حضرت علامہ غلام احمد اخگر بن لعل محمد کی ولادت ۱۸۶۴ء بمطابق ۱۲۸۱ھ میں امرتسر (مشرقی پنجاب، بھارت) کے ایک کشمیری بٹ گھرانے میں ہوئی۔ آپ بہت بڑے عالم دین، واعظ، مناظر اور ولی اللہ تھے۔ آپ نے 1906ء میں امیر ملت سے بیعت کی سعادت پائی اور ۱۹۱۴ء میں امیر ملت نے خرقہ خلافت عطا فرمایا۔ آپ اخبار اہل فقہ کے ایڈیٹر تھے۔ آپ بڑے عابد وزاہد اور شب زندہ دار بزرگ تھے۔
حضرت مولانا غلام احمد اخگر اکثر حضرت امیر ملت قدس سرہ کے تبلیغی دوروں میں ہمراہ رہتے تھے۔ جلسوں میں تقریریں کرتے اور اپنے مواعظ حسنہ سے خلق خدا کو فیض باب کرتے تھے۔ بہت لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی اور سلسلہ عالیہ میں داخل ہوئے۔ امرتسر سے ایک اخبار بنام "اہل فقہ" جاری کیا۔
آپ حضرت امیر ملت قدس سرہ کے محبوب اور جاں نثار خلفاء میں سے تھے۔ امرتسر میں جماعت اہلحدیث کا اخبار "اہلحدیث" حضرت امیر ملت قدس سرہ کی شان میں گستاخی کرتا رہتا تھا۔ حضرت مولانا غلام احمد اخگر اور مولانا پیر خیر شاہ امرتسری (متوفی ۱۹۲۰ء) ہفت روزہ "الفقیہ" میں مفصل اور مدلل جوابات شائع فرماتے رہتے تھے اور علماء اہل حدیث کو قائل کرتے تھے۔
اہلحدیث جماعت کے سرگروہ مولوی ثناء اللہ امرتسری (1868ء – 1948ء) سے بھی دونوں حضرات کے اکثر وبیشتر مناظرے ہوتے رہے جن میں فتح وکامرانی ان کے قدم چومتی رہی۔ حضرت امیر ملت قدس سرہ اکثر ہدایت فرماتے کہ "جواب جاہلاں باشد خاموشی۔" مگر ان دونوں حضرت کی دینی حمیت اور شیخ کی محبت وحمایت ان کو مجبور کرتی تھی کہ مخالفین کے چیلنج کا جواب دیں اور کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ دیں کہ وہ میدان سے ہٹ گئے۔
فتنہ ارتدار کی سرکوبی کے لئے آپ نے اپنی علالت کی پروا کئے بغیر عرصہ تک آگرہ میں شاندار خدمات انجام دیں۔ ۲۱ مئی ۱۹۲۳ء کو حضرت امیر ملت قدس سرہ نے پندرہ افراد پر مشتمل جو پہلا وفد آگرہ بھیجا تھا اس میں آپ کو امیر مقرر کیا گیا تھا۔ شب وروز کام کرنے کی وجہ سے آپ کی علالت خطرناک صورت اختیار کر گئی تو آپ واپس آگئے اور آپ کی جگہ قاضی حفیظ الدین رہتکی (1871ء - ۱۹۴۴ء) کو امیر وفد مقرر کیا گیا۔
حضرت مولانا غلام احمد اخگر کو شعر وشاعری کا بھی خاصا ذوق تھا۔ آپ اخگر تخلص فرماتے۔ آپ کی شاعری زیادہ تر نعتیہ مضامین پر مشتمل تھی۔ آپ نے اپنے پیر ومرشد کا شجرۂ طریقت بھی لکھا جس کا ہر شعر آپ کے عشق ومحبت کی منہ بولتی تصویر ہے۔ آپ کو فن تاریخ پر بھی مہارت تامہ حاصل تھی۔ بہت سے بزرگوں کے وصال پر قطعات تاریخ وفات کہے بالخصوص مولانا پیر غلام رسول قاسمی امرتسری (متوفی ۱۹۰۲ء) اور امام احمد رضا خان فاضل بریلوی (۱۹۲۱ء) کے قطعات تاریخ بھی کہے۔
حضرت مولانا غلام احمد اخگر نے نثر میں بھی کافی کتابیں لکھی ہیں۔ آپ کی تصانیف میں "مرزائیت کا جنازہ" اور "اہلحدیث اور اہلسنت" یادگار ہیں۔ آپ مذاہب باطلہ بالخصوص مرزائیت کے مقابلے میں شمشیر برہنہ تھے۔
رد قادیانیت کے موضوع پر آپ کا ایک رسالہ "مرزا کی دھوکے بازیاں" کے عنوان سے اخبار الفقیہ میں شائع ہوا ہے۔ ادارہ اس رسالے کو "عقیدہ ختم نبوت" کی تیرہویں جلد میں شامل کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہے۔
آپ کی وفات ۱۵ اگست 1927ء/16 صفر المظفر بروز پیر چھ سات سال کی طویل علالت کے بعد ہوئی۔ آپ کی نماز جنازہ مولانا پیر غلام مصطفیٰ قاسمی امرتسری (متوفی 1933ء) نے پڑھائی۔ بہت سے اخبار ورسائل نے آپ کی رحلت پر اداریئے لکھے۔ انجمن نعمانیہ ہند لاہور کے ماہواری رسالہ بابت جولائی اگست 1927ء نے صفحہ ۶۰ پر یوں لکھا:
موتُ العالِم موتُ العالَم
حضرت مولوی غلام احمد صاحب المتخلص بہ اخگر کی خبر وفات اخبار میں پڑھ کر سخت رنج وملال ہوا۔ اس میں شک نہیں کہ اہلسنت وجماعت کو سخت نقصان پہنچا۔ رضينا بقضاء الله. انا لله وانا اليه راجعون
علامہ صاحب مرحوم واقعی امرتسر میں حنفیوں کی طرف سے ایک لائق وعمدہ مباحث اور مناظر تھے جس سے وہابیہ اور مرزائیہ کی روح کانپتی تھی۔ ایسے دندان شکن جوابات تحریر فرمایا کرتے تھے کہ فریق مخاصم کو جواب کی گنجائش نہ رہتی تھی۔ غالباً ایسے غیر عاقبت اندیش مخالفین کو تو کسی قدر راحت ہوئی ہوگی جو شیخ سعدی کی اس قیمتی نصیحت پر بھی ایمان نہ رکھتے ہوں۔
اے دوست بر جنازۂ دشمن چو بگذری
شادی مکن کہ بر تو ہمیں ماجرا رود
علامہ صاحب مرحوم با وجود کئی سال سے سخت مصائب وآلام میں مبتلا رہنے کے علالت کی حالت میں بھی مخالفین کی تردید میں نہایت مدلل ومبرہن مضامین لکھتے رہے اور مباحثہ اور مناظرہ کیلئے بھی سفر کی تکالیف برداشت کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ جل شانہ مرحوم کو اپنے جوار رحمت میں قبول فرمائے اور معاد میں مدارج علیا عطا فرمائے۔