حکیم مولوی محمد عبد الغنی صاحب ناظم ۱۸۹۲ء میں کنجاہ (ضلع گجرات، پاکستان) کی ایک نواحی بستی تھیورانوالی میں حافظ محمد عالم صاحب نقشبندی کے ہاں تولد ہوئے۔ بچپن ہی میں سایہ پدری سے محروم ہو گئے تھے۔ ابتدائی تعلیم اپنے علاقے میں ہی حاصل کی اور دھار والی مڈل اسکول سے مڈل امتحان پاس کیا۔ بعد ازاں گجرات، لاہور اور ہندوستان کے مختلف شہروں میں رہ کر کسب فیض کرتے رہے۔
طبیہ کالج دہلی میں رہ کر طب اسلامی کی تکمیل کی اور وطن مالوف کی مراجعت فرمائی۔ حکیم سید فضل شاہ، حکیم فتح محمد اور حکیم دوست محمد ملتانی وغیرہ سے مل کر انجمن خادم الحکمۃ شاہدرہ کے قیام میں اہم کردار ادا کیا مگر مذہبی رجحانات میں شدید اختلاف کے باعث جلد ہی اس سے الگ ہو گئے۔ طبی شغف دور آخر تک جاری رہا۔ آپ کی زیر ادارت رسالہ "گلدستہ حکمت" ایک مدت تک داد تحسین وصول کرتا رہا۔
آپ ایک جید عالم دین تھے اور جملہ مکاتب فکر کے علماء آپ کا احترام کرتے تھے۔ آپ نے اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نقشبندی سلسلہ عالیہ سے وابستگی اختیار کی اور حضرت خواجہ مقبول الرسول صاحب نقشبندی للہ شریف ضلع جہلم کے دست مبارک پر بیعت کی۔
حکیم صاحب نے حضرت مولانا محمد عبد اللہ صاحب سلیمانی کے ساتھ مل کر تحریک پاکستان بعد ازاں تحریک ختم نبوت میں نا قابل فراموش کردار ادا کیا۔ آپ نے قادیانیت کے رد میں ۱۹۳۴ء میں "الحق المبین" تحریر فرمائی۔ اس کتاب کے آغاز میں آپ فرماتے ہیں:
"تجربہ شاہد ہے کہ اکثر سعید روحیں ایسی ہیں جو نا واقفی کی بنا پر مرزائیت کا شکار ہو جاتی ہیں مگر پھر صحیح واقفیت بہم پہنچنے پر دوبارہ صراطِ مستقیم اختیار کرنے کو عار نہیں سمجھتیں اور علی الاعلان صداقت کو قبول کر لیتی ہیں۔ لہٰذا ایسے مضامین کی اشاعت نہایت ضروری ہے جو عام فہم الفاظ میں مرزائیت کے ڈھول کا پول ظاہر کریں۔ ممکن ہے کہ کوئی صاحب خالی الذہن ہو کر خلوص نیت سے مطالعہ کر کے حقیقت کو پا لے اور مرزا سے قطع تعلق کر کے سید المرسلین، خاتم النبیین، شفیع المذنبین، رحمۃ اللعالمین حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ ﷺ کے دامن میں آ کر پناہ لے۔"
اس کے علاوہ رد قادیانیت پر آپ کی مزید دو اور تصانیف "تناقضات مرزا" اور "اعتقادات مرزا" بھی ہیں جن کا ذکر حکیم صاحب نے اپنی کتاب "الحق المبین" میں بھی کیا ہے۔ لیکن اس جلد کے چھپنے تک یہ دونوں تصانیف ادارے کو مہیا نہیں ہو سکیں۔
ایک مدت تک محکمہ تعلیم سے بھی وابستہ رہے مگر اس کے ساتھ تحریر وتقریر وتبلیغ کا سلسلہ بھی جاری رہا، رد قادیانیت کے علاوہ آپ کی تالیفات "اعانت الاموات بالدعوات والصدقات" اور "ذکر الصالحین" بھی معروف ہیں اور اپنے اپنے دور میں عوام وخواص میں مقبول رہی ہیں۔
آپ نے 20مئی1966ء کو داعی اجل کو لبیک کہا اور اپنے گاؤں میں ہی سپرد خاک ہوئے۔