Khatam e Nabuwat

حضرت علامہ مولانا مفتی پیرغلام رسول نقشبندی حنفی امرتسری

حالات زندگی:

حضرت علامہ مولانا مفتی غلام رسول نقشبندی حنفی امرتسری کی ولادت امر تسر میں ہوئی ہے۔ سن ولادت معلوم نہیں مگر آپ کی عمر شریف ۶۳ سال کی تھی اور وصال ۱۳۲۰ھ میں ہوا ہے، اس لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ آپ کی ولادت 1257ھ میں ہوئی ہوگی۔ آپ کے والد ماجد جناب پیر امیر الدین صاحب قاسمی آپ کے زمانہ طفولیت ہی میں انتقال فرما گئے تھے اس لیے اپنی صالحہ وعابد والدہ محترمہ کے سایہ عاطفت اور اپنے برادر اعظم مولانا پیر محمد عبد العزیز صاحب قاسمی کے زیر نگرانی تربیت وپرورش پاتے رہے۔

روحانی تعلقات ومشاغل:

یوں تو مولانا ابتداء ہی سے تقویٰ وطہارت کے پتلے تھے اور عفت وپاکیزگی گویا آپ کی سرشت میں داخل تھی لیکن بیعت کی جکڑ بندی نے آپ کی روحانیت میں نمایاں خصوصیت پیدا کر دی تھی۔ ذکر وفکر اور مراقبہ سے آپ غافل نہ رہتے تھے۔ مقررہ ومتعینہ اوقات اور تنہائی میں اپنے مالک کو یاد کرتے تھے۔ پس پھر کیا تھا، خوابوں میں انبیاء کرام اور اولیاء عظام کے دیدار رحمت آثار سے مشرف ہونے لگے، لیکن ان روحانی تعلقات کو جو مولانا بزرگان دین سے رکھتے تھے، بہت کم بیان فرماتے، کبھی کسی خاص وقت میں اپنے اخص المتعلقین سے ان باتوں کا تذکرہ ہو بھی جاتا تھا،

چنانچہ ایک دفعہ آپ نے اپنے عزیز بھتیجے اور شاگرد مولانا مفتی پیر غلام مصطفیٰ صاحب سے بیان فرمایا کہ:

"میں نے خواب میں ایک بڑا عالیشان مکان دیکھا اس کے دروازہ پر ایک دربان بیٹھا تھا میں نے اس سے کہا کہ اس مکان میں جا کر میں حضور غوث اعظم حضرت شیخ سید عبد القادر جیلانی ﷫ کی زیارت کرنا چاہتا ہوں۔ دربان نے جواب دیا کہ اس مکان میں فضلاء کے سوا کسی دوسرے کو جانے کی اجازت نہیں، خیر! ٹھہرئیے میں اندر جا کر اجازت طلب کرتا ہوں۔ یہ کہتا ہوا اندر گیا اور واپس آکر مجھے اندر جانے کی خوشخبری سنائی، میں مکان میں داخل ہوا اور حضور شیخ کے دیدار کا لطف اٹھایا۔"

اسی طرح ایک دفعہ فرمایا کہ:

"مجھے خواب میں بتلایا گیا کہ فلاں مکان میں حضور سرور کائنات ﷺ تشریف رکھتے ہیں میں سن کر اس طرف چلا، راستہ میں دو غیر مقلد ملے ان سے دریافت کرنے پر میں نے ان کو بتلایا کہ میں رسول محترم ﷺ کی زیارت کے لئے جارہا ہوں، انہوں نے کہا کہ حضرت ﷺ سے یہ دریافت کیجئے گا کہ تقلید شخصی کے متعلق کیا حکم ہے؟ غیر مقلد تو وہیں رہے اور میں نے آگے بڑھ کر اس متبرک مکان کو پالیا، اجازت ملنے پر میں مکان میں داخل ہوا۔ دیکھا کہ حضرت رسول اللہ ﷺ بہت سے صحابہ واہلبیت کی مجلس میں رونق افروز ہیں، میں نے مؤدبانہ سلام عرض کرنے کے بعد پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ تقلید شخصی کے متعلق کیا ارشاد ہے؟ حضور پر نور ﷺ نے فرمایا: هذا طريق اسلم یعنی یہ بہت مضبوط طریقہ اور محفوظ راستہ ہے۔"

غرض کہ آپ حضرات انبیاء واولیاء کی زیارتوں سے مشرف ہوتے رہتے تھے جس سے اس امر کا صاف طور پر پتہ چلتا ہے کہ مولانا کو مقربان بارگاہِ الہٰی سے ایک خاص تعلق تھا، آپ کے وصال کے بعد بھی بڑے بڑے متقی اور پرہیزگار حضرات نے خواب میں آپ کو مراتب عالیہ پر متمکن اور اولیاء کرام کی مجلسوں میں جلوہ گر دیکھا۔

تصانيف:

حضرت مولانا نے مشغلہ تالیف وتصنیف کو زمانہ تعلم ہی سے شروع کر دیا تھا، آپ کی تصنیفات درجذیل ہیں:

1۔ رسالہ "تحقيق المرام فی منع القراءة خلف الامام":

یہ کتاب آپ نے غیر مقلدین یعنی اہلحدیث حضرات کے رد میں لکھی۔ یہ کتاب عربی میں ہے اور اس کا ترجمہ ان کے شاگرد حضرت علامہ نور بخش توکلی (مصنف سیرت رسول عربی ﷺ) نے کیا۔

2۔ "اتفاق البررة التقى على ان سنۃ الجمعۃ لا تقضى"

3۔ رسالہ "امتناع نظیر":

یہ حضرت نے اسمٰعیل دہلوی اور وہابیہ کے رد میں لکھی۔

4۔ "حاشیہ قاضی مبارک"

5۔ "حاشیہ شرح ملا جامی"

رد قاديانيت:

دجال مرزا قادیانی کے نزدیک "وفات مسیح" ایک ایسا مسئلہ تھا جس کے ثابت ہونے پر اس کی دجالی مسیحیت ثابت ہوتی تھی وفات مسیح کا مسئلہ سب سے پہلے سرسید احمد خان نیچری نے نکالا تھا اور اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش مرزا نے کی۔ ۱۸۹۳ء میں جبکہ مرزا قادیانی اور اس کی ذریت وفات مسیح پر اپنا زور لگائے ہوئے تھے تو علامہ غلام رسول امرتسری صاحب نے مسئلہ حیات مسیح پر یہ معرکۃ الآراء كتاب "الالهام الصحيح فی اثبات حيات المسیح" لکھی جس میں دلائل عقلیہ وبراہین نقلیہ سے ثابت کیا کہ حضرت عیسیٰ روح اللہ علیٰ نبینا بجسد عنصری آسمان پر زنده موجود ہیں۔ کتاب کے آخر میں مرزائیوں کو چیلنج دیا گیا تھا کہ اگر اسکا جواب باصواب لکھو گے تو تمہیں ایک ہزار روپیہ انعام دیا جائیگا۔ یہ کتاب بزبان عربی تحریر کی گئی ہے اس کا اردو ترجمہ حضرت کے شاگرد وبرادر زادے مولوی مفتی غلام مصطفیٰ قاسمی حنفی صاحب نے کیا۔

Powered by Netsol Online