علامہ فاتح قادیانیت، مجدد وقت، شیخ الاسلام حضرت مولانا حافظ سید پیر مہر علی شاہ قادری چشتی حنفی گولڑوی کا سلسلہ نسب پچیس واسطوں سے حضور سیدنا غوث الاعظم سے جا ملتا ہے، آپ نجیب الطرفین سید ہیں، آپ کے اجداد کرام نویں صدی ہجری میں سلسلہ عالیہ قادریہ رزاقیہ کے فروغ کی غرض سے اپنے آبائی وطن بغداد شریف سے نقل مکانی فرما کر ہندوستان کے صوبہ بنگال میں تشریف لائے تھے اور وہاں سے ان کی اولاد برصغیر کے مختلف حصوں میں پھیل گئی تھی۔ بروایت "اخبار الاخیار مولفہ حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی " آپ کے خانوادۂ عالیہ کے جد اعلیٰ حضرت سید میراں شاہ قادر قمیص نے دسویں صدی ہجری میں برصغیر میں وفات پائی اور آپ کا مزار مبارک ساڈھورہ شریف علاقہ سہارن پور (بھارت) میں زیارت گاہ خلائق ہے۔ پھر پیر صاحب کے والد ماجد حضرت سید پیر نذر الدین شاہ صاحب کے جد امجد سید روشن دین شاہ کچھ اقربا کے ہمراہ زیارت حرمین شریفین کے بعد بغداد شریف سے ہوتے ہوئے کابل کے راستے برصغیر میں وارد ہوئے تھے اور قصبہ گولڑہ کو جو اس وقت پاکستان کے دار الحکومت اسلام آباد کی حدود میں شامل ہے اپنے خاندان کی مستقل رہائش کے لیے پسند فرما کر یہیں مقیم ہو گئے تھے بعد میں آپ نے اپنے دیگر اہل خانہ کو بھی یہاں بلوا لیا تھا۔
فاتح قادیانیت، مجدد قت، شیخ الاسلام حضرت علامہ مولانا حافظ سید پیر مہر علی شاہ قادری چشتی حنفی گولڑوی یکم رمضان المبارک ۱۲۷۵ھ مطابق ۱۴ اپریل 1859ء بروز پیر پیدا ہوئے۔
پیر صاحب کی ولادت با سعادت کے متعلق آپ کے خاندان میں پہلے سے ہی بشارتیں چلی آتی تھیں، بعض روایت سے پایا جاتا ہے کہ آپ کے والدین شریفین اور حضرت پیر سید فضل دین جو حضرت پیر صاحب کے والد ماجد کے ماموں اور حضرت کے شیخ طریقت بھی تھے اور اس وقت اس خاندان شریفہ، قادریہ کی مسند ارشاد پر جلوہ فگن تھے۔ اس امر پر مطلع تھے کہ اس گھر میں ایک نورانی چراغ روشن ہونے والا ہے۔ نیز آپ کی ولادت سے چند روز پیشتر ایک عمر رسیدہ مجذوب خانقاہ میں آکر مقیم ہو گئے تھے اور عنقریب پیدا ہونے والے مقبولِ خدا کی زیارت کا ذکر کرتے تھے چنانچہ پیر صاحب تولد ہوئے تو یہ مجذوب حرم سرائے کی ڈیوڑھی میں پہنچے اور آپ کو باہر منگوا کر ہاتھ پاؤں چومے اور رخصت ہو گئے۔ سچ ہے مقبولان خدا بنتے نہیں بنائے جاتے ہیں۔
پیر صاحب کا ابتدائی تعلیم اپنے گھر اور نواحی علاقوں بھوئی، سون وغیرہ میں حاصل فرمائی قرآن پاک کی تعلیم کے حصول کے وقت آپ کی عمر اتنی کم تھی کہ خادم اٹھا کر آپ کو لے جاتا اور واپس لاتا، حافظہ کی یہ حالت تھی کہ پیر صاحب قرآن مجید کا سبق روزانہ حفظ کر کے سنایا کرتے تھے۔ جب قرآن مجید ختم کیا تو اس وقت سارا قرآن آپ کو بلا ارادہ حفظ ہو چکا تھا۔ عربی، فارسی اور صرف ونحو کی تعلیم کے لیے بڑے پیر صاحب نے علاقہ پکھلی (ہزارہ) کے مولوی غلام محی الدین کو مقرر فرمایا تھا جنہوں نے آپ کو کافیہ تک تعلیم دی۔ بعد ازاں ہندوستان کی اس وقت کی مشہور دینی درسگاہ حضرت مولانا لطف اللہ صاحب علی گڑھی کے مدرسے میں آپ نے مزید اکتساب علم فرمایا پھر سہارن پور میں مشہور حنفی محدث مولانا احمد علی سہارن پوری سے ۱۲۹۵ھ میں سند حدیث لے کر گولڑہ شریف واپس تشریف لائے۔
پیر صاحب کو تعلیم وتعلم میں اس قدر انہماک تھا کہ اپنی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ چھوٹے درجہ کے طلباء کو تعلیم بھی دیا کرتے تھے۔ اور بسا اوقات ایسا ہوتا کہ موسم سرما کی طویل راتیں عشاء کی نماز کے بعد مطالعہ میں ہی گزرتیں حتیٰ کہ اسی حالت میں فجر کی اذان ہو جاتی۔ رفتہ رفتہ آپ کے پاس پڑھنے والے طلباء کی اتنی کثرت ہوئی کہ آپ نے انگہ کا قیام ترک کر کے شکر کوٹ میں رہائش اختیار فرما لی۔ دن کے وقت انگہ میں اپنی تعلیم حاصل کرتے اور شام کو شکر کوٹ جا کر طلباء کو درس دیتے۔
بلانے والے کو سلیقہ ہو تو اہل برزخ جواب دیتے ہیں:
حافظ غلام احمد سکنہ پنجہ تحصیل خوشاب ضلع سرگودھا سے روایت ہے کہ ایک دفعہ آپ چک نمبر ۴ کے ضلع سرگودھا میں رونق افروز تھے کہ مسئلہ "سماع موتیٰ" پر ذکر چھڑ گیا۔ آپ نے فرمایا کہ اگر بلانے والے کو بلانے کا سلیقہ ہو تو اہل برزخ ضرور سنتے ہیں۔ انگہ کے ایام طالب علمی میں میں "یا شیخ عبد القادر جیلانی " سے پکارتا تھا تو تیسری پکار پر جواب آتا تھا کہ میں نے سُن لیا ہے تم اپنا کام شروع کرو۔ پیر صاحب کی ایک تحریر سے اس لفظ "سلیقہ" کا مفہوم یہ معلوم ہوتا ہے کہ پکارنے والے کو اہل برزخ سے خصوصی نسبت ہونا چاہیے۔
پیر صاحب کے استاد مولانا سلطان محمود انگوی کی بیعت حضرت خواجہ شمس الدین سیالوی چشتی نظامی فخری سلیمانی سے تھی۔ وہ سال میں کئی بار سیال شریف ضلع سرگودھا، اپنے پیر ومرشد کی زیارت کے لیے جایا کرتے تھے۔ سیال شریف انگہ سے بائیس کوس کے فاصلہ پر دریائے جہلم کے شرقی کنارے پر واقع ہے۔ راستہ میں کئی مقامات پر قیام کرتے اور درس وتدریس کا سلسلہ بھی جاری رہتا۔ پیر صاحب ہمیشہ استاد صاحب کے ساتھ جاتے تھے اور حضرت اعلیٰ سیالوی بھی آپ پر بہت شفقت فرماتے تھے۔ آخر پیر صاحب نے سلسلہ چشتیہ میں ان ہی سے بیعت کی۔
پیر صاحب کانگریس میں مسلمانوں کی شمولیت اور کانگریس اور جمعیت العلماء ہند کی برپا کردہ تحریکات خلافت وہجرت سے اختلاف کرتے ہوئے ان کی تردید فرماتے۔ آپ کا ارشاد تھا کہ خلافت راشدہ حقہ صرف تیس برس قائم رہی۔ بعد میں سلطنت اور ملوکیت کا دور دورہ ہو گیا تھا۔ اگر خلافت اسلامیہ کو جاری قرار دیا جائے تو یزید علیہ ما یستحقہ کو بھی خلیفہ برحق ماننا پڑے گا۔ البتہ ترکوں کے محاربات طرابلس وبلقان میں گھر کے زیورات اور لنگر کے گھوڑے تک چندہ میں دے دیے تھے۔ کانگریس اور خلافت کمیٹی کے گٹھ جوڑ کے ایام میں جن مسلمان کانگریس اور خلافتی اخبارات نے آپ کے خلاف لکھا وہ آخر کار ایک ایک کر کے کانگریس کے مخالف محاذ پر آگئے۔
1911ء میں دہلی میں منعقد ہونے والے برطانوی شاہی دربار میں شمولیت کی دعوت سے انکار پر انگریز حکومت نے آپ کی ایذا رسانی کی جانب میلان کیا مگر کچھ بگاڑ نہ سکی۔ بعد ازاں حکومت نے سینکڑوں مربعہ اراضی بطور جاگیر دینا چاہی مگر پیر صاحب نے قبول نہ فرمائی۔
پیر صاحب علوم متداولہ کے مسلم الثبوت فاضل تھے۔ مثلاً صرف نحو، ادب، کلام، منطق، فلسفہ، فقہ، اصول فقہ، اصول حدیث، اسماء الرجال، تفسیر، تصوف اور ایسے ہی تمام علوم رسمیہ وکسبیہ کے عالم تو تھے ہی، ساتھ ہی ان فنون کے عالم بھی تھے جو علماء کرام کی نگاہوں سے پوشیدہ ہوتے ہیں۔ اور ان میں سے بعض کا ذکر آپ نے "فتوحات الصمدیہ" کے دیباچہ میں کیا ہے۔ مثلاً اقلیدس، علم الحروف، علم ہیئت، علم افلاک، علم ریاضی، علم سمع الكيان، علم البيطرہ، علم البذور، علم السماء، علم العالم، علم الحيوان، علم النفس، علم الطب، علم الفلاحہ، علم التعبير، علم السیمیا، علم الکیمیا، علم الریمیاء، علم الحیمیاء، علم الفراست، علم احکام النجوم، علم الہندسہ، علم الاکر، علم المخروطات، علم الہیئۃ الصغرى، علم الجسطی، علم الذيج، علم التقویم، علم ارثماطیقی، علم قرسطون، علم اسطرلاب، علم الرمل، علم الوفق، علم الجفر، علم الوجود، علم العلۃ والمعلول، علم قاطیغور یاس، علم العقول العشرہ، علم حکمۃ الاشراق، علم حکمۃ المشائين، علم المعاد، علم الدعوات۔ ان علوم کے علاوہ کئی صدری علم آپ کے سینہ فیض گنجینہ میں موجود تھے۔ آپ "فصوص الحکم" کے ایک جملہ اَدْجَدَ الْعَالِمِ كُلَّهٗ کی پانچ روز تک تشریح وتوضیح کرتے رہے۔ اسی طرح ایک دفعہ آپ نے سامعین سے فرمایا کہ اگر میں علم الحروف کے خواص تفصیلاً تمہیں بتا دوں تو تم لوگ سب علوم چھوڑ کر کلی طور پر اس کی طرف متوجہ ہو جاؤ۔
پیر صاحب نے ضرورت زمانہ کے پیش نظر تصنیف وتالیف کی طرف بھی توجہ فرمائی اور قارئین کی سہولت کے لیے ان میں کتابوں کے حوالے بھی دیے۔ یہ تو حقیقت ہے کہ تصنیف وتالیف میں ان ہی کتابوں کے حوالہ پر اکتفاء کیا جاتا ہے جو موضوع کے اعتبار سے ضروری ہوتا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں لیا جا سکتا کہ مصنف یا مؤلف نے صرف ان ہی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے۔ اس وضاحت کے بعد ان کتابوں کی فہرست پیش خدمت ہے جو پیر صاحب نے اپنی کتابوں میں بطور حوالہ پیش کی ہیں۔ اس سے پیر صاحب کی وسعت مطالعہ کا معمولی سا اندازہ ہو سکتا ہے اور تقریباً ہر موضوع کی امہات کتب ان میں آگئی ہیں۔ قارئین کی سہولت کے لیے موضوعاتی لحاظ سے فہرست ترتیب دی گئی ہے۔ ملاحظہ کیجئے۔
قرآن حکیم، تورات، انجیل، تفسیر ابن عباس، تفسیر ابن جریر، تفسیر ابو سعود، تفسیر کشاف، تفسیر مدارک، تفسیر خازن، تفسیر بغوی، تفسیر بیضاوی، شہاب علی البیضاوی، سیالکوٹی علی البیضاوی، تفسیر احکام القرآن للقرطبی، تفسیر ابن عربی، تفسیر ابن کثیر، تفسیر کبیر لرازی، تفسیر تبصیر الرحمن، تفسیر نیشا پوری، تفسیر روح المعانی، تفسیر جلالین، جمل علی الجلالین، تفسیر روح البیان، تفسیر در منشور، تفسیر فتح البیان، تفسیر فیض القدیر، تفسیرات احمدی، تفسیر حسینی، تفسیر مظہری، تفسیر عزیزی، تفسیر رحمانی، تفسیر سوره یوسف، فتح الرحمن، الاتقان فی علوم القرآن، الفوز الکبیر فی اصول التفسیر
صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ترمذی، سنن ابو داؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ، سنن بیہقی، سنن دار قطنی، مسند طبرانی، مسند امام احمد، مسند دارمی، مسند ابو یعلیٰ، مسند ابن ابی شیبہ، مسند بزار، مستدرک للحاکم، مصنف عبد الرزاق، مؤطا امام مالک، مؤطا امام محمد، شرح معانی الاثار، مشکوٰۃ المصابیح، مرقاۃ شرح مشکوٰة، اشعۃ اللمعات شرح مشکوٰة، طیبی شرح مشکوٰة، فتح الباری شرح بخاری، عمدۃ القاری شرح بخاری، ارشاد الساری شرح بخاری، کرمانی شرح بخاری، نووی شرح مسلم، احوذی شرح ترمذی، مرقاة الصعود شرح ابو داؤد، کنز العمال، مقاصد الحسنہ، حصنِ حصین، علوم الحدیث، تدریب الراوی، شرح نخبۃ الفكر، القول المستحسن فی شرح فخر الحسن، موضوعات الكبرىٰ، تذكرة الموضاعات، کتاب الاعلام، کتاب الثقات، تذكرة الحفاظ، میزان الاعتدال، لسان المیزان، لآلی مصنوعہ، تہذیب الکمال، تہذیب التہذیب، خلاصۃ التہذیب، اکمال فی اسماء الرجال، نوادر الاصول، جامع الاصول، النہل الراوی۔
ما لا بد منہ، خلاصہ کیدانی، منیۃ المصلی، صغیری شرح المصلی، کبیری شرح منیۃ المصلی، شرح وقایہ، ہدایہ، فتح القدیر، خلاصہ فقہ اکبر، شرح فقہ اکبر، بحر الرائق، منحۃ الحقائق، عینی شرح کنز الدقائق، طحطاوی، فتح المعين شرح ملا مسکین، البحر المحیط، حاشیہ االبحر لرملی، صيد المنیہ، نہایہ، عنایہ، نقایہ، الوہبانیہ علی صید المنیہ، حاشیہ وقایہ فناری، در مختار، رد المحتار، الدرر شرح الغرر، خزاعیہ الروايات، ذخیره، البدائع الصنائع، برجندی شرح مختصر الوقایہ، بحر المعانی سبیل النجاح الی تحصيل الفلاح، الاشباه والنظائر، ملتقى، جامع الصغير، شرح جامع الصغير، غایۃ البيان، تحفۃ الفقہاء، حاشیہ رستغنی، حاشیہ شمنی، بدور سافره، حاشیہ بدور سافره، رسالہ نذر الشیخ رفیع الدین، انہار المفاخره، مواہب الرحمٰن، برہان شرح مواہب الرحمٰن، مراقی الفلاح، المدخل، الجواہر المنظم، مناسك المشاہد، وجيز ملا عابد سندھی، فتح العزیز شرح الوجيز، جامع الرموز، میزان الشريعۃ، وصیت نامہ مولانا عبد اللہ گجراتی، تقریرات امام رافعی، المغنی ابن قدامہ، فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت، فوائد برہانی، فتح المنان فی تائید مذہب النعمان، حافظیہ، مبسوط سرخسی، فتاویٰ عالمگیری، فتاویٰ عیاشیہ، فتاویٰ تارتارخانیہ، فتاویٰ قاضی خان، فتاویٰ ظہیریہ، فتاویٰ بزازیہ، فتاویٰ حامدیہ، فتاویٰ سراجیہ، فتاویٰ قہستانی، فتاویٰ مغربیہ، فتاویٰ سمرقند، فتاویٰ خیریہ، جامع الفتاویٰ، فتاویٰ عزیزیہ، فتاویٰ مولوی مبین لکھنوی، فتاویٰ صغریٰ، القول البدیع، البيان والانتصار، عمدة الاصول، شرح منہج، مصباح الظلام، درر السحبان، تلخیص ابن حجر، فتح المغيث، منہاج الدہلوی، جواب فصیح خیر الدین آفندی، روضۃ الندیہ لصغانی، العقيدۃ الوضیہ، نبراس، شرح عقائد، شرح مواقف، حجۃ اللہ البالغہ، شرح السنہ، نظم الدرر، توضیح الدلائل، الباعث الحثيث، القول المسدد، درّاسات اللبیب، اتحاف النبلاء، ذخیرہ المال، رياض النضرہ، كنز العباد، جامع الفصولین، کتاب التوضیح، فواکہ دوانی، میزان الکبریٰ الشعرانی، مجموعہ فوائد لشوکانی۔
لسان العرب، تاج العروس، قاموس، مجمع بحار الانوار، تہذیب الاسماء واللغات، مقامات حریری، مقامات بدیع، دیوان حماسہ، دیوان حسان بن ثابت، دیوان ابو الطفیل واثلہ، دیوان فرزدق، قصیده برده، قصیده غوثیہ، دیوان ابن الغارض، امکنۃ البدیعات، نحو میر، ہدایت النحو، کافیہ، فوائد ضیائیہ المعروف شرح جامی، رضی شرح کافیہ، شافیہ، جار بردی شرح شافیہ، نظامیہ شرح شافیہ، فصول اکبری، متن متین، تکملہ عبد الغفور، اعلام اللغۃ والنحو، جمع الجوامع، مطول، دسوقی، کتاب ابن سنی، حاشیہ صبان مصرى، النشر فی قرأة العشر، التمہيد فی علم التجويد، المقدمۃ المنظومہ فی علم القرآت، وشاح، شرح ابو سہیل، حاشیہ ابو ذکریا۔
فتوح الغیب، شرح فتوح الغيب، فصوص الحکم، قاشانی شرح فصوص الحکم، فتوحات مکیہ، شجرة الكون، احیاء العلوم، عوارف المعارف، مکتوبات بابا فرید، کبریت احمر، مسبعات عشر، مکتوبات قدسیہ، مکتوبات مجدد، مکتوبات مدنی، مکتوبات پانی پتی، صحائف السلوک، سراج السالكين، فیوض الحرمین، جوامع، ہمعات الانتباه فی سلاسل الاولیاء، نغمات القرب والوصال، کلمۃ الحق، انوار الرحمٰن، اقتباس الانوار، نظام القلوب، مزرع الحسنات شرح دلائل الخیرات، انوار قادریہ، خصائص ابن سبع، دلائل النبوت، كفایۃ المعتقدین، کتاب الروح لغزالی، القول الجميل، حج الكرامہ، خصائص کبریٰ، تاریخ کبیر، تاریخ کبیر لبخاری، تاریخ کبیر ذہبی، تاریخ کامل، المختصر فی اخبار البشر لابی الفداء، شمس التواريخ، الملل والنحل شہرستانی، طبقات ابن سعد، تاریخ الخلفاء، اسد الغابہ، الاصابہ فی معرفۃ الصحابہ، مدارج النبوة، نغمات المحبوب، مواہب لدنیہ، زرقانی شرح مواہب، شفاء السقام، شرح شفاء لملا علی قاری، صواعق محرقہ، کتاب الانساب، اليواقيت والجواہر، مرأة الجنان، مناقب ابو حنیفہ، اخبار الاخیار، تذکرة اولياء لعطار، تذکره اولیاء دار اشکوه، تذکره مخدوم جہانیاں جہاں گشت، تاریخ ابو نعیم، نہج البلاغہ، استیعاب
كشف الحجاب عن ضلالات عبد الوہاب، احقاق الحق، بوارق محمدیہ، تصحیح المسائل، منہاج السنہ، معید الایمان، نور الايمان، عمل المقبول فی زيارة الرسول، خلاصۃ الوفاء، دلائل واضحات، الرعایۃ الكبرىٰ، عمدة المحسنین، درة الدرانی، کشف الغطاء، الوسیلۃ الجليلہ، کریما سعدی، پند نامہ فرید الدین عطار، گلستان، بوستان، مثنوی معنوی، دیوان حافظ، زلیخا جامی، تحفہ الاحرار جامی، دیوان تبریزی، دیوان نعمت اللہ ولی، دیوان بیدل، دیوان اسیری، دیوان نیاز بریلوی، دیوان دبیر لکھنوی، دیوان علی حیدر
ہندوستان میں حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کے عہد ہی میں ارباب علم کے روشن ضمیر اور صاحب بصیرت گرو نے "وہابیت" کی چاپ محسوس کر لی تھی۔ بعد میں شاہ اسمٰعیل دہلوی نے اپنی خاندانی عزت وشرافت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس تحریک کو عروج دینے کی کوشش کی۔ اسمٰعیل دہلوی کے مرنے کے بعد اس کے متبعین دو گروہوں میں تقسیم ہو گئے جو آج کل دیوبندی اور غیر مقلد کے نام سے موسوم ہیں، مگر دونوں گروہ اسمٰعیل دہلوی کی "تقویۃ الایمان" کی تائید وحمایت میں ہیں اور اسمٰعیل دہلوی کی جاری کردہ تحریک "تحریک اسآءت ادب" کی اشاعت میں شب وروز مشغول ہیں چنانچہ اس کے سد باب کے لیے اہل دل سے حضرت خواجہ فخر الدین دہلوی نے اس طرف توجہ کی اور پھر آپ کے متوسلین سلسلہ نے ہر دور میں اپنی محافل ومجالس میں اس وہابی تحریک پر تنقید وتنقیص جاری رکھی یہی وجہ ہے کہ حضرت خواجہ نور محمد مہاروی، حضرت خواجہ شاہ سلیمان تونسوی اور حضرت خواجہ شمس الدین سیالوی کے ملفوظات ومناقب میں لکھی جانے والی کتابوں میں اس طرف واضح اشارات موجود ہیں، پیر صاحب کے عہد میں وہابیت دہلی سے پنجاب کی طرف نہ صرف قدم بڑھا رہی تھی بلکہ اپنے اثر ونفوذ میں کامیابی حاصل کر رہی تھی۔ اس لیے آپ نے اپنی مجالس ومحافل میں اس تحریک کو نشانہ تنقید بنایا اور پھر مباحثوں، مناظروں اور تصنیف وتالیف کے ذریعہ اس کے سدّ راہ ہوئے، آپ اسماعیلی فکر کی دونوں شاخوں دیوبندیت اور غیر مقلدیت کے خلاف تھے اور ملت اسلامیہ کو اس سے دور رکھنے کی کوشش کرتے رہے۔ اپنی کتاب "اعلاء کلمۃ اللہ" میں لکھتے ہیں۔ الحاصل مابین اصنام وارواح کمل فرقیست بین وامتیازیست باہر، پس آیات وارده فی حق الاصنام را بر انبیاء واولیاء صلوات الله وسلام علیہم اجمعین حمل نمودن کمافی تقویۃ الایمان، تحریفی است قبیح وتخریبی است شفیع۔1
الحاصل بتوں اور کاملین کی ارواح میں فرق واضح اور امتیاز غالب ہے پس جو آیات بتوں کے متعلق وارد ہیں ان کو انبیاء واولیاء صلوٰة الله وسلامہ علیہم پر حمل کرنا جیسا کہ "تقویۃ الایمان" میں ہے قبیح تحریف ہے اور بری تخریب ہے۔
گویا تقویۃ الایمان کے مندرجات کو آیات قرآنیہ کی قبیح تحریف اور دین حق کی بری تخریب قرار دے رہے ہیں، چنانچہ آپ نے اسماعیلی فکر کی ان دونوں شاخوں کے قائدین کو ایسے گھاؤ لگائے جو آج تک مندمل نہ ہو سکے۔
پیر صاحب مزید فرماتے ہیں:
انبیاء وشہداء کی حیات برزخی پر اکابر ومحققین امت کا اتفاق ہے جن لوگوں کو برزخ کا کچھ علم ہے۔ وہ مسئلہ نداء میں خشک مولویوں کے نظریہ سے مختلف نظریہ رکھتے ہیں۔ ہمارے ملک میں بعض ایسے مولوی ہیں کہ جہاں کسی نے الصلوة والسلام علیک یا رسول الله کہا وہ فوراً اسے مشرک قرار دے دیتے ہیں، حضرت ساریہ کو حضرت عمر کی ندا بھی نداء غائب تھی، مگر حضرت ساریہ کا ندائے حضرت عمر سے مطلع ہو جانا، ثابت کرتا ہے کہ حق سبحانہ وتعالیٰ غیب کو ظاہر کر سکتا ہے اور اپنے بندوں پر فی الواقعہ ایسا کرتا ہے۔2
اسی موضوع پر آپ مزید فرماتے ہیں:
مدینہ طیبہ میں کلمہ الصلوة والسلام علیک یا محمد اس کثرت سے پڑھا جاتا ہے کہ ہر طرف سے یہی آواز کانوں میں سنائی دیتی ہے ہمارے ملک میں بعض لوگ اس قسم کی نداء واستغاثہ واستشفاع کو شرک کہتے ہیں، وہ اگر چہ نماز بظاہر اچھی طرح سے ادا کرتے ہیں۔ لیکن حد ادب میں کم نگاہ رکھنے کے باعث بے برکت رہتے ہیں۔ کمالات محمدیہ ایسے نہیں کہ نطق وبیان کی حد میں آسکیں مگر یہ لوگ جن کے اعتقاد میں خلل ہے کہتے ہیں کہ جب ایک شخص مر گیا خواہ وہ نبی ہو یا ولی، معدوم ہو گیا، افسوس انہوں نے آثار فیوض حق تعالیٰ کو بہت ہی کم سمجھا ہے۔3
پیر صاحب سماع موتی کے سلسلہ میں لکھتے ہیں:
"سماع موتی وتعارف آں بہ خویش واقارب کا ثبوت احادیث صحیحہ سے پایا جاتا ہے۔ مثلاً زائر القبور جس وقت السلام عليكم يا اهل القبور کہتا ہے تو مردہ سنتا ہے اس کا جواب دیتا ہے اور اپنے خویش واقارب کو پہچان لیتا ہے۔ باقی رہا یہ امر کہ وہ بذاتہ یعنی بلا واسطہ سنتا ہے یا بواسطہ اس کو خبر پہنچتی ہے۔ اس سے حدیث ساکت ہے حقیقت حال کی آگہی علام الغیوب دانائے راز کو ہے ہمارے لیے نفس سماع موتی کا ثبوت ہونا چاہیے وبس۔" 4
پیر صاحب نے امکان کذب باری تعالیٰ کو محال علم غیب عطائی اور سماع موتی کو برحق اور ندائے یا رسول اللہ، زیارت قبور، توسل واستمداد انبیاء اور ایصال ثواب کو جائز قرار دیا۔ معبودانِ باطلہ اور اصنام کے متعلق نازل شدہ آیات کو انبیاء واولیاء پر منطبق کرنے کو تحریف وتخریب سے تعبیر فرما کر مولوی اسماعیل دہلوی کی کتاب "تقویۃ الایمان" کے استدلال کی تردید فرمائی اور وَمَا اُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللّٰہ کی صحیح تفسیر اعلاء کلمۃ اللہ تصنیف فرما کر قرآن وحدیث اور فقہ ولغت سے ثابت فرما دیا کہ اس آیۂ شریف کی مُراد صرف اسی ذبیحہ سے ہوگی جس پر چھری چلاتے وقت "بسم الله الله اکبر" کے بجائے غیر اللہ کا نام پکارا جائے گا۔
جشن میلاد:
پیر صاحب کا عہد محکومی کا تھا۔ انگریز پورے جابرانہ تسلط کے ساتھ حکمرانی کر رہا تھا۔ اس دوران ملت اسلامیہ کی بقاء کا مسئلہ سب سے زیادہ مقدم تھا۔ اس لیے ملت اسلامیہ کے سوچنے اور درد رکھنے والے طبقہ نے محکوم ہندوستان میں مجالس مولود، جلوس میلاد وغیرہم تقریبات کا آغاز کیا۔ شاعر مشرق ڈاکٹر محمد اقبال نے جلوس میلاد اور مجلس مولود کو عام رواج دینے کی بڑی کوشش کی۔ پیر صاحب نے بھی مجلس مولود اور جلوس میلاد کی عام اشاعت میں نمایاں کردار ادا کیا۔ عام لوگوں کو ان مجالس کے قیام اور اس میں شرکت کی تحریص دلائی جس پر اس دور کے رسائل وجرائد گواہ ہیں۔ تاہم شو مئے قسمت سے وہابی، دیوبندی گروہ کھڑا ہو گیا جس نے ان مجالس کی مخالفت کی اور اس طریقہ کار کو غیر اسلامی قرار دیا اور اس طرح کی موشگافیوں سے کام لیا، مثال ایسی مجالس کے لیے کوئی وقت مقرر کرنا، ایک جگہ جمع ہو کر بیٹھنا، اس میں ایک آدمی کا بلند آواز سے ذکر رسول کرنا، اس میں اگر بتی جلانا، خوشبو لگانا، اس میں کھانے پینے کی چیز پر فاتحہ دلانا، مجلس کے اختتام پر حضرت نبی ﷺ پر سلام بھیجنا اور پھر جلوس نکالنا، سب کام غیر اسلامی ہیں۔ پیر صاحب نے ملت اسلامیہ کی بیداری کے مفاد میں ان تمام موشگافیوں کو رد کر دیا اور تمام مسلمانوں کو ایسی مجالس کے قیام اور ان میں شرکت کا حکم فرمایا، چنانچہ ایسی مجالس کے سلسلہ میں آپ سے استفتاء بھی کئے جاتے رہے۔ مثلاً مولانا احمد حسن نے شملہ سے میلاد کے جلوس کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے جواب میں فرمایا: مسلمانوں کے لیے خوشی میلاد جائز ہے۔ 5
دوران تعلیم سہارنپور میں ایک غیر مقلد عالم، مولانا احمد علی سہارنپوری کے پاس آئے اور آپ کی علمی لیاقت کا سن کر ملاقات کی اور آمین بالجہر پر دونوں میں یہ گفتگو ہوئی۔
پیر صاحب: آپ کے پاس آمین بالجہر پر سب سے قوی دلیل کونسی ہے؟
مولوی صاحب: ترمذی کی حدیث جَهَرَ بِهَا صَوتَه۔
پیر صاحب: شعبہ کی روایت میں خَفَضَ بِهَا صَوْتَه، بھی ترمذی میں موجود ہے۔
مولوی صاحب: اس کی امام ترمذی نے تضعیف کی ہے یعنی ضعیف قرار دیا ہے۔
پیر صاحب: اس تضعیف کی امام ابن حجر نے "تلخیص الجبیر" میں تردید کی ہے۔ اور پھر یہ روایت یعنی جهر بها صوته دوام یا اکثریت پر بھی دلالت نہیں کرتی جس سے اس کا سنت ہونا ثابت ہو۔ یہ تو محض ایک واقعہ ہے جس سے زیادہ سے زیادہ جواز نکلتا ہے جو متنازع فیہ نہیں۔ اور آیت کریمہ اُدْعُوا رَبَّكُم تَضُرَّعًا وَخُفْيَةً بھی آہستہ پڑھنے کے متقاضی ہے یعنی خفض بها صوتہ کی تائید کرتی ہے۔
مولوی صاحب: خاموش ہو گئے۔6
پیر صاحب کے زمانہ میں "جمعہ فی القری" کے جواز وعدم جواز میں حنفی اور غیر مقلد علماء میں اختلاف پیدا ہوا۔ اس موضوع پر تالیفات شائع ہونے لگیں، غیر مقلدین کی تائید میں حافظ عبد الہادی اعمیٰ نے ایک رسالہ لکھا جو مولوی محمود ہزاروی کے نام سے شائع ہوا، اس میں انہوں نے بخاری کی یہ حدیث لکھی، ان اول جمعة جمعت بعد رسول الله ﷺ بجواثی قرية من البحرين بخاری شریف میں چونکہ لفظ "قریہ" موجود نہیں تھا، مؤلف نے اپنی طرف سے اضافہ کیا ہے۔ اس پر علماء حنفیہ میں سے مولانا غلام دستگیر قصوری اور مولانا مفتی شیخ احمد ساکن اڈیالہ اور غیر مقلدین میں سے مولوی عبد الہادی اعمیٰ اور قاضی میر عالم ہزاروی کے مابین راولپنڈی میں ایک مناظرہ طے پایا۔ پیر صاحب کو غیر مقلدین نے ثالث تسلیم کر لیا۔ اس خوف سے کہ ان کے ساتھ مناظرہ مشکل کام ہے اس پر فریقین کی بات شروع ہوئی۔ چونکہ لفظ "قریہ" بخاری میں موجود نہ تھا۔ اس لیے غیر مقلدین حیلہ سازی سے کام لینے لگے۔ مگر پیر صاحب نے ثالث کی حیثیت سے بات کرتے ہوئے فرمایا:
اس وقت محل بحث لفظ "قریہ" ہے اور جو حدیث اس کی تائید میں لائی گئی ہے۔ وہ اس کی نظیر نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ حدیث مذکورہ میں خواہ لفظ امرأة کا ہو یا امراتہ جب خارج میں واقعہ ایک ہی ہے تو اس میں کچھ نقص اور خرابی لازم نہیں آتی۔ بخلاف لفظ قریہ کے کہ معرکہ آراء منشاء اختلاف فی ما بين المجتہدین ہوا ہے۔ کیونکہ حدیث بخاری میں اگر قریہ کا ثابت نہ ہو تو علماء احناف کا مقصد ثابت ہوتا ہے اور ان کے مذہب کی تائید۔ اور اگر لفظ قریہ ثابت ہو تو دوسرے علماء کی مراد ثابت ہوتی ہے۔ پس مخالف پر لازم ہے کہ نظیر میں ایسا لفظ پیش کرے کہ وہ بھی معرکہ آراء اور ائمہ مجتہدین کے درمیان منشاء اختلاف ہو۔ واين هذا من ذاك"7
پیر صاحب کے زمانہ میں قادیانیت کے علاوہ افراط وتفریط کی شکار اور بھی کئی مذہبی اور سیاسی تحریکیں اُبھرنے لگیں۔ مگر آپ کے وجود مسعود کے باعث پروان نہ چڑھ سکیں۔ مولوی عبد اللہ چکڑالوی نے حدیث کی حجیت سے انکار کرتے ہوئے ایک نیا فرقہ اہل قرآن کھڑا کر دیا۔ اس کے مقابلہ میں آپ نے علم حدیث کی تدریس پر زور دے کر جابجا دورۂ حدیث کے درس جاری کرائے۔ چنانچہ ضلع ہزارہ کی مشہور درس گاہ بفہ میں آپ کے استاد مولانا سلطان محمود خود پیر صاحب سے سند لے کر درس حدیث پر کمر بستہ ہو گئے۔ اسی طرح مولانا حافظ مہر محمد شیخ الحدیث جامعہ فتحیہ اچھرہ لاہور اور مولانا غلام محمد شیخ الجامعہ بہاولپور بھی پیر صاحب کے حسب فرمان تدریس حدیث پر ہمیشہ عمل پیرا رہے۔
پیر صاحب نے نیچریت کی تردید میں بھی جو ملک میں انگریزی تعلیم وتربیت کے باعث فروغ پا رہی تھی۔ مولوی محترم علی چشتی لاہوری اور قاضی سراج الدین ایڈووکیٹ راولپنڈی جیسے مخلصین کے ذریعہ ایک عرصہ تک کتابی اور اخباری توسل سے تعلیمی مضامین شائع کرائے۔ تاہم سرسید احمد خاں کے مخالف علماء کے ان نظریات کو بھی غیر واجب قرار دیا کہ انگریزی پڑھنا حرام ہے اور برطانوی ہند دار الحرب ہے، جہاں جمعہ کی نماز جائز نہیں۔ پیر صاحب نے شہروں میں نماز جمعہ کو واجب کہا اور کئی مقامات پر بالخصوص صوبہ سرحد میں از سر نو جمعہ کی نماز جاری کرائی۔ البتہ برطانیہ کی ایسی ملازمت کو جس میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اقدام لازم آتا ہو، نا جائز قرار دیا اور اس امر کا اعلان آپ اس زمانہ میں فرماتے رہے جب کہ پہلی جنگ عظیم زوروں پر تھی اور انگریزی کا ستارہ عروج پر تھا۔
خیر وشر، نیکی وبدی کی قوتیں ازل سے برسر پیکار چلی آرہی ہیں۔ آدم وابلیس، ابراہیم ونمرود، موسیٰ وفرعون اور چراغِ مصطفوی سے شرار بو لہبی نبرد آزما رہا ہے، مگر ابر رحمت ونصرت ہمیشہ اہل حق کے سروں پر سایہ فگن رہا۔ حق گوئی اور بے با کی پیر صاحب کی سرشت میں تھی۔ اعلاء کلمتہ الحق وازباق ما ہو الباطل کا جذبہ رگ وپے میں جاری وساری تھا۔ آپ ظاہری وباطنی محاسن کا مجموعہ تھے۔ دین اسلام کی حفاظت اور مدافعت کے لیے ہمہ وقت مستعد رہتے۔ خلق خدا کو راہ راست پر لانے کے لیے اپنی سعی وکوشش جاری رکھتے۔ اپنی کتاب ”سیف چشتیائی“ میں لکھتے ہیں:
"اس نیاز مند علماء وفقراء نے بلوغت سے قبل جب کہ احادیث دجال کا نام تک بھی نہ سنا تھا۔ دجال کو شرقی جانب سے خواب میں آتے دیکھا۔ دائیں آنکھ اس کی پھوٹی ہوئی میں دیکھ رہا تھا۔ اس نے مجھے کہا کہ کہو خدا ایک نہیں۔ میں سخت غضبناک ہو کر کہتا ہوں کہ مردود! خدا تو ایک ہی ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں۔ پھر چند قدم میری طرف بڑھ کر اس نے مجھ پر تلوار کا وار کیا مگر اس کا وار خطا ہو کر اس کی تلوار میرے سر سے گزرتی ہوئی زمین پر جا پڑی۔ پھر وہ پیچھے کو مینڈھے کی طرح ان ہی قدموں پر پہلی جگہ پر جا کھڑا ہوا۔ اور پھر وہی کلمہ اس نے کہا۔ پھر اس کے جواب میں، میں نے بھی وہی کلمہ کہا جو پہلے کہا تھا۔ پھر اس نے میرے گلے پر تلوار کا وار کیا مگر وہ بھی خطا ہو کر تلوار زمین پر جا پڑی، تیسری دفعہ پھر ایسا ہی ہوا۔ بلکہ اس دفعہ تو قبضہ اس کے ہاتھ میں رہا اور تلوار قبضے سے نکل کر زمین پر جا پڑی، تینوں دفعہ بغیر اس کے کہ میں نے سرخم کیا ہو، تلوار میرے سر کے اوپر سے گزرتی رہی۔"8
آپ مزید فرماتے ہیں:
"مجھے یاد ہے کہ سات یا آٹھ سال کی عمر میں، میں نے شیطان کے ساتھ عالم خواب میں کشتی کی، جب میں اس پر غالب آکر ارادہ کرتا کہ اس کو زمین پر دے ماروں اور اپنے دل میں خوش ہوتا کہ اب میں نے اس کو پچھاڑ لیا ہے۔ ناگاہ وہ غالب آجاتا! اور میں مغلوب ہو کر زمین پر گرنے لگتا، فوراً لا حول ولا قوة الا باللّٰہ کہتا اور یہ کہنے کے ساتھ ہی میں پھر غالب آجاتا اور وہ مغلوب، اس وقت میرا دل شہادت دیتا کہ یہ شیطان ہے اور نیز کلمہ لا حول ولا قوة الا باللّٰہ کا القاء بدونِ الہام حق سبحانہ کے نا ممکن ہے۔9
{p |یہ دجال اور شیطان غلام احمد قادیانی تھا، جس کے مقابلہ کے لیے آپ کو ایک عرصہ پہلے تیار کیا جا رہا تھا۔ آپ فرماتے ہیں کہ عرب شریف میں قیام کے دوران ایک وقت ایسا بھی آیا کہ مجھے وہیں رہائش اختیار کرنے کا خیال پیدا ہو گیا مگر حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نے ارشاد فرمایا کہ پنجاب میں عنقریب ایک فتنہ نمودار ہوگا، جس کا سد باب صرف آپ کی ذات سے متعلق ہے۔ اگر اس وقت آپ محض اپنے گھر میں خاموش ہی بیٹھے رہے تو بھی علماء عصر کے عقائد محفوظ رہیں گے اور وہ فتنہ زور نہ پکڑ سکے گا10}}
پیر صاحب فرماتے تھے کہ اس فتنہ سے غلام احمد قادیانی کا فتنہ مراد ہے۔ اسی طرح ایک قلمی تحریر میں جواب "مہر منیر" میں شائع ہو چکی ہے، لکھتے ہیں۔ "جن دنوں مرزا غلام احمد قادیانی نے بظاہر تحقیق کی غرض سے اشتہارات کے ذریعہ دعوت دی تھی اور میں اسے منظور کرنے کا ارادہ کر رہا تھا مجھے اس نعمت عظمیٰ کا شرف حاصل ہوا۔ میں اپنے حجرہ میں بحالت بیداری آنکھیں بند کیے تنہا بیٹھا تھا کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو دیکھا کہ قعدہ کی حالت میں جلوس فرما ہیں۔ اور یہ عاصی بھی چار بالشت کے فاصلہ پر اسی حالت میں با ادب تمام شیخ کی خدمت میں مرید کی حاضری کی طرح بالمقابل بیٹھا ہے۔ اور غلام احمد (قادیانی)، اس جگہ سے دور مشرق کی طرف منہ کیے اور آنحضرت ﷺ کی طرف پشت کر کے بیٹھا ہے۔ اس رؤیت کے بعد میں احباب کے ساتھ لاہور پہنچا لیکن مرزا اپنے تاکیدی وعدہ سے پھر گیا اور لاہور نہ آیا۔"
اور ملفوظات مہریہ میں پیر صاحب کا قول درج ہے کہ:
"عالم رؤیا میں حضور ﷺ نے مجھے مرزا قادیانی کی تردید کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ یہ شخص میری احادیث کو تاویل کی مقراض سے کتر رہا ہے اور تم خاموش بیٹھے ہو۔ 11
ان حوالہ جات سے کھل کر یہ بات سامنے آ جاتی ہے کہ پیر صاحب کو قدرت نے دین کی حفاظت ونگہبانی کے لیے پیدا کیا۔ مرزا قادیانی کے دعویٰ نبوت سے پہلے ہی اس طاغوتی قوت سے مقابلہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے پیر صاحب کو منتخب فرمایا۔
پیر صاحب نے ایک لادینی حکومت کی الحاد پر ورفضا میں ایک مدعی نبوت کے خلاف کامیاب قلمی اور لسانی جہاد کیا۔ حتیٰ کہ اس محاذ پر مسلمانوں کے تمام فرقوں کی جانب سے متفقہ طور پر آپ ہی قائد تسلیم کیے گئے اور آپ کی تصانیف تردید مرزائیت میں بے نظیر شاہکار قرار دی گئیں۔ ان تصانیف کو مشعل راہ بنا کر تقریر وتحریر کے مجاہدین کا ایک جم غفیر کمر بستہ ہو کر میدان میں اتر آیا۔ اور اُن کی مساعی فی سبیل اللہ کی بدولت آج دنیائے اسلام کا ایک عام انسان بھی ختم رسالت کی قادیانی تاویل کو کفر سمجھتا ہے۔ اور قادیانیت اس ملک میں ایک علیحدہ، بے اثر اور لا تعلق اقلیت بن کر رہ گئی ہے۔ وہ تصانیف یہ ہیں۔ }}
1۔ ہدیۃ الرسول:
مرزا غلام احمد قادیانی نے جوں ہی مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا تو پیر صاحب نے اس کے خلاف کام کا آغاز کر دیا، اپنے روزانہ کے درس میں حضور ﷺ کا خاتم النبیین ہونا، حضرت عیسیٰ کا اپنے جسم اطہر سمیت آسمان پر تشریف لے جانا اور قرب قیامت کو نزول فرمانا، اور ان کی حیات کے دوسرے گوشوں کی علمی وعقلی طور پر تشریح وتوضیح شروع کر دی تھی۔ آپ کے ان دروس کی بڑی شہرت ہوئی، آپ نے اپنے ارادتمند علمائے کرام کی ان مسائل میں خصوصی تربیت کی۔ تربیت یافتہ گان میں مولانا محمد غازی، مفتی عبد لرحمٰن جونپوری، قاضی قدرت اللہ سرحدی، مفتی سلیم اللہ لاہوری، مولانا غلام احمد حافظ آبادی، مولانا غلام محمد گھوٹوی خاص طور پر قابل ذکر ہیں اور علماء کی ایک جماعت کو دلائل وبراہین سے مسلح کیا۔ حکیم نور الدین بھیروی سے خط وکتابت کر کے مرزا قادیانی کے حالات معلوم کیے اور پھر اپنے ایک مخلص شاگرد مولانا ولی احمد ہزاروی کو قادیان بھیج کر صحیح صورت حال سے آگاہی حاصل کی۔
چونکہ حیات ونزول مسیح کا عقیدہ بھی اسلام کا ایک اہم حصہ ہے اور نظریہ ختم نبوت کو تو اسلام کے ایک ایسے بنیادی عقیدے کی حیثیت حاصل ہے جس کا انکار کفر کے مترادف ہے۔ اس لیے پیر صاحب کو بارگاہِ عالی حضرت خاتم النبیین ﷺ سے باطنی طور پر اس فتنے کی سرکوبی کے لیے اشارہ فرمایا گیا علاوہ ازیں کچھ رؤیاء صالحہ اور بزرگوں کے ارشادات بھی مؤید ہوئے چنانچہ سب سے پہلے تو آپ نے مرزا کی مشہور کتاب "ایام الصلح" (فارسی) اور دیگر رسائل کے رد میں ۱۸۹۹ء میں کتاب "ہدیۃ الرسول" فارسی زبان میں تالیف فرمائی کیونکہ ایام الصلح کو مرزا نے کابل وغیرہ کے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لیے فارسی زبان میں لکھا تھا اور اس کا مؤثر توڑ کرنا بہت اہمیت رکھتا تھا۔
2۔ شمس الہدايۃ فى اثبات حيات المسیح:
کابل کی اس وقت کی اسلامی سلطنت اور علماء کرام کی بر وقت تدابیر کی وجہ سے مرزا کو اپنے مندرجہ بالا مقصد میں تو کامیابی نہ ہوئی تاہم برصغیر میں چونکہ اس وقت برطانوی تسلط کا دور تھا اور برطانوی حکومت یہاں کے مسلمانوں میں فتنہ وفساد کی آگ بھڑ کانے کی خواہش مند تھی اس لیے مرزا نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے نظریات کی پرچار کے لیے اردو زبان میں کتابیں اور رسائل لکھ کر برصغیر کے اندر ان کی اشاعت کا اہتمام کیا جس سے ہندوستان کے مسلمانوں میں کافی ہیجان برپا ہوگیا یہ دیکھ کر پیر صاحب نے بھی اپنے قلم کی باگ موڑ لی اور ہدیۃ الرسول کے مضامین کو اردو زبان میں ڈھال کر ۱۳۱۷ھ میں "شمس الہدایہ فی اثبات حیات المسیح" کے نام سے ایک معرکہ آراء کتاب سپرد قرطاس کی جس سے ایوان قادیانیت میں زلزلہ برپا ہو گیا۔ اس کتاب میں آپ نے وما قتلوه يقينا الآية، يا عيسىٰ انى متوفیک ورافعك الى الاية، اور قدخلت من قبله الرسل وغیرہم آیات کی پر مغز تفسیر کی اور مرزا قادیانی کے مسیح موعود ہونے کی زبردست دلائل سے تردید کی۔ اور ضمناً لا اله الا الله محمد رسول اللّٰہ کا معنی دریافت کر لیا۔ جس کے جواب پر مرزا تا دم مرگ قادر نہ ہوسکا۔ حکیم نور الدین بھیروی نے اس کتاب کی اشاعت کے بعد آپ کو ایک خط میں لکھا کہ آپ "شمس الہدایت" میں بالکل مولویوں اور منطقیوں کے رنگ میں جلوہ گر ہوئے۔ پیر صاحب ایک مکتوب میں لکھتے ہیں۔ اس کتاب کی اشاعت سے علماء اسلام بہت ہی خوش ہیں۔ اور دعائیں دیتے ہیں۔12
ہدیۃ الرسول کے بارے میں قادیانیوں کو خبر تو ہو چکی تھی اور اس کتاب کا ذکر ان کے اردو رسالے "شمس بازغہ" (مطبوعہ ۱۳۱۸ھ) میں صفحہ ۸ پر موجود بھی ہے۔ تاہم وہ اس بنا پر مطمئن تھے کہ ہندوستان میں فارسی دان طبقہ چونکہ قلیل تعداد میں ہے اس لیے پیر صاحب کی اس کتاب کا کوئی وسیع اثر نہیں ہوگا، جب آپ کی اردو کتاب "شمس الہدایہ" منظر عام پر آئی تو قادیانیوں میں پریشانی اور اضطراب پیدا ہوا اور انہیں اپنی سابقہ اسکیم میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
چنانچہ شمس الہدایت کی اشاعت کے بعد چاہیے تو یہ تھا کہ مرزا قادیانی توبہ کر کے مسلمان ہو جاتا یا اس کا جواب دیتا مگر اس نے کتاب کے مندرجات سے پوشیدہ چشم ہو کر آپ کو لاہور میں ایک بڑے مناظرہ کی دعوت دے دی۔ اور آپ ہی سے مناظرہ کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے:
"پیر مہر علی شاہ صاحب کے ہزار ہا مرید یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ علم میں اور حقائق معارف دین میں اور علوم ادبیہ میں ملک کے تمام مولویوں سے بڑھ کر ہیں۔ اسی وجہ سے میں نے اس امتحان کے لیے پیر صاحب موصوف کو اختیار کیا ہے۔ تاکہ ان کے مقابلہ سے خدا تعالیٰ کا وہ نشان ظاہر ہو جائے جو اس کے مرسلین اور مامورین کی ایک خاص علامت ہے۔ مرزا قادیانی اپنے اشتہار دعوت مناظرہ میں مزید لکھتا ہے۔ اس مقابلہ کے لیے پیر مہر علی شاہ صاحب کی بہر حال شمولیت ضروری ہوگی کیونکہ خیال کیا گیا ہے کہ وہ علم عربی اور قرآن دانی میں ان تمام مولویوں سے بزرگ اور افضل ہیں۔ اور یہ بھی لکھا کہ اگر پیر صاحب مناظرہ کے لیے رضا مند نہ ہوں تو میں علماء کی ایک ایسی جماعت سے مناظرہ کرنے کے لیے تیار ہوں جو چالیس سے کسی طرح کم نہ ہو۔13
(مرز انعام احمد قادیانی: مجموعہ اشتہارات، صفحہ ۳۳۳)
گویا مرزا قادیانی آپ کو چالیس علماء کے برابر سمجھتا تھا۔ پیر صاحب نے مرزا قادیانی کی تمام شرائط منظور کرتے ہوئے جوابی اشتہار شائع کیا جس میں لکھا کہ:
"مرزا غلام احمد قادیانی کا اشتہار مورخہ ۲۰ جولائی ۱۹۰۰ء آج اس نیاز مند علمائے کرام ومشائخ عظام کی نظر سے گزرا۔ مجھ کو دعوت حاضری جلسہ منعقدہ لاہور مع شرائط مجوزه مرزا صاحب بسر وچشم منظور ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ مرزا صاحب بھی میری ایک ہی گزارش کو بہ سلک شرائط مجوزہ منسلک فرمائیں گے۔ وہ یہ ہے کہ مدعی مسیحیت ومہدویت ورسالت، لسانی تقریر سے بہ مشافہ حضار جلسہ اپنے دعویٰ کو بہ پایۂ ثبوت پہنچا دیں۔ بجواب اس کے کہ نیاز مند کی معروضات عدیدہ کو حضراتِ حاضرین خیال فرما کر اپنی رائے ظاہر فرمائیں گے۔ مجھ کو شہادت ورائے تینوں علماء کرام مجوزہ مرزا صاحب یعنی مولوی محمد حسین بالوی ومولوی عبد الجبار غزنوی ومولوی عبد اللہ ٹونکی کے قبول کرنے میں کچھ عذر نہ ہوگا۔ بعد ظہور اس کے مرزا صاحب اپنے دعویٰ کو بہ پایہ ثبوت نہیں پہنچا سکے۔ مرزا صاحب کو بیعتِ توبہ کرتی ہوگی۔14
پیر صاحب نے مرزا قادیانی کی تمام شرائط منظور کر لیں۔ اپنی طرف سے صرف زبانی گفتگو کی قید لگائی اور ساتھ ہی یہ بھی لکھ دیا کہ:
"آپ کو عین وقت پر بحث میں الہام سکوتی ہو جائے گا۔ آپ فرمائیں اس کا کیا علاج ہوگا۔"15
اور پھر چند روز بعد ایک اشتہار بھی چھپوایا کہ اگر مرزا صاحب کو کوئی ترمیم کرانا ہو تو اور بر وقت اطلاع دیں تاکہ اس پر معاملہ باہم طے کر لیا جائے۔ مگر مباحثہ سے صرف چار روز پہلے مرزا صاحب کے امتی مولوی محمد احسن امروہی نے نور الابصار کے نام سے ایک اشتہار شائع کیا جس میں لکھا کہ پیر مہر علی شاہ نے مرزا غلام احمد قادیانی کے ساتھ مناظرہ کرنے سے انکار کر دیا اور مزید لکھا کہ ہمیں زبانی مناظرہ کی شرط منظور نہیں۔ اگر تفسیر نویسی میں مقابلہ کرنا ہو تو آجائیں۔ اس پر پیر صاحب کے ارادتمند حکیم سلطان محمود ساکن راولپنڈی نے ۲۱ اگست ۱۹۰۰ء کو جوابی اشتہار شائع کیا جس کے دو پیر گراف پیش خدمت ہیں۔
1. آج میاں محمد احسن امروہی کا اشتہار المسمی بہ "نور الابصار" ہمارے مطالعہ میں آیا جس میں اس بات کو مشتہر کیا ہے کہ حضرت مولانا پیر مہر علی شاہ صاحب ایدہ اللہ نے مرزائی مقابلہ سے انکار کیا ہے۔ سبحان اللہ
چہ دلاور است وز دے کہ بکف چراغ دارد
ادھر پیر صاحب موصوف قبولِ دعوت کا اشتہار دے کر مرزا کی الہامی طاقت کا امتحان کرنے کے لیے تاریخ مقررہ پر لاہور تشریف لے جانے کی تیاری کر رہے ہیں اور اس طرف مرزا اور اس کی بزدل جماعت ایسے بے دلائل اور لا طائل حیلے تراش کر سرخرو بننا چاہتی ہے۔
2. اگر تمہاری علمی وعملی کمزوریاں تمہیں اپنی گھڑی ہوئی شرطوں کے احاطہ سے باہر نہیں نکلنے دیتیں۔ اور تمہیں ضد ہے کہ ہوں ہوں ہماری ہی سب شرطیں منظور کرو تو ہم بحث کریں گے اور ضرور یہی سہی۔ ہم اتمامِ حجت کے لیے تمہیں اور بھی ڈھیل دیتے ہیں کہ پیر صاحب تمہاری سب شرطیں بعینہ جو تم نے پیش کی ہیں منظور کر کے تمہیں چیلنج کرتے ہیں کہ تم مقررہ تاریخ یعنی ۲۵ اگست ۱۹۰۰ء کو بلا عذر وحیلہ لاہور میں آجاؤ، وہ بھی تشریف لے جائیں گے۔ اگر اب بھی تم ۲۵ اگست ۱۹۰۰ء کو میدان میں نہ آئے اور گریز وفرار اختیار کیا تو اور ضرور ہے کہ تم ایسا ہی کرو گے۔ تو اس پر ہم بھی سمجھ لیں گے۔16
چنانچہ آپ "لکل فرعون موسی" کے مطابق علماء کرام کی ایک جماعت کی معیت میں حسب وعدہ 24 اگست ۱۹۰۰ء کو لاہور تشریف فرما ہوگئے۔ اور قادیانی کی دعوت وتحریک کو "راوی برد" کرنے کا عزم صمیم کئے ہوئے تھے۔ آپ نے لاہور سے مرزا قادیانی کو برقی پیغامات ارسال کر کے حسب وعدہ لاہور آنے کی دعوت دی۔ مگر مرزا قادیانی پر خدائی رعب ایسا چھایا ہوا تھا کہ وہ دیوار قادیان سے باہر نہ نکل پایا۔ پیر صاحب نے چھ دن قیام کیا۔ اور مرزا قادیانی کا انتظار کیا مگر وہ نہ آیا اور نہ ہی اس کو آنا تھا۔ اسے مناظرہ سے پہلے "الہام سکوتی" ہو گیا تھا۔ آخر مرزا قادیانی کی آمد سے نا امید ہو کر ۲۷ اگست۱۹۰۰ء کو بادشاہی مسجد میں ایک عظیم الشان جلسہ ہوا۔ جس میں حضرت پیر جماعت علی شاہ علی پوری، مولانا عبد اللہ ٹونکی، مولانا احمد الدین جہلمی، مولانا محمد علی، مولوی عبد الجبار غزنوی، مولانا محمد حسن فیضی، خلیفہ تاج الدین احمد، مولوی ثناء اللہ امرتسری اور خواجہ عبد الخالق جہاں خیلاں شریف نے خطاب کیا۔ آخر میں آپ نے دعائے خیر فرمائی، اس جلسہ کی مکمل تفصیل "جلسہ روئیداد اسلامیہ" کے نام سے شائع ہوئی تھی۔ مرزا قادیانی نے غالباً یہ خیال کیا کہ حضرت پیر صاحب ایک درویش منش آدمی ہیں وہ اپنے معمولات ومشاغل کو چھوڑ کر میدان مناظرہ میں نہیں آئیں گے اور ہمیں مفت میں شہرت مل جائے گی۔ وہ آپ کی علمیت وقابلیت سے واقف تھا، اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو زور بیان اور حسن گویائی عطا فرمائی تھی مرزا اور مرزائی اس سے آگاہ تھے۔ اسی لیے وہ آپ سے زبانی گفتگو پر آمادہ نہیں ہو رہا تھا مگر جب اس کی تمام شرائط من وعن قبول کرنے کا اعلان کیا گیا تو پھر تو اسے میدان میں آنا چاہیے تھا لیکن ایک کج کلاہ درویش کا سامنا کرنے سے کچھ ایسا خوف زدہ اور حواس باختہ ہوا کہ اپنی کامیابی کے بارے میں اپنی ہی پیش گوئیوں کو بھول گیا۔ سچ ہے:
ہیبت حق است این از خلق نیست ہیبت مردے صاحب دلق نیست
اس واقعہ کے سلسلہ میں قادیانیوں نے عجیب عجیب افسانے تراشے ہوئے ہیں۔ چنانچہ ڈاکٹر بشارت احمد قادیانی نے اپنی کتاب "مجدد اعظم" میں جب اس موضوع پر لکھا تو عجیب عجیب عنوان لگائے مثلاً پیر گولڑوی کا سکوت عن الحق، پیر گولڑوی صاحب پر آخری اتمام حجت، پیر گولڑوی صاحب کا فرار، گولڑویوں کی اشتعال انگیزی۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ آپ کے لاہور جانے سے قادیانی نبوت کا گریبان چاک اور دامن تار تار ہوگیا۔ جس سے کئی گم گشتگانِ راه از سر نو مسلمان ہوئے اور کئی مذبذبین راہ راست پر مستقیم ہو گئے۔
لیکن مرزا قادیانی تمام عمر اس شکست کو بھول نہ سکا۔ متحدہ ہندوستان میں اس کا جو رد عمل ہوا، اس نے مرزا قادیانی کی نیند حرام کر دی تھی، چشتی نیزہ برابر اسے کچوکے لگاتا رہتا۔ وہ پہروں اس پر سوچتا کہ یہ کیا ہو گیا چنانچہ جب کبھی کسی موضوع پر بھی اس نے کتاب لکھی تو اسے پیر مہر علی شاہ یاد آ گئے تو اس نے قوم کے سامنے رونا شروع کر دیا۔ اپنی ناکامی پر غلاف چڑھانے لگتا، مثلاً مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی عربی تالیف اعجاز مسیح کا سبب تالیف بیان کرتے ہوئے اپنے مخالفین کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے۔ کان احد منهم يقال له مهر على شاه. وكان يزعم اصحابه انه الشيخ الكامل والولى الجلی (کہ ان میں سے ایک کو مہر علی کہا جاتا ہے اور اس کے متوسلین کا خیال ہے کہ وہ شیخ کامل اور ولی جلی ہے) اپنے تفسیری چیلنج کا ذکر، پیر صاحب کا ورود لاہور وغیرہ چیزوں کے بیان کے بعد اپنے لاہور میدان مناظرہ میں نہ جانے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے:
"کہ میری جماعت کے لوگوں نے مجھے منع کیا اور میں نے بھی ان کی رائے کو پسند کیا اور لاہور نہ گیا تو مخالفین نے کہنا شروع کر دیا کہ پیر مہر علی شاہ نے میدان فتح کر لیا اور لوگ اسے عرفان کے پروں پر اڑانے لگے وہ جھوٹ کہتے اور حیا نہیں کرتے۔ وہ لاف زنی کرتے اور ڈرتے نہیں، وہ افتراء کرتے اور رکتے نہیں، اس کی تعریف میں وہ دریا بہائے جارہے ہیں جن کا وہ مستحق نہیں۔ وہ بے وقوفوں کی طرح مجھے گالی دیتے اور نہایت برے طریقے اور استہزاء سے یاد کرتے ہیں اور کہتے ہیں۔ ان هذا الرجل هاب شيخنا وخاف واكله الرعب فما حضر المصاف، وما تخلف الا لخطب خشی وخوف غشى ولو بارز لكلمه الشيخ بابلغ الكلمات وشج راسه بكلام هو كالصفات فى الصفات۔ یہ آدمى (مرزا قادیانی) ہمارے شیخ سے ڈر گیا اور ہمارے شیخ کی ہیبت اسے کھا گئی، اس کا میدان میں نہ آنا خوف کی حالت سے دو چار ہونے اور خوف کے غلبہ کی وجہ سے تھا، اگر وہ مقابلہ پر باہر آتا تو ہمارے شیخ اسے فصیح وبلیغ کلمات سے زخمی کر دیتے اور سفید وروشن کلمات سے اس کا دماغ مفلوج کر دیتے۔"
اور قادیانی اپنی کتاب تحفہ گولڑویہ میں لکھتا ہے۔
"ہزار افسوس کہ پیر مہر علی شاہ نے میری اس دعوت کو جس سے مسنون طور پر حق کھاتا تھا اور خدائے تعالیٰ کے ہاتھ سے فیصلہ ہو جاتا تھا ایسے صریح ظلم سے ٹال دیا جس کو بجز ہٹ دھرمی کے اور کچھ نہیں کہہ سکتے۔ اور ایک اشتہار شائع کیا کہ ہم اول نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ کی رو سے بحث کرنے کے لیے حاضر ہیں اس میں اگر تم مغلوب ہو تو ہماری بیعت کر لو اور پھر بعد اس کے ہمیں وہ اعجازی مقابلہ بھی منظور ہے۔17
اور قادیانی اپنی کتاب نزول المسیح میں لکھتا ہے:
"پیر مہر علی شاہ صاحب نے اپنے اشتہار میں لکھا کہ میں بالمقابل تفسیر عربی فصیح میں لکھنے کے لیے لاہور پہنچ گیا ہوں، مگر میری طرف سے یہ شرط ہے کہ اول اختلافی عقائد میں زبانی گفتگو ہو اور مولوی محمد حسین منصف ہو پھر اگر منصف مذکور یہ بات کہہ دے کہ عقائد پیر مہر علی شاہ کے درست اور صحیح ہیں اور انہوں نے اپنے عقائد کا خوب ثبوت دے دیا ہے تو فریق مخالف یعنی مجھ پر لازم ہوگا کہ بلا توقف پیر مہر علی شاہ سے بیعت کرلوں۔ پھر بعد اس کے تفسیر نویسی کا مقابلہ بھی ہو جائے گا۔" 18
مرزا غلام احمد قادیانی اس شکست سے کتنے کرب میں مبتلا تھا، اظہار کرتے ہوئے لکھتا ہے۔
"افسوس کہ علمی نشان کے مقابلہ میں نادان لوگوں نے پیر مہر علی شاہ گولڑوی کی نسبت ناحق جھوٹی فتح کا نقارہ بجا دیا اور مجھے گندی گالیاں دی۔ اور مجھے اس کے مقابلہ میں جاہل اور نادان قرار دیا۔ گویا میں اس نابغہ وقت اور سحبانِ زماں کے رعب کے نیچے آکر ڈر گیا۔ ورنہ وہ حضرت تو سچے دل سے بالمقابل عربی تفسیر لکھنے کے لیے تیار ہو گئے تھے۔ اور اس نیت سے لاہور تشریف لائے تھے۔ پر میں آپ کی جلالت شان اور علمی شوکت کو دیکھ کر بھاگ گیا۔"19
مزید سنئے اور دیکھئے مرزا قادیانی کا دل اس شکست سے کس طرح ٹکڑے ٹکڑے ہو رہا تھا۔ لکھتا ہے۔
"مہر علی شاہ گولڑوی کو سچ مانا اور یہ سمجھ لینا کہ وہ فتح پا کر لاہور سے چلا گیا ہے کیا اس بات پر قوی دلیل نہیں ہے کہ ان لوگوں کے دل مسخ ہو گئے ہیں۔ نہ خدا کا ڈر ہے نہ روز حساب کا کچھ خوف ہے ان لوگوں کے دل جرات، شوخی اور گستاخی سے بھر گئے ہیں۔ گویا مرنا نہیں ہے۔ اگر ایمان اور حیاء سے کام لیتے تو اس کاروائی پر نفرین کرتے جو مہر علی شاہ گولڑوی نے میرے مقابل پر کی ہے۔ کیا میں نے اس کو اس لیے بلایا تھا کہ میں اس سے ایک منقولی بحث کر کے بیعت کرلوں۔ 20
ٓیاد رہے کہ مرزا قادیانی نے اپنے اشتہار دعوت مناظرہ میں موضوع، ثالثوں، مقام مناظرہ اور پھر بیعت کا تعین خود کیا تھا۔ پیر صاحب نے صرف زبانی بحث کی ایک شرط کا اضافہ کیا تھا۔ جس پر مرزا قادیانی نے آسمان سر پر اٹھا لیا کہ ہائے پیر صاحب نے ظلم کر دیا۔ ہائے پیر صاحب نے ظلم کر دیا اور مسلسل روتے چلا جا رہا ہے۔ بیعت کے متعلق مرزا قادیانی کی اپنی عبارت ملاحظہ کیجئے۔
"اگر میرے خدا نے اس مباحثہ میں مجھے غالب کر دیا اور مہر علی شاہ کی زبان بند ہوگئی، نہ وہ فصیح عربی پر قادر ہو سکے اور نہ وہ حقائق ومعارف قرآنی میں لکھ سکے یا یہ کہ اس مباحثہ سے انہوں نے انکار کر دیا۔ تو ان تمام صورتوں میں ان پر واجب ہوگا کہ وہ توبہ کر کے مجھ سے بیعت کریں۔" 21
اس کے جواب میں پیر صاحب نے صرف یہ لکھا کہ:
"بعد اس کے مرزا صاحب اپنے دعویٰ کو بہ پایۂ ثبوت نہیں پہنچا سکے مرزا صاحب کو بیعت توبہ کرنی ہوگی۔"21
اگر مرزا قادیانی غالب ہونے کی صورت میں فریق ثانی کے بارے میں یہ کہیں کہ "وہ مجھ سے بیعت کریں" تو پیر صاحب کو بھی اس مطالبہ کا حق تھا۔ مگر آپ نے صرف یہ کہا کہ "وہ بیعت توبہ کریں"، "مجھ سے" کی قید انہوں نے نہیں لگائی، اس کے باوجود انہیں اس طرح مطعون کیا جا رہا ہے کہ شاید انہوں نے یہ بات کہہ کر اپنی زندگی کا سب سے بڑا جرم کر لیا۔
قارئین کرام! مرزا قادیانی نے مناظرہ لاہور میں عدم شرکت کی جو وجوہات بیان کیں، ان میں سے ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اسے اپنی جان کا خوف تھا اور یہ عجیب وغریب وجہ ہے۔ وہ لکھتا ہے:
میں بہر حال لاہور پہنچ جاتا مگر میں نے سنا ہے کہ اکثر پشاور کے جاہل سرحدی پیر صاحب کے ساتھ ہیں اور ایسے ہی لاہور کے اکثر سفلہ ور کمینہ طبع لوگ گلی کوچوں میں مستوں کی طرح گالیاں دیتے پھرتے ہیں اور نیز مخالف مولوی بڑے جوشوں سے وعظ کر رہے ہیں کہ یہ شخص واجب القتل ہے تو اس صورت میں لاہور میں جانا بغیر کسی احسن انتظام کے کس طرح مناسب ہے۔ ان لوگوں کا جوش اس قدر بڑھ گیا ہے کہ بعض کارڈ گندی گالیوں کے ان لوگوں کی طرف سے مجھے پہنچے ہیں۔ جو چوہڑوں اور چماروں کی گالیوں سے بھی فحش گوئی میں زیادہ ہیں جو میرے پاس محفوظ ہیں۔ بعض تحریروں میں قتل کی دھمکی دی ہے۔22
اس ساری بحث کے بعد گزارش ہے کہ مرزا قادیانی نے بذات خود اس زبانی بحث کے بارے میں مکمل خاموشی اختیار کر رکھی تھی۔ ۲۵ جولائی ۱۹۰۰ء سے لے کر ۲۵ اگست ۱۹۰۰ء تک مرزا قادیانی بالکل نہ بولا اور حیلہ سازی کرتے ہوئے اپنے امتی مولوی احسن امروہی سے اشتہار شائع کرایا کہ ہو سکتا ہے یہ مصیبت ٹل جائے۔ مگر پیر صاحب نے لاہور پہنچ کر اس کی خواہشوں کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔ اب نہ نکلتے بنے اور نہ اگلتے والی صورت حال ہوگئی۔ اس لیے کہ لاہور کے جو قادیانی پیر صاحب سے معاملہ طے کرنا چاہتے تھے ان کی کوئی حیثیت نہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ پیر صاحب نے انہیں اہمیت نہ دی۔ کیونکہ مرزا قادیانی نے اپنے دستخطوں سے زبانی بحث سے بالکل انکار نہیں کیا۔ اس شرط کو کالعدم قرار دینے میں کوئی تحریری مطالبہ نہیں کیا۔
خیر مرزا قادیانی کے ان تمام اقوال واعمال کے بارے میں یہ ہمارا تبصرہ تھا۔ لیکن آئیے پیر صاحب کی اپنی تحریریں پڑھیں کہ وہ اس کا کیا جواب دیتے ہیں۔ ایک ایک جملہ قابل غور، ایک ایک سوال کا جواب اور واقعات صحیحہ اور حقیقت واقعیہ کا بیان ہے۔ خائف وہی ہوتے ہیں جن کو میدان میں سامنے آنا موت نظر آتا ہے۔ مع آنکہ تحریک مقابلہ بھی پہلے خود ہی کی ہو۔ مامور من اللہ کو میدان میں موجود ہونا نہایت ہی ضروری تھا۔ تاکہ خلق الله مامور کی غیر حاضری کے باعث اس کو مفتری علی اللہ سمجھ کر صراط مستقیم کو نہ چھوڑ دیں۔ مخالفین کوللکار کر بلانا اور پھر گھر سے باہر نہ نکلنا گویا اپنے ہی ہاتھوں سے دین کی بیخ کنی کرنا ہے۔ مگر ایسے مامور اور ایسے دین کا عمل درآمد ایسا ہونا چاہیے۔ آپ کا دین اگر وہی محمدی دین ہوتا تو بجائے اس قول پاک آنحضرت ﷺ کے
انا النبی لا كذب انا ابن عبد المطلب
آپ انا الرسول لامراء انا ابن غلام مرتضیٰ کہتے ہوئے میدان میں موجود ہوتے۔ واقعی امر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو بحسب وعده انا نحن نزلنا الذكر وانا له لحافظون کے قرآن کریم کو تحریف سے بچانا منظور تھا، اور امت مرحومہ کو یہ سمجھانا کہ غلام احمد قادیانی کتاب اور سنت اور اجماع کا محرّف ہے۔ اس لیے پہلے اس کے ہاتھ سے اشتہار دعوت بآں کرّ وفرکہ "ضرور میرا مقابل میرے مقابلہ میں ذلیل ہوگا یہ ہوگا وہ ہوگا۔" روئے زمین پر دلوایا جس میں خود ہی اس نے ان تین علماء کو جناب مولوی محمد عبد اللہ صاحب پروفیسر لاہوری اور جناب مولوی عبد الجبار امرتسری اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو حکم قرار دیا۔ اور انتظام پولیس وغیرہ بھی لکھ دیا اور پہلے اس کے آپ کو الہام بھی ہو چکا تھا کہ والله يعصمك من الناس اور نیز انى مهين من اهانک اور نیز تیری اور تیرے گروہ کی میں حفاظت کروں گا اور تیرا ہی گروہ قیامت تک غالب رہے گا (دیکھو کتاب البریہ) اور پھر اسی اشتہار میں اخیر پر یہ لکھوا دیا کہ لعنة الله على من تخلف وابیٰ۔
مسلمانو! غور سے سوچو یہ ایک خفیہ تدبیر الہٰی تھی بمقابلہ مگر قادیانی کے۔ انہوں نے سوچا تھا کہ کسی کو کیا ضرورت ہے جو اجابت دعوت کرے ہم کو گھر میں بیٹھے بٹھائے فتح ہو جائے گی اور عقل اور دین کے غنڈے اور میاں مٹھو بغلیں بجاتے ہوئے دام میں پھنسیں گے۔ اور تصویر فروشی اور اشتہار فروشی اور تصنیف فروشی اور منارہ فروشی اور کشش دراہم بنام تجارت پھر مزید بر آں بہ بہانہ خسارت وغیره وغیرہ پولیٹکلوں کی اسامی نکل آئیں گے۔ مگر چونکہ بحکم واللّٰہ خیر الماکرین کے اللہ کی خفیہ تدبیر ہی غالب رہتی ہیں، لہٰذا اس کرّ وفر کے بعد ایام جلسہ لاہور میں قادیانی صاحب کی قلمی اور کلمی طاقتیں سلب کر دیں گئیں یعنی عدم حاضری کا عذر تک قلم اور منہ سے نہ نکلا باوجود اس کے کہ معتقدین ومخالفین دونوں کی جانب سے سخت اصرار اور کشمکش بھی ہوئی۔ تخمیناً پانچ چھ دن کے بعد جب ہمارے واپس ہونے کی خبر جناب کو پہنچی تو زرد کاغذ پر بیدلرزاں کی طرح قلم ملنے لگا۔ اور اعذار بارده اوهن من بيت العنكبوت شروع ہوئے کہ ہم کو سرحدی لوگوں کا خوف تھا، اس لیے نہیں آئے۔ اس عذر پر لوگوں نے کہا کہ آپ ان الہامات کو بھول گئے جن میں آپ کو ملہم کی جانب سے پوری تسلی اور غالب رہنے کی بشارت دی گئی تھی یا آپ کے ملہم سے بھی ایفاء وعدہ کی قدرت سلب کی گئی۔ ہماری جانب سے تقریری شرط کی ترمیم اس لیے تھی کہ تقریر بھی معیار صداقت ہونے سے تحریر میں کم نہیں۔ جس شخص کو اللہ تعالیٰ غالب کرنا چاہتا ہے اور اس کو منظور ہوتا ہے کہ اس کے غالب رہنے کے ذریعہ سے لوگوں کو ہدایت کرے تو اس کے غلبہ کو معیار صداقت ٹھہرانے کے بعد ضروری ہی اس کو غالب کرتا ہے۔ اور اس سچے مامور کو فرض منصبی کے رو سے حریف مقابل کے دوبدو ہونا نہایت ضروری تھا۔ بلکہ قادیانی صاحب چونکہ بروز وفنا محمدی وعیسوی کے مدعی ہیں تو تقریری مقابلہ کی تسلیم ان پر ضروری تھی کیونکہ ان کے بارزین یعنی آنحضرت ﷺ وعیسیٰ نے بھی تبلیغ حق تقریری طور پر کی تھی۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ صرف تحریر میں احقاق حق اچھی طرح نہیں ہوتا۔ بالفرض اگر قادیانی صاحب جلسہ لاہور میں تفسیر لکھتے بھی تو کیا ان کی بھولی بھالی جماعت بے تمیزی کی وجہ سے اپنی ضلالت پر زیادہ پکی نہ ہو جاتی۔ ان کی ذاتی لیاقت اس قدر کہاں تھی کہ اس تفسیر کے مضامین واہیہ اور محرفہ پر اطلاع پاویں یا مرزا جی کے سرقہ کر پکڑ سکیں۔ وہ تو صرف عربی عبارت مسروقہ کو دیکھ کر اور زیادہ گمراہ ہو جاتے۔ اس لیے نہایت ضروری تھا کہ پہلے علماء کرام کے سامنے قرآن وحدیث کو نکال کر بلحاظ سیاق وسباق اثبات مدعی کیا جاتا تاکہ اس سے حاضرین کو تقریراً اور تحریراً سمجھا دیا جاوے کہ اس مسلک سے بچنا مسلمانوں کو نہایت ضروری ہے۔ مرزائیوں کی اس کم توجہی پر نہایت ہی افسوس آتا ہے کہ انہوں نے نبوت اور قرآن دانی کا معیار انشاء پر دازی کو سمجھ رکھا ہے اور پھر انشاء پر دازی بھی وہ جس کی لفظی اور معنوی کمال کی قلعی کھل رہی ہے۔ بھلا مثلاً اگر کوئی عربی زبان میں مضمون لکھ دے کہ نماز عبارت ہے صرف توجہ الی اللہ سے اور اوضاع معمولہ اہل اسلام کی کوئی حقیقت نہیں اور اپنے دعویٰ کی دلیل اس امر کو ٹھہرا دے کہ میری طرح چونکہ کوئی شخص عربی نویس نہیں اور فی الواقع ایسا ہو بھی تو کیا کوئی عاقل ایسی واہی دلیل سے اس کے دعویٰ کو مان سکتا ہے۔ ہر گز نہیں۔23
پیر صاحب مزید لکھتے ہیں:
ان کی عداوت اس وقت نہیں سوجھی تھی جس وقت اشتہار دعوت میں آپ ہی نے ان لوگوں کو یعنی مولوی عبد اللہ صاحب ومولوی عبد الجبار صاحب ومولوی محمد حسین صاحب کو حکم لکھا تھا۔ کیا اس وقت آپ نے اجابت دعوت کو غیر ممکن الوجود سمجھا ہوا تھا۔ اس لیے تینوں صاحبان کا نام لکھ مارا اور جب سر پر آگئی تو اس وقت یہ حیلہ سوچ میں آیا کہ یہ علماء میرے دشمن ہیں۔ ہم شاید یہ بھی تسلیم کر لیتے اگر انہی ایام میں آپ عدم تشریف آوری کی وجہ بھی لکھ دیتے تاکہ ہم ان حضرات کے سوا تین اور اہل علم مقرر کر لیتے۔ کیا آپ کو رجسٹری شده چٹھی حافظ محمد دین صاحب تاجر کتب لاہوری کی ۲۵ اگست سے پیشتر ۲۰ یا ۲۱ کو نہیں پہنچی تھی جس میں لکھا ہوا تھا کہ اگر آپ کو کسی شرط کی ترمیم کرانی ہو تو کر لیجئے۔ ورنہ آپ کا کوئی عذر وحیلہ قابل اعتبار نہ ہوگا، اگر آپ کو اشتراط تقریر یا علماء ثلاثہ کا حکم ہونا گوارا نہ تھا تو اپنے نام کے اشتہار سے اس خاکسار کو واضح کر دیتے کہ اس قید کو اٹھا دو، تب ہم آسکتے ہیں ورنہ نہیں۔ اگر آپ یہ خیال فرمادیں کہ آپ کے مرید امروہی نے ہمیں یہ بات پہنچادی تھی تو ہماری طرف سے ہمارے مخلص حکیم سلطان محمود نے جواب ترکی بہ ترکی شائع کر دیا تھا کہ اگر آپ تقریر کس صورت میں تسلیم نہیں کر سکتے۔ بعینہ پیش کردہ شرطیں آپ کی بلا کم وکاست محرر سطور منظور کر کے لاہور آتے ہیں۔ آپ بھی تاریخ مقررہ پر لاہور آویں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ آپ کے مرید کی بات تو ہم پر حجت ہو اور ہمارے تخلص کی بات قابل التفات نہ ہو۔ بھلا میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ اگر معاملہ بالعکس ہوتا یعنی ہماری طرف سے اشتہار دعوت کا میں جواب نہ دیتا بلکہ آپ کی طرح بالکل خاموش ہو جاتا تو میں آپ کو قسم دیتا ہوں۔ انصاف سے کہو کہ اندریں صورت آپ معہ اپنے چیلوں چانٹوں کے خوشی کے شادیانے نہ بجاتے اور اشتہاروں پر اشتہار نہ دیتے کہ دیکھو آسمانی نشان ظاہر ہو گیا بس چونکہ یہی نشان علماء اسلام کے حق میں ظاہر ہو چکا تو پھر آپ کیوں نہیں ضد کو چھوڑتے۔ 24
3۔ سیف چشتیائی:
بعد میں مرزا قادیانی نے اپنی الہامی کتاب "اعجاز المسیح" لکھی جو سورۃ فاتحہ کی عربی تفسیر ہے۔ اور اس کے امتی مولوی احسن امروہی نے "شمس بازغہ" لکھی۔ ان دونوں کتابوں کے رد میں آپ نے سیف چشتیائی تحریر فرمائی۔ اس میں اعجاز المسیح کی صرف ونحو، لغت وبلاغت معانی ومنطق اور محاورہ کی غلطیاں نیز سرقہ، تحریف اور التباس کی ایک سو غلطیوں کی نشاندہی کر کے بتایا کہ یہ کتاب فصاحت وبلاغت کے معیار کو چھو بھی نہیں سکتی اور اسی طرح "شمس بازغہ" کا رد بلیغ فرمایا۔ غالباً سیف چشتیائی کی اشاعت کے بعد ہی ظفر علی خان نے کہا تھا۔
صرف غائب، نحو عنقاء اور سلاست نا پید ان سب اجزا سے مرکب ہے زبان قادیان
مرزا قادیانی کو جب اپنی شکست یاد آتی تو وہ حضرت پیر صاحب پر سب وشتم کرنے لگتا اور "لا تنا بزوا بالالقاب" کے حکم خداوندی کو بھول جاتا۔ ہم مرزا قادیانی کی زبان کی شائستگی کی مثالیں اختصار کی وجہ سے پیش نہیں کر سکتے۔ لیکن صرف اعجاز احمدی میں پیر صاحب کے متعلق ۴۷ اشعار میں جو کچھ کہا گیا ہے اس کی بعض چیزیں پیش کرتے ہیں اور بقیہ باقی کتابوں کو اسی پر قیاس کر لیجئے۔ مثلاً خبیث، ملعون، کمینہ، لئیم، بدبخت، سیاه دل، دیو، متکبر، جھوٹا، دروغ باز، موذی، مفسد، میرا دشمن، شیخ الضلالت، تو، تیری انگلیاں اور تیرا قلم تباہ ہو اے گولڑہ کی زمین تو ملعون کے سبب ملعون ہوگئی۔
ظاہر ہے ایسی پاکیزہ زبان کسی مسیلمہ اور اسود عنسی ہی کے جانشین کی ہو سکتی ہے۔ صاحب خلق عظیم ﷺ کے کسی متبع اور اطاعت گزار کی نہیں ہو سکتی۔ اس کتاب میں مرزا قادیانی نے بڑی عجیب وغریب بات کی ہے پیر صاحب کا ذکر کرتے ہی اسے اپنی شکست یاد آ گئی آپ کو یقین دلانے لگا کہ میں بڑا سچا آدمی ہوں اور میں حقیقتاً آپ سے کہہ رہا ہوں کہ میں اللہ کا فرستادہ ہوں۔ میری کلام وحی ہے۔ آپ میری تکذیب چھوڑ دیں۔ اور جب بالکل عاجز آ گیا تو آپ سے کہنے لگا۔
فان كنت كذابا كما انت تزعم فتعلى وانی فی الانام احقر
(پس اگر میں جھوٹا ہوں جیسا کہ تو گمان کرتا ہے پس تو اونچا کیا جائے گا اور میں لوگوں میں حقیر کیا جاؤں گا۔)
اگر مرزا قادیانی کے اس شعر کو حق وصداقت کا میزان تسلیم کر لیا جائے تو وہ اپنے قول کے مطابق ہی ایک جھوٹا نبی اور کاذب زماں ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ حقیقت آج کسی سے پوشیدہ نہیں کہ مرزا قادیانی کی تعلیمات کو عالم اسلام میں غیر اسلامی قرار دے دیا گیا ہے۔ اس کے پیروکار مرکز اسلام مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں قانوناً داخل نہیں ہو سکتے۔ انہیں پاکستان میں غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا ہے۔ ان پر اذان دینے اور اپنی عبادت گاہ کو مسجد کا نام دینے اور دوسرے اسلامی شعائر کو اپنانے میں پابندی ہے۔ یہودیوں کی طرح ذلت ورسوائی ان کا مقدر ہو چکی ہے اور اب وہ سازشوں کے ذریعہ خود کو باقی رکھے ہوئے ہیں۔ اس کے برعکس پیر صاحب کے نام اور کام کی روز بروز شہرت ہو رہی ہے۔ برعظیم پاک وہند میں جو عزت وشہرت آپ کو حاصل ہے وہ تو مہر نیمروز کی طرح واضح ہے۔ یورپ، فرانس اور افریقی ممالک میں آپ کا چرچا ہے۔ آپ کے نام پر انجمنیں اور جماعتیں قائم ہو چکی ہیں۔ اور دین اسلام کی اشاعت کا کام ہو رہا ہے۔ اس سے مرزا قادیانی کے قول کے مطابق فیصلہ ہو گیا ہے۔ عالم اسلام میں ذلیل ورسوا کون ہے اور مسلمانوں میں صاحب عزت وعظمت کون ہے۔ کس کا نام حقیر ہے اور کس کا نام بلند ہے۔ اس لیے قادیانیوں سے ہماری درخواست ہے کہ وہ مرزا قادیانی کے فیصلہ کے مطابق حق وصداقت کی علمبردار شخصیت پیر صاحب کے معتقدات ونظریات کو قبول کر کے از سر نو اسلام کے حلقہ بگوش ہوں۔ پیر صاحب نے تحفظ ختم نبوت کی جو تحریک شروع کی تھی اور اپنے ارادت مند علماء کرام کی ایک جماعت تیار کی تھی، اسے ملک کے طول وعرض میں پھیلایا۔ علماء کی اس جماعت نے قادیانی مناظرین سے مناظرہ کئے اور انہیں عبرتناک شکستیں دیں اور کشمیر وپنجاب کے طول وعرض میں مرزا قادیانی اور اس کے معتقدات کے خلاف ذہن سازی کی لوگوں میں عقیدہ ختم نبوت وحیات مسیح کو جا گزیں کیا اور اس عجمی نبوت کی سازشوں کو طشت ازبام کیا۔ جس کے نتیجے میں کشمیر اور پنجاب کا عام دیہاتی بھی عقیدہ ختم نبوت کا فدائی بن گیا۔
۱۹۵۳ء میں جب تحریک ختم نبوت کا عوامی انداز میں آغاز ہوا تو گولڑوی عوام وعلماء صف اول میں تھے۔ قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں، اسی طرح ۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت میں گولڑوی عوام وعلماء کا کردار اظہر من الشمس تھا۔ ان دونوں تحریکوں کے دوران دربار عالیہ گولڑہ شریف کے سجادہ نشین حضرت شاہ غلام محی الدین قدس سرہ نے اپنے ارادت کیشوں اور عقیدت مندوں کو خصوصی ہدایات جاری کیں اور خود خانقاہ تحریک ختم نبوت کا ایک بڑا مرکز رہی۔
حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب نے رد قادیانیت کیلئے جو فیصلہ کن عملی کردار ادا کیا وہ تو اظہر من الشمس ہے مگر حضرت کے تحریری علمی کام نے بھی مرزائی تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔ ایک طرف حضرت کے مریدین وتلامذہ کشمیر وپنجاب کے کونے کونے میں مرزائیت کے تعاقب میں مشغول تھے دوسری طرف حضرت کی تصانیف نے مرزائیت کی زندگی اجیرن کر دی تھی۔ اپنے تو اپنے غیر بھی حضرت کی تصانیف کی افادیت کے قائل اور عقیدہ حیات کے پرنس ہدایت، سیف چشتیائی اور فتاویٰ مہریہ کو فیصلہ کن تحریر سمجھتے تھے۔ مشہور غیر مقلد مناظر مولوی حبیب اللہ امرتسری، حکیم خدا بخش قادیانی کی کتاب "غسل مصفّٰی" پڑھ کر حیات عیسیٰ کے بارے میں شکوک وشبہات کا شکار ہو گیا ان شبہات کے ازالہ کے لیے اس نے مولوی ثناء اللہ امرتسری ومولوی داؤد غزنوی اور دیگر غیر مقلد علماء سے رجوع کیا مگر کوئی بھی تسلی بخش جواب نہ دے سکا۔ مگر جب اس کی نگاہ سے حضرت کی تصانیف گزریں تو وہ لکھنے پر مجبور ہو گیا کہ مرزائیوں کی کتاب "غسل مصفّٰی" پڑھ کر میرے دل میں قسم قسم کے شکوک پیدا ہو گئے تھے مگر الحمد للہ جناب کی تصانیف "سیف چشتیائی" اور "شمس الہدایت" نے میرے مذبذب دل میں تسلی بخش امرت ٹپکایا۔ نیز چند مرزائیوں نے اسے پڑھا چنانچہ حکیم الہٰی بخش مع اپنے لڑکے کے آخر مرزائیت سے توبہ کر گئے اور اسلام پر فوت ہوئے۔
مشہور دیوبندی عالم مولوی اشرف علی تھانوی نے اپنی تفسیر بیان القرآن میں سوره نساء آیت ۱۵۷ کے ذیل میں حیات وممات مسیح کی بحث میں لکھا کتاب "سیف چشتیائی" قابل مطالعہ ہے۔ شیخ الحدیث دار العلوم دیوبند انور شاہ کشمیری نے اپنی کتاب "عقیدۃ الاسلام فی حیات عیسیٰ " کے دیباچہ میں "سیف چشتیائی" کو مسئلہ حیات مسیح کے موضوع پر ایک کافی وشافی تحریر قرار دیا۔
غلام مصطفیٰ درجہ کمال پر:
1. سیف چشتیائی میں حضرت پیر صاحب نے ابن عساکر کی حدیث نزول ابن مریم درج فرما کر لکھا تھا کہ اس حدیث کے آخر میں حاجاً أو معتمراً وليقفن على قبرى ويسلمن على ولاردن علیه موجود ہے اور ہم پیشین گوئی کرتے ہیں کہ مدینہ زادھا اللہ شرفا میں حاضر ہو کر سلام عرض کرنے اور جواب سے مشرف ہونے کی نعمت قادیانی کو کبھی نصیب نہ ہوگی۔
{p |چنانچہ حضرت پیر صاحب کی یہ پیشین گوئی پوری ہوئی اور مرزا صاحب کو نہ تو حج نصیب ہوا اور نہ مدینہ منورہ کی حاضری۔ جو کہ اس حدیث کی رو سے مسیح موعود کیلئے ایک ضروری نشان ہے کہ عیسیٰ آسمان سے نازل ہونے کے بعد حج ادا کریں گے اور آنحضرت ﷺ کے روضہ پاک پر حاضر ہو کر صلوٰۃ وسلام بھی عرض کریں گے اور آنحضرت ﷺ انہیں جواب سے مشرف کریں گے۔}}
2. مناظرہ لاہور کے موقع پر مرزائیوں نے حضرت پیر صاحب سے کہا کہ آپ مرزا قادیانی سے مباہلہ کیوں نہیں کر لیتے ایک اپاہج کی بحالی کیلئے مرزا قادیانی دعا کرے اور ایک اپاہج کی بحالی کیلئے آپ دعا فرمائیں جس کے نتیجے میں حق وباطل واضح ہو جائے گا۔ یہ بات سن کر آپ کا ہاشمی خون جوش میں آگیا۔ آپ نے فرمایا کہ "مرزا قادیانی سے کہہ دو اگر مردے بھی زندہ کرنے ہوں تو یہ غلام خاتم النبیین ﷺ حاضر ہے۔" آپ کا یہ جواب سن کر ملت مرزائیہ کو سانپ سونگھ گیا۔
3. دوسری بات جو حضرت پیر صاحب نے مناظرہ لاہور کے وقت ارشاد فرمائی تھی اور اس کا بڑا چرچا ہوا، آپ نے مرزا قادیانی کی طرف سے تحریری مناظرہ کی دعوت اور فصیح عربی نویسی کی تعلی کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ علماء کرام کا اصل مقصد تحقیق حق اور اعلائے کلمۃ اللہ ہوا کرتا ہے نہ کہ فخر مباہات، ورنہ نبی اکرم ﷺ کی امت میں اس وقت بھی ایسے غلام موجود ہیں کہ اگر قلم پر توجہ ڈالیں تو وہ خود بخود کاغذ پر تفسیر قرآن لکھ جائے۔ ظاہر ہے حضرت پیر صاحب کا یہ اشارہ اپنی طرف ہی تھا۔
4. ۱۹۰۰ء میں مناظرہ لاہور میں منہ کی کھانے اور سیف چشتیائی کا کوئی معقول جواب نہ دینے کے بعد مرزا قادیانی نے ۱۹۰۷ء میں حسب عادت پیر صاحب سے چھیڑ خانی شروع کی اور ایک پیشین گوئی داغی کہ "جیٹھ" کے مہینے تک پیر صاحب قبلہ اس دار فانی سے کوچ کر جائیں گے اس پیشین گوئی کا چرچا سن کر حضرت کے محبین میں بے چینی پیدا ہوئی کہ کہیں کوئی قادیانی حضرت پر حملہ نہ کر دے۔ استدعا کی گئی کہ حفاظت کا کوئی معقول انتظام کر لیا جائے۔ حضرت نے محبین کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ میاں موت تو برحق ہے ہر کسی کو مرنا ہے مگر تسلی رکھو، اس جیٹھ ہم نہیں مرتے۔ خدا کی شان غلام خاتم النبیین کی زبان سے نکلا ہوا لفظ کس طرح بارگاہ رب میں قبول ہوتا ہے کہ جب جیٹھ کا مہینہ آیا تو مرزا قادیانی لاہور میں ہیضہ میں مبتلا ہو کر عبرتناک موت کا شکار ہو گیا اور سیال شریف عرس مبارک کی تقریب میں حضرت پیر صاحب نے میاں محمد قریشی جنہوں نے حفاظت کی استدعا کی تھی سے فرمایا۔ الجیٹھ بالجیٹھ یعنی جیٹھ جیٹھ سے بدل گیا۔ (ہماری موت کی پیشن گوئی کرنے والا عین اس جیٹھ میں پر ذلت آمیز انجام کا شکار ہوا)
پیر صاحب کا وصال ۲۹ صفر ۱۳۵۶ھ بمطابق 11 مئی 1937ء، کو ہوا، اور آپ کی تدفین پاکستان کے دار الحکومت اسلام آباد کے مشہور قصبہ گولڑہ میں ہوئی۔ آج بھی آپ کا مزار فائض الانوار حضور خاتم النبیین ﷺ کی ختم نبوت کے تحفظ کی روشن دلیل ہے۔