ابو الفضل مولانا محمد کرم الدین دبیر ۱۲۶۹ھ میں موضع بھیں چکوال میں پیدا ہوئے۔ دوسرے علماء کرام کے علاوہ آپ نے حضرت مولانا فیض الحسن سہارنپوری اور حضرت علامہ احمد علی محدث سہارنپوری سے علم کی تحصیل کی۔ آپ ایک جید عالم دین تھے۔ فن مناظرہ میں بے مثل وبے نظیر تھے۔ تقریر وتحریر اور مناظروں سے مذاہب باطلہ کا بھر پور رد کیا۔ شیعہ کے مشہور مناظر مرزا احمد علی اور دوسرے شیعہ علماء سے مناظرے کئے۔
اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کی کتاب حسام الحرمین (جس میں بعض علماء دیوبند پر فتویٰ تکفیر صادر کیا گیا ہے جس کی تائید علماء عرب نے بھی کی) کے مندرجات کی تائید کی اور رد وہابیت آپ کی زندگی کا محبوب مقصد تھا۔ حضرت میاں بخش کھڑی شریف میر پور کشمیر کی کتاب ہدایت المسلمین کی مبسوط تقدیم لکھی جس میں آپ لکھتے ہیں:
ہے نکلی نجد سے اول یہ آفت پھر آ پہنچی یہ در ہندوستان ہے
بنی شاخیں بہت اس کی یارو گرو سب کا مگر نجدی میاں ہے
کوئی مرزائی کوئی نیچری ہے کوئی چکڑالوی اہل القرآن ہے
مچایا دین میں فتنہ انہوں نے پڑا ایک شور سا اندر جہاں ہے
حضرت مولانا دبیر اہلسنت کی شمشیر بے نیام تھے۔ مرزا قادیانی کی تردید میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ ہفت روزہ "سراج الاخبار" کے ذریعے ایک عرصہ تک قادیانی کا تعاقب جاری رکھا۔
علامہ موصوف کو قادیانیوں کے خلاف مقدمہ بازی کی وجہ سے پورے برصغیر میں شہرت دوام حاصل تھی۔ آپ کے قادیانیوں سے متعدد مقدمات عدالت ہائے مسلم گورد اسپور اور سیالکوٹ وغیرہ میں ہوئے۔ آپ نے اپنے مقدمات کی مفصل روئیداد اپنی کتاب "تازیانہ عبرت معروف بہ متنبی قادیان قانونی شکنجہ میں" میں قلمبند فرما دی ہے۔
تازیانہ عبرت کے آغاز میں "باعث اشاعت" کے عنوان کے تحت آپ رقم طراز ہیں:
"آج سے تقریباً اٹھائیس سال پہلے چند فوجداری مقدمات میرے اور مرزائیوں کے درمیان جہلم وگورد اسپور میں ہو گزرے ہیں ان میں سے ایک مقدمہ میں مرزا قادیانی تقریباً دو سال تک سر گرداں رہا۔ آخر عدالت سے سزا یاب ہو گیا اور اپیل میں بڑے مصارف کے بعد ایک انگریزی وکیل کی خدمات سے بمشکل سزا معاف کروائی۔ ان مقدمات کی روداد اکثر اخبارات بالخصوص سراج الاخبار جہلم میں شائع ہوتی رہی ہے۔ پھر احباب کے اصرار پر علیحدہ کتابی صورت میں بھی چھاپی گئی جو اس وقت ہاتھوں ہاتھ بک گئی۔ چونکہ نتائج مقدمات مرزائی جماعت کے حسب مراد نہ تھے اس لیے مرزائیوں نے کوئی روداد وغیرہ شائع نہ کی۔ لیکن بعد میں مرزائی قادیانی نے حسب عادت اپنی کتب نزول المسیح اور حقیقۃ الوحی وغیرہ میں ان مقدمات کو بھی اپنی پیش گوئیوں اور نشانات میں داخل کیا۔ اس کے حواری مولوی محمد علی اور مرزا محمود علی نے بھی اپنی بعض کتب میں ان مقدمات کا ذکر پیرائے میں کیا۔ چونکہ مرزا قادیانی خود تھوڑے عرصے بعد ہی راہ گیر عالم جاودانی ہو گیا تھا اس لیے ہم نے اس بارے میں سکوت اختیار کیا لیکن بعض احباب نے جب مرزائیوں کی وہ لن ترانیاں سنیں تو انہوں نے اصرار کیا کہ روداد مقدمات دوبارہ شائع کی جائے اور عوام کو اصل حقیقت سے آگاہ کر دیا جائے کہ مقدمات کے نتائج وعواقب مرزا قادیانی اور اس کی جماعت کے حق میں باعث کامیابی نہیں بلکہ انتہائی ذلت کا باعث تھے۔ اگر صحیح کیفیت دوبارہ شائع نہ کی جائے تو نا واقف اشخاص کو بہت مغالطہ ہوگا اس لیے اب یہ روداد مکرر بہت ہی ترمیم اور اضافہ جات کے ساتھ شائع کی جاتی ہے۔ کتاب کا مطالعہ قارئین کی دلچسپی کا باعث ہوگا اور ممکن ہے کہ کوئی طالب حق مرزائی اسکو پڑھ کر راہ راست پر آ جائے۔ (تازیانہ عبرت)
ایک انتہائی اہم بات جو ان مقدمات میں سامنے آئی وہ مرزائی قادیانی اور اس کے چیلوں کی راست بازی کی حقیقت کا عوام کے سامنے کھل کر آنا تھا۔ اس سلسلہ میں مولانا کرم الدین دبیر صاحب کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں:
ان مقدمات نے بہت بڑا راز جو کھولا وہ مرزا قادیانی کی صداقت کی قلعی کھولنا ہے۔ مرزا قادیانی نے اپنے حلفی بیانات میں جو عدالت میں اس نے لکھائے بہت جھوٹ بولے ہیں جنکی مکمل فہرست ہم اس روداد کے آخر میں ہدیہ قارئین کریں گے اور ساتھ ہی ان کے بعض ارکان نے جو کچھ غلط بیانیاں کیں ان کی بھی فہرست دیں گے تاکہ پبلک اس امر سے پورا فائدہ اٹھائے کہ جو شخص عدالت میں حلفی بیانات میں جھوٹ بولے وہ کبھی بھی خدا کا راستباز بنده، ولی یا امام ونبی نہیں ہو سکتا۔ ہم ان بیانات سے ثابت کریں گے تاکہ سوچنے والوں کو مرزا قادیانی کے دعویٰ مسیحت ونبوت کے صدق وکذب کا معیار مل سکے۔ ایسے مقدمات میں جرمانہ کا ہونا یا نہ ہونا یا معاف ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں ہوتی۔ ایسے واقعات ہمیشہ ہوتے رہتے ہیں۔ سب سے اہم بات ایسے مواقع پر کذب وصدق کا پرکھنا ہوتا ہے جو ان مقدمات میں ظاہر ہو چکا ہے۔ (تازیانہ عبرت)
اسلام کے یہ بطل جلیل عقیدہ اہلسنت وجماعت کے محافظ تحریک ختم نبوت کے روح رواں اپنی عمر کے چھیانوے سال مکمل کرنے کے بعد ۱۸ شعبان ۱۳۶۵ھ کو اس جہان فانی سے کوچ فرما گئے۔ موضع بھیں ضلع چکوال میں آپکی آخری آرام گاہ ہے۔