Khatam e Nabuwat

علامہ ابو الاسد مفتی آگرہ محمد عبد الحفیظ حقانی حنفی

حالات زندگی:

حضرت علامہ مولانا محمد عبد الحفیظ ابن مولانا عبد المجید قدس سرہما محلہ مداری دروازہ بریلی میں پیدا ہوئے تاریخی نام حفظ الرحمٰن (1318ھ / 1900ء) تجویز ہوا۔ ابتدائی تعلیم وتربیت ان کے وطن میں ہوئی قرآن پاک کی تعلیم استاذ الحفاظ مولانا حافظ محمد عیوض مرحوم سے حاصل کی۔ بعد ازاں والد ماجد سے فارسی اور عربی کی تعلیم شروع ہوئی۔ 1913ء میں والد ماجد کے ہمراہ ٹانڈہ چلے آئے۔ والد ماجد اس قدر محنت سے پڑھاتے کہ ریل کے سفر کے دوران بھی سبق جاری رہتا۔ مولانا مفتی عبد الحفیظ حقانی قدس سرہ بے حد ذہین اور محنتی تھے۔ ۷ سال کی عمر میں اکثر وبیشتر علوم وفنون کی تحصیل کر لی۔ کچھ عرصہ لکھنؤ میں حضرت مولانا عبد الباری فرنگی محلی قدس سرہ کی خدمت میں رہ کر سراجی شرح چغمینی اور منطق وفلسفہ کی بعض کتابیں پڑھیں۔

۱۹۲۰ء میں حضرت مفتی صاحب مبارکپور اعظم گڑھ کے مدرسے میں مدرس مقرر ہوئے۔ ۱۹۲۴ء میں آپ کی شادی بدایوں میں ہوئی۔ اسی سال والد ماجد نے مدرسہ منظر حق ٹانڈہ میں اپنے پاس بطور مدرس بلا لیا۔ ۱۹۲۶ء میں مدرسہ حمیدیہ بنارس میں صدر مدرس مقرر ہو گئے۔ ۱۹۳۰ء میں بعض احباب کی درخواست پر (پنجاب) چلے آئے۔ ۱۹۳۴ء میں انجمن تبلیغ الاحناف کی دعوت پر امرتسر تشریف لے گئے اور مسجد سکندر خاں، ہال بازار میں خطابت کے فرائض انجام دیتے رہے۔ اس علاقے میں مرزائیوں کی سرگرمیاں عروج پر تھیں۔ مفتی صاحب نے ان کے رد میں ایک جامع کتاب "السيوف الكالمیہ لقطع الدعاوى الغلامیہ" تحریر فرمائی۔ دوسرا رسالہ "الحسنى والمزید لمحب التقلید" لکھا۔ جس میں تقلید شخصی کے وجوب پر بہترین انداز میں گفتگو فرمائی۔ غیر مقلد سے آپ کا مناظرہ ہوا۔ جس میں آپ کو نمایاں کامیابی ہوئی۔ اس دوران ملتان میں شیر بیشہ اہلسنت مولانا حشمت علی خاں کا مناظرہ مولوی ابو الوفاء شاہجہاں پوری سے ہوا۔ اہلسنت کی طرف سے مولانا محمد عبد الحفیظ اور دیوبندیوں کی طرف سے مولوی عطاء اللہ شاہ بخاری صدر تھے۔ اس مناظرے میں بھی مخالفین کو شکست ہوئی۔ اس کامیابی پر مخدوم صدر الدین سجادہ نشین درگاه حضرت حافظ جمال الدین موسیٰ پاک شہید قدس سرہ (ملتان) نے آپ کو ایک قیمتی تحفہ عطا فرمایا۔

۱۹۳۶ء میں حضرت مفتی عبد الحفیظ مدرسہ نعمانیہ فراش خانہ دہلی شیخ الحدیث مقرر ہوئے۔ اگست، ۹۳۹ ۱ءمیں جامع مسجد آگرہ کے خطیب اور مفتی مقرر ہوئے۔ اور ۱۹۵۵ء تک وہیں رہے۔

آپ کو قدرت نے بے شمار خوبیوں سے نوازا تھا۔ تقریر فرماتے تو دلائل کا انبار لگا دیتے۔ تدریس کے وقت علم وفضل کے دریا بہا دیتے۔ حکیم عبد الغفور مؤلف سوانحات المتاخرین، آنولہ لکھتے ہیں:

مولوی عبد الحفیظ، مولوی عبد المجید صاحب مرحوم کے بڑے صاحبزادے ہیں اور ہر بات میں باپ پر سبقت ہے۔ علم میں، واعظ گوئی میں، جسم کی زینت میں، خوبصورتی میں، غرض یہ کہ ہر بات میں باپ پر فوقیت حاصل ہے۔ حضرت مفتی صاحب نے تدریس، خطابت اور مناظرے کی گوناگوں مصروفیات کے باوجود تصانیف کا قابل قدر ذخیرہ چھوڑا ہے۔

رد مرزائیت:

رد مرزائیت پر آپ کی مدلل کتاب "السيوف الكلامیۃ لقطع الدعاوى العلامیۃ" جو سلسلہ "عقیدہ ختم نبوۃ" میں شامل کی گئی ہے۔ رد مرزائیت پر آپ کی دوسری تصنیف "مرزائیت پر تبصرہ (خاتم النبیین کا صحیح مفہوم)" ہے۔

دیگر تصانیف:

آپ کی دیگر تصانیف درج ذیل ہیں۔

1۔ تکمیل الایمان (عقائد اہلسنت پر مختصر رسالہ)

2۔ الحسنى والمزید لمحب التقليد (تقلید شخصی کے وجوب پر بہترین رسالہ)

3۔ علم غیب

4۔ عقائد حقہ اہلسنت وجماعت

5۔ کلمہ اسلام (کلمہ طیبہ کی شرح وتفصیل)

6۔ عبادت اسلام (اس رسالے میں نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور قربانی وغیرہ کی شرعی حیثیت بیان کی گئی ہے)

7۔ تہافۃ الوہابیہ (وہابی اور دیوبندی معتقدات کو اہلسنت وجماعت کے عقائد کی روشنی میں باطل ومردود قرار دیا ہے)

8۔ ریڈیو کے اعلان کا شرعی طریقہ (روئیت ہلال کے بارے میں مشروط طور پر تائید فرمائی ہے) (غیر مطبوعہ)

9۔ نماز میں لاؤڈ اسپیکر کا استعمال (غیر مطبوعہ)

10۔ صیانۃ الصحابہ عن خرافات بابا (بابا خلیل داس سوانی کے رسائل کا رد)

11۔ متروکہ جائداد پر مساجد

12۔ مجموعہ فتاویٰ (قیام کراچی کے دوران جو فتوے قلمبند فرمائے ان کا مجموعہ)

13۔ ارغام ہاذر (ماہر القادری کے اہل سنت وجماعت پر اعتراضات کا جواب)

ان کے علاوہ آپ کی تصانیف میں شمع ہدایت اور مودودی پر تنقید کے نام بھی ملتے ہیں۔ حضرت مفتی صاحب ۱۹۵۵ء میں کراچی تشریف لائے۔ ابتداء جناح مسجد میں مفتی وخطیب رہے۔ پھر مدرسہ دار العلوم مظہریہ کے شیخ الحدیث مقرر ہوئے۔ نومبر 1957ء میں مدرسہ انوار العلوم ملتان میں بحیثیت شیخ الحدیث تشریف لے گئے۔

۱۹ جون ۱۹۵۸ء کو جامعہ نعیمیہ، لاہور کے افتتاحی جلسہ میں شرکت کے لیے تشریف لے گئے۔ ۲۱ جون کو واپسی ہوئی۔ راستہ ہی میں ریاحی درد شروع ہو گیا۔ 5 ذو الحجہ، ۲۳ جون ۱۳۷۷ھ/ ۱۹۵۸ء کو مفتی آگرہ حضرت علامہ محمد حفیظ قدس سرہ کا وصال ہو گیا۔ ملتان میں قبرستان حسن پروانہ میں دفن ہوئے۔ حضرت مولانا محمد حسن حقانی مہتمم دار العلوم امجدیہ کراچی وایم، بی، اے صوبہ سندھ آپ ہی کے فرزند ارجمند اور اہل سنت وجماعت کے مایہ ناز عالم دین ہیں۔

مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا سید ابو البرکات مد اللہ ظلہ القدس نے تعزیتی مکتوب میں تحریر فرمایا:

حضرت مولانا مولوی عبد الحفیظ صاحب کی وفات حسرت آیات کی خبر وحشت اثر سے بے حد رنج وملال لاحق ہوا۔ مولیٰ تعالیٰ مرحوم کو غریق رحمت فرمائے۔ اس پر فتن اور پر آشوب زمانہ میں مولانا کا ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہونا نا قابل تلافی نقصان ہے۔

آہ مولوی عبد الحفیظ آپ کی ایمان افروز اور ضلالت سوز تقریریں یاد آ کر دل کو بے چین کرتی ہیں۔ آپ کی سالہا سال کی محبت بھری صحبتیں یاد آ کر دل کو تڑپاتی ہیں۔

پروفیسر حامد حسن قادری نے قطعہ تاریخی کہا:

مفتی عبد الحفيظ صاحب آج پردہ فرما کے حق سے ہیں واصل

نیک دل نیک طبع نیک اوصاف سر بسر پاک جان وروشن دل

واعظ خوش بیان وبحز علوم صاحب فیض وفاضل کامل

تربت پاک ان کی نورانی رشک خلد ان کی اولیں منزل

قادری نے بھی ان کا سال وصال لکھدیا "وصل ذات کا حاصل"

(۱۳۷۷ھ)

Powered by Netsol Online