Khatam e Nabuwat

مبلغ اسلام علامہ مولانا شاہ عبد العلیم صدیقی میرٹھی

حالات زندگی:

خاندانی پس منظر:

خلافت راشدہ اور اس کے بعد کے ادوار میں اسلام کے آفاقی پیغام کو کائنات ارضی کی وسعتوں میں پھیلانے کیلئے دیگر بزرگوں کی طرح حضرت سیدنا ابوبکر صدیق کی آل مبارک بھی دنیا کے مختلف ممالک میں پہنچی۔ آپ کی نسل پاک میں سے کچھ لوگ روس کے شہروں سمرقند، بخارا اور خجند میں بھی آکر آباد ہوئے۔ آپ کی اولاد میں سولہویں صدی عیسوی میں خجند میں حضرت صوفی حمید الدین صدیقی خجندی ایک ممتاز مبلغ اسلام گزرے ہیں۔ آپ کی شہرت دور تک پھیلی ہوئی تھی یہاں تک کہ مغل فاتح ظہیر الدین بابر کا بھی آپ کے شاگردوں میں شمار ہوتا تھا۔ جس وقت ظہیر الدین بابر نے ہندوستان پر حملہ کا ارادہ کیا تو اس نے دیگر علماء ومشائخ کے ساتھ آپ کو بھی ہندوستان چلنے کی دعوت دی جو آپ نے قبول کر لی۔ اس طرح ہندوستان میں اس صدیقی خاندان کی آباد کاری کا سلسلہ شروع ہوا۔

انیسویں صدی ہجری میں صوفی حمید الدین صدیقی خجندی کی نسل میں سے میرٹھ میں دو بھائیوں "علامہ عبد الحکیم جوش میرٹھی" اور "مولوی اسمٰعیل میرٹھی" نے بڑی شہرت پائی۔ علامہ عبد الحکیم (پ: ۱۸۰۸ء، م: 1898ء) اپنے زمانے کے درویش صفت ممتاز عالم دین اور شہرت یافتہ نعت گو شاعر تھے۔ کلام میں "جوش" تخلص استعمال فرماتے تھے۔ آپ نے طویل عرصہ تک میرٹھ کی شاہی مسجد میں خطابت کا فریضہ انجام دیا اور رشد وہدایت کا پیغام عام کیا۔ آپ کی نعت کے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔

خوش نصیب ایسی عطا ہوں میری مولیٰ آنکھیں

دیکھیں جی بھر کے جمالِ شہہ بطحہ آنکھیں

ہوں مشرف جو زیارت سے رخِ انور کی

ایسی دے اپنی عنایت سے خدایا آنکھیں

آرزوئے درِ احمد میں جو بیتاب ہے جوش

شوق سے دیکھتی ہیں سوئے مدینہ آنکھیں

اور مولوی اسمٰعیل میرٹھی (م: 1917ء) نے فقط اردو شعر وادب کی خدمت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ مولوی اسمٰعیل میرٹھی کی کئی تحریریں اور نظمیں آج بھی خصوصاً پاکستان میں داخل نصاب ہیں اور میرٹھ میں ان کے نام سے آج بھی سرکاری سطح پر "اسمٰعیل گرلز کالج" قائم ہے۔

۱۸۵۷ء میں جب انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کیا تو علامہ عبد الحکیم جوش میرٹھی جنگِ آزادی کے مجاہدین میں شامل تھے اور اسمٰعیل میرٹھی سر سید کی تحریک کے ہمنوا اور اس کے قریبی ساتھی شمار ہوتے تھے۔

پیدائش:

علامہ عبد الحکیم کو اللہ تعالیٰ نے کئی فرزند عطا فرمائے اور وہ سب اسلام کے عظیم سپوت ثابت ہوئے۔ ان میں سب سے آخری فرزند مبلغ اسلام اور عظیم مفکر حضرت علامہ مولانا شاہ محمد عبد العلیم صدیقی میرٹھی تھے۔ آپ کی پیدائش ۱۵ رمضان المبارک ۱۳۱۰ھ مطابق 3 اپریل ۱۸۹۲ء کو میرٹھ (یوپی، ہند) میں ہوئی۔ آپ کا سلسلۂ نسب اپنے والد کی طرف سے ۳۸ ویں پشت میں خلیفہ اول، یار غار مصطفی سیدنا ابوبکر صدیق سے مل جاتا ہے۔

تعلیم وتربیت:

آپ بچپن ہی سے نہایت ذہین ومحنتی تھے۔ عربی، فارسی، اردو اور دینی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی اپنے والد ماجد سے حاصل کی۔ چار سال دس ماہ کی عمر میں قرآن پاک ناظرہ پڑھ لیا۔ نو سال کی عمر میں جامع مسجد میرٹھ میں پہلی تقریر کی۔ بعد ازاں "دار العلوم عربیہ قومیہ میرٹھ" میں داخل ہوئے، اور ۱۹۰۸ء میں سولہ سال کی عمر میں امتیازی حیثیت سے درس نظامی کی سند حاصل کی۔ ۱۹۱۳ء میں "اٹاوہ ہائی اسکول" سے میٹرک پاس کیا۔ پھر "ڈویژنل کالج میرٹھ" سے وابستہ ہو گئے اور 1916ء میں پچیس سال کی عمر میں امتیازی حیثیت سے بی-اے کی ڈگری حاصل کی۔ آپ نے قانون کی کتابوں کا بھی مطالعہ کیا۔ میرٹھ کے مشہور حکیم احتشام الدین کی صحبت میں بھی رہے اور ان سے فن طب میں کمال حاصل کیا۔ آپ نعت گو شاعر بھی تھے۔ اردو، عربی، فارسی کے علاوہ انگریزی، جاپانی، چینی اور دیگر آٹھ زبانوں پر مکمل عبور حاصل تھا۔

بیعت وخلافت:

اپنے برادر بزرگ، خلیفہ اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد مختار صدیقی (م: ۱۹۳۸ء) کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے۔ اعلیٰ حضرت، امام اہلسنت شاہ احمد رضا خان (م: 1921ء) سے خلافت واجازت حاصل ہوئی اور انہی کے ایماء وارشاد پر اپنی زندگی تبلیغ دین اور خدمت اسلام کیلئے وقف کر دی اور اپنے نجی خرچ پر پیغام اسلام دنیا کے کونے کونے میں پہنچایا۔ ان کے علاوہ حضرت پیر سید علی حسین محدث کچھوچھوی، حضرت مولانا عبد الباری فرنگی محلی (م: ۱۹۲۵ء)، شیخ احمد الشمس مراکشی مغربی (مقیم مدینہ منورہ) اور لیبیا کے صوفی بزرگ شیخ سید شریف احمد السنوسی سے بھی روحانی فیوض وبرکات حاصل کیے۔

امام اہلسنت ومحبت اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خان آپ کو بڑی قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھتے تھے، اپنے تلامذہ وخلفاء کا ذکر کرتے ہوئے اپنے اشعار میں فرماتے ہیں۔

عبدِ علیم کے علم کو سن کر                                    جہل کی بہل بھگاتے یہ ہیں

حضرت شاہ عبد العلیم صدیقی کو سیدی اعلیٰ حضرت سے کمال عقیدت تھی۔ 1919ء میں جب پہلی مرتبہ حج بیت اللہ شریف کی سعادت حاصل ہوئی تو حرمین طیبین کی زیارت سے واپسی پر آپ نے ایک طویل قصیدہ مدحیہ اعلیٰ حضرت کی خدمت میں پیش کیا، جس میں سے چند اشعار درج ذیل ہیں۔

تمہاری شان میں جو کچھ کہوں اس سے سوا تم ہو

قسیم جام عرفاں اے شہِ احمد رضا تم ہو

غريق بحر الفت، مست جامِ بادۂ وحدت

محب خاص، منظورِ حبیب کبریا، تم ہو

جو مرکز ہے شریعت کا مدار اہلِ طریقت کا

جو محور ہے حقیقت کا وہ قطب الاولیاء تم ہو

عرب میں جا کے ان آنکھوں نے دیکھا جس کی صورت کو

نجم کے واسطے لا ریب وہ قبلہ نما تم ہو

تمہیں پھیلا رہے ہو علمِ حق اکناف عالَم کو

امام اہلسنت نائب غوث الوریٰ تم ہو

علیم خستہ اک ادنیٰ گدا ہے آستانہ کا

کرم فرمانے والے حال پر اس کے شہا تم ہو

جب یہ اشعار سنا چکے تو امام اہلسنت نے اپنے قیمتی عمامہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا۔ مولانا! آپ کی خدمت میں کیا پیش کروں؟ آپ اس دیار پاک سے تشریف لا رہے ہیں، یہ عمامہ تو آپ کے قدموں کے بھی لائق نہیں، البتہ میرے کپڑوں میں سب سے بیش قیمت ایک جبہ ہے، وہ حاضر کیے دیتا ہوں۔

تبلیغی خدمات:

حضرت مولانا شاہ عبد العلیم صدیقی شعلہ بیان خطیب، بلند پایہ ادیب اور عظیم مفکر اسلام تھے۔ جب آپ اپنی نغمہ ریز آواز میں دلائل وبراہین سے اسلام کی حقانیت بیان کرتے تو حاضرین پر سکوت چھا جاتا اور بڑے بڑے سائنسدان، فلاسفر اور ہر قسم کے لوگ آپ کے دست اقدس پر حلقہ بگوش اسلام ہو جاتے۔ آپ تقریباً دنیا کی ہر زبان میں اس روانی سے تقریر کرتے تھے کہ خود اہل لسان ورطۂ حیرت میں رہ جاتے۔ آپ نے پوری قوت اور بیباکی سے دین فطرت اسلام کا پیغام دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچایا جس کے نتیجے میں پچاس ہزار سے زائد غیر مسلم آپ کے ہاتھوں مشرف بہ اسلام ہوئے۔

17 اپریل ۱۹۳۵ء کو جنوبی افریقہ میں مشہور انگریز مفکر جارج برناڈشا سے "اسلام اور عیسائیت" کے موضوع پر گفتگو ہوئی۔ دوران گفتگو برناڈشا پر آپ کی شخصیت کا رعب چھایا رہا اور اس نے قرآن پاک کی حقانیت کا اعتراف کیا۔ اس نے اقرار کیا کہ آئندہ سو سال بعد دنیا کا مذہب صرف اسلام ہی ہوگا۔ برناڈشا نے آخر میں کہا کہ "مجھے افسوس ہے کہ مجھے زیادہ دیر تک آپ سے گفتگو کا موقع نہ ملا۔"

آپ کی تبلیغی کوششوں سے جن مشہور شخصیات نے اسلام قبول کیا، ان میں بورنیو کی شہزادی گلیڈی، پائم ٹرینی ڈاڈ کی خاتون وزیر میورخل ڈونا وا، ماریشس کے فرانسیسی گورنر مردویٹ ٹفرنچ، روسی سائنسدان جارج اینٹونوف، سنگا پور کے ایس این ڈٹ وغیرہ ہیں۔ یہ وہ نا قابل فراموش کارنامہ ہے، جو آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔

۱۹۵۱ء میں آپ نے پوری دنیا کا تبلیغی دورہ کیا، جس میں قابل ذکر ممالک امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، فرانس، اٹلی، سعودی عرب، انڈونیشیا، فلپائن، سنگا پور، ملائشیا، تھائی لینڈ اور سیون تھے۔ اس کے علاوہ ماریشس، ری یونین، جنوبی افریقہ، نیروبی، یوگنڈا، زنجبار، مڈ غاسکر، جنوبی ومشرقی افریقہ کی نوآبادیات، برٹش گیانا، چین، جاپان، عراق، اردن، فلسطین، شام اور مصر کے متعدد تبلیغی دورے کیے۔ تمام مذاہب کے لوگوں کو دعوت اسلام دی اور تقریباً ہر زبان میں اسلام کا لٹریچر شائع کیا۔

کارہائے نمایاں:

تبلیغی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ دنیا کے گوشے گوشے میں آپ نے مساجد، مکتب، کتب خانے، ہسپتال، یتیم خانے اور تبلیغی مراکز قائم کیے۔ آپ کی نگرانی میں تقریباً تمام مذکورہ ممالک میں مساجد تعمیر کروائی گئیں۔ ایک اندازے کے مطابق ان کی تعداد ایک سو بیس (۱۲۰) ہے۔ ان میں مندرجہ ذیل قابل ذکر ہیں۔

·     کولمبو: حنفی جامع مسجد کولمبو۔

·     سنگاپور: سلطان مسجد سنگاپور۔

·     جاپان: ناگریا جامع مسجد جاپان۔

·     چین: سنگھائی جامع مسجد چین۔

·     کینیڈا آپ نے یہاں پہلی مسجد کی تعمیر ۱۹۲۹ء میں شہر کیلگرامی میں فرمائی۔

·     ڈربن (افریقہ): بین الاقوامی اسلامی تعلیمی مرکز قائم کیا۔

·     ملایا: عربی یونیورسٹی کی بنیاد ڈالی۔

·     مکی پبلی کیشنز: اسلامی کتب چھاپنے کا سلسلہ قائم فرمایا۔

·     ہانگ کانگ: اقامت گاہیں اور یتیم خانے قائم کیے۔

انگریزی زبان میں "دی مسلم ڈائجسٹ" "دی رمضان اینول" اور "دی جینوین اسلام" ماہنامے آپ کی یادگار ہیں۔

شدهی تحریک کا خاتمہ:

برصغیر میں جب ہندوؤں نے شدھی تحریک کا جال بچھانا شروع کیا تو مولانا عبد العلیم صدیقی نے ان کے خلاف جہاد کرنے کے لیے متھرا، آگرہ، ممبئی، کرناٹک، احمد آباد، گجرات اور ہندوستان کے دوسرے شہروں میں تبلیغی مراکز قائم کر کے شدھی تحریک کے زور کو توڑا۔

قراردادِ پاکستان:

23 مارچ 1940ء کو قراردادِ پاکستان کے سلسلے میں آپ نے پورے ہندوستان کا دورہ کیا۔ علمائے کرام اور مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ مسلم لیگ اور جناح سے سیاست کا کام لیں کیونکہ فی زمانہ علمائے کرام یورپین سیاست اور ہندوستان کے غیر مسلموں خصوصاً ہندوؤں کی ڈپلو میٹک سیہ کاروں کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ موجودہ زمانہ میں آئینی جنگ ہو رہی ہے اس جنگ میں وہی کامیاب ہو سکتا ہے جو انگریزی اور کانگریسیوں دونوں کے ہتھکنڈوں سے بخوبی واقف ہو۔

1945ء بنارس سنی کانفرنس:

جب تحریک پاکستان کے مخالفین نے فتویٰ صادر کیا کہ چونکہ محمد علی جناح با شرع نہیں ہیں اس لیے ان کو اور مسلم لیگ کو ووٹ دینا جائز نہیں۔ اس فتنے کی سرکوبی کے لیے آپ نے جو کارہائے انجام دیے وہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔

تحریک پاکستان اور شاہ عبد العلیم صدیقی:

محمد علی جناح انگلستان سے واپس آئے تو انہوں نے علمائے کرام سے خصوصی ملاقاتیں کیں۔ اس ملاقات میں مولانا عبد العلیم صدیقی بھی شامل تھے۔ تحریک پاکستان میں آپ نے جو خدمات انجام دیں وہ آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ تحریک پاکستان کے خلاف جب کانگریسی لیڈر حشرات الارض کی طرح بیرونی ممالک میں پھیل گئے تو آپ نے انگلینڈ اور مصر میں ان کانگریسی گماشتوں کو اپنی مدلل تقاریر سے ناکوں چنے چبوائے۔ تحریک پاکستان کے مقاصد سے اہل عرب کو آگاہ کرنے کے لیے محمد علی جناح نے آپ سے عرب ممالک کے دورے کی درخواست کی۔ لہٰذا ۱۹۴۲ء میں آپ نے مشرقی وسطیٰ کا دورہ کیا اور اہل عرب کو تحریک پاکستان کے مقاصد سے روشناس کرایا اور انکی متعدد غلط فہمیاں دور فرمائیں، ان خدمات کی بناء پر بانی پاکستان محمد علی جناح نے آپ کو سفیر پاکستان کا لقب دیا۔ اللہ کے فضل وکرم سے ۲۷ رمضان المبارک 14 اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان معرض وجود میں آیا۔ تین دن کے بعد عید کی پہلی نماز عید گاہ جامع کلاتھ کراچی میں محمد علی جناح نے آپ ہی کی امامت میں ادا کی۔ اور پاکستان بننے کے بعد پہلی نمازِ عید الاضحیٰ بھی محمد علی جناح اور دیگر اہم شخصیات نے آپ کی اقتداء میں ہی ادا کی۔

اس کے علاوہ جمعیت سنیہ جامعہ قادریہ کے زیر اہتمام سندھ کے علماء اور مشائخ پر مشتمل سندھ کانفرنس کا انعقاد کیا۔ آپ کے ذمہ یہ کام لگایا گیا کہ سندھ کے اسمبلی ممبران پر دباؤ ڈالیں اور آمادہ کریں کہ سندھ اسمبلی میں قرارداد پاکستان کے حق میں قرارداد پیش کریں۔ بالآخر سندھ اسمبلی کے ممبران نے پاکستان کے حق میں قرارداد پیش کر کے تاریخی کارنامہ انجام دیا۔ ۱۹۴۷ء میں کراچی میں سندھ اور پنجاب کے علماء اور صوفیاء کا خصوصی اجتماع منعقد کیا۔ اجتماع میں تمام علمائے کرام کے اتفاق سے اسلامی دستور کا مسودہ تیار کر کے بانی پاکستان کی خدمت میں پیش کیا۔ اسلامی دستور پر محمد علی جناح اور شاہ عبد العلیم صدیقی کے درمیان مذاکرہ رہا۔ محمد علی جناح نے تسلیم کیا کہ مملکت پاکستان کا دستور قرآن اور سنت کے مطابق ہوگا۔ ۱۹۴۹ء میں مذہبی منافرت کو ختم کرنے اور کدورتوں کو دور کرنے کے لئے بین المذاہب کانفرنس سنگا پور میں منعقد کی۔ کانفرنس میں تمام مذاہب، مسلمان، عیسائی، بدھ مت، سکھ، ہندو وغیرہ نے شرکت کی۔ اس کانفرنس میں ویٹاکن کے پوپ جان نے اپنا نمائندہ بھیجا۔ اس کانفرنس میں (INTER RELEGIOUS ORGANIZATION)تنظیم بین المذاہب کی طرف سے آپ کو "ہزا کز لٹیڈ ایمی نینس" (HIS EXALTED EMINENCE) کا خطاب بھی دیا گیا۔ ۱۹۵۲ء میں جمعیت نے آخری کانفرنس کشمیر فلسطین اور دیگر اہم مسائل پر منعقد کی۔

انسداد حج ٹیکس اور مسلم لیگ کا وفد:

مولانا عبد العلیم صدیقی اور مولانا عبد الحامد بدایونی نے بابائے قوم محمد علی جناح، نوابزادہ لیاقت علی خان اور نواب محمد اسماعیل کے سامنے تجویز پیش کی کہ حاجیوں پر سے ٹیکس معاف کروانے کے لئے پاکستان سے سرکاری طور پر ایک وفد بھیجا جائے۔ بانی پاکستان محمد علی جناح کو یہ بات پسند آئی اور طے پایا کہ حج کے زمانے میں ایک وفد بھیجا جائے گا جس کے امیر مولانا عبد العلیم صدیقی اورسیکریٹری مولانا عبد الحامد بدایونی ہوں گے۔ مولانا عبد العلیم صدیقی نے جلالۃ الملک ابن سعود پر حج ٹیکس نہ لگانے کی تجویز کو اس عمدگی سے پیش کیا کہ ابن سعود نے فرمایا کہ حج ٹیکس لگانا حرام ہے۔ میں جلد ہی حج پر ٹیکس اٹھانے کی اس اسکیم پر عملی قدم اٹھاؤں گا۔

معاصرين:

محمد علی جناح، نوابزادہ لیاقت علی خان، خواجہ ناظم الدین، مولانا حسرت موہانی، مولانا عبد الحامد بدایونی، سید امین الحسینی مفتی اعظم فلسطین، الاخوان المسلمون کے بانی حسن البنا، سپریم کورٹ سیلون کے چیف جسٹس اکبر، سیلون کے جسٹس ایم مروانی، مولانا محمد علی جوہر، شاہ سعود، عبد العزیز بن شاہ سعود، اردن کے شاہ سید عبد اللہ، جارج برنارڈ شا، صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی، صدر الافاضل حضرت مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی، مفتی اعظم ہند مولانا مصطفیٰ رضا خان، سیدنا ظاہر سیف الدین، قاضی اکبر، حضرت مولانا سید برہان الحق صاحب، ملک العلماء مولانا ظفر الدین بہاری وغیرہم۔

تصانيف:

آپ نے اردو، انگریزی اور عربی زبانوں میں کئی کتب تحریر فرمائیں۔ اس کے علاوہ دنیا کے بیشتر ممالک میں آپ کے ہزاروں کے تعداد میں لیکچرز ان ممالک کے میڈیا پر محفوظ ہیں۔ آپ کی چند تصانیف کے نام یہ ہیں۔

1۔ ذکر حبیب (دو حصے):

ذکر محبوب، ایمان والوں کی جان ہے۔ اس کتاب میں آپ نے محبوب پاک ﷺ کی محبوب باتوں کا ذکر کیا ہے۔ اور اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا "ایک طرف اہل محبت اس ذکر سے تسکین پائیں، دوسری طرف بیان سیرت طیبہ واخلاق حمیدہ سے اتباع سنت نبویہ علیٰ صاحبها التحیہ کی تحریص ہو، تاکہ اس اسوۂ محمودہ مرضیہ پر چل کر محبوب الہٰی بن جائیں۔"

2۔ کتاب تصوف:

سلسلہ عالیہ عظیمیہ یوں تو پانچ نسبتوں یعنی قادری، چشتی، نقشبندی، سہروردی اور شاذلی کا حامل ہے، لیکن ان سب میں خصوصی مقام قادری نسبت کو حاصل ہے۔ اس کتاب میں قادری سلوک کو بیان کیا گیا ہے اور لطیفہ خاک، لطیفہ آب، ہوا، نار، نفس اور قلب وروح کے لطائف اور ان کی تطہیر کو بیان کیا گیا ہے۔

3۔ بہارِ شباب (نوجوانوں کی اصلاح کیلئے بہترین کتاب):

انسانی زندگی کے تین ادوار میں سے درمیانی دور جوانی ہے اور اس دور سے متعلق ایک مقولہ بہت زیادہ مشہور ہے کہ "اَلشَّبَابُ شُعْبَةٌ مِّنَ الْجُنُونِ" اس کتاب میں مصنف ﷫ نے انسان کی دکھتی ہوئی رگ کو پکڑا ہے اور اس کو اس کی قوتوں کے بیچ استعمال کی طرف توجہ دلائی ہے۔

4۔ احکام رمضان:

اس کتاب کے عرضِ اول میں مصنف خود فرماتے ہیں کہ یہ کتاب تین دن سے بھی کم وقت میں لکھی گئی۔ اس کتاب میں باسٹھ صفحات ہیں۔ ۴ رمضان ۱۳۴۱ھ کو کتاب مکمل ہوئی۔ اس کتاب میں روحانی موسم بہار رمضان کے آداب واحکام بیان کئے گئے ہیں اور ساتھ ہی تراویح، اعتکاف اور عید کے مسائل بھی ذکر کئے گئے ہیں۔

5۔ اسلام کے اصول:

 یہ کتاب انگریزی میں لکھی گئی ہے جس کا انگریزی نام “THE PRINCIPLES OF ISLAM” ہے۔ اس کتاب میں اسلامی اصولوں پر روشنی ڈالی گئی ہے اور ثابت کیا گیا ہے کہ اسلامی اصول، اصول فطرت کے عین مطابق ہیں۔

6۔ مسائل انسانی کا حل:

یہ آپ کی ایک انگریزی تقریر ہے جسے اردو کے قالب میں ڈھالا گیا ہے۔ اس کتاب میں انسان کی بدحالی پر روشنی ڈالی گئی ہے اور اس سے نجات کا طریقہ بھی بیان کیا گیا ہے۔ اور بتایا گیا ہے کہ حقیقی مسرت مذہب ہی دے سکتا ہے۔

7۔ کمیونزم کا توڑ:

یہ آپ کی ایک انگریزی تقریر ہے جسے اردو کے قالب میں ڈھالا گیا ہے۔ کمیونزم کا مقابلہ کیسے کیا جائے اور اس کا توڑ کیا ہے؟ اس موضوع پر اس کتاب کا مطالعہ از حد ضروری ہے۔ اس میں آپ نے کمیونزم کے مقابلے کیلئے تعین تجاویز بھی بیان کی ہیں۔

8۔ مکالمہ جارج برناڈشا:

اس کتاب میں حضرت مولانا شاہ عبد العلیم کے مشہور زمانہ نقاد، فلاسفر اور ڈرامہ نگار ڈاکٹر جارج برناڈ شا کے ساتھ اسلام اور عیسائیت کے موضوع پر کینیا (افریقہ) کے شہر ممباسہ میں ہونے والے مکالمے کی تحریری روداد ہے۔

9۔ ELEMENTARY TEACHINGS OF ISLAM

10۔ WOMEN AND THEIR STATUS IN ISLAM

11۔ A SHAVIAN AND A THEOLOGIAN

12۔ THE FORGOTTEN PATH OF KNOWLEDGE

13۔ CONDIFICATION OF ISLAMIC LAW

رد قاديانيت:

1۔ مرزائی حقیقت کا اظہار:

مولانا شاہ عبد العلیم صدیقی کے ماریشس میں قیام کے دوران آپ کی تقریروں اور کوششوں سے کئی قادیانی آپ کے دست حق پر تائب ہوئے اور دین اسلام میں داخل ہوئے۔ یہ دیکھ کر وہاں کے مرزائیوں میں کھلبلی مچ گئی اور انہوں نے اس وقت جب شاہ عبد العلیم صدیقی واپسی کے لئے رخت سفر باندھ رہے تھے ایک اشتہار بنام "حقیقت کا اظہار" شائع کیا جس میں اپنے باطل عقائد کو بیان کیا۔ شاہ صاحب نے باوجود عدیم الفرصت اور سفر کے، اس کا رد بلیغ فرمایا اور انہی کے لٹریچر سے مرزا غلام احمد کی خباثت کو ثابت کیا۔ آپ کے اس رسالے کا عربی اور انگلش میں ترجمہ بالترتيب "المراة" اور " THE MIRROR" کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔

حضور خاتم النبيين والمرسلین ﷺ کے مقام کے تحفظ کی خاطر پوری دنیا میں قادیانیوں کے خلاف جو تحریک شاہ عبد العلیم صدیقی نے چلائی تھی، ان کے فرزندار جمند قائد اہلسنت علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی نے ۱۹۷۴ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی سے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دلوا کر اس کے منطقی انجام تک پہنچا دیا۔

وصال:

حضرت مولانا شاہ عبد العلیم صدیقی 22ذو الحجہ 1373ھ مطابق 24 اگست 1954ء کو مدینہ طیبہ میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ اور تعلیمات اسلامیہ کی تبلیغ واشاعت کے انعام کے طور پر تدفین جنت البقیع میں ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ کے قدموں میں ہوئی۔

Powered by Netsol Online