Khatam e Nabuwat

علامہ مشتاق احمد انبیٹھوی

حالات زندگی:

حضرت علامہ مشتاق احمد محدث انبیٹھوی بن مخدوم بخش بن نوازش علی ۱۲۷۳ھ میں انبیٹھ مضافات سہارنپور (یوپی، بھارت) میں پیدا ہوئے۔ آپ نے مولانا سعادت علی سہارنپوری، مولانا سدید الدین دہلوی، مولانا محمد علی چاند پوری اور مولانا فیض الحسن سہارنپوری سے علوم دینیہ حاصل کئے۔ علم حدیث مولانا قاری عبد الرحمن پانی پتی(متوفی ۱۳۱۴ھ) اور مولانا انصار علی انبیٹھوی سے اخذ کیا۔

آپ کے خلیفہ مجاز مولانا پیر صبغت اللہ چشتی صابری مدفون پاکپتن شریف) فرماتے ہیں کہ حضرت مولانا مشتاق احمد انبیٹھوی حنفی چشتی صابری آٹھ مرتبہ حج کی سعادت سے بہرہ ور ہوئے۔ ان میں تین حج مکہ مکرمہ کی سکونت کے دوران کئے۔ آپ مکہ مکرمہ میں قیام کے زمانے میں مولانا حاجی رحمت اللہ کیرانوی مہاجر مکی کے مدرسہ صولتیہ میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ رسالہ تقبیل دست بوسی وقدم بوسی کے صفحہ 7 پر بضمن جواب استفتاء یوں تحریر ہے: "الجواب صحیح والمجيب نجيح مشتاق احمد عفى الله عنه، "المدرس الاول بمدرسه الصولتيه بمكة المكرمة سابقاً صدر المدرسين بمدرسة المعينية العثمانية بدار الخير اجمير حالاً" مشتاق احمد (جمادى الآخر 1331ھ)محدث انبیٹھوی حضرت علامہ مشتاق احمد انبیٹھویمحدث انبیٹھوی حضرت علامہ مشتاق احمد انبیٹھوی

حرمین شریفین میں قیام کا مقصد وحید یہ تھا کہ وہاں سے برکات نبوی ﷺ حاصل کئے جائیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا کرم ہوا اور آپ کو کامیابی نصیب ہوئی۔ حضور پرنور نبی کریم ﷺ کے روضہ اطہر وانور کے زیریں حصہ کی خاک پاک اور مستعمل جاروب شریف کی متاع بے بہا سے نوازے گئے۔ مدینہ منورہ میں ایک بزرگ نے اپنا جبہ عطا کیا۔ ان تبرکات کے متعلق آپ نے وصیت فرمائی کہ بعد انتقال روضہ اقدس کی خاک پاک میری آنکھوں میں ڈال دی جائے، جاروب شریف میری بغل میں دے دیا جائے اور جبہ مبارک کفن کے اوپر رکھ دیا جائے۔ حسب وصیت اس پر عمل کیا گیا۔

مدرسہ صولتیہ میں تدریس کے دوران حجاز میں ہاشمی عہد کے وزیر خزانہ علامہ شیخ سید محمد طاہر دباغ مکی (1308ھ، 1378ھ) نے آپ سے تعلیم پائی۔ حرمین شریفین سے واپسی پر آپ نے سلسلہ درس وتدریس جاری رکھا۔ مدرسہ معینیہ عثمانیہ اجمیر شریف میں مدت تک پڑھاتے رہے۔ لدھیانہ (مشرقی پنجاب، بھارت) میں مدرس رہے۔ لدھیانہ سے آپ ریاست گنج پورہ کے مفتی مقرر ہو کر گنج پورہ تشریف لے گئے اور آخر تک وہیں مقیم رہے۔

آپ نے علماء اہلسنت کی کتابوں پر تقاریظ بھی فرمائی ہیں۔ حضرت علامہ مشتاق احمد انبیٹھوی نے الکحل لابصار المذبذبین جو مولانا شاہ محمد ادریس حنفی نقشبندی مجددی قادری (بہادر گڑھ، ضلع رتیک، صوبہ ہریانہ، ہندوستان) کی تالیف پر ان الفاظ میں تقریظ فرمائی ہے:

بسم الله الرحمن الرحیم

الحمد لله وسلام على عباده الذین اصطفی

اما بعد عاجز راقم الحروف نے رسالہ متبرکہ الکحل لابصار المذبذبین کو دیکھا۔ دلائل حقہ اثباب مسئلہ علم غیب میں اور رسائل سے بہتر پایا۔ حضرت مصنف رسالہ نے جو کچھ لکھا وہ اہل حق کے مطابق لکھا اور جو سند میں کتب تفاسیر اور احادیث سے پیش کی ہیں، وہ اثباب مقصود میں کافی ہیں۔ بارک الله فی علمہ ودینہ۔

كتبہ العبد العاصی مشتاق احمد حنفی چشتی انبیٹھوی مقیم کنج پورہ کرنال۔ آپ نے اپنے مریدین کا حلقہ بہت ہی محدود رکھا۔ آپ نے اپنے چھوٹے بھائی پیر ظہور احمد ﷫ کو خلافت وسجادگی کے شرف سے سرفراز فرمایا اور اپنے مریدین کو تربیت کے لیے ان کے سپرد کر دیا کرتے تھے۔ آپ نے سیرت رسول عربی کے مصنف حضرت مولانا نور بخش توکلی کو بھی خلافت اور اجازت سے نوازا جس کا ذکر حضرت علامہ نور بخش توکلی نے اپنی تالیف "تذکرہ مشائخ نقشبندیہ" میں فرمایا ہے۔

آپ نے کئی کتب تصنیف فرمائیں جو مختلف موضوعات پر ہیں۔ آپ کی تصانیف مندرجہ ذیل ہیں:

الكلام الاعلى فی تفسیر سورة الاعلى، مرقع رسول (اصل نام الهدیۃ السنیۃ)، احسن التوضیح فی مسئلۃ التراویح (فارسی)، التحفۃ الابراهیمیۃ فی اعفاء اللحیۃ (اردو)، تحفہ خیریہ فی تحقیق شرائط الجمعۃ، ترجمہ اصول الشاشی، رفیق الطریق فی اصول الفقہ، قریرة العینین بتحقیق رفع الیدین، تبشیر الاصفیاء باثبات حیات الانبیاء، تحفہ عقدیہ در ثبوت معراج احمدیہ (المعراج الجسمانی فی رد على القادیانی)، التسہید فی اثبات التقلید، کاشف اسرار غیبیہ بالاحادیث النبویہ (امام جلال الدین سیوطی ﷫ کے رسالہ "اللعمہ فی الاجوبۃ السبعۃ" کا اردو ترجمہ مع حواشی جدیده)، نسخ التوراة والانجیل، تحفۃ السالكین، تحفۃ الصوفیہ، ذكر حمد باحادیث وخبر، ترجمہ "فیصلہ شاہ صاحب دہلوی نسبت توحید وجودی"، الضابطۃ فی التحصیل الرابطہ، الہدیۃ الشہابیہ شرح الہدیۃ القادریۃ فی تحقیق كلمۃ الطیبہ، تذکره فریدیہ، ازالۃ الالتباس، تحصیل المنال باصلاح حسن المقال، نزول الرحمۃ والغفران عند ذکر خواجہ انس وجان، یدیۂ يوسفیہ (عصمت انبیاءسے متعلق رسالہ)

رد مرزائیت:

مرزا قادیانی آپ کا ہم عصر تھا۔ جب اس نے نبوت کا دعویٰ کیا تو آپ نے اس کی سخت مخالفت کی اور اس کے خلاف ایک مدلل کتاب لکھی۔ آپ نے مناظرہ بھی کیا جس میں مرزا قادیانی کو شکست فاش ہوئی۔ رد مرزائیت پر آپ کا ایک مختصر رسالہ بنام "التقریر الفصیح فی تحقیق نزول المسیح، ادارہ اپنے عقیدہ ختم نبوت کی تیرہویں جلد میں شامل کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہے۔

رد قادیانیت کے موضوع پر معرکہ الآراء کتاب "کلمہ فضل رحمانی بجواب اوہام قادیانی" مصنفہ قاضی فضل احمد لدھیانوی پر اردو اور عربی میں تقاریظ لکھیں۔ اردو تقریظ مندرجہ ذیل ہے:

تقریظ:

حضرت مولانا حافظ مولوی مشتاق احمد صاحب چشتی صابری انبیٹھوی

(مدرس اول عربی، گورنمنٹ اسکول لودھیانہ)

بسم اللہ الرحمن الرحيم حامداً ومصلیا اما بعد

راقم الحروف نے کتاب مستطاب کلمہ فضل رحمانی (۱۳۱۴ھ) بجواب اوہام غلام قادیانی (۱۳۱۴ھ) کو اول سے آخر تک دیکھا۔ عقائد قادیانی کی تردید میں لاثانی پایا۔ حق تو یہ ہے کہ اس سے پہلے جس قدر کتب اور رسائل مرزا کی تردید میں لکھے گئے، اپنی طرز میں یہ کتاب ان سب میں بہتر اور مفید ہے۔ کیونکہ نہایت سلیس اور عام فہم ہے۔ اول سے آخر تک تہذیب کی رعایت رکھی ہے۔ اور کیا اچھا التزام کیا ہے کہ اکثر جگہ خود مرزا ہی کے اقوال اور اس کی تصنیفات کی عبارت نقل کر کے دندان شکن جوابات دیئے ہیں۔ علی الخصوص تحقیق لفظ یسوع اور لفظ کدعہ ایسے بسط اور تفصیل سے لکھی ہے جو حضرت مصنف ہی کا خاصہ ہے۔ اور کیوں نہ ہو، جناب مولانا قاضی فضل احمد صاحب اس کے مصنف فاضل محقق اور عالم مدقق ہیں۔ جزاهم الله خیر الجزاء واحسن الیهم فی الدنیا والعقبی وانا العبد المذنب الخاطی (يہ كتاب عقیدہ ختم نبوت کی جلد اول میں ہے)

مشتاق احمد حنفی چشتی عفی اللہ عن ذنبہ الخفی والجلی

عمر کے آخری ایام میں عرس میں شرکت کے لئے کلیر شریف تشریف لے گئے۔ عرس سے واپسی پر آپ کی طبیعت علیل ہو گئی۔ باوجود کمال نقاہت کے مریدین کے حلقہ ذکر میں آپ شمولیت فرماتے اور آپ کی آواز شاملین حلقہ کی آواز سے بلند ہوتی۔

۲۷ محرم الحرام 1356ھ/ 1937ء کو اپنے روئے انور کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھپا لیا۔ وقت رحلت آپ کی عمر شریف ۹۹ سال چار ماہ تھی۔

Powered by Netsol Online