Khatam e Nabuwat

علامہ حکیم ابو الحسنات قادری

حالات زندگی:

حضرت مولانا ابو الحسنات سید محمد احمد قادری 1896ء میں ریاست الور میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد گرامی سید دیدار علی شاہ ﷫ ملک کے ممتاز عالم دین اور بزرگ تھے۔ فارغ التحصیل ہونے کے بعد ریاست الور ہی میں مذہبی خدمات سر انجام دینے لگے۔ مسلمانوں کی زبوں حالی دیکھ کر ان کا جی کڑھتا تھا اس لیے آپ نے مہا راجہ الور سے تعلقات بڑھائے کیونکہ آپ نے محسوس کر لیا تھا کہ جب تک مسلمان ریاست الور میں دخیل نہ ہوں گے اس وقت تک عظمت رفتہ بحال نہ ہو سکے گی۔ مہا راجہ جلد ہی آپ کے تبحر علمی اور بلند خیالی کا معترف ہو گیا اور ریاست میں ایک انجمن تحفظ حقوق المسلمین قائم کر دی۔ انہی دنوں حکومت نے ایک سڑک بنانے کا منصوبہ تیار کیا۔ سڑک کے راستے میں ایک مسجد تھی جسے شہید کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس پر پورے علاقے کے مسلمانوں میں غم وغصے کی لہر دوڑ گئی اور نوبت ہندو مسلم فسادات تک پہنچ گئی۔ حکومت نے مسلمانوں کے جذبات کے احساس کو بالائے طاق رکھ کر ایک رات فوج کی مدد سے مسجد کو شہید کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ مولانا کو پتہ چلا تو آپ ۳۱۳ جانبازوں کا جیش لے کر اس رات مسجد کی طرف روانہ ہو گئے اور راستہ میں ایک دو مقام پر معمولی مزاحمت کے بعد آپ نے مسجد میں داخل ہونے میں کامیابی حاصل کر لی۔

ادھر مسلمانوں کو آپ کی روانگی کی خبر ہوئی تو تمام مسلمان اٹھ کھڑے ہوئے۔ اس نازک صورت حال کے پیش نظر حکومت نے مسجد کو منہدم کرنے کا پروگرام ملتوی کر دیا اور آپ کو بلا کر کہا کہ مسجد کیلئے اس سے بہتر اور وسیع جگہ دی جاتی ہے، آپ اس جگہ کو چھوڑ دیں لیکن آپ نےآئین جوانمرداں حق گوئی وبے باکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم اس مسجد کو شہید نہیں ہونے دیں گے اور مسلمان خانہ خدا کی حفاظت کی خاطر اپنی جانیں نچھاور کر دیں گے، چنانچہ حکومت اس طوفان کے آگے نہ ٹھہر سکی اور مسجد کو شہید کرنے کا ارادہ ترک کر دیا گیا۔ یہ آپ کی جرات وبیباکی کا پہلا واقعہ تھا۔

۱۹۲۶ء میں آپ اہل لاہور کی درخواست پر مسجد وزیر خان میں بحیثیت خطیب تشریف لائے، والد ماجد کے علاوہ آپ نے شیخ المشائخ سید علی حسین کچھوچھوی سے بھی اجازت وخلافت حاصل کی تھی۔ مثنوی مولانا روم پر آپ کو عبور حاصل تھا۔ لاہور کے علاوہ دیگر شہروں میں بھی تبلیغی دورے فرماتے تھے۔ خواص وعوام آپ کی تقاریر کو بہت ذوق وشوق سے سنا کرتے تھے۔

تحریک پاکستان کا غلغلہ بلند ہوا تو آپ نے تحریک کی حمایت کیلئے کام کرنا شروع کر دیا۔ مسلم لیگ کے پروگرام کو عوام تک پہنچانے کے لیے شب وروز مصروف رہتے۔ علماء پنجاب میں سب سے پہلے آپ ہی نے مسلم لیگ کی حمایت کا اعلان کیا۔

۱۹۴۰ء میں جب منٹو پارک (اقبال پارک) میں قرارداد پاکستان منظور ہوئی تو مولانا ابو الحسنات اس جلسہ کے سرگرم کارکنوں میں سے تھے۔ ۱۹۴۵ء میں حج کیلئے تشریف لے گئے تو علماء کے عظیم اجتماع میں تحریک پاکستان پر روشنی ڈالی اور علماء کو اپنا ہمنوا بنایا۔ بعد میں محمد علی جناح صاحب سے ملاقات کر کے نظریہ پاکستان کی حمایت میں قلمی محاذ سنبھالا۔ روزنامہ احسان میں نظریہ پاکستان کی حمایت میں ایک طویل مضمون پانچ قسطوں میں شائع کرایا۔ محمد علی جناح، پیر صاحب مانکی شریف اور امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ علی پوری کے ساتھ مل کر ملک گیر دورے کر کے عوام کو نظریہ پاکستان قبول کرنے پر آمادہ کیا اور تحریر وتقریر سے عوام میں پاکستان کی حمایت کا جذبہ پیدا کیا۔

                                                                       ۱۹۴۶ء میں آل انڈیا سنی کانفرنس منعقدہ بنارس میں سرگرمی سے حصہ لیا۔ ۴۷-۱۹۴۶ء میں جب مسلم لیگ نے ایجی ٹیشن شروع کیا تو آپ نے علماء ومشائخ کے وفود لے کر ہر ضلع کا دورہ کیا اور مسلم لیگ کا پیغام پہنچایا۔ حکومت نے متعدد پابندیاں لگا کر آپ کو روکنا چاہا مگر بے سود، آپ نے اپنے مشن کو جاری رکھا اور قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔

پاکستان بننے کے بعد جمعیت علماء ہند کے مقابلے میں جمعیت علماء پاکستان کی بنیاد رکھی گئی تو آپ کو صدر منتخب کیا گیا۔ ۱۹۴۸ء میں جب تحریک آزادئ کشمیر شروع ہوئی تو جمعیت علماء پاکستان کی طرف سے آپ نے سب سے پہلے تحریک کی حمایت کی اور مجاہدین کے لیے سامان جمع کرنے کی مہم چلائی جس میں لاکھوں روپے کا سامان جمع کر کے کشمیریوں کی مدد کی گئی۔

۹ مارچ ۱۹۴۹ء کو پہلی دستور ساز اسمبلی میں جو قرارداد مقاصد پیش کی گئی تھی اس میں مولانا ابو الحسنات کی مساعی کا بڑا حصہ تھا۔ آپ نے عوام وخواص کے دلوں پر یہ بات نقش کر دی کہ ہم نے پاکستان کا مطالبہ اسلام اور صرف اسلام کے نام پر کیا ہے لہٰذا پاکستان کا دستور بھی اسلامی بنیاد پر مرتب ہونا چاہیے۔

رد قادیانیت:

۱۹۵۳ء میں جب تحریک ختم نبوت کا آغاز ہوا تو آپ سر دھڑ کی بازی لگا کر میدان میں کود پڑے۔ آپ نے تحریک ختم نبوت کی قیادت کے فرائض سنبھالے اور قادیانی نظریات کے خلاف سینہ سپر ہوکر ڈٹ گئے۔ تحریک کے دوران کراچی سکھر اور حیدر آباد کی نے جیلوں میں کئی سال قید ونظر بند رہے۔ رد قادیانیت پر آپ نے کئی کتب بھی تحریر فرمائی جن میں سے ایک کتاب "اکرام الحق کی کھلی چٹھی کا جواب" اس جلد میں شائع کی جارہی ہے۔

رد قادیانیت پر آپ کی مزید تصانیف اور تحریک ختم نبوت میں آپ نے جو معرکہ الآراء اور ناقابل فراموش کردار ادا کیا، اس پر آنے والی کسی جلد میں خراج تحسین پیش کیا جائے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

دیگر تصنیفات:

تفسير الحسنات (جسے آپ نے ایام اسیری میں تحریر کرنا شروع کیا تھا اور وصال سے صرف ایک دن قبل مکمل ہوئی) علاوہ ازیں مندرجہ ذیل تصانیف آپ سے یادگار ہیں۔

1.   ترجمہ کشف المحجوب

2.   شمیم رسالت

3.   طیب الوردہ شرح قصیدہ برده

4.   اوراقِ غم

5.   صبح نور

6.   قراطیس المواعظ

7.   فرشتہ نور

8.   اظہار الاسقام

9.   مظہر الاسرار

10. التبیان

11.رجوم المومنین علی مانع الجماعۃ للملحدین

12. مونس الاطباء وغیرہ

لاہور، کراچی، حیدر آباد اور سکھر کی جیلوں میں رہنے سے آپ کی صحت بہت گر گئی تھی، آخر کار ۲ شعبان المعظم ۱۳۸۰ھ بمطابق ۲۰ جنوری ۱۹۶۱ء بروز جمعہ ساڑھے بارہ بجے آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ وقت رخصت یہ شعر زبان پر جاری تھا۔

حافظ رند زنده باش مرگ کجاؤ تو کجا   تو زندہ فنائے حمد، حمد بود بقائے تو

آپ کا مزار پر انوار حضرت داتا گنج بخش کے احاطہ میں مرجع خلائق ہے۔

Powered by Netsol Online