Khatm-E-Nabuwat

علامہ عبد الماجد قادری بدایونی

حالات زندگی :

حضرت مولانا عبد الماجد قادری بدایونی کی ولادت خانواده عثمانیہ بدایوں میں 4 شعبان ۱۳۰۴ھ (۲۸ اپریل ۱۸۸۴ء کو بدایوں میں ہوئی۔ آپ کے والد کا نام مولانا حکیم عبد القیوم ہے۔ آپ تحریک آزادی پاکستان کے مشہور رہنما حضرت علامہ حامد بدایونی کے بھائی ہیں۔

ابتدائی تعلیم حضرت مولانا عبد المجید مقتدری آنولوی اور حضرت مولانا مفتی ابراہیم قادری بدایونی سے حاصل کی۔ درس نظامی کی کتابیں استاذ العلماء حضرت مولانا محبّ احمد قادری بدایونی سے پڑھیں اور تکمیل سرکار صاحب الاقتدار حضرت مولانا شاہ عبد المقتدر قادری بدایونی قدس سرہ سے فرمائی۔ بعض اسباق والد گرامی حضرت مولانا حکیم عبد القیوم شہید اور جد محترم حضور تاج الفحول سیدنا شاہ عبد القادر قادری بدایونی قدس سرہ سے بھی پڑھے۔

۱۳۲۰ھ میں سرکار صاحب الاقتدار نے سند فراغت عطا فرمائی۔ اس کے بعد دو سال دہلی میں رہ کر حکیم غلام رضا خاں کے پاس طب کی تکمیل کی۔ ۱۳۲۲ھ میں حکیم صاحب نے سند فراغت سے نوازا، جس پر مسیح الملک حکیم اجمل خاں نے بھی دستخط کئے۔ مولانا عبد الماجد بدایونی کو اللہ تعالیٰ نے دو بیٹے عبد الواجد قادری اور عبد الواحد قادری عطا فرمائے۔ جب حضرت تاج الفحول نے سرکار صاحب الاقتدار سیدنا شاہ عبد المقتدر قادری بدایونی قدس سرہ کو اجازت وخلافت سے نوازا تو آپ نے صاحب الاقتدار سے شرف بیعت حاصل کیا۔ اس طرح آپ کو سرکار کا سب سے پہلا مرید ہونے کا شرف حاصل ہے۔ بعد میں سرکار صاحب الاقتدار نے آپ کو تمام سلاسل کی اجازت وخلافت سے بھی نوازا۔

حضرت مولانا عبد الماجد بدایونی نے اپنے زمانے کی تمام اہم مذہبی، قومی اور سیاسی تحریکوں میں قائدانہ کردار ادا کیا۔ جس تحریک میں مولانا عبد الماجد بدایونی شریک ہوئے دل وجان، شغف وانہاک، مستعدی وسرگرمی سے شریک ہوئے۔ جس کام کو ہاتھ لگایا اس میں جان ڈال دی۔ حضرت مولانا عبد الماجد بدایونی سیاسی تحریکات میں حصہ لیتے رہے۔

ڈاکٹر ایچ جی خان اپنے مضمون "تحریک پاکستان میں علماء کا سیاسی کردار" میں لکھتے ہیں کہ حضرت علامہ عبد الماجد بدایونی ہندو مسلم اتحاد کے حامی نہیں تھے بلکہ امام اہلسنت امام احمد رضا قدس سرہ کے خیالات سے ہم آہنگ تھے۔

مولانا نے زندگی کے آخری گیارہ، بارہ سال کا ہر گھنٹہ بلکہ کہنا چاہیے کہ ہر منٹ ان تحریکوں کے لئے وقف کیا۔ سکون، راحت کا کوئی زمانہ نہ تھا۔ مسلسل عدالتوں اور پیہم خانگی صدمات کے باوجود کام کے پیچھے دیوانے تھے۔ تیز بخار چڑھا ہوا ہے اور حجاز کانفرنس کے اہتمام میں مصروف۔ سینے میں درد ہو رہا ہے اور امین آباد پارک میں محفل میلاد میں ڈھائی تین گھنٹے تک بیان ہو رہا ہے۔ کل لکھنؤ میں تھے اور آج کلکتہ پہنچ گئے۔ عید کا چاند لاہور میں دیکھا تھا اور نماز عید میرٹھ آکر پڑھی۔ صبح پٹنہ میں تھے شام کو معلوم ہوا کہ دکن کے راستے میں ہیں۔ عجیب وغریب مستعدی تھی، عجب تر ہمت مرداں۔

مولانا بدایونی کی قائدانہ حیثیت، ان کی عملی اور تحریکی زندگی اور مذہبی وقومی جدوجہد کا اندازہ ان عہدوں اور منصب سے بھی لگایا جاسکتا ہے جن کو مولانا نے مختلف اوقات میں زینت بخشی۔ حضرت مولانا عبد الماجد بدایونی کے عہدوں کا مختصر خاکہ یہ ہے:

مہتمم مدرسہ شمس العلوم بدایوں، مدیر اعلیٰ ماہنامہ شمس العلوم بدایوں، ناظم جمعیت علماء ہند صوبہ متحده، رکن مرکزی مجلس خلافت، صدر مجلس خلافت صوبہ متحدہ، صدر خلافت تحقیقاتی کمیشن، رکن وفد خلافت برائے حجاز، رکن مجلس عاملہ مسلم کانفرنس، رکن انجمن خدام کعبہ، رکن انڈین نیشنل کانگریس، بانی رکن مجلس تبلیغ، بانی رکن مجلس تنظیم، بانی رکن جمعیت علمائے ہند کانپور، بانی ومہتمم مطبع قادری بدایونی، بانی وسرپرست عثمانی پریس بدایونی، بانی دار التصنیف بدایوں۔

حضرت مولانا عبد الماجد بدایونی اپنی گونا گوں سیاسی، قومی اور تحریکی مصروفیات کے ساتھ ساتھ تصنیف وتالیف سے بھی شغف رکھتے تھے۔ مولانا عبد الماجد نے مذہبیات، سیاست اور سیاسیات ہر موضوع پر قلم اٹھایا اور تصنیفات کا ایک قابل قدر ذخیرہ چھوڑا۔ مولانا موصوف کا اسلوب شگفتہ اور مزاج محققانہ ہے۔ مولانا کی زیر صدارت ماہنامہ شمس العلوم نکلتا تھا جس میں بحیثیت مدیر آپ ہر ماہ اداریہ تحریر کیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ ۲۰ سے زائد کتب ورسائل مولانا کی علمی وقلمی یادگار کے طور پر آج ہمارے سامنے موجود ہیں جن سے بخوبی آپ کی تبحر علمی کا اندازہ ہوتا ہے۔ حضرت مولانا عبد الماجد کی بعض تصانیف مندرجہ ذیل ہیں:

خلاصۃ العقائد، خلاصۃ النظق، خلاصۃ الفلسفہ، فلاح دارین، دربار علم، فتویٰ جواز عرس، القول السدید، عورت اور قرآن، خلافت نبویہ، الاظہار، فصل الخطاب، کشف حقیقت الابار، المكتوب، درس خلافت، تنظیمی مقالات، جذبات الصداقت، الاستشہاد، قسطنطنیہ، الخطبۃ الدعائیہ للخلافۃ الاسلامیہ۔

رد قادیانیت:

ادارہ تحفظ عقائد اسلام اپنے اس سلسلہ عقیدہ ختم نبوت میں آپ کی مشہور تصنیف خلاصۃ العقائد کا وہ باب جو ختم نبوت سے متعلق ہے، شامل کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہے۔

حضرت مولانا عبد الماجد بدایونی مسلم کانفرس کی مجلس عامہ میں شرکت کیلئے لکھنوں تشریف لے گئے جہاں آپ نے ۳ شعبان ۱۳۵۰ھ بمطابق ۱۴ دسمبر ۱۹۳۱ء کی شب میں داعی اجل کو لبیک کہا۔ جنازہ لکھنؤ سے بدایوں لایا گیا۔ حضور عاشق رسول مولانا شاہ عبد القدیر قادری قدس سرہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور آپ کو درگاہ قادریہ کے جنوبی دالان میں اپنے پیر ومرشد کے پائنتی میں دفن کیا گیا۔

(ماخوذ از عقیدہ ختم نبوت ،ج:13)

Powered by netsolonline