جناب بابو پیر بخش کا شمار اہلسنت وجماعت کی ان علمی شخصیات میں ہوتا ہے۔ جنہوں نے تحریر وتقریر کے ذریعے عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ کیا۔ محترم بابو پیر بخش بھاٹی دروازہ لاہور کے رہنے والے تھے۔ موصوف علام نے ذریعہ معاش کے لیے محکمہ ڈاک کی ملازمت اختیار کی۔ فروری ۱۹۱۲ء میں انہیں اپنے فرائض منصبی سے فرصت ملی اور پنشن پر آگئے۔ ملازمت سے فراغت کے بعد انہوں نے غلام احمد قادیانی کی کتب کا مطالعہ کیا اور اس فتنہ سے آگاہ ہوئے۔ آخر کار اس فتنہ کی سرکوبی کی ٹھان لی اور اسی سال رد قادیانیت پر کتاب "معیار عقائد قادیانی" تحریر فرمائی۔
:معیار عقائد قادیانی کے مقدمہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ
"اما بعد احقر العباد بابو پیر بخش پوسٹماسٹر حال گورنمنٹ پنشنر ساکن لاہور، بھاٹی دروازہ۔ برادران اسلام کی خدمت میں عرض کرتا ہے کہ مجھ کو بہت مدت سے مرزا صاحب کی صفات سن کر اشتیاق تھا کہ ان کی تصنیفات کا مطالعہ کروں اور ممکن فائدہ اٹھاؤں۔ مگر چونکہ یہ کام فرصت کا تھا۔ اور مجھ کو ملازمت کی پابندی تھی۔ اور میرا محکمہ ڈاک بھی ایسا تھا کہ مجھ کو فرائض منصبی سے بہت کم فرصت ہوتی تھی جو کہ ضروریات انسانی میں بھی مکتفی نہ تھی۔ اسی واسطے میں اپنے شوق کو پورا نہ کر سکا۔ مگر اب مجھ کو بفضل خدا تعالیٰ بہ تقریب پنشن ماہ فروری ۱۹۱۲ء سے فرصت تھی۔ میں نے مرزا صاحب کی تصانیف دیکھی اور ان کی کتابیں فتح الاسلام، توضیح المرام، ازالۂ اوہام، حقیقۃ الوحی، براہین احمدیہ پڑھیں۔ قریباً تمام کو دعویٰ مسیح موعود اور آسمانی نشانات سے مملو پایا۔"
معیار عقائد قادیانی کی تصنیف کے بعد محترم بابو پیر بخش نے اس بے دین گروہ کے ہر پمفلٹ اور ہر اشتہار کا جواب تحریر فرمایا اور قلیل عرصہ میں غلام احمد قادیانی کے ہر ہر دعوے کے رد پر مستقل کتب تحریر فرما دیں۔ جناب بابو پیر بخش مرحوم کی جملہ تصانیف نہایت سلیس اور مدلل ہیں۔ اب تک ادارہ تحفظ عقائد اسلام کو مصنف علام کی نو (۹) کتابیں حاصل ہو چکی ہیں جن کی سنین کے اعتبار سے ترتیب اس طرح ہے:
1۔ معیار عقائد قادیانی (1331ھ، 1912ء)
2۔ بشارت محمدی فی ابطال رسالت غلام احمدی (1337ھ، 1918ء)
3۔ کرشن قادیانی (1339ھ، 1920ء)
4۔ مباحثہ حقانی فی ابطال رسالت قادیانی (1341ھ، 1922ء)
5۔ تحقیق صحیح فی تردید قبر مسیح (1341ھ، 1922ء)
6۔ الاستدلال الصحیح فی حياة المسیح (1343ھ، 1924ء)
7۔ تردید نبوت قادیانی (1344ھ، 1925ء) 8۔ حافظ الایمان (فارسی) (1344ھ، 1925ء) 9۔ مجدد وقت کون ہو سکتا ہے؟تحریر وتصنیف کے علاوہ جناب بابو پیر بخش تقریر کے میدان میں بھی ایک خاص مقام کے حامل تھے۔ ۲۰ مارچ ۱۹۲۱ء کو منعقد ہونے والے "جلسہ اسلامیان قادیان" کی روداد بیان کرتے ہوئے محرر لکھتے ہیں۔
"جناب بابو صاحب موصوف نے اپنی 16 صفحات کی نہایت مدلل اور دلچسپ مطبوعہ تقریر "اثبات حیات مسیح" مختصر مگر منکسرانہ تمہید کے بعد سنانی شروع کی۔ اس تقریر کی لطافت نے جلسہ میں ایک خاص شان پیدا کر دی۔ لفظ لفظ پر حسین وآفرین کی صدائیں بلند ہوتی تھی"۔ "در حقیقت جس تحقیق سے ایک مدلل اور مکمل بحث بابو صاحب نے اثبات حیات مسیح پر کی ہے، یہ انہیں کا حصہ تھا۔ کسی نے خوب کہا ہے "لکل فن رجال ولکل قول مقال" بابو صاحب کی طبیعت میں مناظرہ کا خاص ملکہ ودیعت ہے۔"
جناب بابو پیر بخش نے ایک دینی ادارے انجمن تائید الاسلام کی بنیاد رکھی اور اس کے تحت ماہنامہ رسالہ بنام "تائید الاسلام، لاہور" جاری کیا۔ انجمن کے تحت فتنہ قادیان کی جانب سے جاری ہونے والے اشتہارات اور پمفلٹ اور مضامین اور تقاریر کا رد کیا جاتا اور عوام الناس کو حقائق سے آگاہ کیا جاتا۔ ماہنامہ رسالہ میں رد قادیانیت پر مضامین اور اقتباسات شائع کئے جاتے اور علماء اہلسنت کی رد قادیانیت پر مطبوعہ کتب سے بھی عوام وخواص کو مطلع کیا جاتا۔ انجمن تائید الاسلام کی 1917ء کی ایک اشاعت کے سرورق کے ارد گرد یہ اطلاع درج ہے:
"حجۃ اللہ البالغہ یعنی سیف چشتیائی مصنفہ علامہ زمان قطب دوران حضرت خواجہ سید مہر علی شاہ صاحب (زاد اللہ فیوضہم) دنیا بھر کے علماء نے تسلیم کیا ہے کہ عالمانہ نظر میں مرزا قادیانی کا رد اس سے بہتر نہیں کیا گیا۔"
رسالہ تائید الاسلام ماہوار بابت ماہ نومبر، ۱۹۲۰ء کے سرورق پر یہ اطلاع تحریر ہے:
"اطلاع: افادة الافہام مؤلفہ حضرت مولانا محمد انوار اللہ صاحب مرحوم (صدر الصدور، حیدر آباد، دکن) تردید مرزا میں یہ دو جلدوں کی ضخیم بے نظیر کتاب جو بڑی جستجو سے تین (۳) نسخے بہم پہنچائے گئے ہیں۔ علماء فوراً منگا لیں۔"
جب مصنف موصوف نے بعض مصلحتوں کے تحت رسالہ تائید الاسلام بند کر دیا تو حضرت علامہ قاضی فضل احمد لدھیانوی (مصنف کلمہ فضل رحمانی بدفع کید قادیانی) نے اس پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار "انقلاب زفاف حاضرہ" میں ان الفاظ میں فرمایا:
"ہمارے محترم دوست مولوی بابو پیر بخش صاحب نے رسالہ تائید الاسلام لاہور کو بند کر دیا۔ اور نہایت اہم دینی کام کو چھوڑ دیا۔" 1
ادارہ اپنی اس چودہویں جلد میں جناب بابو پیر بخش مرحوم کی تین کتب شائع کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہے اور مزید کتب پندرہویں اور سولہویں جلد میں انشاء اللہ طبع کی جائیں گی۔ مذکورہ بالا رسائل اور کتب کے علاوہ مصنف موصوف کے رد قادیانیت پر مزید اور پانچ کتب ورسائل کا بھی تذکرہ ملتا ہے۔ جن میں بعض کو حضرت علامہ حافظ عبد الستاری سعیدی (شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ لاہور) نے اپنی مشہور تصیف "مرآة التصانیف" میں ذکر فرمایا ہے۔
1۔ لا مہدى الا عيسىٰ۔
2۔ اسلام کی فتح اور مرزائیت کی تازہ ترین شکست۔
3۔ تفریق درمیان اولیاء امت اور کاذب مدعیان نبوت ورسالت۔
4۔ ایک جھوٹی پیشن گوئی پر مرزائیوں کا شور وغل۔
5۔ حافظ الايمان (عربی)
اگر کسی کے پاس مصنف موصوف کے تفصیلی حالات زندگی اور مذکورہ بالا پانچ رسائل موجود ہوں تو ادارے کو ارسال فرما کر ثواب دارین حاصل کریں۔ جناب بابو پیر بخش کی ان تصانیف کا تعارف اکثر ماہنامہ تائید الاسلام کے آخری صفحہ پر پیش کیا جاتا تھا۔ تائید الاسلام بابت جنوری 1932ء کے آخری صفحہ پر تردید نبوت قادیانی کا تعارف اس طرح پیش کیا گیا۔
میر قاسم علی مرزائی کی ایک ہزار روپیہ انعام والی کتاب کا جواب:
"برادران اسلام! میر قاسم علی مرزائی کی طرف سے ایک کتاب مسمیّٰ بہ کتاب "النبوۃ فی خیر الامت" شائع ہوئی ہے جس میں انہوں نے محمد ﷺ کے بعد نبیوں اور رسولوں کا آنا نہ صرف ثابت کرنے کی کوشش کی ہے بلکہ جن لوگوں کا یہ اعتقاد ہے تیرہ سو (۱۳۰۰) برس سے چلا آ رہا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ خاتم النبیین کے بعد کوئی نبی یا رسول نہ آئے گا اور ان کو مغضوب ومجذوم کہا ہے۔ اور عقلی ڈھکوسلے لگا کر مسلمانوں کو بہت دھوکے دیئے ہیں جن کا اظہار کرنا اور جواب دینا نہایت ضروری تھا۔ اسی لئے الحمد اللہ کہ کتاب مذکور کا جواب تردید نبوت قادیانی ۲۳۲ صفحات پر خاکسار نے لکھ کر چھپوائی ہے۔"
ہندوستان کے علاوہ دیگر ممالک میں آباد مسلمانوں کو فتنہ قادیانیت سے آگاہی کے لئے جناب بابو پیر بخش صاحب کی بعض تصانیف کے عربی، فارسی اور انگریزی تراجم بھی کئے گئے اور انہیں افغانستان، مصر، شام، عراق اور افریقہ وغیرہ میں مفت تقسیم کیا گیا۔
تحریر وتصنیف کے علاوہ جناب بابو پیر بخش تقریر کے میدان میں بھی ایک خاص مقام کے حامل تھے۔ ۲۰ مارچ ۱۹۲۱ء کو منعقد ہونے والے جلسہ اسلامیان قادیان کی روداد بیان کرتے ہوئے محرر لکھتے ہیں:
"جناب بابو صاحب موصوف نے اپنی ۱۶ صفحات کی نہایت مدلل اور دلچسپ مطبوعہ تقریر "اثبات حیات مسیح" مختصر مگر منکسرانہ تمہید کے بعد سنانی شروع کی۔ اس تقریر کی لطافت نے جلسہ میں ایک خاص شان پیدا کر دی۔ لفظ لفظ پر تحسین وآفرین کی صدائیں بلند ہوتی تھی۔" "در حقیقت جس تحقیق سے ایک مدلل اور مکمل بحث بابو صاحب نے اثبات حیات مسیح پر کی ہے، یہ انہیں کا حصہ تھا۔ کسی نے خوب کہا ہے "لکل فن رجال ولكل قول مقال" بابو صاحب کی طبیعت میں مناظرہ کا خاص ملکہ ودیعت ہے۔"
جناب بابو پیر بخش نے ایک دینی ادارے انجمن تائید الاسلام کی بنیاد رکھی اور اس کے تحت ماہنامہ رسالہ بنام "تائید الاسلام" لاہور جاری کیا۔ اور اس کے لئے مندرجہ قواعد وضوابط مقرر کئے:
ا۔ اس انجمن کا نام "انجمن تائید الاسلام" ہے۔
2۔ ہر مسلمان خواہ کسی شہر یا گاؤں کا رہنے والا ہو ممبر بن سکتا ہے۔
3۔ ہر ایک ممبر کو کم از کم۔۔۔۔، چندہ ماہوار دینا ضروری ہے۔
4۔ اگر کوئی صاحب حسب توفیق حیثیت خود زیادہ عطیہ دینا چاہے تو مشکوری کے ساتھ انجمن قبول کرے گی۔
5۔ انجمن عقائد باطلہ کی تردید تہذیب کے ساتھ کرے گی اور اس کو پولٹیکل امور میں کچھ دخل نہ ہوگا۔ صرف مذہبی عقائد پر بحث کرے گی۔
انجمن کے تحت فتنہ قادیان کی جانب سے جاری ہونے والے اشتہارات اور پمفلیٹ اور مضامین اور تقاریر کا رد کیا جاتا اور عوام الناس کو حقائق سے آگاہ کیا جاتا۔ ماہنامہ رسالہ میں رد قادیانیت پر مضامین اور اقتباسات شائع کئے جاتے اور علماء اہلسنت کی رد قادیانیت پر مطبوعہ کتب سے بھی عوام وخواص کو مطلع کیا جاتا۔ انجمن کی جانب سے اکثر اوقات رد قادیانیت پر رسائل مفت تقسیم کئے جاتے اور اس سلسلے میں لوگوں سے مالی تعاون کی اپیل بھی کی جاتی۔ ایک مقام پر جناب بابو پیر بخش مسلمانوں سے التماس کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
التماس ضروری برادران اسلام: مرزائی صاحبان کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کے واسطے ایک انجمن تائید الاسلام جو کہ تہذیب کے ساتھ مرزائی صاحبان کو بغرض اصلاح جواب دیتی رہے گی، قائم ہوئی ہے۔ جو مسلمان اس کار خیر میں مدد دینا چاہیں اور انجمن کا ممبر بننا چاہیں تو اپنا نام لکھ کر انجمن میں بھیج دیں اور دینی جماعت میں حصہ لے کر ثواب دارین کے مستحق بنیں۔ کیوں کہ مرزائی صاحبان کی ایک انجمن قائم ہوئی ہے جو کہ چھوٹے چھوٹے رسالہ جات مفت تقسیم کرتی ہے اور اپنے عقلی ڈھکوسلے لگا کر عام مسلمانوں کو دھوکہ دے کر بہکاتے ہیں جن کا جواب دینا نہایت ضروری ہے۔
(الملتمس: پیر بخش پنشنر پوسٹماسٹر لاہور، بھاٹی دروازہ مکان زیلدار)
جو مسلمان اس رسالہ کے ساتھ مالی تعاون کرتے ان کے نام اور رقم کی تفصیل بھی رسالے کے آخر میں شائع کی جاتی۔ ماہنامہ تائید الاسلام کے ساتھ مالی تعاون کرنے والوں کی فہرست میں دو اہم علمی شخصیات زبدۃ العارفین حضرت پیر جماعت علی شاہ صاحب اور قاضی فضل احمد صاحب کورٹ انسپکٹر لدھیانہ کے نام بھی مذکور ہیں۔
جناب بابو پیر بخش اپنی تصانیف میں علماء اہلسنت کی رد قادیانیت پر لکھی جانے والی کتب کا تعارف بھی پیش کرتے۔ انجمن تائید الاسلام کی ۱۹۱۷ء کی ایک اشاعت کے سرورق کے ارد گرد یہ اطلاع درج ہے:
"حجۃ اللہ البالغہ یعنی سیف چشتیائی مصنفہ علامہ زمان قطب دوران حضرت خواجہ سید مہر علی شاہ صاحب (زاد اللہ فیوضہم)۔ دنیا بھر کے علماء نے تسلیم کیا ہے کہ عالمانہ نظر میں مرزا قادیانی کا رد اس سے بہتر نہیں کیا گیا۔"
رسالہ تائید الاسلام ماہوار بابت ماہ نومبر ۱۹۲۰ء کے سرورق پر یہ اطلاع تحریر ہے:
"اطلاع: افادة الافہام مولفہ حضرت مولانا محمد انوار اللہ صاحب مرحوم (صدر الصدور، حیدر آباد، دکن) تردید مرزا میں یہ دو جلدوں کی ضخیم بے نظیر کتاب جو بڑی جستجو سے تین (۳) نسخے بہم پہنچائے گئے ہیں۔ علماء فوراً منگا لیں۔"
جب مصنف موصوف نے بعض مصلحتوں کے تحت کچھ عرصہ کے لئے رسالہ تائید الاسلام کی اشاعت روک دی تو حضرت علامہ قاضی فضل احمد لدھیانوی (مصنف کلمہ فضل رحمانی بجواب اوہام غلام قادیانی) نے اس پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار انقلاب زفاف حاضرہ میں ان الفاظ میں فرمایا:
"ہمارے محترم دوست مولوی بابو پیر بخش صاحب نے رسالہ تائید الاسلام لاہور کو بند کر دیا اور نہایت اہم دینی کام کو چھوڑ دیا۔" 2
{ {p | جناب بابو پیر بخش ۱۹۱۲ء میں اپنے عہدے سے فراغت کے بعد سے مسلسل سولہ (۱۶) سال تک مرزا قادیانی کے فتنے کا مقابلہ کرتے رہے اور ان کے ہر فریب ودھوکہ دہی کا منہ توڑ جواب دیتے رہے۔ اپنی کتب، رسائل، مضامین اور اہلسنت کے دیگر بزرگوں کی تصانیف کے ذریعے لوگوں کو اس فتنہ سے مطلع وآگاہ کرتے رہے۔ مرزائیوں کی جانب سے جاری ہونے والے ہر اشتہار، پمفلیٹ، ٹریکٹ اور ہینڈ بل کا آپ عقلی اور نقلی دلائل سے رد فرماتے۔ جناب بابو پیر بخش نے اپنے انتھک مشن کے ذریعے مرزا غلام احمد قادیانی کے خلاف اسلام دعاوی، عقائد باطلہ اور گمراہ کن الہامات کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں۔ آخر کار عقیدہ ختم نبوت کی پاسبانی کرتے ہوئے مئی ۱۹۲۷ء میں اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔}}جناب بابو پیر بخش کے وصال کے بعد مئی ۱۹۲۷ء سے مئی ۱۹۳۲ء یعنی پانچ سال تک رسالہ تائید الاسلام کے اجراء کی ذمہ داری جناب میاں قمر الدین صاحب نے سنبھالیں۔ رسالہ تائید الاسلام، بابت ماہ جون ۱۹۳۳ء کے شمارے میں جناب بابو پیر بخش کی خدمات کو سراہتے ہوئے مضمون نویس رفیق محترم تحریر کرتے ہیں:
"تردید مرزائیت میں جن حضرات نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ان میں رسالہ تائید الاسلام کے بانی محترم جناب بابو پیر بخش صاحب مرحوم ومغفور ایک امتیازی خصوصیت رکھتے ہیں۔ جناب میاں صاحب نے پوسٹمارسٹر کے عہدے سے پنشن لینے کے بعد بھاٹی دروازہ لاہور سے تردید مرزائیت کے لئے رسالہ تائید الاسلام کا اجراء کیا اور ان کی ذاتی قابلیت سے اس رسالہ کو یہاں تک ترقی دی کہ رسالہ نہ صرف ہندوستان بلکہ بیرون ہند مثلاً افغانستان، افریقہ، مصر، شام، برما وغیرہ ممالک میں کثرت سے جانے لگا۔ میاں صاحب مرحوم نے اپنے مشن کو رسالہ تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ تردید مرزائیت میں کئی کتابیں بھی تصنیف فرمائیں۔ عربی اور انگریزی میں رسالے شائع کئے تاکہ اسلامی ممالک اور یورپ میں مرزائی حقیقت سے پورے طور پر آگاہ ہو جائیں۔ میاں صاحب موصوف باوجود پیرانی سالی کے، جس جوان ہمتی سے اور تندہی کے ساتھ سولہ برس تک کا طویل عرصہ اس عظیم الشان کام کو سر انجام دیتے رہے، یہ انہیں کا حصہ تھا۔ یقیناً نصرت الٰہی ان کی مددگار اور مؤید تھی۔ اسی لئے ان کا مشن دن دونی اور رات چوگنی ترقی کرتا گیا۔ مرزائیوں سے پوچھئے جن کے سینے پر ان کی تحریریں مونگ دلتی رہتی رہیں اور ہر میدان میں مرزائیوں کو میاں صاحب کے مقابلہ میں ذلیل ترین شکست نصیب ہوتی رہی۔ آخر وہ وقت آ پہنچا کہ جب ہر ایک انسان دنیوی تعلقات کو چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی کے ہاں جانے کے لئے تیار ہوتا ہے۔ وفات سے پہلے میاں صاحب نے رسالہ کا فنڈ اور کتب خانہ ٹرسٹیز مقرر فرمانے کے بعد محترمی ومکرمی جناب میاں قمر الدین صاحب رئیس اچھرہ کے سپرد فرما دیا اور خود مئی ۱۹۲۷ء میں دنیائے فانی سے عالم جاودانی کی طرف رحلت فرمائی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
(ماخوذ از عقیدہ ختم نبوت ،ج:16)