت ہوئی بلکہ یہ سب وحی سے معلوم ہونے کی باتیں ہیں۔ اس سے ثابت ہے کہ یہ سب تعلیم الہٰی تھی۔ اب فرمائیے کہ اس وقت جو صرف اصل واقعہ کے پیش نظر ہونے سے حکم تھا کہ خوف وخضوع ظاہر کریں اسی طرح میلاد شریف کے پیش نظر ہونے کے وقت آثار فرحت وتعظیم ظاہر کئے جائیں تو خدا اور رسول کی مرضی کے مخالف ہونے کی کیا وجہ۔ کیا یہ حدیث صحیح نہیں ہے کہ صحابہ سے آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا کہ قوموا السیدکم غرض کہ یہ ہرگز ثابت نہیں ہو سکتا کہ میلاد شریف کے وقت جو قیام کیا جاتا ہے وہ شرک یا مکروہ ہے۔
1۔ انوار الحق (1322ھ، اردو):
مرزا قادیانی دجال کی تائید میں لکھی جانے والی کتاب "تائید الحق (مصنفہ مولوی حسن علی صاحب)" کے جواب میں یہ کتاب لکھی گئی اور اس کے ضمن میں مرزا کی کتاب "ازالۃ الاوہام" کے بعض مباحث پر حسب ضرورت بحث کی گئی ہے۔ اور مرزا قادیانی کے اوہام اور وساوس کا بڑی خوبصورتی سے رد کیا گیا ہے۔ یہ کتاب شیخ الاسلام کی شہرہ آفاق کتاب "افادة الافہام" کے بعد لکھی گئی۔
2۔ مفاتيح الاعلام (اردو):
حضرت شیخ الاسلام نے مرزا قادیانی کی کتاب "ازالۃ الاوہام" کے رد میں شہرہ آفاق کتاب "افادة الافہام" تحریر فرمائی، "مفاتیح الاعلام" اس کتاب کی فہرست ہے جو بجائے خود ایک قیمتی کتاب ہے۔ اس کتاب کے مضامین میں شامل ہیں۔ مرزا صاحب کے دھوکا دینے والے اقرار واقوال، فضائل وکمالات کے دعوے، بذریعہ الہام خدا نے ان سے کہا، مرزا صاحب کے اوصاف وحالات، خلاف بیانی، قسمیں، وعدہ خلافی، فتنہ انگیزی، اخلاقی حالت، دنیا داری، اس زمانے میں نبی کی ضرورت ثابت کرنے اور نبی بننے کی تدبیر، عیسیٰ بننے، وحی اتارنے، امام مہدی بننے کی تدابیر، اپنی اولاد میں عیسویت قائم کرنے کی تدبیر، خارق عادات معجزوں سے سبکدوشی کی تدبیر، الہاموں کی تدبیر، قرآن کی تحریف کی تدبیر، خاتم الانبیاء بننے کی تدبیر، پیسہ پیدا کرنے کی تدبیر، مرزا صاحب کے استفادات، حیلے، واقعات میں تصرف، امور غیبیہ مثل کشف والہام وغیرہ، آیتوں کا مصداق بدل دینا، آیتوں سے جھوٹا استدلال، مخالفت رسول اللہ ﷺ واہل اسلام وغیرہ۔
3۔ افادة الافہام (اردو):
مرزا قادیانی کی ایک کتاب کا نام "ازالۃ الاوہام" ہے لیکن حقیقت میں اوہام باطلہ کا بدترین مرقع ہے۔ امت محمدیہ ﷺ کے متعدد علماء نے اس کا جواب لکھا اور شیخ الاسلام حضرت علامہ مولانا انوار اللہ خان نے "افادة الافہام" تحریر فرمائی۔ افادة الافہام کی بڑی سائز کی دو جلدیں پہلے شائع ہو چکی ہیں، جلد دوم کے آخر میں سنِ تصنیف اس شعر سے لیا گیا ہے۔
اہل حق کو ہے مژدہ جاں بخش قادیانی کا رد خوش اسلوب
ہے معلیٰ یہ اس کا سال طبع ہوئی تردید اہل باطل خوب
۱۳۲۵ھ
رد قادیانیت پر کام کرنے والے حضرات دونوں جلدوں کی صرف فہرست ہی ملاحظہ کر لیں تو عش عش کر اٹھیں گے کہ شاید ہی مرزائیت کا پھیلایا ہوا کوئی ایسا وہم ہو جس کا اس کتاب میں جواب موجود نہ ہو۔ مرزا قادیانی کے اوہام باطلہ کا قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب دیا گیا ہے۔ جگہ جگہ قادیانی کو اس کی اپنی تحریروں کی زنجیر میں جکڑا گیا ہے۔ تحریر میں کہیں تلخی نام کی کوئی چیز آپ کو نہیں ملے گی۔ دلائل گرم، الفاظ نرم کا حسین وجمیل مرقع ہے۔ اللہ رب العزت کی حضور خاتم النبیین ﷺ کے صدقے حضرت شیخ الاسلام کی تربت پر کروڑوں رحمتیں ہوں، جنہوں نے مرزا قادیانی کو چاروں شانے چت کیا ہے۔ اس کتاب کے مطالعے کے بعد یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ شیخ الاسلام، مرزا قادیانی دجال کی تردید میں قدرت کا عطیہ تھے۔ کتاب کو لکھے ہوئے ایک صدی گزر چکی ہے اس کے بعد اس عنوان پر کئی کتابیں لکھی گئیں مگر یہ حرف آخر کا درجہ رکھتی ہے۔ حضرت شیخ الاسلام کی تحریر کی گئی وہ تقریظ جو آپ نے حضرت علامہ مولانا محمد حیدر اللہ خان نقشبندی حنفی درانی کی کتاب "درة الدرانی علی ردة القادیانی" پر تحریر فرمائی ہے۔
"تقریظ جلیل"
حضرت علامہ مولانا الحاج محمد انوار اللہ فاروقی
(بانی جامعہ نظامیہ حیدر آباد دکن)
میں نے متفرق مقامات اس کتاب لاجواب کے دیکھے۔ جس سے یقین کرتا ہوں کہ اہل انصاف جب اس کو دیکھیں گے مذہب قادیانی ان کی نظروں میں بالکل بے وقعت ہو جائے گا۔ حق تعالیٰ اس کے مصنف ادام الله فیوضہ کو جزائے خیر دارین میں عطا فرمائے۔ آمین
محمد انوار الله
استاد حضور پر نور ہز ہائینس
نظام الملک آصف جاہ بہادر
والی ریاست حیدر آباد دکن
(ماخوذ از عقیدہ ختم نبوت ،ج:5)