Khatam e Nabuwat

علامہ قاضی عبد الغفور

حالات زندگی:

فاضل پنجاب حضرت علامہ قاضی عبد الغفورکا آبائی تعلق موجودہ ضلع خوشاب کے ایک گاؤں پنجہ شریف سے تھا اور اپنے زمانے میں فیروز پور چھاؤنی میں آرمی کے خطیب اور مستند وجید عالم تھے۔ ابتداء میں مسلک دیوبند کی طرف راغب تھے مگر بعض موضوعات پر انہیں اشکال تھے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی قدس سرہ سے مناظرہ کے لیے بریلی شریف پہنچے۔ حسن اتفاق کہ اس وقت امام احمد رضا قدس سرہ نے دوران درس انہی موضوعات پر سیر حاصل اور نہایت محققانہ گفتگو فرمائی جن پر ان کے ذہن میں اشکالات تھے۔ اس سے انہیں اس قدر تسلی ہوئی کہ کوئی بھی اعتراض باقی نہ رہا۔

جب درس ختم ہوا مصافحہ کا اعزاز پایا تو امام احمد رضا نے پوچھا مولانا! کیسے تشریف لائے؟ بے ساختہ عرض کیا: حضور! مرید ہونا چاہتا ہوں۔ فرمایا: کیا پڑھے ہوئے ہو۔ جواباً درسیات کی تمام کتب کے نام گنوا دیئے۔ اعلیٰ حضرت نے فرمایا: مولانا! کچھ عرصہ یہیں قیام فرمائے اور مزید پڑھیے۔ مولانا قاضی عبد الغفور ﷫ دو سال بریلی شریف حاضر خدمت رہے۔ دستار فضیلت اور دستار خلافت واجازت کی تحریری اسناد سے سرفراز ہوئے اور پھر پنجہ شریف مستقل سکونت اختیار کی اور خدمت دین مبین میں ساری زندگی صرف کر دی۔ معارف رضا سال ۱۴۱۳ھ /بمطابق ۱۹۹۲ء میں پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد صاحب لکھتے ہیں:

"امام احمد رضا کے تلاندہ اور خلفاء پاک وہند کے گوشے گوشے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ۱۹۹۰ء میں سکھر (سندھ) میں قیام کے دوران محترم مولانا حافظ محمد رفیق صاحب قادری زید عنایتہً (مہتمم دارالعلوم جامعہ انوار مصطفیٰ سکھر) نے فرمایا کہ ایک دستاویز ان کے علم میں بھی ہے جو ان کے استاد گرامی مولانا عبد الغفور کے گھرانے میں محفوظ ہے۔ دستاویز کے مطالعہ کے بعد معلوم ہوا کہ یہ دو سندیں ہیں جن کا تعلق پاکستان کے مولانا محمد عبد الغفور شاہپوری سے ہے۔ پہلی سند تکمیل ہے جو ۶ ذی القعدہ ۱۳۳۰ھ کو جاری کی گئی ہے۔ دوسری سند خلافت واجازت ہے۔

پہلی سند تکمیل میں مولانا کا نام اس طرح لکھا ہوا ہے: "العالم العامل والفاضل والفاصل المولوى عبد الغفور بن قاضی عبد الحكیم المتوطن پنجہ ضلع شاہ پور۔" آخر میں ان الفاظ کے ساتھ حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خاں صاحب کی تصدیق ہے "انا مصدق لذلک والله خیر مالک۔" اور حجۃ الاسلام کی مہر بھی ہے۔ پھر ان الفاظ کے مولانا محمد امجد علی اعظمی کی مہر بھی ہے "قد قرا من بعض الكتب الدرسیۃ۔"

اس سند کے آخر میں امام احمد رضا کے دستخط ہیں اور مہر بھی ثبت ہے۔ اس کے علاوہ مولانا امجد علی اعظمی، مولانا حامد رضا خاں صاحب، مفتی محمد مصطفیٰ رضا خاں صاحب اور دار العلوم منظر الاسلام بریلی شریف کی بھی مہریں ہیں۔ حضرت سیاح حرمین بابا جی سید طاہر حسین شاہ جیسے بزرگ آپ کے تلامذہ میں سے ہیں آپ کا مزار مبارک پنجہ شریف میں مرجع خلائق ہے۔ 1

رد قادیانیت:

رد قادیانیت کے موضوع پر آپ کے دو رسائل بعنوان "لیاقت مرزا" اور "عمدة البيان فی جواب سوالات اہل القادیان" دستیاب ہوئے ہیں۔ ادارہ انہیں سلسلہ عقیدہ ختم نبوت کی تیرہویں میں زیور طبع سے آراستہ کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہے۔


  • 1 از: ملک محبوب رسول قادری، مجلہ تحریک ختم نبوت ۱۹۷۴ء

Powered by Netsol Online