قاضی اہلسنت حضرت علامہ مولانا مفتی قاضی فضل احمد نقشبندی حنفی لدھیانوی راجپوت کے ایک ممتاز عالم دین تھے۔ شاہ پور ضلع گورداسپور میں پیدا ہوئے، حصول علم کے بعد محکمہ پولیس میں بطور کورٹ انسپکٹر مقرر ہوئے، ۱۸۹۶ء میں گورداسپور سے لودھیانہ آئے اور اسی کو آپ نے اپنا وطن ثانی بنایا، یہیں شادی وقیام رہا، ساری زندگی قادیانیوں، غیر مقلدوں اور وہابیوں سے معرکہ آرائی رہی۔
1) "انوار آفتاب صداقت" (سن تصنیف 1337ھ)
رد وہابیہ ،اسمٰعیلیہ دیوبندیہ (مبسوط)
2) "ميزان الحق" (سن تصنيف 1892ء)
3) "مفيد النساء" (1884ء)
4) گفتگو جمعہ (1892ء)
5) "فضل الوحيد فی اثبات التوحيد" رد وہابیہ
6) "ازالۃ الريب عن مبحث علم الغيب" (دو حصے)
7) الامامۃ بالعمامۃ، والصلوٰة بالمروحۃ" (1339ھ)
8) "الدر المكنون فی دعا دفع الطاعون" (1336ھ)
9) "عہده پولیس کی ملازمت سنت وحلال ہے۔" (1340ھ)
10) "افتتاح الهدایت" رد شیعہ (1341ھ)
11)"خالص حميت الاسلام" رد وہابیہ (۱۳۴۲ھ)
12) "اطلاع حالات واهیہ فرقہ گاندهویہ وهابیہ" (۱۳۴۳ھ)
13) "آه صد آه ابن سعود نجدی ظالم" (۱۳۴۳ھ)
1۔ انوار آفتاب صداقت:
قاضی اس کتاب کا آغاز یوں کرتے ہیں۔الحمد للہ وحدہ والصلوۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ والہ واصحابہ اجمعین اما بعد عرض کرتا ہے خاکسار ذرہ بے مقدار احقر عباد الله الصمد قاضی فضل احمد عفی اللہ عنہ سنی حنفی نقشبندی مجددی صادقی کوٹ انسپکٹر پولیس پنشنر لودھیانہ کے عرصہ تخمیناً دو سال کا ہوا ہے کہ وہابیہ دیوبندیہ لودھیانہ نے خاکسار کو بوجہ اس کے کہ مولود شریف کی محفل کرتا اور اس میں حاضر ہوتا اور تعظیم میں رسول خدا ﷺ کے ذکر ولادت شریف کے وقت قیام کرتا ہے اور فاتحہ خوانی وایصال ثواب موتیٰ کو جائز رکھتا ہے۔ کافر ومشرک کہنا شروع کیا اس لئے میں نے ایک فہرست مختصر عقائد وہابیہ اسمعیلیہ دیوبندیہ کی بہ تصدیق مولانا مولوی عبد الحمید صاحب مفتی شہر لودھیانہ شائع کی جس کی نقل شامل ہے اس واسطے وہابیہ دیوبندیہ لودھیانہ آگ بگولہ اور جل کر کوئلے ہو گئے اور مرزائیوں (قادیانیوں) کے ساتھ مل کر ایک اشتہار چھاپا جس میں مجھے گالیاں دے کر توہین کی گئی۔ اس سے پہلے مرزائیوں نے تین اشتہار میرے برخلاف شائع کئے جب دیکھا کہ یہ لوگ گالیاں دینے اور توہین کرنے سے باز نہیں آتے نا چار انصاف کے لئے نالش دائر کردی۔ جس کے دوران میں وہابیوں نے مرزائیوں کی امداد تہہ دل سے کی۔ اور نہایت دلی کوشش سے کسی نے ان کے کاغذات لکھنے میں مدد دی، کسی نے کتاب بحر الرائق بہم پہنچائی، کسی نے شرح مواقف مہیا کر دی، کسی نے ان کی عبارت غلط سلط بے محل نکال کر نشان کر دیے، کسی نے اپنے وعظوں میں مرزائیوں کی تعریفیں کی، کسی نے میرے خطوط کچہری میں پیش کئے وہی وہابی جن کے بزرگوں نے اپنے فتوؤں میں لکھا تھا کہ مرزائی اور مرزا مرتد ہیں ان کے ساتھ میل ملاپ رکھنے والا بھی ویساہی کا فر ومرتد ہے۔ ان فتوؤں کی بھی پرواہ نہیں کی۔ خیر اس پر کفایت نہ ہوئی تو ایک وہابی دیوبندی اپنے رشتہ دار قریبی کے نام سے ایک رسالہ ۴ صفحے کا "قاضی فضل احمد کے اشتہار کی حقیقت کا انکشاف" نام کا شائع کیا۔ درآنحالیکہ میں مقدمہ کی پیروی میں مصروف تھا۔ فہرست عقائد کا جواب دیتے ہوئے بڑی تعلی کے ساتھ گالیاں دے کر اپنی تہذیب کو ظاہر کیا ہے۔ ملزمان مقدمہ کو کچہری بے رہا کر دیا۔ چونکہ اس کے جواب لکھنے کو اس لئے دل نہیں چاہتا تھا کہ بہتیری کتابیں ایسی موجود ہیں جن میں فرداً فرداً قریباً تمام مسائل کے جوابات ہو چکے ہیں۔ اس لئے مفتی ساکن بسی علاقہ ریاست پٹیالہ کو جس کے نام سے رسالہ مذکور لودھیانہ میں چھاپا گیا، جواب لکھنے میں تعویق کی اور یہ بھی خیال تھا کہ کچہری میں یہ سب جوابات آجائیں گے لیکن عدالت نے میرا حق مکرر سوالات کے جوابات دینے کا غصب کر کے انکار کر دیا۔ اور جوابات کو نہیں لکھا۔ چونکہ نا واقفوں کو خیال پیدا ہونے کی وجہ سے اس کا جواب شاید نہ ہو سکتا ہو جیسا کہ کاتب رسالہ نے تعلّی کی ہے۔ اس لئے مناسب تصور کیا گیا کہ جواب رسالہ مذکور کا مختصر سا لکھ دیا جائے اور وہ ایسا مسکت ہو کہ کافی شافی سے بھی زیادہ ہو۔ لہٰذا خدا تعالیٰ اور آنحضرت ﷺ کے فضل وکرم سے جواب اس کا بطرز قولہ اور اقول کے تحریر کرتا ہوں تاکہ ناظرین کو اصل رسالہ دیکھنے کی بھی ضرورت نہ رہے۔ امید ہے کہ خداوند کریم کسی وہابی کو بھی ہدایت نصیب کرے۔ اور اپنے خالص سنی اہلسنت وجماعت بھائی کو تقویت ایمان وایقان کا باعث ہو۔ واللہ المستعان (ص 1 تا 3) اس کتاب کے شروع میں لودھیانہ، جالندھر، امرتسر، بریلی، رام پور، مراد آباد، حیدر آباد، کشمیر، علی پور ضلع سیالکوٹ، لاہور، قصور اور ہری پور ضلع ہزارہ کے مشاہیر علماء کی تصدیقات وتقریظات موجود ہیں۔
2۔ "ازالۃ الريب عن مبحث علم الغيب": (1338ھ)
آپ نے مشہور غیر مقلد مولوی ثناء اللہ امرتسری کے اعتراضات جو اس نے رسول اللہ ﷺ کے علم غیب پر کیے تھے کے جواب میں یہ کتاب لکھی جو کہ دوحصوں پر مشتمل ہے۔ آپ کی اس کتاب سے چند اقتباسات ذیل میں ذکر کیے جاتے ہیں:
الحمد لله رب العالمين والصلوة والسلام على رسوله سيدنا محمد واله واصحابه واهلبيته وذريته واتباعه اجمعین برحمتک یا ارحم الراحمين اما بعد
احقر العباد الله الصمد قاضی فضل احمد عفا اللہ عنہ احد سنی حنفی نقشبندی مجددی مقیم لودھیانہ عرض پرداز ہے کہ میں نے ایک مضمون متضمن شان حضرت سید المرسلین والنبیین افضل الاولین والآخرین سید ولد آدم عالم العلوم الاولین والآخرین محمد مصطفی احمد مجتبیٰ خاتم النبین شفیع المذنبین ﷺ میں بجلسہ سالانہ انجمن نعمانیہ ہند لاہور واقع 5 ربیع الاول ۱۳۳۸ھ المقدس پڑھا تھا اس میں ضمناً علم غیب رسول اللہ ﷺ کا ذکر بھی تھا اس پر ایڈیٹر صاحب اہلحدیث امرتسر بہت غیظ وغضب میں آئے اور اپنی اخبار اہلحدیث مورخہ ۲۵ جون ۱۹۲۰ء میں اس پر سخت ناراضگی فرما کر ایسا لکھا کہ جس کی تصدیق یا تائید کسی اہل اسلام کے علماء سلف وخلف سے نہیں تفسیر بالرائے ہی سے لکھا جو کچھ لکھا۔
تجربہ ہو چکا ہے کہ جہاں کسی اہلسنت وجماعت نے کوئی تعریف یا مدح حضرت محمد ﷺ کے علو شان اور مراتب کی کی فوراً اس کی مخالفت کر کے توہین اور تحقیر کی تسطیر کی۔ فریق مخالف کا یہی عموماً وطیرہ ہے ان سے ایسا دیکھا اور سنا نہیں جاتا اور یہ ان کے لئے عادتاً مجبوری ہے خدا کی قدرت مادۂ جبلت ہی ایسا ہے اس میں کسی کا چارہ نہیں، خیر۔
واقعہ 10 جولائی ۱۹۲۰ء کو مولوی صاحب ایڈیٹر اہل حدیث اتفاقاً ریلوے اسٹیشن امرتسر پر ملاقی ہوئے اور بالمشافہ بہت ناراضگی ظاہر فرمائی اور فرمایا کہ ہم نے تمہارے مضمون کا جواب لکھا ہے۔ عرض کیا کہ اس پرچہ اخبار کو احقر کے پاس روانہ فرمایا ہوتا۔ آپ نے فرمایا کہ ہم کو خیال نہیں رہا۔ خیر۔ بڑی تگ ودو سے وہ پرچہ اہل حدیث مہیا کیا گیا جو اس وقت سامنے رکھا ہے جس میں آپ نے علم غیب حضور ﷺ کی استہزاءً کلیتاً انکار کیا ہے۔ اب ہم اس کا جواب پیش کرتے ہیں تاکہ ایڈیٹر صاحب اہلحدیث کی مفسرانہ اور مجتہدانہ قابلیت معلوم ہو۔ جواب اس کا بطریق اہلحدیث واہلسنت کے موزوں الفاظ میں ہوگا۔ تاکہ ناظرین کو پرچہ اہلحدیث کے دیکھنے کی بھی ضرورت نہ رہے۔ اول ان کی بلفظہٖ عبارت ہوگی اور پھر اس کا جواب ہوگا۔ اور الفاظ ہم اور ہمیں اور ہمارے وغیر ہ بصیغہ جمع تحکمانہ جو حضرت ایڈیٹر اہل حدیث نے استعمال فرمائے ہیں ویسے ہی احقر کی طرف سے بھی مجبوراً ہوں گے۔ وباللہ التوفیق۔
اہلحدیث: لاہور میں ایک انجمن نعمانیہ ہند ہے جس کے زیر اہتمام عربی کا ایک مدرسہ بھی ہے اس انجمن کے ارکان کا دعوی ہے کہ ہم ہی اہلسنت وجماعت ہیں۔ الخ بلفظہٖ
اہلسنت: واقعی یہ دعوی صحیح ہے جو آپ نے لکھا ہے اس کی بحث "اخبار الفقیہ" میں کافی سے زیادہ ہو چکی ہے۔ اور عربی کا مدرسہ بھی عالی شان ضرور ہے جو پنجاب میں ایسا نہیں ہے۔ اہلسنت وجماعت ہونا اس کا بھی اظہر من الشمس ہے اور یہ طے شدہ مسئلہ عرب وعجم ہے کہ مقلدین اربعہ مذاہب ہی اہلسنت وجماعت ہیں اور جوان میں نہیں وہ خارج از اہلسنت وجماعت ہے اور اسی پر علمائے عرب وعجم بالخصوص حرمین شریفین زادهما الله شرفا وتعظیما کا اجماع ہے۔
اہلحديث: اس انجمن کے عقائد بالکل وہی ہیں جو بریلوی گروہ کے ہیں۔ بلفظہٖ
اہلسنت: حضرت مولانا فاضل ابن فاضل ابن فاضل مجدد مائۃ حاضره بریلوی مدظلہم العالی کا گروہ کوئی نیا گروہ نہیں ان کے عقائد وہی ہیں جو تمام عرب وعجم کے مسلمانان اہلسنت وجماعت کے ہیں۔ بالخصوص علماء ومفتیان حرمین شریفین زادهما الله شرفا وتعظیماً ان کے عقائد کے مداح ہیں بلکہ ان سے سندیں حاصل کرتے ہیں۔
اہلحدیث: یا یوں سمجھئے کہ وہ عقائد اتنے پرانے ہیں کہ قرآن شریف کے نزول سے بھی پہلے کے ہیں بلکہ قرآن شریف انہی کی اصلاح کے لئے نازل ہوا تھا۔ بلفظہٖ
اہلسنت: ناظرین ایڈیٹر صاحب کی فاضلانہ تحریر کو ملاحظہ فرمائیے جس میں آپ نے تمام مسلمانوں کو خواہ وہ عرب کے ہوں یا عجم کے، خواہ وہ اپنے استاد ہوں یا استاد الاستاد یا وہابیہ کے پیر ومرشد ہوں، صحابہ کرام سے لے کر اس وقت تک ایک ہی لاٹھی سے ہانک کر سب کو کافر ومشرک قرار دے دیا۔ آپ کے نزدیک مکہ معظمہ، مدینہ منورہ، جدہ، حدیبیہ، مصر، دمشق، بیت المقدس، شام، روم، بصرہ، بغداد تمام مسلمانان بلاد اسلامیہ وغیرہا کے کافر ومشرک ہیں کیونکہ ان کے وہی عقائد ہیں جو ہمارے اور مولانا بریلوی کے ہیں، اگر ہمارے عقائد وہی ہیں جو کفار ومشرکین کے قبل از نزول قرآن شریف کے تھے اور ہمارے ہی عقائد کی اصلاح کے لئے قرآن شریف کا نزول ہے اور یہ آپ کا فتویٰ ہے تو بس مسلمان دنیا پر یہی شرذمہ قلیلہ ثنائیہ لا حول ولا قوۃ ایڈیٹر صاحب کی جرات اور بہادری ملاحظہ فرمائیے۔ جزاک اللہ
اہلحدیث: ان میں ایک مسئلہ علم غیب ہے۔ اس انجمن کے جلسہ میں ایک صاحب قاضی فضل احمد لودھیانوی نے تقریر کی جو انجمن کی رپورٹ میں درج ہوئی ہے۔ اس میں مسئلہ علم غیب اور اسکے منکروں کا ذکر ہوا ہے۔ الخ بلفظہٖ صفحہ اول کالم سوم
اہلسنت: واقعی ہماری تقریر ہے جو حضور ﷺ کی شان اعلیٰ وارفع میں ہے اس کے ضمن میں علم غیب کا بھی مختصراً ذکر آ گیا تھا۔ جس کا جواب آپ نے منکروں میں داخل ہو کر دیا ہے۔ گو آپ کا اس میں نام نہ تھا لیکن یہ مضمون ہی ایسا تھا جو آنحضرت ﷺ کی تعریف شان عالی شان میں تھا آپ صاحبان کو دیکھ کر اس کی تاب کیونکر رہ سکتی ہے۔ جب تک اس کی مخالفت کر کے کسر شان اور اہانت نہ کرلیں، کھانا ہضم کیسے ہو جس پر حسب دستور وعادت ناراضگی ظاہر فرما کر خامہ فرسائی فرمائی اور دل کی رنجش وعداوت قلبی زبان اور قلم پر آئی۔
دوسری بات یہ ہے کہ ایڈیٹر صاحب اہلحدیث اس احقر کو اچھی طرح جانتے ہیں اور پرانا تعارف ہے لیکن آپ ایسی لا علمی میں فرماتے ہیں کہ "ایک صاحب قاضی فضل احمد لودھیانوی نے تقریر کی" خیر یہ ان کی علو شانی کی دلیل ہے۔
اہلحدیث: لطیفہ، ایام طالب علمی مدرسہ دیوبند میں تفسیر بیضاوی کا سبق تھا آیت پیش تھی لتكونوا شهداء على الناس ويكون الرسول عليكم شهيدا اثناء سبق میں ایک شخص ہمارے پاس ہی آبیٹھا، حلقہ وسیع تھا، میں نے پوچھا کیوں آئے ہو؟ بولا مسئلہ مولود پوچھنے آیا ہوں، مولانا محمود الحسن صاحب تقریر ختم کر چکے تھے تو میں نے عرض کیا جناب بعض لوگ اس آیت کو اس مدعا کے لئے پیش کیا کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ مجلس مولود میں حاضر ہوتے ہیں يكون الرسول علیکم شهیدا فرمایا ان بدعتیوں سے پوچھو، پھر تو ہم بھی ہوتے ہوں کیونکہ لتكونوا شهداء پہلے آیا ہے۔ اتنے ہی سے اس سائل کی تسلی ہوگئی۔ بلفظہٖ
اہلسنت: یہ آیت شریف سورۂ بقرہ پارہ دوم کے پہلے رکوع میں ہے جہاں تک ایڈیٹر اہلحدیث نے مولوی محمود الحسن صاحب سے پڑھا ہے آپ یہ سبق پڑھ رہے تھے اس وقت کا لطیفہ بیان فرماتے ہیں مگر یاد رہے کہ یہ لطیفہ نہیں بلکہ خاصہ استہزاء ہے اور اس کو لطیفہ کے نام سے لکھا ہے جو مولوی محمود الحسن اور ایڈیٹر صاحب نے حضور ﷺ کی جناب میں سخت استہزاء کیا اور آیت قرآنی پر بھی استہزاء کر کے تفسیر بالرائے کی۔ دونوں صاحب اس جرم قبیح میں داخل ہیں نہ تواللہ تعالیٰ سے شرم کی اور نہ اس کے رسول ﷺ کی پرواہ کی، آفرین ہے۔ ہم کو افسوس ہے کہ ایڈیٹر صاحب نے اور ان کے استاد صاحب نے صرف آیت شریف کو تفسیر بیضاوی میں پڑھا لیکن اس کی تفسیر کو نہ پڑھا حالانکہ مقصود تفسیر کا پڑھنا تھا۔ مگر غرض آپ کی محض استہزاء تھا اور دیانت بھی آپ کی اس کے مقتضی تھی کہ صرف استہزاء کی جائے۔ اگر تفسیر پر ایمان ہوتا تو ایسا نہ لکھا جاتا۔
دیکھیے! آیت شریف کی تفسیر کا ترجمہ یہ ہے کہ روایت کی گئی ہے کہ دیگر امتیں قیامت کے دن انبیاء کی تبلیغ کا انکار کریں گی تب ہمارے حضرت ﷺ کو اللہ طلب فرمائے گا کہ تبلیغ میں ان کی شہادت کی جائے تاکہ منکرین پر حجت ہو پھر امت آنحضرت ﷺ کی آئے گی اور ان منکرین پر شہادت دے گی تو تب وہ امتیں کہیں گی تم نے ہم کو کیسے جانا اور پہچانا پس کہیں گے کہ ہم نے پڑھا ہے اور سیکھا ہے ان خبروں کو جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمائی ہیں۔ جس کو ہمارے سچے نبی ﷺ نے ہم کو فرمایا اور سکھایا ہے پھر آنحضرت ﷺ کی شہادت ہوگی۔ پس وہ اپنی امت کے حال کی گواہی دیں گے کیونکہ رسول ﷺ اپنی امت کے حالات پر نگہبان دیکھنے والے اور گواہ ہیں۔ ختم ہوا ترجمہ اخیر پر اصل الفاظ یہ ہے لما كان الرسول كالرقيب المهيمن على امته اب اپنے استہزاء پر شکر کیجئے اور اس تفسیر پر غور کیجئے اور خدا سے ڈریئے۔ ناظرین للہ توجہ فرمائیے کہ کیسی بے باکی سے استاد اور شاگرد دونوں نے کیسا ٹھٹھا اور استہزاء اللہ تبارک وتعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے کر کے حق بالرائے کر دی اور دھوکہ دہی سے تفسیر کو بالکل چھوڑ دیا، حالانکہ مولود شریف کے عمل کو آنحضرت ﷺ کا دیکھنا اور وہاں تشریف لانا اس آیت سے ثابت ہے اور وہ سائل صاحب بھی آپ کے ہی متبعین سے ہوں گے جن کی تسلی فوراً ہوگئی۔
سبحان اللہ! کیا لا تقربوا الصلوة کو پڑھا اور وانتم سکاریٰ کو ترک کر دیا ہم کہتے ہیں کہ کوئی شبہ نہیں کہ قیامت کے دن آنحضرت ﷺ ہم پر ضرور گواہی دیں گے کہ یہ لوگ میری امت کے میرے دوست ہیں میرا ذکر خیر بڑے شوق سے کرتے تھے اور مجھ پر کثرت سے درود شریف پڑھتے تھے اور جب میری ولادت کا ذکر آتا تھا تو بڑی تعظیم اور تکریم سے سروقد کھڑے ہو جاتے تھے اور دست بستہ مجھ پر درود وسلام پڑھتے تھے، یہ میرے دوست اور محبّ ہیں، ان کی بڑے زور سے شفاعت کرتا ہوں اور یہ دوسرے گروہ منکرین میری ہجو اور کسر شان کرتے تھے، میرے دوستوں، عاملین مولود شریف کو کافر اور مشرک کہا کرتے تھے، واقعی یہ لوگ میرے دشمن ہیں اور اللہ تعالیٰ کے بھی دشمن ہیں وغیرہ وغیرہ۔
حضرت قاضی ردّ قادیانیت کے میدان میں وہ عظیم شہسوار ہیں جس کا جواب دینے سے آج تک مرزائیت قاصر ہے۔ آپ دجال مرزا کے آبائی ضلع گورداس پور سے ہی تعلق رکھتے تھے اور مرزا کا بڑا بیٹا مرزا فضل احمد قاضی صاحب کے ساتھ ملازمت کیا کرتا تھا اس لئے آپ مرزا کے گھریلو واندر وحالات سے بخوبی واقف تھے۔ چونکہ کورٹ انسپکٹر تھے چنانچہ تحقیق وتفتیش میں آپ کا جواب نہیں تھا اور آپ کے یہاں دینی تعلیم کے ساتھ جدید تعلیم وانداز بھی موجود تھا۔
1۔ کلمہ فضل رحمانى بجواب اوهام غلام قادیانی (۱۳۱۴ھ):
1314ھ میں جب مرزا غلام احمد قادیانی پادری ڈپٹی عبد اللہ آتھم کے مقابلے میں شرمناک شکست سے دوچار ہوا تو اس موقعہ پر مرزا نے ایک کتاب بنام "انجام آتھم" اور دیگر تین رسائل "خدا کا فیصلہ"، "دعوت قوم" اور "مکتوب عربی بنام علماء ومشائخ بلاد ہند" تحریر کیے۔ جس میں حسب عادت علماء ومشائخ کو گالیوں سے نوازا۔ جس کا جواب حضرت قاضی "کلمہ فضل رحمانی بجواب اوهام غلام قادیانی" تصنیف فرما کر دیا۔ یہ قاضی صاحب کی رد مرزائیت میں پہلی تصنیف ہے۔
اس کتاب کے شروع میں آپ نے چاروں رسائل کا خلاصہ اور مرزا کے دعوی اور دلائل تحریر فرمائے۔ اور اس کے بعد اس کا بھر پور رد کیا اور اس کی اخلاقی حالت، علماء پر تبرا ودشنام طرازی کی عادت، جھوٹی تعلیاں بیان فرمائیں اور پھر محمدی بیگم کے آسمانی نکاح سے متعلق جملہ تفصیلات بھی شائع فرما کر مسیلمہ پنجاب کو برہنہ کر دیا۔ قاضی نے اپنی اس کتاب میں علامہ غلام دستگیر ہاشمی قصوری کا خصوصی تذکرہ بطور پیشرو فرمایا اور حضرت کی "رجم الشیاطین برد اغلوطات البراہین" اور "تقدیس الوکیل" کا ذکر بھی فرمایا۔ کلمہ فضل رحمانی کے آخر میں اُس دور کے معروف علماء کی تقاریظ موجود ہیں جن میں مبسوط تقریظ مولوی محمد بن عبد القادر لودھیانوی صاحب کی ہے۔
2۔ "نیام ذو الفقار علی برگردنِ خاطی مرزا فرزند علی" (1325ھ):
قاضی صاحب کی یہ دوسری تصنیف ہے۔ ہمیں دستیاب نہ ہو سکی۔
3۔ جمعیت خاطر (1333ھ):
قاضی صاحب کی تیسری تصنیف ہے جو کہ غلام رسول قادیانی نامی انسپکٹر پولیس (نیروز والا) اور آپکے مابین خط وکتابت پر مبنی ایک قلمی مناظرہ ہے جس میں قاضی صاحب نے مرزاد جال کو جھوٹا، کذاب مدعی نبوت ثابت کیا۔ اور انسپکٹر غلام رسول قادیانی اپنی پوری کوشش کے باوجود مرزا کو ان الزامات سے نہ بچا سکا۔ اور نہ ہی اس سے کوئی جواب بن پڑا۔ (یہ کتاب عقیدہ ختم نبوت جلد دوئم میں شامل کی گئی ہے)
4۔ کیا مرزا قادیانی مسلمان تها؟ (1337ھ)
5۔ تردید فتویٰ ابو الکلام آزاد مولوی محمد علی مرزائی (1342ھ)
6۔ اتفاق ونفاق بین المسلمین کا موجب دیکھا کون تھا؟ (1345ھ)
7۔ مخزن رحمت برد قادیانی دعوت (1337ھ)