رئيس العلماء تاج الاذكياء حجۃ الاسلام حضرت علامہ شاہ حامد رضا خاں کی ولادت شریف ماہ ربیع الاول ۱۲۹۲ھ / ۱۸۷۵ء میں مرکز اہلسنت بریلی شریف کی سرزمین پر ہوئی۔ آپ امام اہلسنت سیدنا اعلیٰ حضرت کے فرزند اکبر ہیں۔
حجۃ الاسلام نے جملہ علوم وفنون اپنے والد ماجد سے پڑھے اور انیس سال کی عمر میں فارغ التحصیل ہوئے۔ آپ کو شرف بیعت وخلافت نور العارفین سیدی ابو الحسین احمد نوری سے حاصل ہے۔ اور والد ماجد امام اہلسنت سے بھی آپ کو خلافت واجازت حاصل تھی۔
آپ امام اہلسنت اور حضرت نور العارفین کے فیوض وبرکات کے مجمع البحرین تھے جو چرخ دنیائے ولایت وفقاہت پر نیر تاباں کی طرح نور بار ہوئے۔ آپ کا چہرہ اقدس مہبط انوار ربانی تھا۔ ہزاروں غیر مسلم صرف آپ کی زیارت سے ہی مشرف بہ اسلام ہوئے۔ فصاحت وبلاغت میں ایسا ملکہ تھا کہ حاضری حرمین شریفین کے موقع پر حضرت شیخ سید الحسن دباغ اور سید مالکی ترکی نے ان الفاظ میں خراج تحسین فرمایا کہ:
"ہم نے ہندوستان کے اطراف واکناف میں حجۃ الاسلام جیسا فصیح وبلیغ نہیں دیکھا"
آپ اپنے دور کے بے نظیر مدرس، ولی کامل فقیہ اکبر تھے۔ مصروفیات سے اگر چند لمحات کی فرصت بھی میسر آتی تو ذکر الہٰی اور درود شریف میں مصروف ہو جاتے۔ آپ کے جسم اقدس پر ایک پھولا ہو گیا جس کا آپریشن ناگزیر تھا۔ ڈاکٹر نے بے ہوشی کا انجیکشن لگانا چاہا تو یہ کہہ کر منع فرمایا کہ نشہ والا ٹیکہ میں نہیں لگواؤں گا۔ اللہ اکبر استقامت کا یہ عالم تھا کہ آپریشن کے دو تین گھنٹہ کے دورانیے میں حضرت درود شریف کا ورد کرتے رہے اور ایک سسکی بھی آپ کے لبوں سے نہ نکلی آپ کی استقامت کو دیکھ کر ڈاکٹر بھی ششدر رہ گئے۔
شدھی تحریک نے سرزمین ہند میں ایک بہت بڑا فتنہ بپا کیا اس کا مشن یہ تھا کہ یہاں کے مسلمانوں کو ہندو بنا دیا جائے اور اس مقصد کے لیے سرمایہ دار ہندووں اور تمام اسلام مخالف قوتوں نے جانی اور مالی طور پر ان کی مدد بھی کی۔ لیکن حجۃ الاسلام نے ایسے عالم میں اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر جگہ جگہ دورے کر کے امت مسلمہ کو بیدار فرمایا اور اس انداز سے جدوجہد فرمائی کہ یہ تحریک اپنے مقصد میں ناکام ہوگئی۔ غرض قادیانی، رافضی وہابی فتنہ ہو یا ہندو اور عیسائیوں کا اسلام پر حملہ آپ نے سب کی سرکوبی فرمائی۔
حضرت حجۃ الاسلام کے خلفاء اور تلامذہ کی فہرست طویل ہے ان میں سے چند مشاہیر یہ ہیں۔ حضرت محدث اعظم پاکستان مولانا سردار احمد لائلپوری، حضرت مجاہد ملت مولانا شاہ حبیب الرحمن صاحب، حضرت مولانا شاہ رفاقت حسین صاحب، شیر بیشہ اہلسنت حضرت مولانا حشمت علی خاں صاحب، مفسر اعظم ہند حضرت ابراہیم رضا خاں جیلانی میاں صاحب، حضرت حماد رضا خاں، شیخ الحدیث حضرت مولانا احسان علی صاحب فیض پوری، شیخ الحدیث والتفسیر حضرت علامہ عبد المصطفیٰ الازہری، علامہ مولانا حضرت مفتی تقدس علی خان، شیخ القرآن علامہ عبد الغفور ہزاروی ۔
حضرت حجۃ الاسلام کے دو صاحبزادے اور چار صاحبزادیاں تھیں۔
صاحبزادوں کے نام یہ ہیں: (۱) حضرت مفسر اعظم ہند علامہ ابراہیم رضا خاں صاحب (۲) حضرت علامہ حماد رضا خان صاحب۔
وہ لوگ بہت ہی ذی شان ہوتے ہیں جن کی سانسیں ذکر الہٰی میں ہی منقطع ہوتی ہیں۔ حضرت حجۃ الاسلام بھی ایسی ایک منفرد ہستی کے حامل تھے جن کی ساری زندگی یاد الہٰی میں صرف ہوئی، جن کے دیدار سے ہی ہزاروں لاکھوں غیر مسلم دولت ایمانی سے مالا مال ہوئے۔ اور جب 17 جمادی الاول ۱۳۶۲ھ مطابق ۲۳ مئی ۱۹۴۲ء کو اس دنیا سے پردہ فرمایا تو حالت نماز دوران تشہد رب کی کبریائی اور رسالت حبیب ﷺ کی گواہی دیتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوئے۔
بقول امام حسن رضا خاں بریلوی:
جب تیری یاد میں دنیا سے گیا ہے کوئی جان لینے کو دلہن بن کے قضا آئی ہے۔
آپ کے مرید خلیفہ خاص حضرت محدث اعظم مولانا سردار احمد لائکپوری صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی اور امام اہلسنت کے قرب میں تدفین ہوئی جہاں آج بھی آپ کی قبر اقدس مرجع خلائق ہے۔ باری تعالیٰ ہمیں بھی حجۃ الاسلام کا فیضان نصیب کرے۔
الصارم الربانی على اسراف القایانی، حاشیہ کنز المصلی مصنفہ مولانا سید پرورش علی سہسوانی، اجلی انوار الرضا، ترجمہ الدولۃ المکیہ بالماردۃ الغیبیہ
حجۃ الاسلام کی خدمت اقدس میں یعقوب علی خان نامی پولیس کلرک نے ۱۵ رمضان المبارک ۱۳۱۵ھ کو سرساوہ ضلع سہارنپور یوپی سے "حیات مسیح" سے متعلق سوال کیا اور ساتھ ہی نزول عیسیٰ وخروج دجال سے متعلق بھی دریافت کیا۔
حضرت حجۃ الاسلام نے ۲۲ رمضان المبارک ۱۳۱۵ھ کو اس کا مفصل تحریری جواب مکمل فرما کر اس کا تاریخی نام "الصارم الربانى على اسراف القادیانی" تجویز فرمایا۔ اس مدلل جواب میں آپ نے پانچ مقدمات وپانچ تنبیہات میں نزول عیسیٰ پر ۴۳ ، احادیث مبارکہ سے استدلال فرمایا جبکہ رفع عیسیٰ پر قرآن مجید احادیث مبارکہ واقوال مفسرین بمعہ حوالہ جات کے پیش فرمائے ساتھ ہی دلائل عقلیہ سے بھی ان ابحاث کو خوب بسط سے ثابت فرمایا۔
اس رسالے میں آپ نے اپنے والد ماجد امام اہلسنت امام احمد رضا محدث بریلوی کی تین اہم کتب کا تذکرہ بھی فرمایا۔
اس رسالے کے مطالعہ سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ آپ کے علم ومطالعہ میں قادیانی دجال کی اکثر کتب تھیں اور آپ اس فتنے سے بخوبی واقف تھے آپ نے اس کے تمام دلائل کو تار عنکبوت کی طرح بکھیر کر رکھ دیا۔
اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا اپنے رسالہ مبارکہ "السوء والعقاب على المسيح الكذاب" ۱۳۲۰ ھ میں اپنے لخت جگر کے اس رسالے کے متعلق یوں ارشاد فرماتے ہیں: "فقیر کو بھی اس دعویٰ سے اتفاق ہے مرزا کہ مسیح ومثل مسیح ہونے میں اصلاً شک نہیں لا والله نہ مسیح کلمۃ اللہ علیہ صلواۃ اللہ بلکہ مسیح دجال علیہ اللعن وانکال، پہلے اس ادعائے کاذب کی نسبت سہارنپور سے سوال آیا تھا جس کا ایک مبسوط جواب ولد الاعز فاضل نوجوان مولوی حامد رضا خان محمد (حفظہ اللہ تعالیٰ) نے لکھا اور بنام تاریخی "الصارم الربانی علی اسراف القادیانی" مسمّٰی کیا۔