Khatam e Nabuwat

مناظر الاسلام حضرت علامہ ظہور احمد بگوی

حالات زندگی:

حضرت علامہ ظہور احمد بگوی ملت کے ان مایہ ناز سپوتوں میں سے ایک تھے جن کی زندگی کی ہر صبح اسلام کی سربلندی اور کامرانی سے مزین اور ہر شام مسلمانوں کی سیاسی، معاشرتی، معاشی اور اخلاقی زبوں حالی سے نجات میں مصروف عمل نظر آتی تھی۔ آپ کے دم قدم سے کئی تحریکوں نے جنم لیا اور آپ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔

آپ کا خاندان بگویہ کے شہرہ آفاق عالم حضرت علامہ مولانا عبد العزیز بگوی کے سب سے چھوٹے صاحبزادے تھے۔ آپ 1901ء میں پیدا ہوئے۔ دینی تعلیم کے اساتذہ میں مولانا محمد ذاکر بگوی محمد یحیٰ بگوی، مولانا معین الدین اجمیری اور مولانا محمد حسین شامل ہیں۔

دین حنیف کی خدمت اور گمراہ فرقوں کے تعاقب میں آپ نے جس خلوص، جانفشانی اور ذہانت سے کام کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ باطل فرقوں کے مقابلہ میں حمایت حق کے جذبے سے سرشار ہو کر جس بے جگری، جرات اور ہمت سے کام لے کر آپ نے جہاد شروع کیا تھا وہ آپ ہی کا حصہ ہے۔ تمام ہندوستان بلکہ بیرون ہند ملک برما وغیرہ میں بھی آپ نے کامیاب دورے کر کے مرزائیت اور شیعت کے خلاف شعلہ بار اور سبق آموز تقاریر فرمائیں جن سے ان باطل گروہوں کی تمام مساعی اور ان کے پھیلائے ہوئے جال بے کار ہو کر رہ گئے خصوصاً شمالی پنجاب کے مسلمانوں کو مرزائیت ودیگر باطل فرقوں سے محفوظ رکھنے کے لیے آپ نے مسلسل شب وروز سفر کئے۔

رد قادیانیت:

ستمبر ۱۹۳۲ء میں قادیانیوں نے سرگودھا، بھیرہ اور شاہ پور میں اپنے باطل مذہب کی تبلیغ زور وشور سے شروع کر دی۔ عالی مرتبت مولانا ظہور احمد بگوی نے علماء کرام کی ایک جماعت کے ہمراہ قادیانیوں کا تعاقب کیا۔ تقریر وتحریر، مناظرہ ومباحثہ ہر میدان میں قادیانیت کو چت گرا کر ذلیل وخوار کیا۔ اپنے انہی معرکہ ہاے حق وباطل کا خلاصہ آپ نے "برق آسمانی بر خرمن قادیانی" کے عنوان سے دسمبر ۱۹۳۲ء میں شائع فرما دیا۔ کتاب کے سرورق پر کتاب کے نام کے نیچے آپ نے کتاب کا تعارف ان الفاظ میں کرایا ہے:

"جس میں اعمالنامہ مرزا، سوانح مرزا وخلفائے مرزا کے علاوہ ستمبر ۱۹۳۲ء کے اندر مرزائیوں کے ساتھ بھیرہ، سلانوالی، چک ۳۷ جنوبی میں مناظروں کی روئیداد اور ضلع شاہ پور میں مرزائیوں کے تعاقب کی مفصل کیفیت درج کی گئی ہے۔"

کتاب "برق آسمانی بر خرمن قادیانی" دو جلدوں پر مشتمل ہے۔

پہلی جلد کے چار حصے ہیں جن کی مختصر تفصیل اس طرح ہے۔

کتاب کے حصہ اول میں آپ نے "سوانح مرزا بزبان مرزا" المعروف بہ اعمالنامہ مرزا کے عنوان سے مرزا قادیانی کی اپنی تحریروں کی روشنی میں اس کی شخصیت، اس کے اعمال وافعال، اس کا مذہب، اس کی انگریز نوازی، اسلام سے غداری، عقائد اسلام سے انحراف اور اس کی ساری زندگی کا نقشہ کھینچ دیا ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے اور مصنف کی طرف سے دیے گئے حوالہ جات ملاحظہ کرنے کے بعد ہی اندازہ ہو سکتا ہے کہ آپ کا مرزائیت کے بارے میں کتنا وسیع اور تحقیقی مطالعہ تھا۔

کتاب کے دوسرے حصہ میں قادیانی خلیفہ اول حکیم نور الدین عرف نورو بھیروی کے چیده چیدہ حالات وواقعات درج کیے ہیں جنہیں پڑھ کر حکیم نور الدین کی شخصیت اور قادیانیت سے اس کی اندھی عقیدت، بے جا محبت اور اس کے نتیجہ میں اس کی گمراہی کی وجوہات اظہر من الشمس ہو جاتی ہیں۔

حصہ سوم میں آپ نے قادیانی حوالہ جات کی روشنی میں قادیانیوں سے مختلف فرقوں کا اجمالی تذکرہ فرمایا ہے۔ آپ نے گیارہ قادیانی فرقوں کا تعارف کرایا ہے اور ان کی بنیاد وقیام کی مختصر وجوہات بیان فرمائی ہیں۔

کتاب کے حصہ چہارم میں آپ نے قادیانیوں کے ساتھ اہل اسلام کے چند اہم مناظروں کی روئیداد اور خلاصے تحریر فرمائے ہیں۔

دوسری جلد کے مندرجات کا تعارف فرماتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں:

"مناظروں میں جس قدر دلائل فریقین کی طرف سے پیش ہوئے ان کی تفصیل کیلئے یہ مختصر کتاب کافی نہیں ہو سکتی۔ تقاریر کی مکمل یادداشتیں ہمارے پاس محفوظ ہیں۔ چونکہ مناظروں میں دلائل کا تکرار ہوتا رہا ہے۔ اس لیے تمام دلائل یکجا شائع کیے جاتے ہیں۔ یہ مجموعہ رد مرزائیت کے لیے مرزائیوں کی پاکٹ بک کا بہترین جواب ثابت ہوگا اور منصف مزاج اور سلیم الفطرت انسانوں کے لیے ہدایت ورہنمائی کا باعث ہوگا۔

قادیانیوں نے جب ضلع سرگودھا وشاہ پور میں مرزائیت کی باقاعدہ منظم تبلیغ کا آغاز کیا تو آپ نے فتنہ قادیانیت کی سرکوبی کے لیے ایک وفد ترتیب دیا۔ اس وفد نے یکم ستمبر ۱۹۳۲ء سے دس اکتوبر ۱۹۳۲ء تک قادیانیوں کے ساتھ دس مقامات پر مناظرے ومباحثے کئے اور ہر مرتبہ بفضل خدا یہ وفد کامیاب وکامران ہوا اور قادیانی گروہ ہر بار خائب وخاسر رہا۔

برق آسمانی بر خرمن قادیانی کے علاوہ آپ نے ایک ٹریکٹ بعنوان "مرزائیت کی حقیقت" مارچ ۱۹۳۳ء میں تالیف کیا جسے حزب الانصار کلکتہ نے طبع کروا کر مفت تقسیم کیا۔ اس کے علاوہ ماہنامہ شمس الاسلام بھیرہ کو بھی آپ نے تردید قادیانیت کے سلسلہ میں وقف فرما دیا تھا۔

۲۹ مارچ ۱۹۴۵ء کو آپ کل ہند تنظیم اہلسنت کے اجلاس میں شرکت فرما کر واپس تشریف لا رہے تھے کہ سخت بیمار ہوئے۔ راستہ ہی میں اس دار فانی سے کوچ فرمایا۔ آپ کا مزار پر انوار خانقاہ بگویہ بھیرہ شریف میں ہے۔

Powered by Netsol Online