مجمع جمال صوری ومعنوی، صاحب کمال ظاہری وباطنی حضرت مولانا پیر ظہور شاه ابن مولانا پیر سید محمد شاہ قادری جلال پور جٹاں ضلع گجرات میں ۱۳۰۶ھ بمطابق ۱۸۸۸ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے اجداد کشمیرے آکر جلال پور میں مقیم ہو گئے تھے۔ جب سن شعور کو پہنچے تو قرآن پاک مولانا حافظ نور الدین سے جلال پور میں پڑھا اور کچھ درسی کتابیں بھی انہی سے پڑھیں۔ بعد ازاں کچھ عرصہ برادر مکرم مولانا سید اعظم شاہ کے پاس جموں میں استفادہ کرتے رہے۔ پھر کچھ وقت پشاور میں رہے اور آخر میں بریلی شریف جا کر کسب فیض کیا اور فراغت حاصل کی۔ اپنے والد ماجد کے دست مبارک پر بیعت ہوئے اور خلافت سے مشرف ہوئے۔ ان کے علاوہ شیر ربانی حضرت میاں شیر محمد شرقپوری سے بھی استفاضہ کیا۔
حضرت پیر صاحب اپنے دور کے مقبول ترین مقرر تھے۔ آپ جہاں وعظ فرماتے، ہزاروں کا اجتماع ذوق وشوق سے شریک مجلس ہوتا۔ آپ کا خصوصی وصف یہ تھا کہ عوام الناس کو عقائد، اعمال اور اخلاق کی اصلاح کی بھر پور تلقین کے ساتھ ساتھ کلمہ طیبہ کا ذکر کرایا کرتے تھے جس کا حاضرین کے دل پر نہایت خوشگوار اثر پڑتا تھا اور بہت سے لوگ راہ راست پر آ جاتے۔ قدرت ایزدی نے آپ کو زور بیان، وجد آور خوش الحانی اور حسن سیرت وصورت کا حصہ وافر عطا فرمایا تھا۔
آپ مسلک اہل سنت وجماعت کو بڑے مدلل طریقے سے بیان فرمایا کرتے تھے اور عقائد باطلہ خاص طور پر اہل تشیع کا رد بڑی خوبی سے فرمایا کرتے تھے۔ انسان تو انسان، حیوان بھی آپ کے حسن بیان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔
ایک دفعہ موضع کندہ وال (ضلع جہلم) میں بہت بڑے اجتماع سے خطاب فرما رہے تھے کہ ایک اونٹ سوار آ کر محفل میں شریک ہوا۔ جب اس اونٹ کو باندھنا چاہا تو اس نے شور مچا دیا۔ حضرت پیر صاحب نے فرمایا:
"اسے چھوڑ دو! یہ بھی کالی کملی والے آقا ﷺ کا ذکر سننا چاہتا ہے۔ چنانچہ وہ اونٹ خاموشی سے بیٹھ گیا اور جب تک تقریر جاری رہی خاموشی سے بیٹھا سنتا رہا۔"
حضرت پیر صاحب شریعت مطہرہ کی سختی سے پابندی فرمایا کرتے تھے۔ کوئی کام خلاف شریعت دیکھتے تو بروقت اس کی ممانعت کرتے۔ موضع بوچھال کلاں (ضلع جہلم) میں ایک عظیم اجتماع سے خطاب فرما رہے تھے کہ انگریز ڈپٹی کمشنر سر راہ گزرتے ہوئے انبوہ کثیر دیکھ کر رک گیا اور جلسہ گاہ میں جا کر مجمع کی تصویر اتارنے لگا۔ آپ نے فوراً منع فرما دیا اور فرمایا: "ہمارا دین اس کی اجازت نہیں دیتا۔"
آپ نے تقریباً چالیس برس تک وعظ وارشاد کے ذریعے عوام الناس کے دلوں کو نور ایمان سے گرمائے رکھا اور دور دراز علاقوں میں جا کر دین کا پیغام لوگوں تک پہنچایا خاص طور پر جہلم، گجرات اور سرگودھا کے قصبوں اور دیہاتوں میں آپ کا دورہ اکثر ہوا کرتا تھا۔ تبلیغ دین کے سلسلے میں آپ نے بڑی بڑی صعوبتوں کو برداشت کیا اور کسی بھی موقع پر آپ کے عزم میں تزلزل پیدا نہیں ہوا۔
ایک مرتبہ ایک شیعہ نے آپ کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا اور الزام لگایا کہ یہ اہل تشیع کو برا بھلا کہتے ہیں اور گالیاں دیتے ہیں۔ چنانچہ اس سلسلہ میں آپ کو گرفتار کر لیا گیا۔ آپ کے صاحبزادے سید فخر الزمان شاہ قادری (جن کی عمر اس وقت چھ یا سات سال کی تھی) نے جب آپ کو ہتھکڑی پہنے ہوئے دیکھا تو رو دیئے اور پوچھا آپ کو یہ زنجیر کس نے لگائی۔ آپ نے انہیں دلاسہ دیا اور فرمایا: بیٹا! یہ اسلام کی خاطر میرا زیور ہے۔ یہ کیس تین ماہ تک چلتا رہا۔ بالآخر ہندو جج کنول نین نے آپ کو باعزت طور پر بری کر دیا اور فیصلے میں لکھا کہ میں ایسے شخص کے بارے میں تصور بھی نہیں کر سکتا کہ وہ کسی کو گالی دے یا خلاف شائستگی کوئی بات زبان پر لائے۔
حضرت پیر صاحب کامیاب مقرر ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین شاعر بھی تھے۔ آپ کے کلام میں بلا کا اثر تھا۔ آپ کے کلام کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ دیہاتی عورتیں بھی دودھ بلوتی اور آٹا پیستی ہوئی آپ کے اشعار پڑھا کرتی تھیں اور کلمہ طیبہ کا ورد کیا کرتی تھیں۔
آپ نے وعظ وتبلیغ کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے تصنیف وتالیف کا سلسلہ بھی نہایت خوش اسلوبی سے جاری رکھا اور نہایت مفید اور مقبول عام تصانیف کا ذخیرہ یادگار چھوڑا جن میں اصلاح اعمال کے علاوہ عقائد باطلہ خاص طور پر مرزائیت اور تشیع کی مدلل تردید کی ہے۔ آپ کی تصانیف کے نام درج ذیل ہیں۔
1. نور ہدایت
2. شمشیر پیر برگردن شریر
3. وظائف حضوری
4. چرخہ ظہوری
5. خطبات ظہوری
6. سیف مرید بر فرقہ یزید
7. صمصام حنفیہ
8. سيف الخادمین علی رؤوس الفاسقین
9. مرغوب الواعظين المعروف بہ محبوب العاشقین
10. ظہور کرامت وغیره۔
آپ نے فتنہ قادیانیت کے رد پر دو کتابیں لکھی ہیں۔
1۔ قہر یزدانی بر سر دجال قادیانی:
یہ کتاب قادیانی عقائد، قادیانیوں کو مسلمان ماننے اور ان سے تعلقات قائم کرنے مثلاً نکاح وغیرہ سے متعلق تین اہم فتاویٰ اور ان پر کثیر علمائے کرام کی تصدیقات اور تاثرات پر مشتمل ہے۔
2۔ ظہور صداقت در رد مرزائیت:
(یہ کتاب اب تک دستیاب نہیں ہو سکی۔ اگر کسی صاحب کے پاس ہو تو ادارے کو ارسال فرما کر شکریہ کا موقع دیں) آپ کے ہاں چار صاحبزادیاں اور چار صاحبزادے سید قمر الزمان شاہ، سید فخر الزمان شاه (فاضل حزب الاحناف لاہور، سجادہ نشین دربار شریف ظہوری، مناره ضلع جہلم) سید محبوب الزمان شاہ اور سید عادل مسعود شاہ تولد ہوئے۔
حضرت پیر سید ظہور احمد شاہ نے ۲۲ جمادی الاولیٰ، ۸ فروری ۱۳۷۲ھ بمطابق ۱۹۵۳ء اتوار اور پیر کی درمیانی رات کو وصال فرمایا۔ مزار انور منارہ ضلع جہلم میں ہے۔ آپ کے خلف الرشید مولانا سید فخر الزمان شاہ قادری مدظلہ ہر سال آپ کا عرس باقاعدگی سے کرتے ہیں۔