Khatam e Nabuwat

حضرت علامہ مفتی غلام مرتضیٰ صاحب

حالات زندگی:

مناظر اسلام حضرت علامہ مفتی غلام مرتضیٰ بن مفتی غلام دستگیر بن مفتی سراج الدین بن مفتی شیخ عبد الله ۱۸۶۰ء / ۱۲۷۷ھ میں میانی ضلع سرگودھا میں پیدا ہوئے۔ اپنے والد ماجد اور مولانا محمد رفیق ساکن برتھ غربی نزد جھاریاں ضلع سرگودھا سے تحصیل علم کی۔ پھر کئی مدارس میں تدریس کے علاوہ جامعہ نعمانیہ لاہور میں چودہ سال تک صدر المدرسین کے عہدہ پر فائز رہے۔

حضرت علامہ مفتی غلام مرتضیٰ میانوالی ایک جید عالم دین، بہترین مدرس، پر جوش مقرر اور زبردست مناظر تھے۔ آپ نے قادیانیت، وہابیت اور شیعیت کا مقابلہ کتب، تقاریر اور مناظروں کے ذریعے مؤثر انداز میں کیا۔ آپ کی موجودگی میں بڑے بڑے علماء وفضلاء مہر بلب رہتے۔ آپ کی علمی حالت کے اپنے اور بیگانے دونوں قائل تھے۔ عوام وخواص آپ کو قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھتے۔ بحث ومباحثہ میں ہمیشہ آپ غالب رہتے۔

رد قادیانیت:

 رد قادیانیت پر آپ کی دو کتابیں ہیں۔

1۔ الظفر الرحمانی فی کسف القادیانی:

(یہ کتاب مفتی غلام مرتضیٰ اور جلال الدین فاضل قادیانی کے مابین سن ۱۹۲4ء میں ہونے والے مناظرے کی روئداد پر مشتمل ہے۔)

2۔ ختم نبوت:

(اس کتاب میں مختصراً ختم نبوت پر دلائل اور ان کی شرح پیش کی گئی ہے)

رد قادیانیت کے علاوہ آپ نے فن مناظرہ پر الدیوان والحماسہ بھی تحریر فرمائی ہے۔ ان کے وقت میں قادیانی مبلغ عیسائی مبلغین کی طرح دیہاتوں اور چھوٹے چھوٹے شہروں میں جاتے اور سادہ لوح عوام کو اپنے دام تزویر میں پھنسانے کے لیے طرح طرح کے حیلوں سے کام لیتے۔ اگر کسی آبادی میں کوئی عالم دین نہ ہوتا تو اس پر تبلیغ کا دھاوا بول دیتے۔ اگر کوئی عالم دین ہوتا تو اس کی موجودگی میں "گربہ مسکین ہو کر اتحاد واتفاق کی بات کرتے۔ مفتی صاحب کے گاؤں موضع میانی (ضلع سرگودھا) میں بھی قادیانیوں نے آمد ورفت شروع کی۔ آپ کی عدم موجودگی میں "ہمچومن دیگرے نیست" کا دم مارتے اور موجودگی میں کہتے کہ آپ ہمارے علماء سے گفتگو کریں۔ مفتی صاحب کہتے ٹھیک ہے، انہیں لے آؤ میں ان سے بات کروں گا۔

بتاریخ ۲۵ اگست ۱۹۲۴ء اپنے کسی کام کے لیے مفتی صاحب نے ایک ہفتہ کا سفر اختیار کیا اور قادیانی جماعت کے لوگ اپنے ایک مولوی مسمی جلال الدین شمس کو قادیان سے میانی لائے۔ اس قادیانی مولوی نے بتاریخ ۲۷ اگست ۱۹۲۴ء گنج منڈی میانی میں تقریر کی اور اختتام پر ایک قادیانی نے کہا کہ یہ مولوی صاحب کل وفات مسیح ابن مریم پر دلائل پیش کریں گے اگر کسی نے مناظرہ کرنا ہے تو میدان میں آئے۔ یہ بات سن کر بوجہ عدم موجودگی مفتی صاحب اسلامی جماعت میں سخت اضطراب پیدا ہوا لیکن خدا تعالیٰ نے سبب فرما دیا کہ مفتی صاحب اراده سفر ملتوی فرما کر بتاریخ ۲۸ اگست ۱۹۲۴ء کی صبح گاڑی پر براستہ بھیرہ میانی لوٹ آئے اور قادیانی جماعت کی طرف مناظرے کے چیلنج کو قبول فرما لیا۔

چنانچہ بتاریخ ۱۸ اکتوبر ۱۹۲۴ء کو موضع ہریا تحصیل پھالیہ، ضلع گجرات میں مناظرے کے جلسہ منعقد ہوا۔ اس جلسہ میں مسلمانوں کی طرف سے حضرت علامہ مولانا مفتی غلام مرتضیٰ مناظر اور حضرت علامہ مولانا غلام علی گھوٹوی شیخ الجامعہ عباسیہ بہاولپور صدر جلسہ مقرر ہوئے اور قادیانیوں کی طرف سے مولوی جلال الدین شمس مناظر اور کرم داد صدر جلسہ مقرر ہوئے اور دوسرے ان قادیانیوں کی طرف سے صدر جلسہ حاکم علی تھے۔ اس تحریری مناظرہ میں مفتی صاحب نے حیات عیسیٰ ﷤ پر صرف دو دلیلیں دیں۔

پہلى دليل:

وَّ قَوْلِهِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰهِ 1

دوسری دلیل:

مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِهٖ قَبْلَ مَوْتِهٖ 2

مفتی صاحب نے ان دونوں دلیلوں کی وضاحت اس عمدہ اور احسن طریقہ سے کی کہ قادیانی مناظر دو دن تک ان کا جواب نہ دے سکا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے مفتی صاحب کے ذریعے مسلمانوں کو فتح ونصرت عطا فرمائی اور باطل خائب وخاسر ہوا۔

اس مناظرے میں شریک علمائے کرام نے اپنے ان تاثرات کا اظہار کیا ہے۔

مفتی صاحب نے ہر دو دن کے اجلاسوں میں اپنے اخلاق جملہ کا وہ ثبوت دیا کہ ہر شخص نے آفریں آفریں کہا۔ باوجود اس کے کہ قادیانی مناظر نہایت بد زبان تھا اور دونوں اجلاسوں کے غیر مہذبانہ الفاظ جو اس نے مفتی صاحب کی ذات کے متعلق کہے انہیں جمع کیا جائے تو کافی تعداد ہو جائے مگر مفتی صاحب نے اپنے وقار اور شرافت کو پیش نظر رکھتے ہو ان الفاظ کو غیر مسموع تصور کیا۔

سارے مناظرے کے اجلاسوں میں قادیانی مناظر کی طرف سے شرائط مقرر کی ۴۹ خلاف ورزیاں کیں لیکن مفتی صاحب نے ایک جگہ بھی شرط کی پابندی کو نہیں چھوڑا۔

مفتی صاحب کی ہر دلیل تحقیق پر مبنی ہوتی اور اپنا تقریر اور تحریر بیان نہایت نرمی سے سناتے۔ سامعین پر مفتی صاحب کی تقریر اپنا سکہ جماتی تھی۔ مفتی صاحب میں جہاں عزم ثبات، وقار واستقلال ان کا طرہ امتیازی تھا وہیں متانت وشرافت، تہذیب وشائستگی کے پیکر بن کر موافق اور مخالفین دونوں سے تحسین حاصل کر رہے تھے۔ قادیانی مناظر مولانا موصوف کے دلائل وشواہد کا ابطال نہ کر سکا اور ادھر ادھر کے غیر مربوط وغیر متعلق امور سے حاضرین کو بہلانے کی بے فائدہ کوشش کرتا رہا۔

مناظرہ آخر تک سکون وامن سے ہوتا رہا۔ یہ سکون اس وقت زیادہ محسوس ہوا جب آفتاب صداقت کی ضیاء باری سے کذب وبطلان کی گھنگھور گھٹاؤں کا شیرازہ بالکل منتشر ہو گیا۔

10 محرم الحرام ۱۳۴۶ھ/ ۱۹۲۸ء کو آپ نے ظہر کے بعد "رضا بالقضاء" کے موضوع پر تقریر فرمائی اور اسی روز عصر کے بعد اس جہان فانی سے کوچ فرمایا۔



  • 1 النساء: 4/157)
  • 2 النساء: 4/57

Powered by Netsol Online