بحر العلوم الحافظ الحکیم حضرت علامہ مولانا محمد عالم آسی نور اللہ مرقدہ اپنے عہد کی ایک نابغۂ روزگار ہستی تھے۔ وہ ایک عظیم استاد عربی داں، ادیب اور نامور عالم دین تھے۔ انہیں فقہ، حدیث، تفسیر کی باریکیوں سے لے کر اسلامی تاریخ، مذاہب ومسالک پر بھی ان کی گہری نظر تھی۔ یہی نہیں بلکہ منطق، فلسفہ اور علم کلام کے بھی بے مثل عالم دین تھے۔ انہیں فارسی، ہندی، گورمکھی، کشمیری، پنجابی، عبرانی اور سریانی اور انگلش زبان پر بھی مکمل دسترس حاصل تھی۔ الغرض علامہ محمد عالم آسی علم کا ایک بحرنا پیدا کنار تھے۔
عارف نامدار حضرت علامہ مولانا حکیم حافظ ابو الدراسۃ محمد عالم آسی نقشبندی مجددی راگھوی ثم امرتسری قدس سره بروز جمعۃ المبارک تاریخ 12 رمضان المبارک ۱۲۹۸ھ کو موضع کولو تارڈ تحصیل حافظ آباد ضلع گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے۔
حضرت علامہ آسی قدس سرہ جاٹ قوم سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کا خاندانی پس منظر روحانی وعلمی ہے۔ آپ کے والد گرامی کا اسم گرامی نام نامی حضرت مولانا حکیم مفتی حافظ حمید الدین الشہیر بہ عبد الحمید چشتی نقشبندی قادری سہروردی (کولوی ثم راگھوی) قدس سرہ تھا، جو انتہائی زاہد وعابد ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے دور کے عظیم فاضل اور مفتی تھے، علاوہ ازیں بے مثل خطاط اور قابل طبیب بھی تھے، شعر وادب سے لگاؤ تھا اور فقیر تخلص فرماتے تھے، 12 محرم ۱۳۲۱ھ کو وفات پائی، مزار پر انوار کولو تارڈ میں ہے۔
حضرت علامہ آسی کے جد امجد کا نام حضرت مولانا حکیم مفتی میاں غلام احمد المعروف بہ حضرت حضوری قدس سرہ تھا، جن کا امتیازی وصف عشق ختم الرسل مولائے کل ﷺ تھا، آپ کو حضور اکرم ﷺ کے جمال وروئے زیبا کی کئی بار زیارت نصیب ہوئی۔ آپ نے ۱۸ ربیع الاول ۱۲۹۹ھ کو وفات پائی اور کولو تارڈ میں ہی محو خواب ابدی ہوئے۔
علامہ آسی قدس سرہ کے برادر خورد حضرت علامہ مولانا حکیم محبوب عالم راگھوی اپنے والد بزرگوار سے روایت فرماتے ہیں کہ جب آپ کی عمر چھ سات ماہ ہوئی تو ایک دن آپ کے دادا ولی کامل حضرت مولانا غلام احمد متوطن کولو تارڈ تحصیل حافظ آباد ضلع گوجرانوالہ نے آپ کے منہ میں اپنی زبان مبارک ڈال کر چوسائی اور پنجابی کا یہ شعر پڑھا۔
محمد عالماں چل علم پڑھئے علم دی بات نوں مضبوط پھڑیئے
خدا کے حکم سے ہر دو الفاظ "چل" اور "مضبوط" کا ایسا اثر ہوا کہ عالم شاہد ہے۔
حضرت علامہ آسی قدس سرہ نے ابتدائی تعلیم والد گرامی اور نانا جان مولانا حکیم مفتی غلام حسن نقشبندی قادری (متوفی 11 جمادی الثانی ۱۳۳۸ھ مدفون موضع بھٹی چک، ضلع گوجرانوالہ) سے حاصل کی، بعد ازاں مدرسہ نعمانیہ لاہور چلے گئے اور وہاں استاذ الافاضل حضرت مولانا علامہ مفتی غلام احمد (کوٹ اسحاقی)، عربی زبان کے ادیب مولانا محمد حسن فیضی اور دیگر اساتذہ مدرسہ نعمانیہ سے فیض یاب ہوئے، ازیں علاوہ مولانا غلام محمد بگوی (خطیب بادشاہی مسجد لاہور)، فخر الاماثل حضرت مولانا غلام قادر بھیروی (بیگم شاہی مسجد لاہور) اور مفتی عبد اللہ ٹونکی (اورینٹل کالج لاہور) جیسے عظیم افاضلِ وقت سے اکتساب علم کیا۔
بعد ازاں مولوی عالم، مولوی فاضل، منشی فاضل، ادیب فاضل، مختار عدالت، حکیم حاذق اور زبدۃ الحکماء کے امتحانات پاس کئے، ان امتحانات میں سے مولوی فاضل اور زبدة الحکماء کے امتحانات میں پنجاب بھر میں اول آئے اور طلائی تمغے حاصل کئے، بعد میں ہندی اور انگریزی زبانوں میں بھی کافی مہارت پیدا کر لی، جس کی دلیل آپ کے بیاضات کی مختلف تحریریں ہیں، آخر عمر میں قرآن مجید بھی حفظ کر لیا تھا۔
جامعہ نعمانیہ سے فراغت کے بعد جامعہ نعمانیہ ہی میں اول مدرس مقرر ہوئے، پھر کچھ عرصہ بعد مدرسہ رحیمیہ نیلا گنبد میں پڑھاتے رہے، اسی طرح جب مولوی فاضل کے امتحان میں پنجاب بھر میں اول آئے اور آپ کو ایک سال کے لیے ۳۰ روپے ماہوار وظیفہ ملا تو اورینٹل کالج میں بھی پڑھاتے رہے، بعد ازاں امرت سر چلے آئے، وہاں مدرسہ نصرة الحق حنفیہ سے منسلک ہوئے۔
مگر کچھ عرصہ پڑھانے کے بعد لاہور چلے آئے اور یہاں ایک پریس میں سنگ سازی کرتے رہے پھر امرتسر چلے گئے۔ (قلمی یادداشت از حکیم محمد موسیٰ امرتسری ) اور ایم اے ہائی اسکول میں عربی کے اول مدرس مقرر ہوئے، اسی طرح جب یہ اسکول کالج بنا تو آپ پروفیسر ہو گئے اور بالآخر یہیں سے ریٹائر ہوئے۔ آپ نے انجمن اسلامیہ امرتسر (جس کے تحت اسکول اور کالج چلتے تھے) کی ملازمت سے فراغت کے بعد بھی پرائیویٹ طور پر تدریس کا شغل جاری رکھا اور یہ سلسلہ تدریس کسی ایک علم پر موقوف نہیں ہوتا تھا بلکہ طالبان علم آپ سے مختلف علوم کی تحصیل کیا کرتے تھے جن میں تفسیر، حدیث، فقہ، اصول حدیث، اصول فقہ، منطق، فلسفہ، صرف ونحو، ادب فارسی، کتابت، طبابت بالخصوص عربی ادب وغیرہ شامل تھے۔
حضرت آسی کے بے شمار تلامذہ ہیں، چند ایک کے نام درج ذیل ہیں:
صاحبزادہ محمد عمر بیر بلوی، مولانا محمد الدین غریب، ڈاکٹر پیر محمد حسن ایم اے پی ایچ ڈی، اسلام آباد، حافظ محمد عبد اللہ ایم اے اکاؤنٹنٹ جنرل آفس لاہور، مولانا غلام ترنم امرتسری (مدفون لاہور)، فخر الاطباء حکیم فقیر محمد چشتی نظامی (مدفون بجوار میاں میر لاہور)، حکیم غلام قادر چشتی امرتسری (آپ حضرت آسی کے رفیق خاص اور ان کے مزار کے متولی تھے، مدفون، ملتان)، مولانا پیر حبیب اللہ نقشبندی (مدفون گجرات، پنجاب)، ابو البیان مولانا محمد داؤد فاروقی ابن مولانا نور احمد امرتسری (مدفون امرتسر)، استاذ الاطباء حکیم محمد نور الدین نظامی امرتسری، صدر مجلس اطباء (مدفون بورے والا ضلع وہاڑی)، استاذ الاطباء حکیم محمد شمس الدین نظامی امرتسری حکیم حاذق (مدفون پاکپتن)، حکیم محمد جلال الدین امرتسری (مدفون پاکپتن)، حکیم اہلسنت حکیم محمد موسیٰ امرتسری بانی مرکزی مجلس رضا لاہور (مدفون بجوار حضرت میاں میر ، لاہور)، عبد المجید جامی (تھائی لینڈ)، محمد شریف ساجد (راولپنڈی)، آغا خلش کاشمیری (مدفون بمبئی)، مولانا پیر عبد السلام ہمدانی امرتسری (مدفون لاہور)۔
حضرت علامہ آسی قدس سره شہرہ آفاق شیخ طریقت حضرت شاہ ابو الخیر عبد اللہ محی الدین فاروقی نقشبندی مجددی مظہری دہلوی قدس سرہ سے نہ صرف بیعت بلکہ مجاز بھی تھے۔
حضرت علامہ آسی قدس سرہ کا وصال ۲۸ شعبان المعظم 1363ھ / 1944ء بروز جمعۃ المبارک دن کے ایک بجے امرتسر میں ہوا، آپ کا مزار پختہ بنا ہوا تھا مگر تقسیم ہند کے بعد اس کا نشان مٹا دیا گیا۔
حضرت علامہ آسی قدس سرہ کی دینی تحقیق کا آخری مرحلہ تفسیر قرآن تھا، مگر افسوس کہ مشیت ایزدی نے وقت نہ دیا اور آپ یہ کام ادھورا چھوڑ کر راہی دار بقا ہوئے، حضرت کے وہ تمام مسودات جن پر آپ نے تفسیر کا کام شروع کیا تھا، راقم کے پاس محفوظ ہیں، اور یہ دو عدد نسخہ قرآن مجید، دو رجسٹروں اور تین پاکٹ بکس پر مشتمل ہیں، ان شاء اللہ العزیز ان نوادر کا کسی موقع پر تعارف کرایا جائے گا، تاہم احقر یہاں صرف ان مضامین کے اسماء پر اکتفا کرتا ہے جو آپ نے تفسیر قرآن کے سلسلے میں سپرد قلم فرمائے۔
1۔ سورۂ فاتحہ (قرآن مجید کا ابتدائی جزو) مطبوعہ ماہنامہ البیان امرتسر، اپریل ۱۹۴۳ء۔
2۔ تشریحات متعلقہ سورۂ فاتحہ، مطبوعہ ہفت روزہ الفقیہ، امرتسر، 12 محرم 21 جون (1348ھ / 1929ء) تا 11 جمادی الثانی 14 نومبر (1348ھ / 1929ء)۔
3۔ سورۂ فیل کی تفسیر اور علامہ فراہی، مطبوعہ ماہنامہ شمس الاسلام بھیرہ، اکتوبر 1938ء تا جون 1939ء۔
حضرت علامہ آسی قدس سرہ کی شہرت مدام کا سبب آپ کی رد مرزائیت میں مشہور کتاب "الكاویہ علی الغاویہ" بھی ہے، یہ کتاب دو جلدوں میں ہے اور رد مرزائیت وغیرہ میں ایک دائرۃ المعارف (انسائیکلو پیڈیا) کی حیثیت رکھتی ہے۔
1۔ الكاویۃ على الغاویۃ (اردو) جلد اوّل، مطبوعہ مارچ ۱۹۳۱ء، صفحات ۴۱۶۔
2۔ الكاویۃ على الغاویۃ (اردو) جلد دوم، مطبوعہ ستمبر ۱۹۳۴ء، صفحات ۴۵۰۔
الحمد للہ ادارہ تحفظ عقائد اسلام نے عقیدہ ختم نبوت کے موضوع پر اپنے عظیم الشان انسائیکلو پیڈیا کیلئے جلد اول مطبوعہ ۱۹۳۱ء اور جلد دوم مطبوعہ ۱۹۳4ء کے نسخے حاصل کر کے تقریباً اسی (۸۰) سال بعد نئے سرے سے طباعت کا شرف حاصل کیا ہے اور پچھلے نسخوں کی اغلاط، بے ربط اور غیر متعلق جملوں کی بھی تصحیح کر دی ہے۔ تاہم بعض مقامات پرنٹ واضح نہ ہونے کی وجہ سے اب بھی اصلاح طلب ہیں۔
علامہ آسی نے اپنی اس تصنیف میں بڑی آزادی کے ساتھ مرزائی مذہب کے تمام میسر شدہ لٹریچر، اشتہارات وپوسٹر وغیرہ کا خلاصہ مع تنقیدات درج کر دیا ہے۔ نیز یہ کتاب کسی اور کی جانب سے مرزا قادیانی کے خلاف پیش کردہ مواد کا بھی احاطہ کرتی ہے۔
ابتداء میں علامہ موصوف نے الکاویہ علی الغاویہ عربی میں تحریر فرمائی تھی جس کی فوٹو کاپی علامہ حکیم محمد موسیٰ امرتسری کے مخزونہ کتب خانہ پنجاب یونیورسٹی میں موجود ہے۔ اس کتاب کے سرورق پر علامہ حکیم موسیٰ امرتسری کی یہ تاریخی نوٹ مذکور ہے:
"علامۃ الدہر حضرت قبلہ محمد عالم آسی کی یہ تصنیف عربی زبان میں لکھی جانے والی اولین مبسوط ومدلل کتب (رد قادیانیت) میں شمار ہوتی ہے مگر اس لیے طبع نہ کروائی گئی کہ فاضل علام مصنف کے معاصرین نے یہ مشورہ دیا کہ عربی کے بجائے اردو میں چھپوائیں تاکہ عوام الناس بھی اس سے مستفید ہو سکیں۔ چنانچہ حضرت علامہ آسی نے اپنی کتاب کو اردو جامہ پہنا کر ۱۹۳۱ء میں امرتسر سے چھپوایا۔"
انسائیکلو پیڈیا پاکستانی میں آپ کی اس گراں قدر علمی تصنیف پر ان الفاظ میں تبصرہ کیا گیا ہے کہ "الکاویہ علی الغاویہ" میں چودہویں صدی کے ان مدعیان نبوت کے حالات ہیں جنہوں نے امام زماں، مسیح وقت، محمد ثانی، کرشن اور مظہر الہٰی بن کر قرآنی تعلیمات بدلتے ہوئے الگ الگ اپنا دستور العمل مسلمانوں کے سامنے پیش کر کے اپنی تعلیم کو واحد راہ نجات قرار دیا۔ اس کے علاوہ ان قرامطہ وملاحدہ کا ذکر بھی ہے جنہوں نے ساتویں صدی ہجری میں نبوت کا دعویٰ کیا۔
علاوہ ازیں حضرت نے اور بھی بہت کچھ لکھا جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
3۔ الجذوة النار على قلوب الفجرة الكفار (غیر مطبوعہ - اردو)
(یہ کتاب دراصل الکاویۃ علی الغاویہ، جلد دوم اضافوں کے ساتھ نئے روپ میں ہے)
4۔ الكاویۃ على الغاویہ (عربی) غیر مطبوعہ
5۔ الجثجات على السلام فی الذب عن حريم الاسلام (عربی، مطبوعہ) یہ مرزائی غلام رسول راجیکی کے پمفلٹ کے جواب میں لکھا گیا۔
6۔ مضامین: وہ مضامین جو آپ نے ردّ مرزائیت میں وقتاً فوقتاً رقم فرمائے، ان کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
1۔ خیالات آسی واقعات صلیبی پر ایک نظر (منظوم اردو)، مطبوعہ الفقیہ، امرتسر، 14 فروری تا 17 اپریل 1942ء
2۔ نائرۃ الحسبان علیٰ مصباح القدیان، الفقیہ، امرتسر، 7 جنوری تا 7 فروری 1933ء
3۔ تنقیدات نادر شاہیہ بر تبلیغات مذہب مرزائیہ، مطبوعہ الفقیہ، امرتسر، 28 فروری تا 14 مئی 1934ء
4۔ مرزائی تعلیم کے پانچ مباحث اور اہل حق کا ایک پر لطف تعاقب، مطبوعہ الفقیہ، امرتسر 28 جولائی تا 7 اگست 1937ء
5۔ اظہار حقیقتِ مرزائیت بجواب حقیقت احمدیت، مطبوعہ الفقیہ، امرتسر ۲۱ اگست تا 14 ستمبر 1933ء
6۔ مرزائیت اور اہل اسلام میں فرق، مطبوعہ الفقیہ، امرتسر ۷ جون تا ۷ دسمبر ۱۹۳۹ء
(یہ مضمون اس عرصے میں تین بار مسلسل چھپا)
7۔ ضمیمہ کاویہ، مطبوعہ الفقیہ، امرتسر ۷ مئی تا ۲۸ جون ۱۹۳۱ء
8۔ مسیح قادیانی کی الوہیت پر ایک چلتی ہوئی نظر، مطبوعہ الفقیہ، امرتسر 7/ 14 مار چ تا ۲۱ / ۲۸ مارچ ۱۹۴۴ء
9۔ ایک مسلمان اور مرزائی کی باہمی گفتگو، مطبوعہ الفقیہ، امرتسر ۲۱ اپریل ۱۹۳۶ء
10۔ قادیانی نبوت پر ایک غلط قرآنی استدلال اور اس پر بصیرت افروز تبصرہ، مطبوعہ الفقیہ، امرتسر ۷ اکتوبر ۱۹۳۲ء
11۔ توفی سے قبض روح یا موت مراد نہیں، مطبوعہ الفقیہ، امرتسر 7 جنوری ۱۹۲۹ء
12۔ لفظ توفی پر ایک پر اسرار تبصرہ، مطبوعہ الفقیہ، امرتسر 28 جنوری 1929ء
13۔ مسیح الارض القادیانی اور موسیٰ کی زندگانی جاویدانی، مطبوعہ الفقیہ، امرتسر، 28 جنوری 1934ء
14۔ کیا پہلو شگاف برچھی کے زخم سے کوئی نیم مردہ زندہ رہ سکتا ہے، مطبوعہ الفقیہ، امرتسر، 28 جنوری 1934ء
15۔ عہد قادیانیت میں مدعیان نبوت، مطبوعہ الفقیہ، امرتسر، 14 فروری 1940ء
16۔ پسرش یادگار می بینم، مطبوعہ الفقیہ، امرتسر، 7 اپریل 1935ء
17۔ کوائف امرتسر، مطبوعہ الفقیہ، امرتسر، 14 جون 1936ء
18۔ امیر شریعت اور مرزائی بیعت، مطبوعہ الفقیہ، امرتسر، 7 اپریل 1937ء
19۔ مرزائی لٹریچر کا ایک اور غلط مسئلہ، مطبوعہ الفقیہ، امرتسر، 7 اپریل تا 21 اپریل 1937ء
20۔ کیا مرزائی اہلسنت کی مسجد میں قادیانیت کی نشر واشاعت کر سکتے ہیں؟ مطبوعہ الفقیہ، امرتسر، 14 / 21 دسمبر 1935ء
اہل قرآن کو چکڑالوی، کمترینی فرقہ یا اُمت مسلمہ امرتسر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ گو حضرت علامہ آسی نیان کی تردید بھی الکاویہ علی الغاویہ کے آخری صفحات میں فرما دی تھی، تاہم سعی مزید کے طور پر آپ نے چند مضامین بھی رقم فرمائے، جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
1۔ القول المقبول فی اطاعت الرسول، مطبوعہ الفقیہ، امرتسر، 7 / 14 دسمبر ۱۹۲۹ء
2۔ قرآن الاقرآن فی ریحان القرآن، مطبوعہ الفقیہ، امرتسر، ۲۱ اپریل تا ۷ مئی ۱۹۳۵ء
3۔ فریضۂ قربانی اور احکام قربانی، مطبوعہ الفقیہ، امرتسر، 21 فروری تا 7 مارچ 1935ء
4۔ مسئلہ قربانی پر امت مسلمہ امرت سر کا حملہ اور اس کی مدافعت، مطبوعہ ماہنامہ شمس الاسلام، بھیرہ شریف، جولائی 1943ء
5۔ مسئلہ قربانی پر ایک سرسری نگاہ، مسلم اور مسلمہ کے درمیان تبادلۂ خیالات
6۔ التنقید علی وراثت الحفید (رسالہ)
الکاویہ علی الغادیہ، جلد دوم کے آخری صفحات پر رد مشرقی میں اگر چہ حضرت نے اپنا فرض ادا کر دیا تھا، تاہم اس کی تردید میں حضرت نے چند رسائل اور مضامین مزید رقم فرمائے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
1۔ الانتباہیہ على الافتتاحیہ (غیر مطبوعہ) (کتاب کا سن تصنیف معلوم نہ ہو سکا)
2۔ الانتباہیہ علی الافتتاحیہ، مشرقی کا تذکرہ غلط (مضمون) مطبوعہ شمس الاسلام، بھیرہ، مارچ ۱۹۴۰ء تا جولائی ۱۹۴۲ء
3۔ تبصرہ علی التذکره (رسالہ) سن تصنیف ندارد، صفحات ۶۴
4۔ مشرقی سے ایک اہم سوال اور کے ہوا خواہوں سے جواب کا مطالبہ (منظوم)، مطبوعہ شمس الاسلام بھیرہ، ربیع الاول ۱۳۶۱ھ / اپریل ۱۹۴۲ء
5۔ مساجد اسلام اور مسلمانانِ عالم دشمن اسلام مشرقی کی نظر میں، مطبوعہ شمس الاسلام، بھیرہ، ذی قعدہ ۱۳۶۱ھ / دسمبر ۱۹۴۲ء
حضرت علامہ آسی قدس سرہ نے رد وہابیہ میں بھی بہت سے رسائل اور مضامین لکھے، ان رسائل ومضامین سے مختلف موضوعات اخذ ہوتے ہیں:
1۔ الارشاد الى المباحث المیلاد، مطبوعہ میلاد نمبر، الفقیہ، امرتسر، ربیع الاول 1351ھ / جولائی 1932ء، ادارہ الفقیہ کی طرف سے یہ کتابی صورت میں بھی شائع ہوئی تھی۔
2۔ الميلاد فی القرآن، مطبوعہ الفقیہ، امرتسر (ضمیمہ میلاد نمبر) ربیع الاول 1352ھ، یہ رسالہ بھی پمفلٹ کی صورت میں دستیاب تھا۔
3۔ ضمیمہ میلاد نمبر الفقیہ، ماہ ربیع الاول 1351ھ
4۔ ذکر خیر العباد فی محافل الواعظ والمیلاد، ضمیمہ میلاد نمبر الفقیہ 3 ربیع الاول 1352ھ
5۔ تذکرۂ حالات یوم النبی ﷺ ضمیمہ میلاد نمبر الفقیہ، 3 ربیع الاول 1352ھ
6۔ مجالس میلاد اور علامہ ابن تیمیہ، مطبوعہ الفقیہ امرتسر، 14 مئی 1941ء
7۔ مجالس میلاد اور مجالس ولیمۃ القرآن، مطبوعہ الفقیہ امرتسر ۲۱ / ۲۸ مارچ ۱۹۴۲ء
8۔ محفل میلاد مقدس، مطبوعہ الفقیہ امرتسر ۷ ستمبر ۱۹۲۹ء
۱۹۲۴ء میں جب نجدیوں نے حرمین شریفین پر قبضہ کیا تو انہوں نے مزارات ومقامات مقدسہ کو زمین کے برابر کر دیا، اس موقع پر علماء اہل سنت (برصغیر) نے احتجاج کیا، اور ان کے اس اقدام کو صریحاً قرآن وسنت کیخلاف قرار دیا، اس موقع پر حضرت آسی نے بھی اس مسئلہ پر اپنے خیالات کا اظہار کیا اور ایک رسالہ لکھا اور ایک مضمون طبع کرایا۔
1۔ ازالۃ الرين والمین عن مشاهد الحرمین الشریفین، مطبوعہ ۱۹۲۵ء
2۔ بنائے قباب عالیہ بر مزارات مشائخ قدیمہ وحالیہ، مطبوعہ الفقیہ امرتسر، 7 / 14 ستمبر 1936ء
غیر مقلد علماء نے اس مسئلہ کے سلسلہ میں اختلافی بحران پیدا کرنے کی سعی مذموم کی ہے، حضرت علامہ آسی نے اس مسئلہ کی توضیح وتشریح کے سلسلہ میں چند مضامین سپرد قلم فرمائے جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔
1۔ قیام شہر رمضان، مطبوعہ الفقیہ، امرتسر، ۲۱ نومبر ۱۹۲۹ء
2۔ قیام رمضان عشرون رکعۃ وھی صلوٰۃ التراویح، الفقیہ امرتسر، 14 / 21 نومبر ۱۹۳۹ء
3۔ رسالۂ تراویح، مطبوعہ الفقیہ امرتسر، 7 ستمبر تا 21 / 28 ستمبر 1942ء
4۔ دفع اعتراضات اہل الرائے، الفقیہ امرتسر، 7 اکتوبر 1942ء تا 7 / 14 اپریل 1943ء
یہ رسالہ حضرت علامہ آسی قدس سرہ نے مدیر اخبار محمدی (دہلی) کے رسالہ "ضرب محمدی" کے جواب میں رقم فرمایا، جس کا جواب مدیر محمدی دہلی نے اخبار محمدی میں ہی دیا تھا، پھر جواب الجواب حضرت علامہ آسی نے الفقیہ امرتسر میں "ضمیمہ ضربات الحنفیہ" کے عنوان سے دیا تفصیل حسب ذیل ہے۔
1۔ ضربات الحنفیہ علی ہامات الوہابیہ، مطبوعہ یکم ذی الحجہ ۱۳۴۷ھ
2۔ ضمیمہ ضربات الحنفیہ، مطبوعہ الفقیہ امرتسر، 23 محرم الحرام 1349ھ / 21 جون 1930ء تا 18 رمضان 1349ھ / 7 فروری 1931ھ
وہ مضامین جو حضرت نے مختلف موضوعات پر رد وہابیہ کے سلسلے میں رقم فرمائے، تفصیل درج ذیل ہے:
1۔ کیا نبی ﷺ غیب دان نہ تھے، مطبوعہ الفقیہ امرتسر، 14 اگست تا 21 / 28 اگست 1943ء
2۔ تقلید شخصی اور اجتہاد، مطبوعہ الفقیہ امرتسر، ۲۱ / ۲۸ جون تا 7 / 14 جولائی ۱۹۴۴ء
3۔ تقلید اور اتباع سلف، مطبوعہ الفقیہ امرتسر، ۲۱ جنوری ۱۹۳۹ء
4۔ مطائبات، مطبوعہ الفقیہ امرتسر، ۲۱ جنوری ۱۹۳۹ء
5۔ القول السنی فی معراج النبی، مطبوعہ الفقیہ امرتسر، (معراج نمبر) ۷ جنوری ۱۹۳۰ء
6۔ ایک شبہ اور اس کا دفعیہ، مطبوعہ الفقیہ امرتسر، 7 مارچ تا ۲۱ مارچ ۱۹۲۹ء
7۔ فقرہ سمع اللہ لمن حمدہ اور اس کی مشرکانہ تشریح، مطبوعہ الفقیہ امرتسر، ۱۴ تا ۲۱ مارچ ۱۹۳۸ء
8۔ فلعنۃ ربنا اعداد رمل، مطبوعہ الفقیہ امرتسر، 28 نومبر 1928ء
9۔ رسالہ اشرفیہ، مطبوعہ الفقیہ امرتسر، ۲۸ نومبر ۱۹۲۸ء
10۔ تحسین ناشناس، مطبوعہ الفقیہ امرتسر، ۷ اکتوبر ۱۹۴۲ء
11۔ ارشادات عالیہ، مطبوعہ الفقیہ امرتسر، 7 اکتوبر 1933ھ
وہ مضامین جو علامہ نے متفرق موضوعات پر رقم فرمائے، ان کی تفصیل حسب ذیل ہے:
1۔ موجودہ معاشرت نشواں پر ایک نظر، مطبوعہ الفقیہ امرتسر، ۲۸ اپریل ۱۹۲۹ء
2۔ استفتاء، مطبوعہ الفقیہ امرتسر، ۲۸ اپریل ۱۹۲۹ء
3۔ استفتاء مطبوعہ الفقیہ امرتسر، ۲۱/ ۲۸ اپریل 1934ء
4۔ موعظۃ للمتقین (قلمی، غیر مطبوعہ، نا مکمل)
5۔ اختلاف سنی شیعہ (قلمی، غیر مطبوعہ)
6۔ رفع الیدین کرنا خلاف حکم رسول ہے، مطبوعہ الفقیہ امرتسر، ۲۱ اگست ۱۹۳۶ء
7۔ وہابیہ ہند کی تاریخ پر اجمالی نظر، مطبوعہ الفقیہ امرتسر، ۲۱ اگست ۱۹۳۶ء
8۔ حقیقت مسیح از روئے بائیبل، مطبوعہ الفقیہ امرتسر، ۲۱ اگست ۱۹۳۶ء
9۔ مناظرہ سنی وشیعہ، فی بنات الرسول الامین، مطبوعہ الفقیہ امرتسر، ۲۱ اگست ۱۹۳۶ء
10۔ کیا وید شروع دنیا ہی سے ہیں، مطبوعہ الفقیہ امرتسر، ۲۱ اگست ۱۹۳۶ء
11۔ عیسائی صاحبان کے چند اعتراض اور ان کے جوابات، مطبوعہ الفقیہ امرتسر، 14 مارچ 1941ء
1۔ حجاب الغیب، کل صفحات ۱۶ (سن ندارد)
2۔ تذکر شاہ جیلان، کل صفحات ۳۲، مطبوعہ ۱۹۳۵ء
3۔ براہين الحنفیۃ لدفاع الفتنۃ النجدیہ، کل صفحات ۸۰، (سن ندارد)
4۔ لمعہ تنقید پر نور توحید، مطبوعہ الفقیہ امرتسر، ۲۱ / ۲۸ نومبر ۱۹۳۸ء
1۔ قیام رمضان وشرون رکعۃ وهى صلوٰۃ التراویح (رسالہ) (عربی - اردو) مطبوعہ الفقیہ امرتسر، ۱۷ نومبر ۱۹۳۹ء
2۔ العقائد الصحیحہ فی تردید الوہابیہ، تصنیف حکیم الامت خواجہ محمد حسن جان سرہندی ٹنڈو سائیں داد (سندھ) متن عربی (اردو ترجمہ) از علامہ آسی، مطبوعہ 1360ء
3۔ ھدى الرسول والنعمان فی اثبات شرائط الجمعہ باوضح البرہان۔ متن عربی، تالیف مولانا غلام حسن نقشبندی (بھٹی چک شریف، گوجرانوالہ) یہ بزرگ حضرت آسی کے نانا تھے، اردو ترجمہ معی ضمیمہ جات، علامہ آسی، مطبوعہ 1331ھ
1۔ وضع اطوار محمدی ﷺ، مطبوعہ ۱۳۲۹ھ، کل صفحات ۴۸، اس کی ابتداء میں علامہ کا مبسوط مقدمہ ہے، یہ کتاب حضرت مولانا غلام احمد کے پنجابی اور فارسی کلام کی شرح پر مشتمل ہے۔
حضرت علامہ آسی کے ایک شاگرد ڈاکٹر ظہور الدین احمد کہتے ہیں کہ:
"عربی میں کمال قدرت رکھتے تھے، عربی میں شعر بھی کہہ لیتے تھے، صرف ونحو میں ان کا تسلط مسلم تھا، تعریف وتحلیل میں ان کا جواب نہیں تھا آپ کے صرف ونحو کے چودہ اصول مشہور تھے، جن کو ان پر مہارت ہوگئی، سمجھ لیجئے عربی گرائمر میں اسے مہارت ہو گئی، طلبہ کی سہولت کے لیے اُنہوں نے عربی حروف جار اور دیگر حروف کو منظوم کر رکھا تھا، تاکہ یاد کرنے میں آسانی ہو۔"
1۔ رموز الاجزاء الاستحضار الطلباء (طبع دوم) ۱۹۲۱ء / ۱۳۴۴ھ، صفحات ۳۲
2۔ رموز الاجزاء لاستحضار الطلباء، طبع ثالث، مطبوعہ فروری ۱۹۳۲ء، صفحات ۴۸
3۔ عربک ٹیچر یعنی کتاب الصرف جدید، مطبوعہ اگست 1932ء، صفحات 112
4۔ منظومۃ النحو اُردو، مطبوعہ جولائی ۱۳۵۱ھ / ۱۹۳۲ء، صفحات ۴۸
5۔ کتاب النحو جدید ملقب بہ عربک ٹیچر، مطبوعہ ۱۳۴۵ھ / ۱۹۲۷ء، صفحات 160
6۔ بطاقۃ الاجوبۃ فی حل اسئلۃ العاشرة المتبعۃ، مطبوعہ مارچ ۱۹۲۵ء، صفحات 64 (یونیورسٹی کے پرچوں کا حل)
7۔ التراجم الاربعۃ، مطبوعہ تمبر ۱۹۱۳ء، صفحات ۴۸ (درسی کتب کے تراجم معہ ابتدائی صرف ونحو)
8۔ نقشہ صرف کبیر باب اول معہ صرف صغیر ابواب ثلاثی مجرد (چارٹ)
9۔ نقشہ "الکلام" (چارٹ)
10۔ نقشہ "الکلمہ" (چارٹ)
11۔ اُردو گرائمر میں ایک نقشہ "نقشہ صرف اُردو" کے نام سے تیار فرمایا تھا۔
12۔ فارسی گرائمر میں ایک رسالہ، سرگزشت گرائمر خان، مطبوعہ ۳۰ فروری ۱۹۱۳ء
علامہ آسی نے نہ صرف اس کتاب کے عربی متن کا اُردو ترجمہ کیا بلکہ متن کی مناسبت سے مندرجہ ذیل عنوانات کے تحت رسائل لکھے جن سے کتاب کی افادیت بڑھ گئی، رسائل کے نام یہ ہیں:
1۔ لھنۃ الفیف فی بحث شرائط الجمعۃ بحسب الكم والكیف (عربی)
2۔ الفرق بين المذہب والمشرب، کما بين المشرق والمغرب (عربی)
حضرت علامہ آسی کی دو بیاضیں راقم کے پاس محفوظ ہیں، علاوہ ازیں ایک مضمون "گردن توڑ بخار" مطبوعہ الفقیہ امرتسر، ۲۱ اپریل ۱۹۳۵ء بھی راقم کو ملا ہے۔
حضرت آسی کا کلام عربی، اردو اور فارسی میں ملتا ہے، چنانچہ راقم کے پاس جو ذخیرہ ہے ذیل میں اس کی تفصیل درج کی جاتی ہے۔
1۔ خیالات آسی، واقعات صلیبی پر ایک نظر، الفقیہ امرتسر، 14 فروری تا ۷ اپریل 1942ء
2۔ مشرقی سے ایک اہم سوال اور اس کے ہوا خواہوں سے جواب کا مطالبہ، مطبوعہ شمس الاسلام بھیرہ، ربیع الاول ۱۳۶۱ھ
3۔ رسالہ منظومۃ النحو (اردو) مطبوعہ ربیع الاول ۱۳۵۱ھ
4۔ تاریخ وفات حضرت مولانا نور احمد امرت سری ، مطبوعہ مکتوبات مجدد الف ثانی 1384ھ، ص 15
1۔ قصیدۂ مدحیہ حضرت مولانا احمد سعید بیر بلوی والد گرامی قدر خواجہ محمد عمر بیر بلوی قدس سرہ، مطبوعہ انوار مرتضوی، ص 171
2۔ قطعہ تاریخ وفات مولانا غلام مرتضیٰ بیر بلوی جد امجد محمد عمر بیر بلوی قدس سره، مطبوعہ انوار مرتضوی، ص ۱۶۶
3۔ قطعۂ تاریخ وفات مولانا غلام مرتضیٰ بیر بلوی قدس سرہ بلحاظ تیارئ مقبرہ۔
4۔ فرد بلحاظ مضمونِ بالا از کشکول آسی
5۔ قطعۂ تاریخ وفات خلف الرشید نبی بخش بن مولوی علاء الدین ۔
6۔ قصیدۂ تاریخیہ تازیانہ نقشبندیہ، از کشکول آسی
7۔ قصیدۂ مدحیہ از کشکول آسی
8۔ قیل فی انتقال صاحب الکمال مولانا مولوی واستاذی غلام احمد نور اللہ مرقدہ۔
9۔ تاریخ وصال حضرت مولانا مرحوم از کشکول آسی
10۔ رثا برعناء وصال پر ملال شیخ مٹھو صاحب نور اللہ مرقدہ از کشکول آسی
1۔ مرثیہ مولانا غلام مرتضیٰ (بیر بلوی) مطبوعہ انوار مرتضوی، ص 156
2۔ اشعار فی الاخ واخ الاب از مکتوب علامہ آسی بنام خواجہ محمد عمر بہر بلوی قدس سرہ
3۔ قطعہ تاریخ وفات حضرت مولانا نور احمد ، مطبوعہ الفقیہ امرتسر
4۔ قطعہ تاریخ وفات حضرت مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی امرتسری مطبوعہ الفقیہ امرتسر
حضرت علامہ آسی نے حاصل مطالعہ کو تحریر میں لانے کیلئے بیاضیں بھی تیار فرمائیں، ان کو کشکول آسی کا نام دیا، چار جلدوں میں یہ کتاب راقم کے پاس موجود ہے۔1
تحریر: میاں ضمیر احمد وسیر آسی ,ساکن راگھو سیداں ضلع حافظ آباد