حضرت علامہ مولانا محمد حیدر اللہ خان نقشبندی حنفی درانی کے آباء واجداد افغانستان سے ہجرت کر کے برصغیر تشریف لائے اور آپ کا تعلق وہاں کے حکمران احمد شاہ درانی ابدالی کے خاندان سے تھا۔ جس کے متعلق آپ اپنی کتاب میں تحریر فرماتے ہیں۔ "میں حامئ اسلام شہنشاہ یعنی حضرت احمد شاہ درانی طاب ثراہ کے خاندان سے ہوں۔" برصغیر میں ان کا تعلق جلالپور کا تباں سے تھا۔
مولانا درانی صاحب کے آباء واجداد کے متعلق تفصیل تو معلوم نہیں ہو سکی ہے، البتہ مولانا درانی صاحب کی اپنی تحریر سے اتنا معلوم ہوا کہ آپ کے والد کا نام سیف اللہ خان اور دادا کا نام حضرت نواب مرزا خان درانی تھا۔ آپ اپنی کتاب میں بیان فرماتے ہیں۔ "مؤلف رسالہ ہذا کے جد امجد حضرت نواب مرزا خان درانی طاب ثراہ نے ایک سو دس برس کی عمر میں اخیر نکاح کیا جس سے تین فرزند متولد ہوئے اور کوئی اثر ہرم کا نہ تھا۔(1) عطاء اللہ خان مختار الدولہ (۲) صدیق اللہ خان (۳) سیف اللہ خان۔ پس مؤلف رسالہ حضرت نواب مرزا خان طاب ثراہ کے تیسرے فرزند سیف اللہ خان طاب ثراہ کا فرزند ہے۔" حضرت علامہ مولانا محمد حیدر اللہ خان کے سن ولادت اور وصال معلوم نہ ہو سکے تاہم اتنا ضرور ہے کہ آپ 1306ھ (۱۸۸۸ء) سے قبل پیدا ہو گئے تھے، (نہ صرف یہ بلکہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ۱۳۰۶ھ میں آپ کی عمر بیس سال سے زائد تھی۔ اس کی تفصیل آگے آرہی ہے) اس لئے کہ آپ پنجاب کے مشہور صاحب علم صوفی بزرگ حضرت شیخ غلام محی الدین قصوری دائم الحضوری (1202ھ تا 1270ھ / 1789ھ تا 1855ھ) کے خلیفہ حافظ مولانا غلام نبی للّٰہی (1234ھ تا 1306ھ / 1819ھ تا 1888ھ) سے سلسلۂ نقشبندیہ مجددیہ میں بیعت تھے اور آپ کے پیر ومرشد کا سن وصال 1306ھ ہے۔
مولانا درانی صاحب نے علم ظاہری اپنے پیر ومرشد حافظ مولانا غلام نبی اللّٰہ سے حاصل کیا اور ابتدائی سلوک کی منزلیں طے کیں۔ آپ کے پیر ومرشد اپنے عزیزوں اور مخلصوں کی طرف لکھے جانے والے خطوط آپ کے سپرد کرتے تھے۔ تاہم بعد میں اپنے مرشد زادے ثانی حضرت حافظ دوست محمد للّٰہی (1266ھ تا 1317ھ / 1850ھ تا 1900ھ) کے پاس رہ کر نسبت مجددیہ کی تکمیل کی۔ اور ان کی طرف سے بھی ضروری روایات کی تحقیق اور خطوط لکھنے کا کام آپ کے سپرد ہی تھا۔ ثانی حضرت کے اکثر مکتوبات آپ کے تحریر کردہ ہیں۔ ثانی حضرت ان مکتوبات کے آخر میں اپنے دستخط فرما دیتے تھے اور بعض اوقات دستخط بھی نہیں کرتے تھے۔ ثانی حضرت حافظ دوست محمد للّٰہی نے آپ کو اپنی خلافت سے بھی نوازا تھا۔ آپ اپنے پیر ومرشد سے بے انتہا محبت فرماتے تھے، اپنے پیر ومرشد کے وصال پر آپ نے جو تاریخ ہائے وصال کے سلسلے میں ابیات لکھے ہیں اس سے آپ کی اپنے پیر ومرشد سے دلی وارفتگی کا اندازہ ہوتا ہے اور یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کو شاعری کا صرف ذوق ہی نہیں تھا، بلکہ خود شاعری بھی فرماتے تھے۔ ذیل میں ان کے چند اشعار جو کہ فارسی میں ہیں، اردو ترجمے کے ساتھ پیش کئے جاتے ہیں:
فلکا! بس کن ازیں گردش بیہودہ طائل ماہ سیمیں مرا خاک نمودی حائل
(اے آسمان! یہ لا حاصل گردش بند کر، میرے اور ماہِ سیمیں کے درمیان تو نے خاک حائل کر دی)
آہ، صد آہ ازیں صدمہ کہ بر جان رسیده بی گل نہ بہ بلبل بر جان شده نائل
(آه، صد آہ! اس صدمہ پر جو میری روح کو پہنچا، کسی بلبل کو بھی پھول کے فراق پر نہ پہنچا ہوگا)
مددی حضرت للہ بروحئ پاکت غیر تو نیست معینم دگر از خویش وقبائل
(یا حضرت للّٰہی اپنی روح پاک سے میری مدد کیجیے، میرے خویش وقبائل میں کوئی بھی آپ کے بغیر معین ومددگار نہیں)
ہاتف از غیب ندا داد بگو صاحب دل ہائے قیوم زمان ز دنیا راحل
(جب میں نے سال وفات کے بارے میں غور کیا تو ہاتف نے غیب سے آواز دی کہ اے صاحب دل کہہ "ہائے قیوم زمان ز دنیا راحل")
تاریخہائے وصال کے سلسلے میں یہ اشعار بھی آپ ہی کے ہیں۔
ہیہات شد عالم ویران بی نور شدند زمین وزمان
(افسوس! دنیا ویران ہو گئی، زمین وزماں بے نور ہو گئے)
بُد چشمۂ فیضِ رساں کامل بسیار شده زاہد عامل
(وہ کامل اور چشمہ فیض رساں تھے ان کے فیض سے کئی زاہد اور عالم با عمل بن گئے)
چہ کنم اکنوں کہ شد واصل صدہا کرده عالم فاضل
(کیا کروں کہ اب وہ وصال پاگئے جنہوں نے سینکڑوں عالم وفاضل بنائے تھے)
چوں پرسیدم از عقل نہاں سن رحلت غوث وقطب زمان
(جب میں نے عقل نہاں سے غوث وقطب زماں کے سن رحلت کے بارے میں پوچھا)
بہ ہزار افسوس ونالہ وفغاں ہو واصل بذات الله گفت آں
(اس نے ہزار افسوس ونالہ وفغاں کہا "هو واصل بذات اللّٰہ")
راقم الحروف کو مولانا درانی کی سیرت کے گمنام گوشوں کی تلاش کے سلسلے میں ان کے خانوادے کے ایک بزرگ کا مکتوب بھی ملا جس میں یہ لکھا تھا کہ "مولانا حیدر اللہ خان درانی کو ایک مرتبہ آپ کے پیر ومرشد اور استاد حضرت علامہ مولانا حافظ غلام نبی للّٰہی نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے ذمہ علم ظاہر کی خدمت لگائی ہے، اس پر اپنی توجہ مرکوز رکھو۔ چنانچہ آپ ریاست حیدر آباد دکن تشریف لے گئے، عالمی دنیا میں نام پایا، کتب تصنیف کیں اور اہم عہدہ پایا (عہدہ کے بارے میں علم نہ ہو سکا)۔
آپ فتویٰ نویسی بھی کرتے تھے آپ کے پیر ومرشد کے محبوب خلیفہ حضرت مولانا محمد حسن خان بجنوری کو اپنے پیر ومرشد کی طرف سے ملنے والا وظیفہ یا شیخ عبد القادر جیلانی شیئا للہ کے سلسلے میں جب اعتراضات کا سامنا کرنا پڑا تو مولانا محمد حسن خان صاحب نے ان اعتراضات کے جوابات کیلئے مولانا درانی صاحب کی طرف ایک استفتاء بھیجا۔ مولانا درانی صاحب نے اس وظیفہ یا شیخ عبد القادر جیلانی شيئا لله کو عقلی اور نقلی دلائل سے ثابت کیا اور اس کے جائز ہونے کا فتویٰ دیا۔ اس فتوے کو "فتویٰ جواز یا شیخ عبد القادر جیلانی شیئا للہ" کے نام سے ۱۳۳۶ھ میں "انجمن نعمانیہ ہند لاہور" نے ہندوستان کے سربر آوردہ علمائے احناف کی تصدیقات کیساتھ شائع کیا۔ استفتاء اور اس کا جواب ملاحظہ ہو۔
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ پڑھنا یا شیخ عبد القادر جیلانی شیئا للہ کا شرک ہے یا جائز؟ اور اگر شرک ہے تو جو شخص اُس کو جائز رکھتا ہو یا پڑھتا ہو اس کے پیچھے نماز درست ہے یا نہیں؟ اور اگر نا درست ہے تو جو نماز اس کے پیچھے پڑھی ہو اس کا اعادہ چاہیے یا نہیں؟ بینوا توجروا
اس وظیفہ کا پڑھنا جائز اور معمولاتِ بعض مشائخ جیلانیہ (قادریہ) سے ہے۔ چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ نے اپنی کتاب "انتباه فی سلاسل اولیاء اللہ" میں فرمایا ہے کہ بعضے اصحاب طریقۂ قادریہ یا شیخ را برائے حصول مطالب بایں طور ختم میکنند کہ اول دو رکعت نماز بعد ازاں یکصد ویازده بار کلمہ تمجید ویکصد ویازده بار شيئا لله يا شيخ عبد القادر جیلانی انتہی۔ اور جو شخص اس کو پڑھتا ہو اس کے پیچھے نماز درست اور بعض جو اس کے پڑھنے کو شرک وکفر کہتے ہیں، وہ آیت ایاک نعبد وایاک نستعین اور والذين تدعون من دون الله الآية اور لا تدع من دون الله الآية وحديث اذا سالت فاسئل الله واذا استعنت فاستعن باللّٰہ سے اس کے عدم جواز کا استدلال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر چہ آيات والذين تدعون من دون الله الآیۃ ولا تدع من دون الله الآیة کافروں کے حق میں آئی ہیں کہ بتوں کو ندا کرتے تھے، لیکن اصول کا قاعدہ ہے کہ اللفظ للخصوص والعبرة للعموم یہ اس صورت میں ہے کہ حضرت شیخ کو وسیلہ نہ سمجھتا ہو بلکہ بالاستقلال حاضر وناظر ومتصرف وحاجت روا سمجھے کہ صریح کفر وشرک ہے اور اگر وسہلہ ومظہر عون الہٰی جانتا ہو، جائز وروا ہے۔ حضرت شاہ عبد العزیز دہلوی نے زیر آیت ایاک نعبد وایاک نستعین تحریر فرمایا ہے کہ استعانت از غیر بوجہیکہ اعتماد بر آن غیر باشد و او را مظہر عون الہٰی نداند حرام است واگر التفات محض بجانب حق است واورا یکے از مظاہر دانستہ ونظر بکار خانہ اسباب وحکمت او تعالیٰ در آن نموده بغیر استعانت ظاہری نماید دور از عرفان نخواہد بود ودر شرع نیز جائز ورو است وانبیاء واولیاء این نوع استعانت بغیر کرده اندو در حقیقت این نوع استعانت بغیر نیست بلکہ استعانت بحضرت حق است انتہی۔ توسل واستعانت بارواح اولیاء سیرت سلف وخلف صالحین سے ہے۔ چنانچہ جذب القلوب میں شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے لکھا ہے، ابن ابی شیبہ بسند صحیح آورده است کہ در زمان عمر قحطے اُفتاد۔ شخصے بقبر شریف نبوی آمد وگفت يا رسول الله استسق لامتك فانهم قد هلكوا آنحضرت ﷺ در خواب او آمد وفرمود برود بعمر بشارت ده کہ باران خواہد شد وابن الجلا میگوید کہ بمدینہ رسول الله ﷺ در آمدم ویک دو فاقہ بر من گذشتہ بود بقبر شریف استادم وگفتم انا ضیفک یا رسول الله وبخواب رفتم پیغمبر خدا را دیدم ﷺ رغیفی بدست من داد نصفے راہم در خواب خوردم چون بیدار شدم نصف دیگر در دست من باقی بود۔ صاحب مواہب نے لکھا ہے کہ مکہ معظمہ میں میرے ایسا درد ہوا کہ اطباء اس کے علاج سے عاجز آئے میں نے آنحضرت ﷺ سے استعانت کی آرام ہو گیا۔ اور لکھا ہے کہ میں زیارت سے پھر کر مصر جاتا تھا کہ میری خادمہ کو جن سے آسیب پہنچا میں نے استشفاع بجناب رسالت پناہ ﷺ کیا، آرام ہو گیا۔ شیخ محدث دہلوی نے شرح مشکوٰۃ کے باب زیارت قبور میں لکھا ہے۔ حجۃ الاسلام امام محمد غزالی گفتہ هر کہ استمد اد کرده شود بوی در حیات استمداد کرده میشود بعد از وفات ویکے از مشائخ عظام گفتہ است دیدم چہار کس را از مشائخ کہ تصرف میکنند در قبور خود مانند تصرفہائے ایشاں در حیات خود یا بیشتر شیخ معروف کرخی وشیخ عبد القادر جیلانی ودو کس دیگر را از اولیاء شمرده مقصود حصر نیست آنچہ خود دیده و یافتہ است گفتہ و سیدی احمد بن رزوق از اعاظم فقہاء ومشائخ دیار مغرب است گفت کہ روزے شیخ ابو العباس حضرمی از من پر سید کہ امدادحی اقویست یا امداد میت من گفتم قومی میگویند امدادحی قوی تراست و من میگویم امداد میت قوی تر است پس شیخ گفت نعم زیرا کہ دے در بساط حق است و در حضرت اوست و نقل دریں معنی از میں طائفہ بیشتر از آنست کہ حصر واحصا کرده شود و یافتہ نمےشود در کتاب وسنت، اقوال سلف صالح کہ منافی ومخالف باشد ورد کند این را انتہی۔ اور اسی طرح کتاب الجہاد میں لکھا ہے چہ میخواہند ایشاں باستمداد وبامداد کہ ایں فرقہ منکر اند آنرا آنچہ ما فہمیم ازاں اینست کہ داعی محتاج فقیر الی اللہ دعا میکند خدارا وطلب میکند حاجت خود را از جناب عزت وغنائے وے وتوسل میکند بروحانیت این بندہ مقرب ومکرم در درگاہ عزت وے ومیگوید خداوندا ببرکت این بنده تو کہ رحمت کرده اور ابلطف وکرمی کہ بوی داری بر آوردہ گردان حاجت مرا کہ تو معطی کریمی یا ندا میکند ایں بندہ مکرم ومقرب را کہ اے بندہ خدا اے ولی وے شفاعت کن مراد بخواه از خدا کہ بدید مسئول ومطلوب مرا وقضا کند حاجت مرا پس معطی ومعمول پروردگارست تعالیٰ وتقدس ونیست ایں بنده درمیان مگر وسیلہ ونیست قادر وفاعل ومتصرف در وجود مگر حق سبحانہ واولیائے خدا فانی وہالک اند در فضل الہٰی وقدرت وسطوت وے ونیست ایشان را فعل وقدرت وتصرف نہ اکنون کہ در قبور اندونہ در آں ہنگام کہ زنده بودند در دنیا وا گرایں معنی کہ در امداد واستمداد ذکر کردیم موجب شرک وتوجہ ما سوائے حق باشد چنانچہ منکر زعم میکند پس باید کہ منع کرده شود توسل وطلب دعا از صالحان ودوستان خدا در حالت حیات نیز واین ممنوع نیست بلکہ مستحب ومستحسن است باتفاق وشائع است در دین انتہیٰ۔ تفسیر عزیزی میں سورۂ انشقت کی تفسیر میں لکھا ہے بعضے از خواص اولیاء الله را کہ الۂ جارح تکمیل وارشاد بنی نوع خود گرد اینده اند دریں حالت ہم (یعنی در حالت موت) تصرف در دنیا داده واستغراق انہا بجہت کمال وسعت تدارک آنہا مانع توجہ بایں سمت نمیگر ددو اویسیاں تحصیل کمالات باطنی از آنہا مے نمایند وارباب حاجات حل مشکلات خودرا از انہا مے طلبند ومے یا بند انتہیٰ۔ علاوہ ازیں اوراد ماثورہ میں بھی اس قسم کے اعمال ہیں کہ جو یا شیخ عبد القادر جیلانی شیئاً للہ سے مشابہ ہیں۔ چنانچہ حصن حصین میں آیا ہے۔ وان اراد عونا فليقل يا عباد الله اعينونی يا عباد الله اعینونی یا عباد الله اعینونی یعنی اور جو چاہے مدد کسی امر میں، چاہیے کہ کہے اے بندہ خدا کے مدد کرو میری اے بندہ خدا کے مدد کرو میری اے بندہ خدا کے مدد کرو میری۔ اور دوسری جگہ حصن حصین میں آیا ہے۔ ومن كانت له ضرورة فليتوضأ فيحسن وضوه ويصلى ركعتين ثم يدعو اللهم انى اسئلك واتوجه اليك بنبيك محمد نبی الرحمة یا محمد انی اتوجه بك الى ربی فی حاجتی هذه لتقضى لی اللهم فشفعه فی یعنی جس کو ہووے کوئی ضرورت پس وضو کرے اور اچھا وضو کرے اور پڑھے دو رکعتیں نفل کی پھر دعا کرے یہ یا اللہ تحقیق میں مانگتا ہوں تجھ سے حاجت اپنی اور متوجہ ہوتا ہوں طرف تیرے ساتھ وسیلہ نبی ﷺ تیرے کے کہ حضرت محمد ﷺ نبی رحمت ہیں یا حضرت محمد ﷺ تحقیق میں متوجہ ہوتا ہوں ساتھ وسیلے تیرے کے طرف پروردگار اپنے کے بیچ اس حاجت اپنی کے تاکہ روا کی جاوے حاجت واسطے میرے یا اللہ پس شفاعت قبول کر ان کی میرے حق میں۔ ظاہر ہے کہ ان ہر دو اعمال میں ندا اور استمداد موجود ہیں، پس جو اعتراض یا شیخ الخ پر وارد ہوتے ہیں وہی ان اعمال پر بھی وارد ہوتے ہیں لیکن اگر ان کی جواز وعدم جواز کا استفتاء کیا جائے تو یقین ہے کہ جواز ہی کا فتویٰ دیا جائے گا پس اسی قیاس سے اگر یا شیخ الخ کی بھی عدم شرک وجواز کا فتویٰ دیا جائے تو کیا مضائقہ۔ اور قطع نظر ازیں کہ ندا واستمداد معمول وماثور ثابت ہوتی ہے لیکن ثقات سے جو معلوم ہوا وہ یہ ہے کہ اس وظیفہ میں ندا اور استمداد سے کچھ تعلق نہیں بلکہ مطلق ان الفاظ میں باذن اللہ تعالیٰ تاثیر ہے۔ اور اگر کسی حاجت کے واسطے پڑھا جاتا ہے تو بحولہ تاثیر ہوتی ہے، بشرطیکہ کسی کامل شخص سے پوچھا ہو اور بلا اجازت کاملین اس وظیفہ کے پڑھنے میں امید تاثیر نہیں۔ پس اس صورت میں اوراد ماثورہ پر مواظبت اولیٰ وانسب ہے۔ فقط والله اعلم وحكمہ احكم
كتبہ: فقیر حقیر محمد حیدر الله عفی عنہ جلال پوری
آپ کی تاریخِ پیدائش ووصال کی طرح آپ کی سیرت کا یہ پہلو بھی گوشۂ گمنامی میں ہی رہا، تا ہم پھر بھی ایک کتاب کی معلومات ہو گئی ہے، جس کا ذکر آپ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے۔
1۔ شرح متن متین:
قواعد نحویہ کے اصول پر مشتمل کتاب "متن متین" کی شرح تحریر فرمائی ہے جس کا حوالہ اپنی اس کتاب میں کئی مقامات پر دیا ہے۔
1۔ درة الدرانی على ردة القاديانی:
مرزا غلام احمد قادیانی کو علم تصوف میں درک کا بھی دعویٰ تھا اور اس کے جھوٹے دعویٰ کی بنیاد بھی بقول اس کے کشف والہام پر تھی اور اس نے اپنے دعوؤں کے ثبوت میں متصوفین کی عبارات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا۔ علامہ درانی نے اپنی اس کتاب میں امام عبد الوہاب شعرانی، محی الدین ابن عربی، حضرت مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ دہلوی کی کتب وعبارات سے مرزا کے دعویٰ تصوف کی بھر پور تکذیب کی اور ان اکابر صوفیہ کی عبارات سے مرزا کے دعویٰ الہام ومسیحیت کو جھوٹا ثابت کیا۔
اس کتاب کی دیگر خصوصیات میں سے یہ ہے کہ:
1. اس میں کثرت سے حضور خاتم النبیین ﷺ کے معجزات اور صحابہ کرام واولیائے عظام کی کرامتیں بیان کی گئی ہیں۔ مثلاً حضور اکرم ﷺ کی معراج جسمانی، آپ کا علوم غیبیہ پر مطلع ہونا اور صحابہ کو مطلع فرمانا، مردوں کو زندہ کرنا، ابوین کریمین کو زندہ فرمانا، بعد از وصال روضہ انور سے اذان کی آواز کا آنا، جسم اطہر کا بے سایہ ہونا، حیات شہداء واولیاء، بعد از شہادت کلام اور کراماتِ غوث اعظم۔
2. اس کتاب میں حضرت عیسیٰ ابن مریم کی صحابیت، ان کا رفع ونزول، طوالتِ عمر، آسمان پر آپ کے قیام وطعام، قرب قیامت میں آپ کا نزول، وصال اور مزار اقدس کا روضہ رسول اللہ ﷺ میں ہونے سے متعلق تفصیلی مباحث موجود ہیں۔
3.زریت بن برثملا وصی عیسیٰ روح اللہ کا تفصیلی واقعہ، صحابہ کرام سے ان کی ملاقات اور اس واقعہ سے طوالت عمر عیسیٰ پر استدلال۔
4.حضور سیدنا غوث الاعظم کے پوتے شیخ جمال اللہ کے لیے سیدنا غوث الاعظم کی دعاء طوالت عمر کا تذکرہ اور یہ بھی کہ وہ حضور غوث الاعظم کا سلام عیسیٰ کو بعد از نزول پہنچائیں گے۔
5.اس کتاب میں آپ نے مسیلمہ کذاب، اسود عنسی وغیرہ کے ساتھ ساتھ مرزا غلام احمد قادیانی، حمدان بن قرمط اور محمد بن عبد الوہاب نجدی کا بھی جھوٹے مدعیان نبوت میں ذکر فرمایا ہے اور محمد بن عبد الوہاب نجدی کے عقائد باطلہ کا رد بلیغ بھی فرمایا ہے۔
آج منکرین ختم نبوت کا تعاقب کرتے ہوئے لوگ مرزا غلام احمد قادیانی کا تو بھر پور رد کرتے ہیں مگر محمد بن عبد الوہاب نجدی کے دعویٰ نبوت اور عقائد باطلہ کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ آپ کی یہ تحقیقی کتاب مبلغین ختم نبوت کو دعوت فکر دیتی ہے کہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی کے ساتھ شیخ نجدی محمد بن عبد الوہاب کے دعویٰ جات پر بھی غور کریں۔ (اس کی مزید تفصیلات کے لیے کتاب "تاریخ نجد وحجاز" از مفتی عبد القیوم ہزاروی دیکھیں)
6.برصغیر پاک وہند میں دعویٰ ایمان کرنے والے چند علماء نے دعویٰ کیا کہ حضور ﷺ کا مثیل ممکن ہے۔ علامہ درانی نے اس دعویٰ کا بھر پور رد فرماتے ہوئے حضور ﷺ کا بے مثل وبے مثال ہونا ثابت فرمایا اور دو مقامات پر اس شعر سے بھی استدلال فرمایا:
مثل النبی محمد قد امتنع من قال بالامكان صار مكفرا
یعنی محمد ﷺ کی مثال یا مثیل ممتنع یعنی محال ہے اور جو ممکن کہے وہ کافر ہے۔
آخر میں میں یہی کہوں گا کہ رد قادیانیت میں لکھی جانے والی کتب میں یہ مایہ ناز تصنیف نمایاں اہمیت کی حامل ہے بالخصوص تصوف کے حوالے سے اس کے مباحث اور مرزا کا رد بلیغ اور خاتم النبیین محمد ﷺ کا والہانہ تذکرہ اس کتاب کی اہمیت کو اور بڑھا دیتے ہیں۔
حضرت علامہ مولانا انوار اللہ صاحب مصنف "افادۃ الافہام" جو مشاہیر علمائے ریاست حیدر آباد دکن ہیں انہوں نے بھی اس کتاب کی تصدیق فرمائی۔ حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب چشتی گولڑوی نے اپنی کتاب "سیف چشتیائی" میں اس کتاب کا حوالہ بھی دیا ہے۔
اس کتاب کا پہلا ایڈیشن ۱۳۱۸ھ بمطابق۱۹۰۰ء میں میرٹھ (یوپی) ہندوستان سے شائع ہوا تھا اس کے بعد ہماری تحقیق کے مطابق اس کا دوسرا ایڈیشن شائع نہیں ہوا۔ بحمد اللہ تعالیٰ تقریباً ایک سو چھ سال کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کتاب کی دوبارہ اشاعت کی توفیق رفیق عطا فرمائی۔ فللّٰہ الحمد والمنۃ۔ اس کتاب میں جہاں "المیزان الکبریٰ للشعرانی" کا حوالہ دیا گیا ہے اس کو اصل کتاب سے نقل کیا گیا ہے۔
جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے کہ حضرت علامہ مولانا محمد حیدر اللہ خان درانی کے سن پیدائش اور وصال معلوم نہ ہو سکے، تاہم یہ کہا جا سکتا ہے کہ آپ نے کم از کم پینتیس سال کی عمر پائی ہوگی۔ اس لیے کہ اپنے مرشد گرامی کی طرف سے خطوط کی ذمہ داری اور اپنے مرشد گرامی کے وصال پر (یعنی 1306ھ، 1888ء میں) آپ کے تاریخی قطعات بصورتِ فارسی ابیات اس بات کا پتہ دے رہے ہیں کہ مرشد کے وصال کے وقت آپ بچے نہیں تھے کہ عموماً بچوں کے ذمہ خطوط لکھنے کی ذمہ داری نہیں لگائی جاتی اور نہ ہی بچے کسی کے وصال پر ایسے تاریخی ابیات کہہ سکتے ہیں، لہٰذا کہنا پڑے گا کہ آپ کی عمر اس وقت کم از کم بیس یا بائیس سال ہوگی۔ اور اس کتاب کی تحریر کا سال اور اشاعت کا سال ایک ہی ہے (یعنی ۱۳۱۸ھ) اس کا ثبوت اس کتاب میں موجود اس عبارت سے لگایا جا سکتا ہے۔ "پس آنحضرت ﷺ کی اس پیشین گوئی کی صداقت نے جو تیرہ سو اٹھارہ برس قبل آنحضرت ﷺ کی زبان غیب ترجمان سے ظاہر ہوئی۔ بمبئی کی اس عالمگیر طاعون کے تمامی عقدے حل کر دیئے جو اس میں ملفوف ہیں اور یہ ایک ایسی لا علاج طاعون ہے جس کے لیے قادیانی صاحب کا مرہم عیسیٰ مکفی نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ اس کتاب کی تحریر کے وقت آپ کی عمر کم وبیش بتیس یا پینتیس سال کی تھی۔