مولانا مرتضیٰ احمد میکش درانی ابن مرید احمد خاں، ابتدائے محرم ۱۳۱۷ھ بمطابق ۱۸۹۹ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے اجداد میں سے جناب گل محمد جن کا تعلق افغان قوم کے قبیلہ محمد زئی درانی سے تھا، ۱۸۰۰ء میں افغانستان سے ہجرت کر کے قریہ بہدم مضافات جالندھر میں تشریف لے آئے تھے۔
مولانا میکش نے ابتدائی تعلیم اپنے والد بزرگوار سے حاصل کی۔ بعد ازاں جالندھر کے اسکول میں پڑھتے رہے پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے لاہور کے کالج میں داخلہ لیا اور دو سال تک مصروف تحصیل رہے۔ ۱۹2۰ء میں تحریک آزادی کی خاطر کالج کو خیر باد کہہ کر کابل چلے گئے اور ایک سال بعد واپس لاہور آگئے اور ۱۹۲۲ء سے ۱۹۵۵ء تک مختلف روزناموں میں ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کیا۔ علمی، ادبی اور آزادی کی تحریکوں میں نہایت سرگرمی سے حصہ لیتے رہے۔ ہفت روزہ افغانستان (جو فارسی میں شائع ہوتا تھا) میں انگریزی استعمار کے خلاف مقالات لکھنے کی بناء پر ۱۹۳۱ء میں ایک سال تک جیل میں رہے لیکن جیل سے واپس آنے پر بھی ان کی ادبی وسیاسی دلچسپی میں کوئی فرق نہ آیا۔ مولانا میکش نے لاہور سے نکلنے والے روزناموں مثلاً زمیندار، احسان، شہباز، مغربی پاکستان اور نوائے پاکستان میں رئیس التحریر کی حیثیت سے کام کیا۔ انہوں نے صحافتی فرائض انجام دینے کی ضمن میں تن تنہا سنگا پور، ملایا اور برما کا سفر کیا۔
مولانا میکش اپنے دور کے نامور اور بے باک صحافی تھے۔ شیخ اسماعیل پانی پتی لکھتے ہیں:
"اپنے زمانے میں لاہور کی صحافت میں ان کا طوطی بولتا تھا۔"
آپ نے زندگی کے آخری ایام بڑی عسرت میں گزارے مگر عزم واستقلال میں فرق نہ آیا۔ حضرت حافظ مظہر الدین فرماتے ہیں: "مولانا مرتضیٰ احمد خان میکش نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں مجھ سے فرمایا تھا کہ ایک دن میں اپنی زندگی کی ناہمواریوں سے تنگ آ کر پریشان بیٹھا تھا کہ خضر آئے اور مجھے تسکین دے کر چلے گئے۔"
مولانا میکش مایہ ناز صحافی، بلند پایہ ادیب، ملت اسلامیہ کے بے باک ترجمان اور تحریک آزادی کے سرگرم رکن تھے۔ جمعیت علماء پاکستان کے مشیر قانون اور قائد تحریک ختم نبوت مولانا ابو الحسنات قادری کے رفیق خاص تھے۔ ۱۹۴۶ء میں جب بنارس میں آل انڈیا سنی کانفرنس منعقد ہوئی تو مولانا ابو الحسنات خاص طور پر آپ کو اپنے ساتھ لے گئے۔ وہاں مولانا میکش خصوصی اجلاسوں میں شریک ہوئے اور متعدد قراردادیں پیش کیں جو اتفاق رائے سے منظور کی گئیں۔
مولانا میکش قادر الکلام شاعر تھے۔ مادری زبان فارسی ہونے کی وجہ سے آپ کا کلام فارسی میں ہے۔ آپ نے متعدد کتابیں بھی لکھیں جن میں سے درج ذیل طبع ہو چکی ہیں۔
1. الہامی افسانے
2. اخراج اسلام از ہند
3. تقدیر وتدبیر
4. تاریخ اقوام عالم
5. تاریخ اسلام
6. اسلام اور معاشی اصطلاحات
7. دو دل (مجموعہ کلام اردو، مجموعہ کلام فارسی غیر مطبوعہ)
حضرت محدث اعظم ہند کچھوچھوی قدس سرہ نے آپ ہی کے سوالات پر تقوی القلوب قلمبند فرمائی تھی۔ ۲۷ جولائی ۱۳۷۹ھ ۱۹۵۹ء کو مست شراب الست ہو کر راہی دار آخرت ہوئے۔
تحفظ عقیدہ ختم نبوت اور رد مرزائیت کے سلسلے میں مولانا مرحوم کی مندرجہ ذیل مستقل تصانیف بھی منصۂ شہود پر آچکی ہیں۔
1۔ البرز شکن گرز عرف مرزائی نامہ:
مولانا مرحوم نے ۱۹۳۸ء میں روزنامہ "احسان" میں اشتہار دیا کہ مرزائیوں کو دین اسلام کی حقیقت سمجھنے میں اگر کوئی دشواری ہو تو وہ مجھ سے رابطہ کریں میں تسلی بخش جواب دوں گا۔ اس سلسلہ میں مرزائی استفسارات موصول ہونا شروع ہو گئے اور آپ روزنامہ "احسان" اور "زمیندار" میں ان کے تسلی بخش اور جامع جوابات لکھتے رہے۔ بعد میں ان تمام مضامین کو کتابی شکل میں یکجا کر کے "البرز شکن گرز عرف مرزائی نامہ" کے تاریخی نام سے شائع کر دیا گیا۔
2۔ پاکستان میں مرزائیت:
اس کتاب میں پاکستان میں مرزائیت کے پھیلنے سے متوقع نقصانات، مرزائیوں کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے ناپاک منصوبے، مرزائیوں کی ہوس اقتدار پر ذہنی تربیت کا عکس، ایک مکمل ریاست کی طرح مرزائیوں کے محکمے غرضیکہ قادیانیت کو مذہبی لبادہ سے باہر لا کر اس کی سیاسی حقیقت کو عیاں کیا گیا ہے۔ قادیانیت کے سیاسی خدوخال اس وقت تک سامنے آ ہی نہیں سکتے جب تک اس کتاب کا مطالعہ نہ کر لیا جائے۔
3۔ قادیانی سیاست:
اس مختصر رسالے میں قادیانی سیاست کی منافقانہ کشتی کو بھنور میں پھنسا ہوا دکھایا گیا ہے۔
4۔ کیا پاکستان میں مرزائی حکومت قائم ہوگی؟
اس مختصر رسالے میں پاکستان میں مرزائیوں کی حکومتی معاملات میں ریشہ دوانیوں اور سازشوں کے سبب رونما ہونے والے واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے ارباب اقتدار کو متنبہ کرنے کی خاطر یہ سوال قائم کیا ہے کہ کیا پاکستان میں مرزائی حکومت قائم ہوگی؟
5۔ محاسبہ:
رسوائے زمانہ منیر رپورٹ پر آپ نے نہایت جامع اور بلیغ تبصرہ فرمایا تھا۔ اس تبصرہ کو "محاسبہ" کے نام سے شائع کیا گیا۔